متفرق شعراء
مسیحا کا سفینہ آگیا ہے
مجھے مشکل میں جینا آ گیا ہے
اب الفت کا قرینہ آ گیا ہے
کٹھن رستہ بھی آخر کٹ گیا ہے
ارے دیکھو مدینہ آ گیا ہے
لٹاتا پھر رہا ہے وہ خزائن
کہ باہر ہر دفینہ آ گیا ہے
کسی طوفاں سے اب کاہے کو ڈرنا
مسیحا کا سفینہ آ گیا ہے
خطابت میں سمندر بانٹنے کو
وہ عرفاں کا خزینہ آ گیا ہے
میں تیری یاد میں رویا ہوں جیسے
محرّم کا مہینہ آ گیا ہے
ضرورت جب پڑی میرے وطن کو
تو آگے میرا سینہ آ گیا ہے
رسن پر ہے کوئی ہے زیرِ آتش
مقابل جو کمینہ آ گیا ہے
حریفوں سے جونہی مانگے دلائل
اُنہیں دانتوں پسینہ آ گیا ہے
کرو تم زخمی زخمی میرا سینہ
ہمیں زخموں کو سینا آ گیا ہے
خلافت فضلِ باری کی نشانی
وہ دیکھو وہ نگینہ آ گیا ہے
چلو کہ اس کے در پر سب چلیں اب
اُٹھو وقتِ شبینہ آ گیا ہے
حلیمؔ ان کی ملی ہے ہم کو چوکھٹ
عقیدت ہی کا زینہ آ گیا ہے