قیام امن کامل انصاف کا تقاضا کرتا ہے
اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلیٰ مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جو مکمل طور پر مبنی بر انصاف ہوں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسلام نے قیام امن کے کئی ذرائع کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ یہ کامل انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ہمیشہ سچی گواہی دینے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم کبھی بھی دوسروں کی دولت کی طرف حسد اور لالچ کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام اپنے مفادات کو ایک طرف رکھ کر غریب اور کم ترقی یافتہ اَقوام کی درحقیقت بے غرضانہ مدد اور خدمت کریں۔ اگر اِن تمام اصولوں کی پابندی کی جائے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہو جائے گا۔
اگر مذکورہ بالا تمام اقدامات کے باوجود کوئی ملک سراسر زیادتی کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرے اور اُس کے وسائل پر ناجائز طور پر قبضہ کرنا چاہے تو دوسرے ممالک کو چاہیے کہ وہ ضرور اس قسم کے ظلم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی انہیں ہمیشہ انصاف سے کام لینا چاہیے۔ اسلامی تعلیم پر مبنی اس قسم کا قدم جن حالات میں اُٹھایا جائے گا اس کی تفصیل سورۃ الحجرات میں بیان ہے۔ (سورۃ الحجرات:10۔ناقل) جہاں فرمایا کہ جب دو قوموں کا اختلاف جنگ کی شکل اختیار کر جائے تو دیگر اَقوام کو چاہیے کہ وہ انہیں مذاکرات اور سیاسی روابط کی طرف لانے کی پُر زور تحریک کریں تاکہ وہ بات چیت کی بنیاد پر صلح کی طرف آ سکیں لیکن اگر ایک فریق صلح کی شرائط تسلیم کرنےسے انکار کر دے اور جنگ کی آگ بھڑکائے تو دیگر ممالک اس کو روکنے کے لیے اکٹھے ہو کر اس سے جنگ کریں۔ جب جارحیت کرنے والی قوم شکست کھا کر باہمی مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تب تمام فریق ایک ایسے معاہدہ کے لیے کوشش کریں جس کے نتیجہ میں صلح ہو اور دیر پا امن قائم ہو۔ ایسی سخت اور غیر منصفانہ شرائط عائد نہیں کرنی چاہئیں جو کسی قوم کے ہاتھ پاؤںباندھ دینے کے مترادف ہوں کیونکہ ان شرائط سے ایک ایسی بے چینی پیدا ہو گی جو بڑھتی اور پھیلتی جائے گی اور بالآخر مزید فساد پر منتج ہو گی۔ پس ایسے حالات میں جو حکومت فریقَین کے مابین صلح کروانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے تو اسے پورے خلوص اور مکمل غیر جانبداری سے کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی ایک فریق اس کے خلاف بولے تب بھی یہ غیر جانبداری قائم رہنی چاہیے۔ پس ان حالات میں ثالث کو کسی غصہ کا اظہار یا کوئی انتقامی کارروائی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی رنگ میں کوئی نا انصافی کرنی چاہیے۔ ہر فریق کو اس کے جائز حقوق ملنے چاہئیں۔
پس انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاہدے کی خاطر بات چیت کروانے والے ممالک خود اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں نہ ہی کسی ملک سے ناجائز طور پر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔ انہیں کسی قسم کی غیر منصفانہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ نہ ہی کسی ایک فریق پر کوئی نا حق دباؤ ڈالنا چاہیے۔ کسی بھی ملک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ایسے ممالک پر غیر ضروری اور ناحق پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ یہ نہ تو انصاف کا طریق ہے اور نہ ہی اس طرح کبھی بھی ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔
…خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلیٰ مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جو مکمل طور پر مبنی بر انصاف ہوں۔ بصورت دیگر آپ میں سے بعض مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مختلف ممالک کے گٹھ جوڑ اور بلاکس کی وجہ سے جو مستقبل میں بن سکتے ہیں یا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بننے شروع ہو گئے ہیں، بعید نہیں کہ فساد بڑھتا ہی جائے اور بالآخر ایک بڑی تباہی پر منتج ہو۔ ایسی جنگ اور تباہی کے اثرات یقینی طور پر کئی نسلوں تک باقی رہیں گے۔ اس لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے طاقتور ترین ملک ہونے کے اعتبار سے اپنا کردار حقیقی انصاف کے ساتھ اور ان نیک عزائم کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو دنیا ہمیشہ بہت تعریف کے ساتھ آپ کی عظیم کوششوں کو یادرکھے گی۔ میری دعا ہے کہ یہ امید ایک حقیقت بن جائے۔
(خطاب فرمودہ 27؍جون2012ء بمقام کیپٹل ہل، واشنگٹن ڈی سی۔ امریکہ)
٭…٭…٭