کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

دین کو مقدّم رکھیں

دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدّم رکھے۔ ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزار ہا روپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا۔ ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا۔ ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے

لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ(النور:38)

کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی۔ اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے۔ وہ ٹٹو کس کام کا ہے جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے۔ وہ قابلِ تعریف نہیں۔ وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں۔ ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اوردنیوی کاروبار کو چھوڑ دو۔ نہیں بلکہ ملازم کو چاہیے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے۔

اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہ عمدگی سے پُورا کرتے ہیں۔ پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تو انسان کا فطرتی تعلق ہے کیونکہ اس کی فطرت خدا تعالیٰ کے حضور میں

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (الاعراف:173)

کے جواب میں

قَالُوْا بَلٰی

کا اقرار کر چکی ہوئی ہے۔

یاد رکھو کہ وہ شخص جو کہتا ہے کہ جنگل میں چلا جائے اور اس طرح دنیوی کدورتوں سے بچ کر خدا کی عبادت کرے وہ دنیا سے گھبرا کر بھاگتا ہے اور نامردی اختیار کرتا ہے۔ دیکھو ریل کا انجن بے جان ہو کر ہزاروں کو اپنے ساتھ کھینچتا ہے اور منزلِ مقصود پر پہنچاتا ہے۔ پھر افسوس ہے اس جاندار پر جو اپنے ساتھ کسی کو بھی کھینچ نہیں سکتا۔ انسان کو خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی طاقتیں بخشی ہیں۔ اس کے اندر طاقتوں کا ایک خزانہ خدا تعالیٰ نے رکھ دیا ہے لیکن وہ کَسل کے ساتھ اپنی طاقت کو ضائع کر دیتا ہے اور عورت سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے۔ قاعدہ ہے کہ جن قوی ٰکا استعمال نہ کیا جائے وہ رفتہ رفتہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر چالیس دن تک کوئی شخص تاریکی میں رہے تو اس کی آنکھوں کا نُور جاتا رہتا ہے۔

ہمارے ایک رشتہ دار تھے انہوں نے فصد کرایا تھا۔ جراح نے کہہ دیا کہ ہاتھ کو حرکت نہ دیں۔ انہوں نے بہت احتیاط کے سبب بالکل ہاتھ کو نہ ہلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 40 دن کے بعد وہ ہاتھ بالکل خشک ہو گیا۔ انسان کے قویٰ خواہ روحانی ہوں اور خواہ جسمانی جب تک کہ اُن سے کام نہ لیا جائے وہ ترقی نہیں پکڑ سکتے۔(الحکم سے: انسان کو خدا نے دل تدبّر و تفکر کے لیے دیا ہے۔ لوگ تدبر و تفکر سے کام نہیں لیتے۔ اس سے دل سیاہ ہو جاتے ہیں۔)بعض لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جو شخص اپنے قویٰ سے خوب کام لیتا ہے اس کی عمر بڑھ جاتی ہے۔ بے کار ہو کر انسان مُردہ ہو جاتا ہے۔ بے کار ہوا تو آفت آئی۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 163۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button