اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی ۔ برکات و ثمرات
جماعت احمدیہ مسلمہ اللہ تعالیٰ کے نبی کے ہاتھ سے اسلام کی خدمت کے لیے لگایا جانے والا پودا ہے۔ یہ جماعت اسلام کی ترقی کے لیے ہر قربانی کے لیے محض للہ تیار نظر آتی ہے۔ مالی قربانی ان متعدّد قربانیوں میں سے ایک شاخ ہے جس پر جماعت خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ بڑی مستعدی کے ساتھ مثالیں قائم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس عاجز راقم کو تقریباً 14؍ سال نظارت بیت المال آمد میں خدمت کی توفیق ملی۔ اس عرصے میں پاکستان کے طول وعرض میں سفر کرنے ،احمدی احباب کو ملنے اور انہیں خدا کی خاطر اپنے اموال کی قربانی پیش کرنے کی تحریک کرنے کا موقع ملتا رہا۔چنانچہ خاکسار تجربے کی بنا پر عرض کر سکتا ہے کہ خدا کے فضل سے احباب جماعت کی غالب ترین اکثریت بڑے خلوص، وفا اور سچی بشاشت قلبی سے اپنے اموال خدا کی راہ میں پیش کرتی ہے۔ خاکسار نے مالی قربانی کرتے وقت احباب کے چہروں پر جو سکون اوراطمینان دیکھا وہ میری زندگی کا حاصل ہے۔
مالی قربانی کی برکات اور ثمرات کا شمار ممکن ہی نہیں۔ اخلاص اور وفا کے ساتھ اپنے اموال پیش کرنے والا ہر احمدی مالی قربانی کے انعامات کا زندہ گواہ ہے۔ یہ ایک سچی داستان اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی کہانی ہے۔
خاکسار نے اس مضمون میں مالی قربانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی برکات، انعامات اور ثمرات کے ایسے واقعات پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن کا مشاہدہ اس عاجز نے خود کیا۔ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں مومنین کو مالی قربانی کے نتیجے میں جن انعامات کے وعدے دیے گئے ہیں خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ اس جماعت میں ان وعدوں کے پورا ہونے کی جھلک دکھائی جا سکے اور تایہ واقعات احباب جماعت کے دلوں میں مالی قربانی پوری بشاشت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے تحریک وترغیب کا موجب ہوں اور وہ پہلے سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کی رحمتوں، فضلوں اور برکتوں کے وارث بن سکیں۔
مکرم چوہدری ظفر احمد صاحب سابق صدرجماعت حلقہ جنرل ہسپتال لاہور (حال جرمنی) بیان کرتے ہیں کہ وہ 1983ء میں سکیل 1 میں سرکاری ملازم ہوئے۔ اس وقت ان کی تنخواہ 632؍روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ جس میں ہائوس رینٹ، میڈیکل الائونس اور کنوینس الائونس بھی شامل تھے۔ وہ اس وقت کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے جماعتی ہدایات کے مطابق یہ ارادہ کیا کہ وہ الائونسز سمیت اپنی کُل آمد پر چندہ جات ادا کیا کریں گے۔ وہ مہینے کے آغاز میں تنخواہ ملتے ہی اپنے چندہ جات اکثراوقات خود جا کر ادا کرآتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بہت ہی غیر معمولی عطا کا سلوک فرمایا۔
ہائوس رینٹ پر چندہ دینے کی برکت یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یکے بعددیگرے تین مکان عطافرمائے۔ وہ بڑی خوشی سے بتایا کرتے تھے کہ ایک وقت تھا کہ میں خود کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور ہر مہینے مالک مکان کو کرایہ دیا کرتا تھا۔ اور چندہ دینے کی برکت سے ایک وہ وقت بھی آگیا کہ ایک مکان میں تو میں خود رہتا تھا اور باقی مکان کرائے پر چڑھائے ہوئے تھے اور ہر مہینے میں کرایہ وصول کرتا تھا اور اس رقم پر بھی چندہ ادا کرتا تھا۔
میڈیکل الائونس پر چندہ ادا کرنے کی برکت کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ میں نے پرائیویٹ طور پر ہومیوپیتھی کا کورس کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ میں بہت شفا رکھ دی اور مجھے اس سے کافی زیادہ آمد ہونی شروع ہوگئی۔ میڈیکل الائونس پر چندے کی ایک بظاہر ناقابل یقین برکت انہوں نے یہ بتائی کہ سالہا سال سے ان کے گھر میں کبھی کوئی فرد بیمار نہیں ہوا۔
کنوینس الائونس پر چندہ دینے کی برکت انہوں نے یہ بتائی کہ گورنمنٹ نے اپنے ملازمین کے لیے دفتر آنے اور جانے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ بس چلادی اور اس طرح دوران ملازمت روزانہ دفتر آنے اور واپس گھر جانے پر صرف دو روپے خرچ ہوتے۔
اس کے علاوہ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید میں ریٹائرمنٹ سے قبل وہ پورے حلقے کے وعدہ جات کا تقریباً نصف خود ادا کرنے کی توفیق پاتے رہے اور 17ویں سکیل میں ایک لاکھ روپے ماہوار سے زائد تنخواہ پر ریٹائر ہوئے اور اب بہت مناسب رقم بطور پنشن وصول پا رہے ہیں۔
ہر آمد پر خدا کا حق دینے کا غیرمعمولی انعام
جولائی، اگست کے مہینوں میں لازمی چندہ جات کے بجٹ تیار ہوتے ہیں۔ احباب جماعت کو اصل آمد پر بجٹ بنوانے کی تحریک و ترغیب کے لیے ایک سال ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دورے کے دوران ایک جماعت کاناکونٹا میں ہونے والے ایک اجلاس میں احباب کو اس طرف توجہ دلائی گئی۔ صدرصاحب جماعت کہنے لگے کہ ہم تھوڑے سے لوگ ہیں اور ابھی آپ کو بجٹ تیار کردیتے ہیں۔ چنانچہ سیکرٹری صاحب مال نے بجٹ فارم پر بجٹ بنانا شروع کردیا۔ سب سے پہلے صدرصاحب نے اپنا نام لکھوایا اور بتایا کہ میری دو ایکڑ زمین ہے اور سالانہ یہ آمدہے۔ اس کے بعد سیکرٹری صاحب مال باری باری دوستوں سے ان کی آمد پوچھ کر لکھ رہے تھے کہ صدرصاحب نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ بیٹا میری ایک اَور بھی آمد ہے جو مجھے یاد نہیں رہی تھی وہ بھی درج کرلو۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے گھر میں ایک بھینس رکھی ہوئی ہے اُس کا دودھ زیادہ تر گھر میں ہی استعمال ہوتا ہے لیکن روزانہ ایک کلو دودھ ہمسائے لیتے ہیں اور ہر مہینے اُس سے جو رقم ملتی ہے وہ میری آمد ہے۔ پہلے مجھے اس بات کا علم نہیں تھا لیکن اب جب کہ پتہ لگ گیا ہے تو پھر اس آمد پر اگر چندہ ادا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات ہوگی۔
اس کے بعد سیکرٹری صاحب مال نے باقی لوگوں سے بھی اُن کی آمد پوچھ کر بجٹ مکمل کرلیا اور خاکسار کو بجٹ کی ایک کاپی دے دی۔ یہاں سے فارغ ہو کر اگلی جماعت میں پہنچا۔ تقریباً ایک سال بعد دوبارہ مجھے اس جماعت میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جب میں وہاں سے فارغ ہوکر واپس آنے لگا تو صدرصاحب جماعت نے مجھے مخاطب کیا اور کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ میری زمین تک چلیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ وجہ تو زمین پر پہنچ کر ہی آپ کو بتائوں گا۔ چنانچہ ہم نے انہیں ساتھ لے لیا۔ ایک جگہ جا کر انہوں نے گاڑی رکوائی اور جب ہم گاڑی سے باہر نکلے تو اشارہ کرکے انہوں نے بتایا کہ یہ میری زمین ہے۔ اُس زمین میں امرود کا باغ لگا ہوا تھا اور پودوں پر اس قدر پھل تھا کہ ہرپودے کے نیچے چارچار پانچ پانچ لکڑی کے سہارے دیے ہوئے تھے۔ جب پودوں پر پھل زیادہ آجائے تو بوجھ سے شاخیں جھک جاتی ہیں۔ بعض اوقات بوجھ کی وجہ سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں اور بعض اوقات بوجھ سے زمین پر لگ جاتی ہیں جس سے پھل ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ پودوں کو ٹوٹنے سے اور پھل کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے زمیندار پودوں کے نیچے سہارے دے دیتے ہیں۔ میں باغ میں لگے ہوئے اس قدر پھل کو دیکھ کر خوشی سے حیران ہورہا تھا کہ صدرصاحب کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ وہ مجھ سے مخاطب تھے۔ کہہ رہے تھے کہ پچھلے سال آپ نے ہمیں حضرت صاحب کا پیغام دیا تھا کہ اصل آمد پر بجٹ بنوانے چاہئیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے ایک کلو دودھ کی آمد پر بھی بجٹ بنوایا تھا۔ میں آپ کو اپنی زمین پر صرف اس لیے لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرلیں اور گواہ بن جائیں کہ جب انسان اپنے خدا کے ساتھ اپنے معاملات درست کرلیتا ہے تو خدا اس قدر نوازتا ہے جو تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ میرا یہ باغ عام سا باغ ہے۔ میں غریب آدمی ہوں۔ اس باغ پر بہت زیادہ خرچ کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ اس باغ پر ہر سال عام درمیانے درجے کا پھل آتا تھا۔ لیکن اس سال ایک کلو دودھ پر بھی چندہ ادا کرنے کی برکت سے اس قدر پھل آیا ہے کہ گائوں والے کیا احمدی اور کیا غیرازجماعت حیران ہوہوکر پوچھتے ہیں کہ اس قدر پھل آنے میں کیا راز پوشیدہ ہے؟
اخلاص کے ساتھ کی ہوئی قربانی کو جب اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے تو اس کے ثمرات اور برکات کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اس واقعے کے دس بارہ سال بعد مجھے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیکرٹریان مال کی میٹنگ میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ جہاں کاناکونٹا کے سیکرٹری صاحب مال (بشارت صاحب) سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے صدرصاحب جماعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ وہ حیات ہیں۔ سوسال کے قریب عمر ہے اور ابھی چلتے پھرتے ہیں۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ میرے ساتھ مکرم چوہدری دائود احمدصاحب سابق صدرجماعت گوجرہ اور ایک مربی صاحب بھی تھے۔ ملاقات کے بعد انہوں نے کہا کہ اب پھر آپ کو اپنے باغ میں لے کر جانا ہے۔ ہم سارے ان کے ساتھ گئے۔ باغ میں جا کر چوہدری دائود صاحب نے کہا کہ آپ پھل کو کیڑوں سے بچانے کے لیے کون سا سپرے کرواتے ہیں اور کھادیں کون سی ڈالتے ہیں؟ کیونکہ آپ کے باغ میں کیڑوں والے امرود نظر نہیں آرہے۔ صدرصاحب نے فرمایا۔ میں نہ تو کوئی کھاد ڈالتا ہوں اور نہ ہی کبھی کوئی سپرے کیا ہے لیکن سارے باغ میں جا کر کوئی ایک دانہ بھی لا کر دکھائو جس کو کیڑا لگا ہو۔ ہم واقعی اللہ تعالیٰ کی اس بے مثل عطا پر انگشت بدنداں تھے۔
صحیح آمد پر چندے کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے غیرمعمولی سلوک کا ذریعہ بن گئی
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں قربانی کے جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے قربانی کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔
لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہُ لُحُوۡمُھَا وَلَا دِمَآئُھَا، وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ (سورۃ الحج:38)
کہ ان قربانیوں کے گوشت اور ان کا خون اللہ کو ہرگز نہیں پہنچے گا بلکہ یہ تمہارا تقویٰ ہے جو اُسے پہنچے گا۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ دراصل قربانی کا دارومدار تمہاری سوچ اور تمہاری نیتوں پر منحصر ہے اور اسی سوچ اور نیت پر ہی تمہیں اجر سے نوازا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گوجرانوالہ میں پیش آیا۔ میرے ایک دوست مکرم رانا منوراحمدصاحب نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا عمران احمد زیادہ تعلیم نہ حاصل کرسکا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ وہ کوئی کام سیکھ لے۔ بیٹے نے موبائل کا کام سیکھنے کی خواہش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک دوست (جس کی موبائلز کی دکان تھی) سے بات کرکے بیٹے کو کام سیکھنے کے لیے اس کی دکان پر بھجوا دیا۔ دکاندار نے کام سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر ہفتے 500 روپے یعنی ماہوار دو ہزار روپے بطور خرچہ دینے بھی شروع کردیے۔ منور صاحب نے بتایا کہ جب میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ مجھے دوہزار روپے ماہوار آمد بھی ہورہی ہے تو میں نے اُسے کہا کہ اس آمد پر اپنا چندہ ادا کیا کرو۔ وہ سیکرٹری صاحب مال کے پاس جا کر اپنا چندہ ادا کرآیا۔ جب نیا مہینہ شروع ہوا تو اس دکاندار نے بیٹے کو بتایا کہ اب میں تمہیں تین ہزار روپے ماہوار دیا کروں گا اور اس سے اگلے مہینے دکاندار نے چار ہزار روپے دینے شروع کردیے۔ بات یہیں پر رُک جاتی۔ تب بھی یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور مالی قربانی کی بہت بڑی برکت تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دکاندار ہر مہینے ایک ہزار روپیہ بڑھاتا گیا یہاں تک کہ دسویں مہینے دکاندار دس ہزار روپے دے رہا تھا۔ رانا منورصاحب نے بتایا کہ اُس دکاندار نے مجھے کہا کہ رانا صاحب موبائل کے متعلق جو کچھ میں آ پ کے بیٹے کو سکھا سکتا تھا میں نے سکھا دیا ہے۔ چاہے تو دس ہزار مہینہ مجھ سے لیتا رہے اور میری دکان پر کام کرتا رہے اور چاہے تو الگ اپنا کام شروع کرلے۔ راناصاحب کہتے ہیں کہ میں نے بیٹے سے مشورہ کیا تو اس کا کہنا تھاکہ ابو میں اپنا الگ کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اُسے دکان بنوا دی۔ وہ اپنا کام کررہا ہے اور خدا کے فضل سے بہت معقول آمدن حاصل ہورہی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں خود بھی عزیزم عمران احمد سے کئی مرتبہ مل چکا ہوں۔ اس کے چہرے پر پھیلی خوشی اور اطمینان واقعی قابل رشک ہے۔
اصل آمد پر باقاعدگی سے چندہ کی ادائیگی کی برکت
مکرم محمد صدیق صاحب چک نمبر 93TDA ضلع لیہ میں صدرجماعت ہیں۔ انہوں نے خدا کی راہ میں چندہ دینے اور درود شریف کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ کپاس کی فصل کا بیج ڈرل کرتے ہیں۔ ان کے کام میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت رکھی ہوئی ہےکہ علاقے بھر کے زمیندار ان کو پیشگی دے کر اپنی زمینوں میں بیج ڈرل کروانے کے لیے بُک کرلیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کام زیادہ ہوتا ہے تو مجھے مجبوراً معذرت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن زمیندار میری معذرت نہیں سنتے بلکہ ان کا اصرار ہوتاہے کہ بے شک آپ بعد میں جب فارغ ہوں ہماری زمین میں ڈرل کردیں لیکن ہم نے بیج آپ سے ہی ڈرل کروانا ہے کیونکہ ہمارا کئی سالوں کا تجربہ ہے کہ جو بیج ہم آپ کے ذریعے ڈرل کرواتے ہیں وہ بہت اچھا اُگتا ہے اور اس سے ہماری فصل بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔ مکرم صدیق صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے نہ تو ڈرل کرنے کا کوئی کورس کیا ہوا ہے اور نہ ہی زراعت کے حوالے سے میری کوئی تعلیم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیج ڈرل کرتے وقت ٹریکٹر پر بیٹھتے ہوئے میں درود شریف پڑھتا رہتا ہوں اور جو آمد ہوتی ہے اُس پر دیانتداری کے ساتھ چندہ ادا کردیتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ فصل بونے کے دنوں میں مجھے ایک لمحہ کی فرصت نہیں ملتی۔
روزانہ کی آمد پر روزانہ ہی چندہ کی ادائیگی
مکرم مشتاق احمدصاحب صدرجماعت تانی چک ضلع شیخوپورہ نے اپنے والد صاحب کی مالی قربانی کا طریق اور انداز کچھ یوں بیان کیا کہ میرے والد صاحب جوتیاں مرمت کرنے کا کام کرتے تھے۔ وہ روزانہ مختلف دیہات میں جاتے اور جہاں کام ملتا کرتے رہتے اور شام کو واپس گھر آجاتے۔ گھر واپس آنے سے پہلے وہ قریبی گائوں جہاں سیکرٹری صاحب مال رہتے تھے، وہاں جاتے اور اپنی دن بھر کی آمد کو گن کر جو چندہ بنتا اُس سے کچھ نہ کچھ زائد ادا کردیتے۔ اس طرح ہمیشہ سال ختم ہونے سے پہلے وہ اپنا سارا چندہ ادا کرچکے ہوتے بلکہ ہر سال اپنے بجٹ سے زیادہ ہی ادا کرتے۔ مشتاق صاحب کہتے ہیں کہ والد صاحب کی اس قربانی کی برکت سے ہمیں بہت اچھا گھر بنانے کی توفیق مل گئی ہے لیکن اس سے بھی بڑی برکت یہ ہے کہ میرا ایک بیٹا مربی اور ایک معلم بن چکا ہے۔ اور خدا کے فضل سے بچوں نے اپنی تعلیم کے دوران بہت نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جماعتی تنظیمی مقابلوں میں اول آتے رہے ہیں۔
بشاشت کے ساتھ چندہ کی ادائیگی
ایک دفعہ چک 96 گ ب صریح ضلع فیصل آباد میں نمازِ جمعہ پڑھاتے ہوئے خطبے کے دوران دوسری یا تیسری صف میں ایک بزرگ احمدی کو ایک عجیب حرکت کرتے دیکھا۔ انہوں نے دوران خطبہ ہی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر اپنے سے اگلی صف میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو پیچھے سے پکڑ کر ہلایا اور جب اگلی صف والے دوست نے پیچھے مڑکر دیکھا تو بغیر کچھ بولے انہوں نے اپنی مٹھی میں بند کوئی چیز اُس کے ہاتھ میں دے دی۔ جب ہم لوگ نماز پڑھ چکے تو میں نے مکرم صدرصاحب جماعت (مکرم مسعود احمد صاحب اس وقت صدرجماعت تھے) سے یہ قصہ بیان کیا۔ اس پر صدرصاحب نے مجھے اُن سے ملوایا اور یہ بتایا کہ یہ باباجی ہماری جماعت کے غریب ترین لوگوں میں سے تھے۔ لیکن مالی قربانی کرتے وقت ‘‘لَپ بھربھر کے’’ پیسے دیا کرتے تھے اور اس قربانی کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نیک، محنتی اور خوب کمانے والی اولاد کی صورت میں عطافرمایا ہے۔ ان کے بچے اپنی اپنی جگہ پر خوب کمارہے ہیں اور خوشحال ہیں۔ انہوں نے اب گائوں میں بڑا خوبصورت مکان بھی بنالیا ہے اور کافی زیادہ زمین بھی خرید لی ہے۔
چندہ دینے کی برکت سے پورا مہینہ جیب بھرے رہنا
جماعت احمدیہ ہجکہ ضلع سرگودھا کے سیکرٹری صاحب مال مکرم محمد اسلم صاحب کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جوانی میں فوج میں بھرتی ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری عادت تھی کہ جونہی تنخواہ ملتی میں سب سے پہلے چندہ ادا کرتا اور اس کے بعد اپنی ضرورت پر خرچ کرتا۔ 17، 18 سال بعد آرمی سے پنشن مل گئی۔ عمر اور صحت کے اعتبار سے میں ابھی کام کرنے کے قابل تھا۔ میں نے محکمہ تعلیم کا پی۔ٹی۔سی کا کورس کیا اور بطور ٹیچر ملازمت شروع کردی۔ میرا طریق یہی تھا کہ تنخواہ اور پنشن کی رقم ملتے ہی سب سے پہلے چندہ ادا کیا کرتا تھا۔ لیکن بعض دفعہ سُستی بھی ہو جاتی تھی۔ انہوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر اس کی قسم کھاتے ہوئے یہ بیان کیا کہ جس مہینے آمد آنے پر چندہ کی رقم ادا کردیتا تھا پورا مہینہ جیب سے رقم ختم نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جس مہینے کبھی سُستی یا غفلت ہوئی اور چندہ ادا نہ کرسکا اُس مہینے 20یا 22 تاریخ تک جیب سے پیسے ختم ہوجاتے تھے۔
ڈیرہ غازی خان شہر کے ایک نوجوان بھی ایسا ہی قصہ سناتے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ بتایا کہ وہ ایک فارماسوٹیکل کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ خدا کے فضل سے اچھی آمد ہے لیکن اس کے باوجود مہینہ بڑی مشکل سے گزرتا تھا۔ خصوصاً مہینے کے آخری ایام میں تو جیب بالکل خالی ہوجاتی تھی۔ میری کمزور ی یہ تھی کہ میں چندہ کی ادائیگی میں غفلت برتتا تھا۔ اور جب سال ختم ہونے والا ہوتا تو جیسے تیسے ہوتا ادائیگی کردیتا۔ ایک دفعہ کسی خطبہ جمعہ میں یہ تحریک کی گئی کہ آمد آتے ہی چندہ کی ادائیگی کی بہت برکات ہیں۔ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ آئندہ تنخواہ آتے ہی اپنا چندہ ادا کردیا کروں گا۔ اس کے بعد جب تنخواہ ملی تو میں نے بنک سے رقم نکلوا کر اس میں سے چندہ کی رقم کے برابر نئے نوٹ الگ کرکے بٹوے میں ڈالے اور سیدھا سیکرٹری صاحب مال کے گھر پہنچ کر چندہ ادا کیا اور پھر اپنے گھر گیا اور پھر مستقل یہی طریق اختیار کرلیا۔ وہ دن اور آج کا دن خدا کے فضل سے کبھی جیب سے پیسے ختم نہیں ہوتے۔
لاہور کے ایک نوجوان عبدالحئی بنگالی صاحب کا بھی ایسا ہی واقعہ ہے۔ وہ مختلف سکولوں میں سٹیشنری کی سپلائی کا کام کرتے ہیں۔ لاہور میں ایک ملاقات میں انہوں نے اپنی اس پریشانی کا اظہار کیا کہ ا گر چہ میری بہت اچھی آمد ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ جیب میں سوراخ ہیں، پیسا ٹکتا ہی نہیں ہے۔ میں نے ان سے چندوں کی ادائیگی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں اصل آمد پر تو ادا کرتا ہوں لیکن بالعموم سال کے آخر پر۔ میں یہ سوچ کر آنے والی آمد دوبارہ اپنے بزنس میں ہی لگا دیتا ہوں کہ اس سے مزید منافع حاصل ہوجائے گا۔ خاکسار نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ دنیاوی کاروبار کی بجائے خدا تعالیٰ کے ساتھ کاروبار میں اپنا پیسہ لگائیں اور آمد آتے ہی خدا کا حصہ ادا کردیا کریں۔ اللہ نے احسان فرمایا۔ انہوں نے نہ صرف عہد کیا بلکہ اُسی وقت چھ ماہ کا چندہ پیشگی ادا کردیا۔ کچھ عرصہ کے بعد لاہور میں ہی ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ بڑے ہی خوش تھے ۔ کہنے لگے کہ اب تو اللہ تعالیٰ کا بڑا خاص سلوک محسوس کرتاہوں۔ ایک وقت تھا کہ جیب میں پیسہ ٹکتا ہی نہیں تھا۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے جیب ہر وقت پیسوں سے بھری رہتی ہے اور آمد بھی پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔
چندے کی برکت سے آمد کے علاوہ ملازمت میں بھی ترقی مل گئی
یہ واقعہ مکرم شاہد احمد طور صاحب سیکرٹری مال ضلع منڈی بہائوالدین کا ہے۔ وہ شاہ تاج شوگرملز منڈی بہائوالدین میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہم کئی دوست اکٹھے ہی شوگر ملز میں بھرتی ہوئے تھے۔ ہمارا سب کا ایک ہی کام اور ایک ہی تنخواہ تھی۔ میری عادت تھی کہ میں اپنی اصل آمد اور بونسز پر پوری شرح کے ساتھ چندہ ادا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قربانی اس قدر پسند آئی کہ آج خدا کے فضل سے میں اپنے ان تمام ساتھیوں سے ملازمت اور تنخواہ کے لحاظ سے بہتر ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور مہربانی کا ایسا ہی ایک واقعہ نعیم باجوہ صاحب ضلع لیہ کا ہے۔ یہ بڑی دلچسپ اور ایمان افروز داستان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایم۔اے اسلامیات کیا ہوا ہے۔ بہت جگہوں پر ملازمت کے لیے کوشش کی لیکن احمدی ہونے کی وجہ سے ایم۔اے اسلامیات کی بنا پر کوئی نوکری ملتی ہی نہیں تھی۔ یہ خاصے پریشان تھے۔ ان کے ایک بھائی مربی سلسلہ ہیں۔ انہوں نے انہیں تحریک کی کہ آپ تحریک جدید میں چندہ دینے کا وعدہ لکھوائیں۔ انہوں نے وعدہ لکھوا دیا۔ اللہ نے فضل فرمایا اور انہیں جلد ہی 9ویں سکیل میں گورنمنٹ ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔ انہوں نے بتایا میں نے عہد کیا اور اس پر عمل بھی کیا کہ جو بھی آمد ہوگی اس پر پوری شرح کے ساتھ اپنے لازمی چندہ جات ادا کیا کروں گا۔ ابھی ایک سال کا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ گورنمنٹ کی طرف سے 17ویں گریڈ کی آسامیاں نکلیں۔ انہوں نے ایم۔اے اسلامیات کی بنا پر ملازمت کے لیے درخواست جمع کروا دی۔ جب انٹرویو ہوا تو انٹرویو کمیٹی کے دو ممبران نے ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے انہیں ایم۔اے اسلامیات کی بنا پر ملازمت دینے کی شدید مخالفت کی لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ انٹرویو کمیٹی کا چیئرمین اس بات پر ڈٹ گیا کہ کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو کسی احمدی کو ایم۔اے اسلامیات کی بنا پر ملازمت دینے سے روکتا ہو۔ چونکہ یہ میرٹ پر پورے اُترتے ہیں اس لیے مَیں انہیں ملازمت دینے کی بھرپور سفارش کرتاہوں۔ اور یوں چندہ جات کی برکت سے مجھے 17ویں گریڈ کی ملازمت بھی مل گئی۔ ایک مڈل سکول کا ہیڈماسٹر بھی مقرر ہوا اور غالباً سات یا آٹھ سکول بھی میری ماتحتی میں دیے گئے۔
مالی فراخی کا زبردست نسخہ
مکرم مشتاق احمد صاحب چک نمبر 297ج۔ب ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کا واقعہ بڑا ایمان افروز ہے۔ یہ کافی زیادہ مالی تنگدستی کا شکار تھے۔ ان کے بھائیوں نے ان کی اس پریشانی کو دیکھ کر گوجرہ شہر میں ان کو گاڑیاں دھونے والا ایک سروس سٹیشن بنوادیا۔ مشتاق صاحب نے بتایا کہ ہمارا سروس سٹیشن ایک توبہت معمولی اور سادہ قسم کا تھا۔ دوسرے ایسی جگہ پر تھا جہاں ساتھ ہی ایک اچھا سروس سٹیشن پہلے ہی موجود تھا۔ وہ کہتے ہیں میں روزانہ صبح جا کر سروس سٹیشن کھول کر بیٹھ جاتا لیکن کئی دن گزر گئے کہ ایک بھی گاڑی سروس کروانے کے لیے نہ آئی۔ پریشانی اور تنگ دستی مزید بڑھ رہی تھی۔ ایک دن اسی پریشانی میں انہوں نے گوجرہ کے مربی صاحب کو دعا کے لیے درخواست کی۔ خلافتِ احمدیہ کے اس خادم نے انہیں کہا کہ میں دعا تو کروں گا لیکن تم بھی ایک کام کرو۔ آج کسی دکان سے مٹی یا پلاسٹک کا ایک غلہ لے جائو اور اسے سروس سٹیشن پر رکھ دو۔ اور جب روزانہ صبح اپنے کام پر آئو تو حسب توفیق کچھ سکے یاروپے اس غلہ میں چندے کی نیت سے ڈال دیا کرو۔ مشتاق صاحب کہتے ہیں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور روزانہ صبح جب میں اپنے گائوں سے گوجرہ اپنے سروس سٹیشن پر پہنچتا میں چندہ کی نیت سے کچھ نہ کچھ غلے میں ڈال دیتا۔ میرے مولیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آگئی کہ چند دنوں بعد ہی ایک گاڑی سروس کے لیے ہمارے سروس سٹیشن پر آگئی اور پھر تو تانتا بندھ گیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ اگر ایک گاڑی کی سروس ہورہی ہے تو دوسری گاڑی والا انتظار کرتا کہ کب گاڑی اُترے اور وہ اپنی گاڑی کی سروس کروائے اور ہماری حیرت کی انتہا تو یہ تھی کہ ساتھ والا سروس سٹیشن خالی ہوتا تھا پھر بھی گاڑیوں والے ادھر جانے کی بجائے ہمارے سروس سٹیشن پر آکر انتظار کرتے رہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس چندے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اتنی زیادہ مالی فراخی عطا کردی کہ میں نے گائوں میں بہت خوبصورت مکان بنوا لیا اور اپنے بیٹوں کو بھی بیرون ملک بھجوادیا۔
اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر چندہ دینے کی برکتیں
مکرم منظور احمد غالب صاحب سابق سیکرٹری مال ضلع سرگودھا اپنی والدہ صاحبہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے آنسوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں اور روندھی ہوئی آواز میں کہا کہ اگر ہماری والدہ صاحبہ نے یہ قربانی نہ کی ہوتی تو آج مجھے اور میری اولاد کو یہ خوشحالی نصیب نہ ہوتی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہمارے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ زمین کے مقدمات چل رہے تھے۔ مقدمے کی ایک تاریخ پر میں عدالت گیا ہوا تھا۔ جب شام کو واپس آیا تو میری اہلیہ صاحبہ نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ آپ کے جانے کے بعددروازے پر دستک ہوئی۔ پتہ چلا کہ سیکرٹری صاحب مال آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سال ختم ہونے والا ہے اور آپ کا چندہ بقایا ہے۔ والدہ صاحبہ نے سیکرٹری صاحب کو اندر بلا لیا اور انہیں کہا کہ بتائیں ہمارا کُل کتنا بقایا ہے؟ جب سیکرٹری صاحب مال نے رقم بتائی تو والدہ صاحبہ نے کہا کہ رقم تو فی الحال ہمارے پاس نہیں ہے لیکن چندہ ان شاء اللہ آپ کو آج اور ابھی ادا ہوجائے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی بہو کو مخاطب کیا اور کہا کہ گندم والے بھڑولے میں سے گندم باہر نکالو اور سیکرٹری صاحب مال کو کہنے لگیں کہ چندے کی رقم کے برابر گندم تول کر لے جائیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ میری بیوی نے میری والدہ صاحبہ کو کہا کہ گندم تو پہلے ہی تھوڑی ہے۔ پتہ نہیں سال کیسے گزرنا ہے۔ اگر یہ چندہ میں دے دی تو کھائیں گے کیا؟ یہ سن کر والدہ صاحبہ نے اپنی بہو کو کہا کہ بیٹا جب تم خود ہی کہہ رہی ہو کہ گھر میں موجود گندم سال بھر کے لیے ناکافی ہے تو جو خدا اس گندم کے ختم ہونے پر ہمارے کھانے کا بندوبست کردے گا۔ جب ہم اس کی رضا کی خاطر یہ ساری گندم دے دیں گے تو یقین کرو کہ وہ بڑا غیور خدا ہے۔ وہ ہمیں بھوکا نہیں مرنے دے گا۔ چنانچہ گھر میں موجود تقریباً ساری گندم چندہ میں سیکرٹری صاحب مال کو دے دی گئی۔ موصوف کہتے ہیں کہ بس اُسی دن سے حالات بدلنے شروع ہوگئے۔ دن بدن بہتری آتی گئی۔ زمین کے مقدمے کافیصلہ ہمارے حق میں ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اور زمین بھی عطافرمائی۔ کثیراولاد کی نعمت سے نوازا۔ ربوہ میں بہترین بڑا گھر دیا سوائے ایک بیٹے کے ساری بیٹیاں اور بیٹے بیرون ملک اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم ہیں اور میں جو کھیتوں میں گھاس کاٹنے والا تھا مجھے خدا تعالیٰ نے بارہا دنیا کے کئی ممالک میں جانے کا موقع عطافرمایا۔
٭…٭…(باقی آئندہ)…٭…٭