برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات
مقدمہ کی پیروی کے لیے چیف کورٹ بٹالہ جانا
مئی جون 1876ء چیف کورٹ میں ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لاہور میں قیام، وہاں سے یکم جون کو لاہور سے قادیان تشریف آوری
‘‘مقدمات کا یہ سلسلہ بڑا لمبا تھا۔ اور چیف کورٹ تک مقدمات کی پیروی آپؑ کو کرنی پڑی۔ میں اس سیرت کے پڑھنے والوں کو حضرت مرزا صاحبؑ کی زندگی کے اس حصہ سے واقف کرتے ہوئے جس امر پر متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ آپ کا تعلق باللہ ہے۔
جن لوگوں کو حضرت مرزا صاحب کی صحبت میں رہنے اور آپؑ کی باتیں سننے کا موقعہ ملا ہے یا جنہوں نے ان تقریروں کو جو شائع ہو چکی ہیں پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ ہمیشہ دست بکار دل بہ یارکی ہدایت فرمایا کرتے تھے۔ مقدمات میں فریق مقدمہ کو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ مدعی ہوں یا مدعا علیہ۔ ایک اضطراب اور بے قراری کی حالت میں ہوتے ہیں مگر مرزا صاحب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تھے۔ طبیعت میں کوئی بے چینی اور گھبراہٹ نہیں ہوتی تھی۔ پورے استقلال اور وقار کے ساتھ دل بہ یار متوجہ رہتے۔ جہاں یہ مقدمات کی پیروی محض اطاعت والد کے فرض کے ادا کرنے کے لئے تھی۔ وہاں آپؑ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضا نہیں کی اور اس طرح ان فرائض سے غافل نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق ہیں۔ عین کچہری میں آپؑ وقتِ نماز پر اسی طرح مشغول ہوجاتے گویا آپ کو اور کوئی کام ہی نہ تھا اور بسا اوقات ایسا ہوا کہ آپؑ نماز میں مشغول ہیں اور ادھر مقدمہ میں طلبی ہوئی۔ مگر آپؑ اسی طرح اطمینانِ قلب سے نماز میں لگے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ فرمایا:
‘‘میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا۔ فریق ثانی پیش ہو گیا۔اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا مگر عدالت نے پروا نہ کی۔ اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا۔ اور مجھے ڈگری دے دی۔میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو مگر جب میں حاضر ہوا۔ اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں۔’’
مقدمات سے بالطبع نفرت تھی
آپؑ کو مقدمات سے بالطبع نفرت تھی۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق ایک خاص واقعہ انہیں ایام کا ظاہر کر دیا جاوے۔ لاہور میں آپ ایک مقدمہ کی پیروی کے واسطے گئے ہوئے تھے۔ اور وہاں سید محمدؐ شاہ صاحب کے مکان پر اُترے ہوئے تھے۔ سید محمد ؐ شاہ صاحب قادیان کے ایک معزز رئیس ہیں اور محکمہ جنگلات میں وہ ملازم تھے۔ حضرت مرزا صاحب کو مقدمات کی پیروی کے لئے جب کبھی جانے کا اتفاق ہوتا تو ان کے مکان پر ٹھہرتے۔ ایک مرتبہ ایک مقدمہ کی پیروی کے واسطے گئے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کا ملازم مرزا صاحب کے لیے کھانا چیف کورٹ ہی میں لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن وہ کھانا لے کرواپس آیاتو شاہ صاحب نے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے کھانا نہیں کھایا تو نوکرنے جو اب دیا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ گھر پر آکر ہی کھاتا ہوں۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا صاحب بہت خوش اور بشاش آپہنچے۔ شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا فیصلہ ہوا؟ تو فرمایا کہ مقدمہ تو خارج ہو گیا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ شاہ صاحب موصوف کہتے ہیں کہ مجھے تو سن کر بہت افسوس ہوا مگر حضرت اقدس بہر حال ہشاش بشاش تھے اور بار بار فرماتے تھے کہ مقدمے کے ہارنے کا کیا غم ہے۔ غور کا مقام ہے کہ ایک دنیا دار دنیا کی آخری عدالت میں مقدمہ ہارتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسے دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایسے موقعوں پر لوگوں نے خود کشیاں کر لی ہیں یا اُن کے دماغ کو کسی قسم کا صدمہ پہنچ گیا ہے۔ خود اسی خاندان میں نظیر موجود ہے کہ مرز اغلام قادر مرحوم جو آپ کے بڑے بھائی تھے۔ جب چیف کورٹ کی عدالت میں جائیداد قادیان کا مقدمہ جس کا ذکر دوسرے مقام پر آئے گا ہار گئے تو انہیں ایسا صدمہ ہوا کہ پھر اسی غم میں دنیا سے رُخصت ہو گئے۔’’
(حیاۃ النبی یعنی سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 56-57 مرتبہ یعقوب علی تراب طبع اولیٰ ستمبر1951ء)