اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشین تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍جولائی2019ءبمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن (سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامسایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍ جولائی 2019ء کومسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیضان احمد راجپوت صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد و تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ آج بھی بدری صحابہ کا ذکر ہوگا۔جن صحابی کاآج پہلے ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عامر بن سلمہ۔ ان کا تعلق قبیلہ قضاعۃ کی یمن میں آباد شاخ بلّی سےتھا۔ حضرت عامر انصار کے حلیف تھے۔ انہیں غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہونےکی سعادت نصیب ہوئی۔
دوسرےصحابی جن کا ذکرہےان کا نام حضرت عبداللہ بن سراقہ ہے۔آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلے بنو عدی سےتھا۔ آپؓ کا شجرہ پانچویں پشت میں حضرت عمر بن خطّاب سے اور دسویں پشت میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ اکٹھا ہوجاتا ہے۔ اکثر سیرت نگاروں نے ان کا اور ان کے بھائی عمرو بن سراقہ کا جنگِ بدر میں شریک ہونا بیان کیاہے۔حضرت عبداللہ بن سراقہ نے، 35 ہجری حضرت عثمان ؓکے دورِخلافت میں وفات پائی۔
اس کےبعد حضورِ انور نے حضرت مالک بن ابو خولی کا ذکرفرمایا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو عجل سے تھا۔
ضرت مالک کا نام ہلال بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق آپؓ اپنے بھائی خولی اور عبداللہ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔
اگلے صحابی حضرت واقد بن عبداللہ تھے۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔ حضرت ابو بکرؓکی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں جن افراد نے اسلام قبول کیا، حضرت واقد بھی ان میں شامل ہیں۔ حضرت واقد نے آنحضرتﷺ کے دارِ ارقم تشریف لےجانے سے پیشتر اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضورِ انور نے ابتدائی تبلیغی مرکز یعنی دارِ ارقم کے مختصر حالات بیان فرمائے۔کوہِ صفا کے دامن میں واقع ارقم بن ابی ارقم کا یہ گھر جو تین سال تک آنحضرتﷺ اور مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا دارالاسلام کےنام سے بھی مشہور ہے۔
آنحضورﷺ نے واقد اور حضرت بشر بن براء کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔ واقد غزوہ بدر ،احد، خندق سمیت تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جحش کی زیرِ کمان ایک سریہ بھجوایا۔حضرت واقد بھی اس سریے میں شامل تھے۔ آپؓ نے ایک مشرک عمرو بن حضرمی کو قتل کیا۔ یہ اسلام میں قتل ہونے والا پہلا مشرک تھا؛اور حضرت واقد پہلے مسلمان تھے جنہوں نے جنگ میں کسی مشرک کو قتل کیا۔ آپؓ نے حضرت عمر کے عہدِ خلافت کے آغاز میں وفات پائی۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت نصربن حارث کا ذکر فرمایا۔ آپ انصارکے قبیلے اوس کے خاندان بنو عبد بن رزاق سے تعلق رکھتےتھے۔ آپ کی کنیت ابو حارث تھی۔ آپؓ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ ان کے والدکو بھی آنحضرتﷺ کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔حضرت نصر 14 ہجری میں جنگِ قادسیہ میں شہید ہوئے۔
اگلے صحابی جن کا ذکر حضورِ انور نے فرمایا ان کا نام حضرت مالک بن عمرو تھا۔ آپؓ بنو سلیم کے خاندان بنو ہجر سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ اپنے دو بھائیوں کےساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئےاور 12؍ ہجری میں جنگِ یمامہ میں شہادت پائی۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت نعمان بن عصر کا ذکر فرمایا۔ آپ کا تعلق انصارکے قبیلہ بلّی سے تھا۔ بیعتِ عقبہ اورغزوہ بدرسمیت باقی تمام غزوات میں رسولِ کریم ﷺ کےساتھ شامل ہوئے۔ ان کی شہادت جنگِ یمامہ میں ہوئی یا بعض کے نزدیک مرتدین سے جنگ کےدوران طلیحہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عویم بن ساعدہ ہے۔ آپؓ کا تعلق اوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ آپؓ بیعتِ عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق ہجرتِ مدینہ کے موقعےپر آنحضرتﷺ نےآپؓ کی مؤاخات حضرت عمر ؓسے قائم فرمائی۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کے متعلق فرمایا کہ عویم بن ساعدہ اللہ کے بندوں میں سے کیا ہی اچھا بندہ ہے۔ آپؓ بدر،احد، خندق سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ایک روایت کے مطابق آپؓ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق آپؓ نے عمرؓ کے دورِ خلافت میں 65 یا 66برس کی عمر میں وفات پائی۔
اگلے صحابی حضرت نعمان بن سنان ہیں۔ آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو نعمان سے تھا۔ آپؓ کو غزوہ بدر اور احد میں شرکت کی توفیق ملی۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عنترۃ مولیٰ سلیم ہے۔ آپؓ حضرت سلیم بن عمرو کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپؓ بدر اور احد میں شامل ہوئے اور احد کے دن نوفل بن معاویہ دلی نے آپؓ کو شہید کیا۔ایک دوسری روایت کے مطابق آپؓ کی وفات 37 ہجری میں جنگِ صفین میں ہوئی۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت نعمان بن عمروؓ کا ذکر فرمایا۔ آپؓ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو دیناربن نجار سے تھا۔ حضرت نعمان بن عبدعمرو غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ آپؓ کےمزید دو بھائی ضحاک اور حضرت قطبہ بھی آنحضرت ﷺ کے صحابی تھے۔
حضورِ انور نے حضرت انسؓ بن مالک سے مروی روایت بیان فرمائی جس میں جنگِ احد کے موقعے پر آنحضورﷺ کی شہادت کی افواہ پھیل جانے کا ذکر تھا۔گھبراہٹ کے عالم میں جب ایک انصاری خاتون گھر سے نکلی تو اس نے اپنے بیٹے،بھائی اور شوہر کی لاش دیکھی۔ اس بہادر خاتون نے لوگوں سے آنحضرتﷺ کے متعلق استفسار کیا۔ آپؐ کے دامن کو تھام کر کہا کہ اگر آپؐ سلامت ہیں تو مجھے کسی نقصان کی پرواہ نہیں۔ ایک قول کے مطابق یہ عورت نعمان بن عمرو کی والدہ سمیرہ بنت قیس تھیں ۔
حضورِ انور نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے اس واقعے کی تفصیل بیان فرمائی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرادل اس کے متعلق ادب اوراحترام سے بھر جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں کہ اس نے میرے محبوب کےلیے اپنی محبت کی ایک بے مثل یادگار چھوڑی۔
حضورِانور نے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اور اقتباس پیش فرمایا جس میں آپؓ نے اس واقعے کے حوالے سےصحابہ کرام کے عشقِ خدااور عشقِ رسولﷺ پر روشنی ڈالی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کے دلوں میں ایسا عشق پیدا کردیا تھا کہ انہیں آپ کے مقابلے میں کسی اور چیز کی پروا ہی نہ تھی مگر یہ عشق صرف اس وجہ سےتھا کہ آپ خداتعالیٰ کے پیارے ہیں۔
خطبے کے دوسرےحصّے میں حضورِ انور نے دو مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا۔ جن میں پہلا ذکر مکرم مودود احمد خان صاحب کا تھا۔ آپ مکرم مسعود احمدخان صاحب اور صاحب زادی طیبہ صدیقہ صاحبہ کےبیٹے جبکہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب محمدعلی خان صاحب کے پوتے تھے۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب آپ کے نانا تھے۔ آپ 14؍جولائی کو 78؍ برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی اور کچھ عرصہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے ساتھ پریکٹس کی۔ آپ ایک مشہور لاء فرم آرڈگنم کے ساتھ52؍ برس منسلک رہے۔ آپ کا شمار پاکستان کے سینئرکارپوریٹ وکلامیں ہوتاتھا۔ بین الاقوامی کمرشل قوانین اور بینکنگ اور کارپوریٹ قوانین کے ماہر تھے۔ پاکستان کے کچھ کارپوریٹ قوانین کو بھی انہوں نے ترتیب دیا۔
آپ نے اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کے بیٹے بھی وکالت سے منسلک ہیں۔ جبکہ بیٹی کینیڈا میں ہوتی ہیں۔ آپ کے داماد مکرم صاحب زادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی پوتی کے بیٹےہیں۔
مکرم مودود احمد خان صاحب اکتوبر 1996ء میں امیرضلع کراچی مقررہوئے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن، ناصر فاؤنڈیشن اور طاہر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ 84ء کے ابتلامیں پریس کے ساتھ ان کا بہت اچھا رابطہ رہا۔ سندھ کے اسیران اور شہدا کی فیملیز کے لیے کافی کام کرتے تھے۔ مالی قربانی میں صفِ اوّل میں تھے۔ عاجزی اور انکساری آپ میں بڑی تھی۔ غریبوں سے بڑے عاجز ہوکر ملتے تھے۔ مہمان نوازی کا وصف ان میں بہت زیادہ تھا۔ شکوؤں سے شدید نفرت تھی۔ چغل خوری کے بھی بہت زیادہ خلاف تھے۔ جماعت کے بچوں اور نوجوانوں کو حصولِ تعلیم کےلیے راغب کرنے کی بہت کوشش کرتے۔ آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ آپ آئیڈیل شوہر، آئیڈیل باپ اور آئیڈیل شخص تھے۔ ہر شخص آپ سے بڑا متاثر ہوتاتھا۔ آپ کے بیٹے مامون احمدخان کہتے ہیں بچپن سے ہی ہمیں نماز کی عادت ڈالی۔ بڑوں کی عزت اور خدمت کی تلقین کیا کرتے۔ کراچی کی ایک خاتون مریم ثمر صاحبہ کہتی ہیں کہ ساری کراچی جماعت کےلیے ایک شفیق باپ کی طرح تھے۔ قائم مقام امیر قریشی محمود صاحب کہتے ہیں کہ ہرایک آنے والے کو چاہے چھوٹا ہو یا بڑا،کرسی سے اٹھ کرملا کرتے تھے۔قائد خدام الاحمدیہ بلال حیدر ٹیپو کہتے ہیں کہ ایک دن اکیلے میں بڑے پیار سے مجھے نصیحت کی کہ میری زندگی کا یہ نچوڑ ہے کہ ہر ہفتے خلیفہ وقت کو خط ضرور لکھا کرو۔
دوسرا ذکرِ خیر خلیفہ عبدالعزیز صاحب نائب امیرجماعت کینیڈا کا تھا۔ آپ 9؍ جولائی کو حرکتِ قلب بند ہوجانے سے 84؍ برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللّٰہ وانا اِلَیْہِ راجعون۔ ان کا تعلق جموں کشمیر کے مشہور احمدی خلیفہ خاندان سے تھا۔ 1967ء میں پاکستان سے کینیڈا شفٹ ہوئے۔ آپ وکیل تھے۔ اپنی لاء فرم قائم کی۔ کینڈا جماعت میں ان کی خدمات کا عرصہ نصف صدی سےزائد ہے۔ انتہائی ملنسار،ہردل عزیز، ہنس مکھ، معاملہ فہم ،خلافت سے گہری محبت اور عقیدت رکھنے والے تھے۔
آخر میں حضورِ انور نےدعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ دےاور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔
٭…٭…٭