رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء (5؍ جولائی)

05؍جولائی2019ء

بروزجمعۃ المبارک(حصہ دوم۔ آخر)

بعدازاں مایوٹ آئی لینڈ(Mayotte Island) سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔

مایوٹ آئی لینڈ سے امسال 9؍افراد پر مشتمل وفد آیاتھا جن میں دو میاں بیوی احمد سلیم صاحب اور محترمہ ایلاد چکرین صاحبہ کا تعلق ملکی سیاست سے تھا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر احمد سلیم صاحب نے بتایاکہ وہ پیشہ کے لحاظ سے ایک وکیل اور سیاستدان بھی ہیں۔ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔

٭ مایوٹ کے مبلغ نے عرض کیاکہ ہم وہاں اپنی مسجد اور ایک لائبیریری بناناچاہتے ہیں جس کے لیے سلیم صاحب ہماری بہت مدد کررہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہماری کمیونٹی ہر جگہ بنی نوع انسان کی خدمت کررہی ہے۔ ہم کوئی یورپین کمیونٹی نہیں ہیں۔ ایک مذہبی کمیونٹی میں اسلام کا پیغام پہنچارہے ہیں۔ آپ وہاں جو ہماری مدد کررہے ہیں، اپنی فیس لیتے ہوئے اس کو مدِ نظر رکھنا ہے کہ ہم بنی نو ع انسان کی بھلائی اور خدمت کے لیے کام کررہے ہیں۔

٭ وفد میں ایک دوست لابیون یوسف صاحب اپنی فیملی کیساتھ شامل تھے۔ موصوف وہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں اور اس وقت جماعت کے سیکرٹری مال بھی ہیں۔ موصوف نے عرض کیا:

میں اپنے خاندان میں پہلا احمدی ہوں ۔ احمدی ہونے سے قبل میرے پاس کچھ نہ تھا۔ احمدیت قبول کی تو احمدیت کی برکت سے خداتعالیٰ نے مجھے کام بھی عطاکیا۔ گھر بھی عطاکیا اور بیوی بچے بھی عطاکیے۔

لتھوانیا کے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کے دوران

٭ مبلغ انچارج نے عرض کی اکہ ان کے والد ان کو کافر کہتے ہیں اور ان کی بہت مخالفت کرتے ہیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کو نصیحت فرمائی کہ : آپ اپنے والد کے لیے دعاکیاکریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔

موصوف نے عرض کیاکہ ان کے ہاں جب بچہ کی پیدائش ہوئی تھی توڈاکٹرز کا کہنا تھاکہ بچہ معذور ہے۔ یہ مستقبل میں نہ تو بیٹھ سکے گا، نہ کھڑا ہوسکے گا اور نہ ہی دیکھ پائے گا۔ چنانچہ انہوں نے حضورانورکی خدمت میں دعاکی غرض سے تحریرکیااور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچے کی نشو نما معجزانہ رنگ میں ہوئی اور وہی بچہ اب بیٹھ بھی سکتاہے، اور کھڑا بھی ہوسکتاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔

یوسف لابیون صاحب نے ملاقات کے بعد بتایاکہ گوکہ بچہ بیٹھ سکتاتھا اور کھڑا بھی ہوسکتاتھا لیکن اس کی آنکھوں میں بھینگا پن تھا ۔ لیکن ملاقات کے بعدحضورانور کے دستِ مبارک پھیرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں اُس کی آنکھیں بھی ٹھیک کردیں اور اس کا بھینگا پن بھی دور کردیا۔ الحمد للہ۔

مایوٹ آئی لینڈ کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات 8 بجکر 40 منٹ تک جاری رہی۔ وفد کے تمام ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………………………………………

بعدازاں پروگرام کے مطابق ملک لتھوانیا (Lithuania) سے آنے والے وفد نے ملاقات کی سعادت پائی۔ لتھوانیا سے 58؍افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔ اس میں 46؍ غیر احمدی ، غیر مسلم احباب تھے جبکہ 12 ؍احمدی احباب تھے۔

٭ وفد میں شامل ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ مصنف ہیں اور ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں۔انہوں نے عرض کیا:

میرا مقصد یہ ہے کہ میں انسانیت کے لحاظ سے لکھوں تاکہ لوگ قریب آئیں۔ حضور کے خطابات سے انتخاب کرکے بھی لکھتاہوں تاکہ لوگ اسلام کے قریب آئیں اور ان کو اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلے۔ میں نے پہلا رسالہ احمدیہ کے حوالہ سے نکالاہے اور اس میں جماعت کا تعارف، خلفائے احمدیت کا تعارف اور جلسہ سالانہ کے حوالہ سے اور جماعت جو خدمات کررہی ہے اس حوالہ سے تفصیل سے لکھاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کو اب لتھوانیا میں پھیلائیں۔ آپ تو سارے ملک میں جماعت کا تعارف کروارہے ہیں۔ اس کو اب سارے میں پھیلائیں۔ اس طرح وہاں کے مبلغ کی سستی بھی دور ہوجائے گی اور اس کو بھی کام کرنا پڑے گا۔

٭ لتھوانیا سے Petras Janulionis(پطرس یانولیونس صاحب) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:

جلسہ پر آنے سے قبل اسلام کے بارے میں میرا تصورکچھ اچھا نہ تھا لیکن جلسہ میں شمولیت کے بعد اسلام کے بارے میں میرے جذبات بہت مثبت ہو گئے ہیں۔ مجھے جلسہ میں اس بات کا احساس ہوا کے مسلمان اپنے عقیدے کے ساتھ بہت سنجیدہ ہیں بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کے عیسائیوں کی نسبت بہت زیادہ سنجیدہ ہیں۔ آپ کے خلیفہ بہت متاثر کرنے والی شخصیت ہیں اور لوگوں سے بہت کھل کر بات کرتے ہیں۔

٭ لتھوانیا سے Ignas Brazauskas (اگنس برازاوسکس صاحب) کہتے ہیں کہ؛میں ہمیشہ سے اسلام کا بطور مذہب احترام کرتا تھا۔ یہاں آ کر احساس ہوا کہ اسلام امن اور برداشت کا مذہب ہے۔ خلیفہ صاحب کی شخصیت سے بہت متاثر ہوں۔

٭ Rita Aspegiene (ریتا اپسی گی انے صاحبہ) نے بیا ن کیا کہ؛

جلسہ کا ہر دن ایک نیا تجربہ تھا۔ جلسہ کے دوستانہ ماحول نے بہت متاثر کیا۔ خلیفہ بہت متاثر کُن شخصیت کے مالک ہیں آپ تحمل کے ساتھ ہر کسی کے سوال کو سنتے اور جواب دیتے ہیں اور آپ کی حسِ مزاح بھی بہت اچھی ہے۔

٭ لتھوانیا سے Manefa Miskiniene (مانیفا مسکی نی انےصاحبہ) نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ؛ جلسہ میں شمولیت سے قبل اسلام کے بارے میں شش و پنج میں تھی کیونکہ بعض مسلمان نہایت غصیلے اور دوسرے مذاہب کے بارے میں عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن جلسے میں شمولیت کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ احمدی مسلمان دوسروں کی رائے اور مذہب کا احترام کرنے والے اور تمام انسانیت میں امن اور محبت بانٹنے والے لوگ ہیں۔

موصوفہ کہتی ہیں: اسلام کے بارے میں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ سب لوگ محبت کرنے والے اورخدمت کے لیے تیار رہنے والے ہیں۔ خلیفہ صاحب کی مثبت سوچ میرے ذہن پر نقش ہو گئی ہے۔ ان کے سوالوں کے دئے گئے جوابات بہت مفصل اور ہر کسی کو با آسانی سمجھ میں آنے والے تھے۔ حضور کا امن کا پیغام بہت متاثر کن ہے اور مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے حضور کے ساتھ تصویربنوانے کی سعادت ملی۔

٭ لتھوانیا سے Gena Pavlauskiene (گینا پاولاوسکی انے صاحبہ) نے کہا:اسلام کے بارے میں علم میں اضافہ ہوا۔ قرآن کی تلاوت سن کر بہت مزہ آیا۔ خلیفہ صاحب کے جوابات بہت تفصیل پر مبنی اور مثبت تھے۔

٭ Marija Komiago(ماریا کومیاگو صاحبہ) نے کہا کہ؛ جلسہ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو امن کی تعلیم پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے مختلف موضوعات پر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جلسہ کے دوران ہر طرف مسکراتے چہرے بہت متاثر کرتے ہیں۔ خلیفہ صاحب بہت علمی شخصیت ہیں اور کمال کی حسِ مزاح رکھتے ہیں۔

٭ لتھوانیا سے Laurynas Valatka (لاورینس والا تکا صاحب) نے کہا کہ؛

جلسہ میں شامل ہونے کے بعداسلام کے بارے میں میری رائے 180کے زاویے پر تبدیل ہوئی ہے۔ جماعت بہت پر امن اور دہشت گردی کے بالکل خلاف ہے۔ جماعت احمدیہ دنیا کے تمام مسائل چاہے وہ امیگریشن ہو یا نیو کلیر جنگیں یا معاشی مسائل سب کا حل پیش کرتی ہے۔ خلیفہ صاحب نہایت سادہ طبیعت کے مالک ہیں اور دیگر دنیاوی لیڈروں کے بر عکس ہیں جو اپنے آپ کو باقی دنیا سے اوپر سمجھتے ہیں۔ آپ نہایت شفیق، محبت کرنے والے اور بہت اچھی حسِ مزاح کے مالک ہیں اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔

٭ لتھوانیا سے Rima Povileniene(ریما پوویلی انے صاحبہ ) نے کہا:

جلسہ میں شمولیت سے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اسلام اور جماعت کے تعارف اور تاریخ پر مبنی نمائش بہت ہی فائدہ مند ہے۔ جلسے کامنظم نظام حیران کن طور پر متاثر کرتا ہے۔ ہماری لتھوانین احمدی دوست Aukse Ahmedبہت محبت کرنے والی خاتون ہیں جنہوں نے جلسہ کے دوران ہر چیز کا تعارف ہمیں پیش کیا۔ تمام کارکنان بہت محبت کرنے والے اور برداشت کا مادہ رکھنے والے ہیں۔ حضور سے ملاقات کے دوران بہت سکون اور امن حاصل ہوا اور آپ کے جوابات سے بہت متاثر ہوں۔

٭ لتھوانیا سے Stanislava Ligeikiene (ستانس لاوالیگئی کی انے صاحبہ) نے کہا کہ؛مسلمانوں سے میرا تعلق 1970ءسے ہے۔ جماعت کی اتنی بڑی تعداد کا ایک جگہ ایک مقصد کے لیے اکھٹا ہونا اور نہایت خوش اسلوبی سے اتنی بڑی تعداد کا نماز ادا کرنا اور دعائیں کرنا بہت متاثر کرتا ہے۔ حضور کا اس سوال کہ

‘ اپنی روح کو کیسے پاک کیا جائے ؟’

کا جواب بہت اچھا لگا کہ روح کو پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اس سے بخشش طلب کریں اور اس سے پیار کریں وہ آپ سے پیار کرے گا ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:روح کو پاک کرنے کے لیے اسلام کا اپنا نظریہ ہے۔ عیسائیت کا اپنا نظریہ ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعاکرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ہمیشہ صحیح راستہ پر چلائے۔ گناہوں سے پاک کرے۔ پھر اس پاکیزگی پر قائم رکھنے کی توفیق دے۔ یہ احساس پیداہوکہ میرے ہر کام کو خدا تعالیٰ دیکھ رہاہے۔ اگر یہ احساس ہوجائے کہ خدا میرے ہر کام کو دیکھ رہاہے تو پھر انسان وہی کام کرے گا جو ٹھیک ہوگا اور صحیح ہوگا۔

٭ لتھوانیا سے ایک میاں بیوی Zilvinas Juzulenasاور Jurgita Juzuleniene (زلوینس یوزولینس صاحب اور یورگیتا یوزولیانے صاحبہ) جلسہ میں شریک ہوئے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛

ہمیں جلسہ میں شمولیت کر کے بہت خوشی ہے۔ ہم اپنی دو سالہ بچی کے ساتھ آئے ہیں۔چھوٹی بچی کے ساتھ سفر کرنا مشکل تھا لیکن جلسہ کے ماحول اور خلیفہ صاحب کی محبت ہمیں یہاں کھینچ لائی۔جلسہ کے دوران صبر اور برداشت کا معیار بہت بلند تھا۔ لوگ بہت خوش اخلاق تھے۔

وہ بتاتے ہیں:ہمیں خلیفۃ المسیح سے ملاقات کا بےچینی سے انتظار تھا کیونکہ یہ لمحات بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ بہت یاد گار لمحات ہیں۔ خلیفہ کی آواز اور مسکراہٹ نہایت خوبصورت اور بہت متاثر کن ہے ۔ہم نے اپنی والدہ اور بیٹی کے لیے دعا کی درخواست بھی کی۔ خلیفہ صاحب کی دعائیں ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں۔

ہم شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ محبت، صبر اور نیک تعلیم کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔

٭ ایک دوست نے عرض کیاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لتھوانیا میں ہماری جماعت ترقی کررہی ہے۔ حضورلتھوانیا کب تشریف لائیں گے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ پوچھ رہے ہیں کہ کب آئیں گے؟ آپ دعوت کیوں نہیں دیتے ؟ اس پر موصوف نے عرض کیاکہ ہم دعوت دیتے ہیں ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ بڑی آہستہ آواز میں دعوت دی ہے۔ اس پر موصوف نے مسکراتے ہوئے بلند آواز سے کہا ہم حضورانور کو دعوت دیتے ہیں۔

٭ لتھوانیا سے ایک Lawyerکمپنی کے سربراہ Sarunas Badauskas (شارونس باداوسکس صاحب) بھی جلسہ میں شریک تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ؛

جلسہ سالانہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں اسلام کی پرامن تعلیم کا پتہ چلتا ہے اور اسلام کے بارہ میں جو غلط تصورات ہیں ان کا قلع قمع ہوتا ہے۔

٭ Boleslav Ragucki(بولے سلاو راگوتسکی صاحب ) نے کہا کہ؛

اتنے اہم اور بڑے جلسہ میں شمولیت میرے لیے بہت خوشی کا باعث ہے۔مجھے اسلام کی حقیقی تعلیم جاننے کا موقع ملا۔میں نے بہت سی اچھی اورپرحکمت باتیں سنیں۔ مجھے یہاں کا نظام بہت اچھا لگا۔

٭ ایک مہمان خاتون نے عرض کیاکہ حضورخلیفۃ المسیح کی حیثیت سے بے حد مصروف ہیں۔ حضوراپنی hobbiesکے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاہے کہ: ‘‘میری hobby جماعت کا کام ہی ہے۔ ’’

٭ لتھوانیا سے Yaqubov Dadojon (یعقوبوو دادوجان صاحب) بیان کرتے ہیں کہ؛

جلسہ کےتمام انتظامات نہایت منظم طریق سے کیے گئے۔ رضا کاروں نے مہمانوں کا بہت خیال رکھا۔تقاریر کا معیار بہت اچھا تھا خاص کر مجھے جرمن تقریر بہت اچھی لگی جس میں بہت ساری نصائح کی گئیں۔میری خواہش ہے کہ احمدیہ جماعت پوری دنیا میں پھیل جائے۔

٭ Marija Ragucka(ماریا راگوتسکا صاحبہ) نے کہا کہ؛ پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوئی ہوں۔بہت برداشت کا ماحول تھا۔ مجھے خلیفہ سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔ ان کی باتیں حکمت سے پر تھیں۔ملاقات کے بعد بھی میں اس خوشی کو محسوس کر رہی ہوں۔

٭ ایک مہمان کے سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تمام مذاہب خدا کی طرف سے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تمام قوموں میں انبیاء بھجوائے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے خود کہا کہ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں (lost tribes) کے لیے آیا ہوں۔ بائبل میں اس کا ذکر ہے۔ مسیح علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہاکہ وہ ساری دنیا کے لیے آئے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:قرآن کریم آخری کتاب ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ میں ساری دنیا کے لیے آیاہوں۔ قرآن کریم میں اس کا ذکرہے کہ آپ ﷺ کو ساری دنیا کے لیے، تمام اقوامِ عالم کے لیے مبعوث فرمایاگیا۔ اور قرآن کریم آخری شریعت ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء خدا کی طرف سے آئے ہیں اور مختلف اقوام اور علاقوں کی طرف مبعوث کیے گئے جبکہ آنحضرت ﷺ کو ساری دنیا کے لیے نبی بناکر بھیجاگیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:قرآن کریم کہتاہے ‘لَا اِکراہَ فی الدِّین۔’ کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہر انسان مذہب کو اختیار کرنے کے لحاظ سے آزاد ہے۔ جو نہیں مانتے وہ بھی ہمارے دوست ہیں، انسانیت کی حیثیت سے سب دوست ہیں۔ ہم تو سب سے محبت و پیار کا تعلق رکھتے ہیں۔

٭ ایک سوال کے جواب میں کہ احمدی اور باقی مسلمانوں میں کیافرق ہے، حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں ایک ریفارمر آئے گا۔ ایک مصلح آئے گا جو مسیح اور مہدی ہوگا۔ جماعت احمدیہ ایمان رکھتی ہے کہ وہ یہ مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صورت میں آچکا ہے جبکہ دوسرے مسلمان ابھی تک اس کا انتظار رکرہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اور آپ نے جماعت کی بنیاد رکھی جو آج ساری دنیا میں اشاعت اسلام کا کام کررہی ہے۔ جبکہ دوسرے مسلمان کہتے ہیں کہ ابھی مسیح مہدی نہیں آیا اور تم آنے والے کو نبی مانتے ہو جبکہ ہم کسی نبی کے آنے کے قائل نہیں۔ اس پر ہم ان کو یہ دلیل دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے آنے والے کا نام ‘نبی اللہ’ رکھاہے۔ لیکن اس کے باوجود دوسرے مسلمان ہمیں دائرہ اسلام سے باہر نکالتے ہیں اور کافرکہتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم کہتے ہیں کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آئے اور اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی اور قرآن کریم کی تعلیم پیش کی۔ آپ علیہ السلان نے فرمایاکہ میں دو مقاصد لیکر آیاہوں ۔ ایک تو یہ کہ خداتعالیٰ کا حق ادا کرو ، خدا تعالیٰ کو پہچانواور دوسرا یہ کہ اس کے بندوں کے حقوق اداکرو، ہر ایک دوسرے کا حق اداکرے۔ یہی اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔

٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ بہت پُر معانی تھا۔ میں اس پر حضورکا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں۔

٭ ایک دوست نے سوال کیاکہ عیسائیوں اور یہود کے پاس تو ten commandments ہیں جبکہ مسلمانوں کے پاس کیاہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسلمانوں کے پاس قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ ہم احمدی اس پر عمل کرتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیوں کے لیے دس شرائط بیعت رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ سے لے کر بندوں کے حق اداکرنے تک ساری باتیں ان میں آگئی ہیں۔ جو احمدی بیعت کرتاہے وہ ان سب پر عمل کرتاہے۔

٭ لتھوانیا سے Jeronimas Laucius (یارونیمس لاوتسس صاحب ) نے کہا کہ؛

میں مصنف ہوں اور آپ کی جماعت کی امن کی کوششوں کو ہمیشہ اخبارات اور رسائل میں لکھتا رہوں گا۔ میں دوسری مرتبہ جلسہ میں شامل ہوا ہوں اور یہ جلسہ مجھے پچھلے جلسہ کا تسلسل ہی لگا ہے۔جلسہ سالانہ نہایت مفید پروگرام ہےکیونکہ اس میں عصر حاضر کے مسائل کے حل کے بارہ میں تقاریر کی جاتی ہیں، دنیا میں امن پھیلانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور جو لوگ ایمان سے دور ہو جاتے ہیں ان کو ایمان کے قریب کرنے کے بارہ میں تعلیم دی جاتی ہے۔مجھے خلیفہ صاحب کی تقاریر سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔

٭ لتھوانیا سے Henrikas Sargelis (ہینرکس سرگیلس صاحب) بیان کرتے ہیں کہ؛ پہلے میں اسلام کے متعلق منفی سوچ رکھتا تھا اور اب جلسہ میں شامل ہونے کے بعد میری سوچ مثبت ہو گئی ہے۔میرے دل میں مسلمانوں کے لیے عزت کے جذبات پیدا ہوگئے ہیں۔ نئی معلومات ملنے کے ساتھ ساتھ میرا مذہب کی طرف رحجان بھی بڑھ گیا ہے۔جلسہ کے انتظامات نہایت منظم طور پر کیے گئے اور تمام لوگ بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔خلیفہ صاحب سے ملاقات کا تجربہ بہت اچھا رہا ۔ان سے بہت سادہ اور اچھے انداز میں گفتگو ہوئی ۔ میرے دل میں ان کے لیے نہایت عزت کے جذبات ہیں۔

٭ لتھوانیا سے Danguole Sarapiniene (دانگوالے ساراپینی انے صاحبہ) نے کہا کہ؛مجھے دوسری مرتبہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کا موقع ملا۔بہت منظم اور خوشگوار ماحول تھا۔خلیفہ صاحب سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی اور ان کے ساتھ تصویر بنانے کا موقع بھی ملا۔ جب میری بیٹی کی شادی ایک احمدی مسرور احمدقمر سے ہوئی تو شروع میں میرے خیالات اسلام کے بارہ میں منفی تھے۔میں نے جب اپنے داماد کا بیٹی کے ساتھ اچھا رویہ دیکھا اور جب مجھے انہوں نے اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا تو مجھےاطمینان ہو گیا اور میں نے اسلام کو دوسرے انداز سے دیکھناشروع کیا۔ جلسہ سے مجھے اوراسلام کی اور واقفیت حاصل ہوئی ہے۔میں بہت خوش ہوں۔

٭ لتھوانیا سے Danuta Sargeliene (دانوتاسارگیلی انے صاحبہ) نے کہا کہ؛میں تمام مذاہب کا احترام کرتی ہوں اور اسی طرح اسلام کا بھی۔جلسہ میں شرکت کرکے میرا اسلام کے بارہ میں علم بڑھا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کا عورتوں سے سلوک بہت اچھا ہے۔جلسہ نہایت منظم تھا ۔مجھے اخلاص سے بھرپور عبادتوں کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔

٭ لتھونیا سے Abdussator Boboev ( عبد الستار بوبوایو صاحب) نے کہا کہ؛میں نے احمدیوں کے بارہ میں سنا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور شراب کو جائز سمجھتے ہیں۔جلسہ میں شامل ہونے سے پہلے احمدیوں کی مسجددیکھی اور اس میں نماز پڑھی تو پتہ چلا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں اور پانچ ارکان دین پر عمل کرتے ہیں۔جلسہ میں شامل ہو کر پتہ چلا کہ یہ امام مہدی کو مانتے ہیں اور بالکل شراب نہیں پیتے اور حرام سے بچتے ہیں۔یہاں جلسہ میں شامل ہوکر احمدیہ جماعت کے بارہ میں بہت معلومات ملی ہیں اور میں بنیادی طور پر آپ لوگوں کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ارکان دین اور ارکان اسلام وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہوتے ہیں ۔مجھے اب علم ہوا ہے کہ آپ لوگ امام ابو حنیفہ کو امام سمجھتے ہو اور ان کی فقہ پر عمل کرتے ہو۔ جلسہ میں بہت کچھ اچھا لگا۔یہاں پر حج کے بعد دوسری مرتبہ اتنے مسلمانوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا۔خلیفہ صاحب سے ملاقات بہت اچھا تجربہ تھا۔ ان کا چہرہ بہت نورانی تھا۔جب میں تاجکستان ہوتا تھا تو ایم ٹی اے پر ان کو دیکھا کرتا تھا اور بہت متاثر ہوتا تھا۔وہ بہت نیک انسان ہیں۔

لتھوانیا کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات 9 بجکر 20منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے تمام ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق دس بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لاکر نماز مغر ب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

………………………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button