الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مہمان نوازی
ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’کینیڈا جون 2012ء میں مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کے چند ایمان افروز واقعات شامل اشاعت ہیں۔
٭……حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓتحریر فرماتے ہیں کہ اکرام ضیف اخلاق فاضلہ میں سے ہے اور معاشرہ کے لیے بمنزلہ روح کے ہے لیکن انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے کمالِ اخلاق کا بہت بڑا حصہ ہے اور کامل طور پر یہ خلق اُن میں پایا جاتا ہے۔ میاں عبداللہ سنوریؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کروایا۔ مگر عین کھانے کے وقت اَور مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی۔ حضورؑ نے اندر کہلا بھیجا اور کھانا زیادہ بھجوائو۔ اس پر بیوی صاحبہ ؓ نے حضورؑ کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے، صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر انتظام ہوسکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے۔ میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں۔ صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: نہیں یہ مناسب نہیں۔ تم زردہ کا برتن میرے پاس لائو۔ چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کردیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا برکت دے گا۔ چنانچہ میاں عبداللہ صاحبؓ کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے یہ کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
٭……حضرت اماں جانؓ فرماتی ہیں کہ ایسے واقعات بارہا ہوئے کہ تھوڑا کھانا تیار ہوا اور پھرمہمان زیادہ آگئے۔ مثلاً پچاس کا کھانا ہوا تو سو آگئے لیکن وہی کھانا حضرت صاحب کے دَم سے کافی ہوجاتا رہا۔ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا۔ میں نے آپؑ کے واسطے اس کا پلائو تیار کروایا تھا مگر اسی دن اتفاق ایسا ہوا کہ نواب صاحب ؓ کے بیوی بچے بھی اِدھر ہمارے گھر آگئے اور حضرت صاحب نے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلائو۔ میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے تھے۔ پھر آپؑ نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دَم کیا اور کہا اب تقسیم کردو۔ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب ؓکے سارے گھر نے کھائے، پھر حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو بھی بھجوائے گئے اور قادیان میں اَور بھی کئی لوگوں کو دیے گئے اور چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہوگئے تھے اس لیے کئی لوگوں نے آ آکر مانگے اور ہم نے تھوڑے تھوڑے تقسیم کیے۔
٭……حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضرت اقدسؑ اندر سے میرے لیے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگایا۔ جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔حضورؑ نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا، اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں۔ اور پھر آپؑ نے اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کا ٹکڑا پھاڑا اور اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔
٭……حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ؓ پشاوری بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں اور عبدالرحیم خان صاحب ؓ پشاوری مسجد مبارک میں کھانا کھارہے تھے جو حضرت صاحب کے گھر سے آیا تھا۔ ناگاہ میری نظر کھانے میں ایک مکھی پر پڑی۔ چونکہ مجھے مکھی سے طبعاً نفرت ہے میں نے کھانا ترک کردیا۔ اس پر حضرت کے گھر کی ایک خادمہ کھانا اٹھا کر واپس لے گئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت حضرت صاحب اندرون خانہ کھانا تناول فرمارہے تھے۔ خادمہ نے حضرت سے یہ ماجرا عرض کردیا۔ آپؑ نے فوراً اپنے سامنے کا کھانا اٹھا کر اس خادمہ کے حوالے کردیا کہ یہ لے جائو اور اپنے ہاتھ کا نوالہ بھی برتن ہی میں چھوڑ دیا۔ وہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس وہ کھانا لائی اور کہا کہ لو حضرت صاحب نے اپنا تبرک دے دیا ہے۔ اس وقت مسجد میں سید عبدالجبار صاحبؓ بھی (جو بادشاہ سوات بھی رہے ہیں) موجود تھے۔ چنانچہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوگئے۔
٭……حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے۔ کبھی پلائو اور زردہ پکتا تو مولوی عبدالکریم صاحبؓ ان دونوں چیزوں کو ملالیا کرتے تھے۔ آپؑ یہ دیکھ کر فرماتے کہ ہم تو ان دونوں کو ملاکر نہیں کھاسکتے۔ کبھی مولوی صاحبؓ کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتا ہے اور کسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے تو حضرت صاحب فوراً دستر خوان پر سے اٹھ کر اندر جاتے اور اچار لے آتے۔
٭……حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی چھت پر مع چند احباب کھانا کھانے کے لیے تشریف فرما تھے۔ میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ، جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے، حضرت مسیح موعودؑ سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے، آتے گئے اور آپؑ کے قریب بیٹھتے گئے۔ جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا حتیٰ کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گئے۔ اتنے میں کھانا آیا تو آپؑ نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام الدین ؓکو مخاطب کرکے فرمایا: آئو میاں نظام الدین !ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ اور یہ فرماکر مسجد کے صحن کے ساتھ کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضرت صاحب نے اور میاں نظام الدین ؓنے کوٹھڑی کے اندر ایک پیالہ میں کھانا کھایا۔
٭……حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی آئے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگوانے شروع کیے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔ میں عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیے بیٹھے تھے اورایک صاحبزادہ (جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تھے) پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لیے بھیج دیا۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی۔ نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں۔ پھر میں کسی سے لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا۔ آپؑ نے فرمایا کہ کسی اَور کو دے دو مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔ اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو۔ پھر میں لے آیا۔
٭……حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھارہا تھا۔ حضرت صاحب تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا آپ دال سے روٹی کھارہے ہیں؟ اور اسی وقت منتظم کو بلاکر فرمایا کہ آپ سحری میں ایسا کھانا دیتے ہیں۔ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے دریافت کرو کہ ان کو کیا کیا چیز کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لیے تیار کیا جائے۔
٭……حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جو لوگ جلسہ یا دوسرے مواقع پر قادیان آتے تھے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام و آسائش کا از حد خیال رہتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں تکلّف بالکل نہیں تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے۔
اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اسے مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے، مصافحہ کرتے، خیریت پوچھتے، عزت کے ساتھ بٹھاتے، گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بناکر پیش کرتے، سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کرواکے لاتے، رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بلاکر تاکید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
٭……حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر روالپنڈی میں دکان کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہورہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا۔ رات کو جب میں کھانا کھاکر لیٹ گیا اور کافی رات گزر گئی تو کسی نے میرے کمرے کے دروازہ پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعودؑ کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ مَیں حضورؑ کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضورؑ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آئوں۔ آپ یہ دودھ پی لیں، آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی۔ سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے کہ سُبْحَانَ اللّٰہ کیا اخلاق ہیں۔ یہ خدا کا برگزیدہ اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذّت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے!۔
٭……حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑاپنے دوستوں کی بہت خدمت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مَیں قادیان آیا اور مسجد مبارک میں حضورؑ سے ملاقات کی۔ باتیں کرتے رہے۔ فرمانے لگے: مفتی صاحب! آپ کو بھوک لگی ہوگی۔ میں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں۔ میں نے سمجھا اندر سے کسی خادمہ کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے۔ چند منٹ کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ حضور خود مجمع اٹھائے ہوئے جس میں سالن اور روٹی رکھی ہوئی تھی آئے، بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ تو حضورؑ نے فرمایا مفتی صاحب! آپ روتے کیوں ہیں۔ ہم تو اپنے دوستوں کی اس لیے خدمت کرتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنے دوستوں کی خدمت کریں اور ہم تو لوگوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔
٭……حضرت مولوی فضل محمد صاحبؓ مہاجر روایت فرماتے ہیں کہ حضور کا اپنے مہمانوں سے بالکل ایسا تعلق تھا جو ایک شفیق باپ کا اپنی عزیز اولاد سے ہوتا ہے۔ حضور ابتدا میں کبھی اپنے مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور اس میں بھی حضور کا طریق یہ ہوتا کہ مہمان کی دلداری اور خاطر ملحوظ رکھتے۔ ایک دفعہ مسجد مبارک میں کچھ دوست کھانا کھانے بیٹھے۔ حضور اندر سے تشریف لائے اور مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ حضور چھوٹا سا ٹکڑا لیتے تھے اور اس سے ذرا سا سالن لگاتے تھے اور اسے کھاتے تھے۔ اپنے سامنے سے بوٹیاں اٹھا اٹھا کر دوسروں کے برتنوں میں رکھتے جاتے تھے۔ مجھے اس وقت خیال گزرا کہ کون باپ ہوگا جو ایسی شفقت اپنے بچوں سے کرتا ہوگا۔ ایک دفعہ جب قادیان سے وطن کو واپس ہونے لگا۔ تو حضرت اقدس نے میری گٹھڑی فوراً اپنے قبضہ میں کرلی۔ میں نے ہر چند حضرت سے لینی چاہی لیکن حضور نے نہ دی۔ اور خود اٹھا کر میرے ساتھ ساتھ گئے اور یکے پر سوار کرکے وہ گٹھڑی اندر رکھوادی۔
٭……حضرت شیخ عرفانی صاحب ؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ امرتسر میں تھے۔ سب مہمانوں کو کھانا کھلا دیا گیا۔ حضرت اقدسؑ کے لیے کھانا رکھنا یاد نہ رہا۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو حضور نے کھانے کے متعلق دریافت فرمایا۔ دیکھا تو کھانا کچھ باقی نہ تھا۔ فرمایا وہ دستر خوان لے آئو جس پر مہمانوں نے کھانا کھایا ہے۔ وہ لایا گیا۔ اس میں جو بچے ہوئے ٹکڑے تھے ان میں سے چند ٹکڑے کھالیے۔
حضرت اقدسؑ نے اپنے ایک عربی قصیدہ میں ابتدائی ایام میں گھر والوں کی طرف سے مہیا کردہ خوراک کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
لفاظات الموائد کان اُکلی
فصرت الیوم مطعام الاھالی
ترجمہ : ایک وقت تھا کہ دستر خوان کے ٹکڑے میں کھاتا تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ کئی قبیلے مجھ سے پرورش پارہے ہیں۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا جون 2012ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی جلسہ سالانہ انگلستان کے حوالہ سے ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
بند تم نے کر دیے جلسے جو پاکستان میں
اب منعقد شان سے ہوتے ہیں انگلستان میں
ہوں میسّر جن کو پَر اُڑ کر پہنچتے ہیں ضرور
اور جو بے پَر ہیں رہتے ہیں اسی ارمان میں
ایم ٹی اے کا ہو بھلا یہ زخمِ فرقت کی دوا
اس کا حصہ خُوب ہے اس درد کے درمیان میں
گھر میں ہر اِک احمدی کے جلوہ فرما ہیں حضور
تازگی آتی ہے اُن کو دیکھ کر ایمان میں
شش جہت میں گونجتی ہے آج اُس کی بازگشت
وہ جو مدھم سی صدا اُٹھی تھی ہندوستان میں
ایک دن دنیا میں گُونجے گی یہی آوازِ حق
ہم میں بھی وہ گُونج ہے جو گُونج ہے اَذان میں