حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 20)

بنو ہوازن کےاموال

یتامیٰ کے اموال کے لینے سے رسول کریمؐ نے جس احتیاط سے انکار کر دیا اور باوجود اصرار کے مسجد کے لیے بھی زمین کا لینا پسند نہ کیا وہ تو پچھلے واقعہ سے ظاہر ہے۔اب ایک اور واقعہ اسی قسم کا لکھتا ہوں۔ہوازن کے سا تھ جب رسول کریمﷺکا مقابلہ ہؤا تو ان کے بہت سے مرد اور عورتیں قید ہوئے اور بہت سا مال بھی صحابہؓ کے قبضہ میں آیا۔چونکہ آنحضرت ﷺ نہایت رحیم و کریم انسان تھے اور ہمیشہ اس بات کے منتظر رہتے کہ لوگوں پر رحم فرمائیں اور انہیں کسی مشقت میں نہ ڈالیں۔آپؐ نے نہایت احتیاط سے کام لیا اور کچھ دن تک انتظار میں رہے کہ شا ید قبیلہ ہوازن کےلوگ آکر عفو طلب کریں تو ان کےاموال اور قیدی واپس کر دیے جا ئیں مگر انہوں نے خوف سے یا کسی باعث سے آپؐ کے پاس آنے میں دیر لگا ئی تو آپؐ نے اموال وقیدی بانٹ دیے۔اس واقعہ کو امام بخاری ؒ نے مفصل بیان کیا ہے۔مِسْوَرْبن مخرمہ ؓ کی روایت ہے۔

اَنَّ رَسُوْلَ اللہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ حِیْنَ جَآءَہٗ وَفَدُ ھَوَازِنَ مُسْلِمِیْنَ فَسْأَ لُوْہُ اَنْ یَّرُدَّ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَسَبْیَھُمْ فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیِ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَحَبُّ الْحَدِیْثِ اِلَیَّ اَصْدَقُہٗ فَاخْتَارُوْ اِحْدَیِ الطَّائِفَتَیْنِ اِمَّا السَّبْیَ وَاِمَّا الْمَالَ وَقَدْ کُنْتُ اِسْتَاْنِیْتُ بِکُمْ وَقَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اِنْتَظَرَ ھُمْ بِضْعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حِیْنَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُرآدٍّاِلَیْھِمْ اِلَّا اِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوْ افَاِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا فَقَامَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمُسْلِمِیْنَ فَاَثْنٰی عَلیٰ اللہِ تَعَالیٰ بِمَا ھُوَ اَھْلُہٗ ثُمَّ قَالَاَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ اِخْوَا نَکُمْ ھٰٓؤُلَآ ءِ قَدْ جَاءُ وْنَا تَائِبِیْنَ وَاِنّیْ قَدْ رَاَیْتُ اَنْ اَرُدَّ اِلَیْھِمْ سَبِیْھُمْ فَمَنْ اَحَبَّ مِنْکُمْ اَنْ یُّطَیِّبَ بِذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ اَحَبَّ مِنْکُمْ اَنْ یَّکُوْنَ عَلیٰ حَظِّہٖ حَتّٰی نُعْطِیَہٗ اِیَّاہٗ مِنْ اَوَّلِ مَا یُفِیْئُ اللہُ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّا لَانَدْرِیْ مَنْ اَذِنَ مِنْکُمْ فِیْ ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَاْذَنْ فَارْجِعُوْاحَتّٰی یَرْفَعَ اِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَھُمْ عُرَفَاؤُھُمْ ثُمَّ رَجَعُوْااِلیٰ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَخْبَرُوْہُ اَنَّھُمْ قَدْ طَیَّبُوْاوَاَذِنُوْا۔(بخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وھب شیئا لوکیل)

ترجمہ:-جب وفد ہو ازن بحالت قبول اسلام آنحضرت ﷺ کے پاس آیا آپؐ کھڑے ہو ئے۔ہوازن کے ڈیپوٹیشن کے ممبروں نے آنحضرت ؐ سے سوال کیا کہ ان کے مال اور قیدی واپس کیے جا ئیں۔رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فر ما یا کہ مجھے سب سے پیاری وہ بات لگتی ہےجو سب سے زیادہ سچی ہو۔پس میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ دونوں چیزیں تمہیں نہیں مل سکتیں۔ہاں دونوں میں سے جس ایک کو پسند کرو وہ تمہیں مل جائے گی۔خواہ قیدی آزاد کروالو خواہ اموال واپس لے لو۔اور میںتو تمہارا انتظار کر تا رہا مگر تم نہ پہنچے،اور رسول کریمؐ طائف سے لوٹتے وقت دس سے کچھ اوپر را تیں ان لوگوں کا انتظار کر تے رہے تھے جب انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ رسول کریم ؐ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر یہی بات ہے تو ہم اپنے قیدی چھڑوانا پسند کرتے ہیں۔اس پر آنحضرت ؐ مسلمانوںمیں کھڑے ہو ئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کر نے کے بعد فر ما یا کہ سنو تمہارے ہوازن کے بھا ئی تا ئب ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میری رائے ہے کہ میں ان کے قیدی انہیں واپس کر دوں۔پس جو کو ئی تم میں سے یہ پسند کرےکہ اپنی خوشی سے غلام آزاد کر دے تو وہ ایسا کر دے۔اور اگر کو ئی یہ چاہے کہ اس کا حصہ قائم رہے اور جب خدا سب سے پہلی دفعہ ہمیں کچھ مال دے تو اسے اس کا حق ہم ادا کر دیں تو وہ اس شرط سے غلام آزاد کر دے۔لو گوں نے آپؐ کا ارشادسن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم نے آپ ؐ کے لیے اپنےغلام خوشی سے آزاد کر دیے مگر رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا ہم تو نہیں سمجھتے کہ تم میں سے کس نےخوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی۔پس سب لوگ یہاں سے اٹھ کر اپنے خیموں پر جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار تم سے فیصلہ کرکے ہمارے سا منے معاملہ پیش کریں۔پس لوگ لوٹ گئے اور ہر قبیلہ کے سردار نے اپنے طور پر گفتگو کی پھر سب سردار رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ سب لوگوں نے دل کی خوشی سے بغیر کسی عوض کی طمع کے اجازت دے دی ہے کہ آپؐ غلام آزاد فر ما دیں۔

اس جگہ یہ با ت یا درکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرتؐ جس قبیلہ میں پلے تھے اور جس میں سے آپ کی دا ئی تھیں وہ ہوازن کی ہی ایک شاخ تھی۔پس ایک لحاظ سے ہواز ن کے قبیلہ والے آپؐ کے رشتہ دار تھے اور ان سے رضاعت کا تعلق تھا چنانچہ جب وفد ہوازن آنحضرت ؐکی خدمت میں پیش ہوا تو اس میں سے ابو بر قان اسعدی (آنحضرت ؐکی دائی حلیمہ سعد قبیلہ میں سے ہی تھیں)نے آپ ؐ کی خد مت میں عرض کیا

یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ فِیْ ھٰذِہِ الْحَظَا ئِرِ اِلَّا اُمَّھَا تُکَ وَخَالَا تُکَ وَحَوَاضِنُکَ وَمُرْ ضِعَا تُکَ فَامْنُنْ عَلَیْنَا مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکَ۔

یا رسول اللہ ان احاطوں کے اندر حضورکی ما ئیں اور خالہ اور کھلا یاں اور دودھ پلائیاں ہی ہیں اور تو کو ئی نہیں پس حضورؐ ہم پر احسان فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ پر احسان کرے گا۔پس ہوازن کے سا تھ آپ کا رضا عی تعلق تھا اور اس وجہ سے وہ اس بات کے مستحق تھے کہ آنحضرت ؐ ان کے ساتھ نیک سلوک کر تے۔چنانچہ آپؐ نے اسی ارادہ سے دس دن سے زیادہ تک اموال غنیمت کو مسلمانوں میں تقسیم نہیںکیا اور اس بات کے منتظر رہے کہ جو نہی ہوازن پشیمان ہو کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اپنے اموال اور قیدیوں کو طلب کریں توآپؐ واپس فرما دیں کیونکہ تقسیم غنائم سے پہلےآپ کا حق تھا کہ آپ جس طرح چاہتے ان اموال اور قیدیوں سے سلوک کر تے خواہ بانٹ دیتے خواہ بیت المال کے سپرد فر ما تے۔خواہ قیدیوں کو آزاد کر دیتے اور مال واپس کر دیتے مگر باوجود انتظار کے ہوازن کا کو ئی وفد نہ آیا جو اپنے اموال اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کر تا اس لیے مجبوراً دس دن سے زیا دہ انتظار کرکے طائف سے واپس ہو تے ہوئے جعرانہ میں آپ نے ان اموال اور غلاموں کو تقسیم کر دیا۔تقسیم کے بعد ہوازن کا وفد بھی آپہنچا اور رحم کا طلبگار ہوا اور اپنا حق بھی جتا دیا کہ یہ قیدی غیر نہیں ہیں بلکہ جنابؐ کے ساتھ کچھ رشتہ اور تعلق رکھتے ہیں اور اس خاندان کی عورتیں ان قیدیوں میں شا مل ہیں جس میں کسی عورت کا حضور نے دودھ بھی پیا ہے اور اس لحاظ سے وہ آپ کی ما ئیں اور خالائیں اور کھلائیاں اور دائیاں کہلانے کی مستحق ہیں پس ان پر رحم کر کے قیدیوں کو آزاد کیا جائے اور اموال واپس کیے جا ئیں۔تقسیم سے پہلے تو حضور ضرور ہی ان کی درخواست کو قبول کر لیتے اور آپؐ کا طریق عمل ثابت کر تا ہے کہ جب کبھی بھی کو ئی رحم کا معاملہ پیش ہوا ہے حضور سرور کائنات نے بے نظیر رحم سے کام لیا۔مگر اب یہ مشکل پیش آگئی تھی کہ اموال و قیدی تقسیم ہو چکے تھے اور جن کے قبضہ میں وہ چلے گئے تھے اب وہ ان کا مال تھا۔اورگو وہ لوگ اپنی جان و مال کو اس حبیب خدا کی مرضی پر قربان کر نے کے لیے تیار تھے اور انہوں نے سینکڑوں موقعوں پر قربا ن ہو کر دکھا بھی دیا مگر پھر بھی ہر قسم کے لوگ ہو تے ہیں۔کچھ کمزور اور ناتوان ہو تے ہیں کچھ قوی دل اور دلیر اس لیے حضور ؐنے اس موقع پر نہایت احتیاط سے کام لیا اوربجا ئے اس کے کہ فوراً صحابہ ؓکو حکم دیتے کہ ہوازن سے میرا رضا عی رشتہ ہے تم ان کے اموال اور قیدی رہا کر دو اول تو خود ہوازن کو ہی ملا مت کی کہ تم نے دیر کیوں کی اگر تم وقت پر آجا تے توجس طرح اور عرب قبا ئل سے سلوک کیا کر تے تھے تم پر بھی احسان کیا جا تا اور تمہارا سب مال اور قیدی تم کو مل جاتے مگر خیر اب تم کو اموال اور قیدیوں میں سے ایک چیز دلا سکتا ہوں اور اس فیصلہ سے آنحضرتؐ نے گو یا نصف بوجھ مسلمانوں پر سے اٹھا دیا اور فیصلہ کر دیا کہ دو میں سے ایک چیز تو انہیں کے ہا تھ میں رہنے دی جائے اور جب ہوازن نے قیدیوںکی واپسی کی درخواست کی تو آپؐ نے پھر بھی مسلمانوں کو سب قیدی واپس کر نے کا حکم نہیں دیابلکہ کہہ دیا کہ جو چاہے اپنی خوشی سے آزاد کر دے اور جو چاہے اپنا حصہ قائم رکھے۔آئندہ اللہ تعالیٰ جو سب سے پہلا موقع دے اس پر اس کا قرضہ اتار دیا جا ئے گا اور اس طرح گو یا ان تمام کمزور طبیعت کے آدمیوں پر رحم کیا جو ہر قوم میں پا ئے جا تے ہیں۔مگر ہزار آفرین ہے اس جماعت پر جو آنحضرت ؐ کی تعلیم سے بنی تھی کہ آپؐ کا ارشاد سن کر ایک نے بھی نہیں کہاکہ ہم آئندہ حصہ لے لیں گے بلکہ سب نے بالا تفاق کہہ دیا کہ ہم نے حضورؐ کی خاطر سب قیدیوں کو خوشی سے رہا کر دیا مگر آپؐ نے اس پر بھی احتیاط سے کام لیا اور حکم دیا کہ پھر مشورہ کر لیں ایسانہ ہو بعض کی مرضی نہ ہو اور ان کی حق تلفی ہواپنے اپنے سرداروں کی معرفت اپنے فیصلہ سے اطلاع دو۔چنانچہ جب قبائل کے سرداروں کی معرفت آنحضرت ؐکو جواب ملا تو تب آپ نے غلام آزاد کیے۔سُبْحَانَ اللہ کیسی احتیاط ہے اور کیا بے نظیر تقویٰ ہے۔آپؐ نے یہ با ت بالکل بر داشت نہ کی کہ کوئی شخص آپؐ پر یہ اعتراض کرے کہ آپؐ نے زبردستی ہوازن کے غلام آزاد کرادیے۔ اور چونکہ اس قبیلہ سے آپؐ کا رضا عی تعلق تھا اس لیے آپ نے خاص احتیاط سے کام لیا اور با ربار پو چھ کر قیدیانِ ہوازن کو آزادی دی۔

سچّے مرید

اگر کسی شخص نے سچے مرید اور کامل متبع دیکھنے ہوں تو وہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ ؓکو دیکھے جو اپنے جان و مال کو رسول کریمؐ کے نام پر قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کر تے تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عضل اور قارۃ دو قبیلوں کے کچھ لو گ آنحضرت ﷺ کی خد مت میںحاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ ہماری قوم اسلام کے قریب ہے آپؐ کچھ آدمی بھیجئے جو انہیں دین اسلام سکھا ئیں۔آپ ؐنے ان کی در خواست پر چھ صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ وہاں جا کر انہیں اسلام سکھائیں اور قرآن شریف پڑھائیں۔ ان صحابہ ؓ کا عامر بن عاصم رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا۔

جب یہ لوگ صحابہؓ کو لے کر چلے تو راستہ میں ان سے شرارت کی اور عہد شکنی کرکے ہذیل قبیلہ کے لوگوں کو اکسایا کہ انہیں پکڑلیں۔انہوں نے ایک سو آدمی ان چھ آدمیوں کے مقابلہ میں بھیجا۔صحابہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے ۔کفارنے ان سے کہا کہ وہ اترآئیں وہ انہیں کچھ نہ کہیں گے۔حضرت عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ انہیں کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں وہ نہیں اتریں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ہماری حالت کی رسول اللہ ؐ کو خبر دے۔مگر چھ میں سے تین آدمی کفار پر اعتبار کرکے اتر آئے۔مگر جب انہوں نے ان کے ہاتھ باندھنے چا ہے تو ایک صحابی ؓ نے انکار کر دیا کہ یہ تو خلاف معاہدہ ہے مگر وہاں معاہدہ کون سنتا تھا اس صحابی ؓ کو قتل کر دیا گیا با قی دو میں سے ایک کو صفوان بن امیہ نے جو مکہ کا ایک رئیس تھا خرید لیا اور اپنا غلام کر کے نسطاس کے سا تھ بھیجا کہ حرم سے با ہر اس کے دو بیٹوں کے بدلہ قتل کر دے۔نسطاس نے قتل کرنے سے پہلے ابن الدثنہ رضی اللہ عنہ (اس صحا بی) سے پو چھا کہ تجھے خدا کی قسم سچ بتا کہ کیا تیرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا رسول اس وقت یہاں ہمارے ہا تھ میں ہو اور ہم اسے قتل کریں اور تو آرام سے اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہو۔ابن الدثنہ رضی اللہ عنہٗ نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کر تا کہ محمد (ﷺ) وہاں ہوں جہاں اب ہیں (یعنی مدینہ میں) اور ان کے پاؤں میںکو ئی کانٹا چبھے اورمیں گھر میں بیٹھا ہؤا ہوں۔اس بات کو سن کر ابوسفیان جو اس وقت تک اسلام نہ لا یا تھا وہ بھی متاثر ہو گیا اور کہا کہ میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کر تے ہو ئے نہیں دیکھا جتنی محمد(ﷺ) کے صحابی محمد(ﷺ) سے محبت کر تے تھے۔

یہ وہ اخلاص تھا جو صحابہ ؓ کو آنحضرت ﷺ سے تھا اور یہی وہ اخلاص تھا جس نے انہیں ایمان کے ہر ایک شعبہ میں پا س کرا دیا تھا اور انہوں نے خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔اے احمدی جماعت کے مخلصو! تم بھی مومن نہیںہو سکتے جب تک رسول کریمؐ اور پھر مأمورِ وقت مسیحِ موعوؑد سے ایسی ہی محبت نہ رکھو۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button