خطبہ جمعہ فرمودہ 05؍ جولائی 2019ء
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ05؍ جولائی 2019ء بمطابق 05؍ وفا 1398 ہجری شمسی بمقام DM-Arena، کالسروئے،(جلسہ گاہ) جرمنی
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
خطبہ کے آغاز میں حضور انور نے منتظمینِ جلسہ سے استفسار فرمایا : آخر تک ٹھیک آواز آ رہی ہے؟ آپ کا انتظام ہے، چیک کیا ہے؟
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں میں سے جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر ملے ایک یہ بھی ہے اور یہ بہت بڑا فضل اور انعام ہے جو ہمیں جلسہ سالانہ کی صورت میں مل رہا ہے تا کہ ہم اپنی روحانی اور اخلاقی اور علمی بہتری کے لیے کوشش کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور تقویٰ میں بڑھنے کے سامان کر سکیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لیے اپنے دلوں کو صاف کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسے کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کر سکیں۔ آپس میں رنجشوں اور دوریوں کو صلح اور قرب میں بدلنے کی کوشش کریں۔ اپنے آپ کو لغویات سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تمام باتیں جلسہ کے انعقاد کے مقصد میں بیان فرمائی ہیں۔
احمدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد سارا سال جلسہ سالانہ کا انتظار کرتی ہے اور کیلنڈر کا اگلا سال شروع ہوتے ہی اس انتظار میں اور جلسہ کے انعقاد کے شوق میں مزید تیزی آ جاتی ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کو بھی انتظار ہوتا ہے جو یہاں ایک عرصے سے رہ رہے ہیں اور خاص طور پر ان کو تو بہت انتظار ہوتا ہے جو پاکستان سے نئے نئے یہاں آتے ہیں اور اپنے حالات کی وجہ سے یہاں اسائلم بھی لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ قانونی پابندیوں کی وجہ سے وہاں تو جلسے منعقد نہیں کر سکتے اور ایک عرصے سے ان کو یہ پتا ہی نہیں کہ جلسہ سالانہ کیا چیز ہے اور اب اس کی تعداد بھی سینکڑوں سے ہزاروں میں ہو گئی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح باہر کے ممالک سے صرف جلسے میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور کافی تعداد میں اب لوگ جرمنی میں بھی آ رہے ہیں۔ اس سال تو افریقہ کے بھی بعض ممالک کے کچھ لوگ جلسے پہ آئے ہیں جن میں مقامی لوگ بھی شامل ہیں۔ جلسے میں شامل ہونے کا شوق اور جلسے کا انتظار اس لیے ہوتا ہے اور ہونا چاہیے کہ جلسے کے انعقاد کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جو یہ سوچ نہیں رکھتا اور اس نیت سے جلسے میں شامل نہیں ہوتا اس کا جلسے کا انتظار بھی فضول اور لغو ہے اور جلسے میں شامل ہونا بھی فضول اور لغو بات ہے۔ پس ہر شخص کو جو جلسے میں شامل ہو رہا ہے، مرد ہے یا عورت اس بات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ کیا وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کر رہا ہے یا اس نیت سے جلسہ میں شامل ہوا ہے؟ تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا اس سوچ کے ساتھ یہاں آیا ہے؟ اگر نہیں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسے میں شمولیت، جلسے پر آنا فضول ہے اور کوئی فائدہ نہیں دےگا ۔ ماحول بے شک اثر ڈالتا ہے لیکن اس ماحول کے اثر کو قبول کرنے کے لیے انسان کی اپنی کوشش کا بھی دخل ہے۔ پس اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی ہو گی تا کہ ان تمام باتوں کا حصول ممکن ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم جذب کرنے والے ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلسہ پر آنے والوں کے لیے کی گئی دعاؤں کے بھی مستحق بنیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا ہے جو اس سوچ کے ساتھ اس جلسہ میں شامل نہیں ہوتے اور اپنے عملوں کو اس کے مطابق نہیں ڈھالتے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لیے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علّتِ غائی جس کے لیے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاحِ خلق اللہ ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)
پس آپؑ نے واضح فرما دیا کہ ظاہری شان و شوکت اور دکھاوے کے لیے لوگوں کو جمع کرنا مقصد نہیں ہے جس طرح گدی نشین پیر عرسوں اور میلوں کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔ بلکہ وہ مقصد جس کے لیے میں نے جلسے کا طریق اختیار کیا ہے صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی اصلاح ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ اور اپنی اصلاح نہ کرنیو الوں سے صرف بیزاری کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ آپؑ نے کراہت کا بھی اظہار فرمایاہے۔ تیس ہزار یا پینتیس ہزار یا چالیس ہزار کی بھی حاضری ہو جاتی ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے اگر آپؑ کی خواہش کو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے ہم بیعت کرنے کے بعد اپنے دل میں دنیا کی محبت لیے بیٹھے ہوں اور اللہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس دنیاوی محبت پر حاوی نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق ہم اپنی زندگیاں گزارنے والے نہیں اور ان تین دنوں میں بھی دنیا ہی ہمارے سامنے ہو۔ پس ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔
چند دن پہلے رمضان ختم ہوا ہے جو ایک روحانی اصلاح اور ترقی کا مہینہ تھا جس میں ذاتی عبادتیں اور روزے اور ذکر الٰہی کا موقع ہر ایک مومن کو میسر آیا اور اب ایک اَور تین دن کا کیمپ ہے جس میں دینی اور علمی ترقی کے موقعے کے ساتھ عبادتوں اور ذکرِ الٰہی کا ماحول ہے اور ان تمام باتوں کے اجتماعی اظہار کا بہتر موقع ہے۔ سب جمع ہو کر عبادتوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں، نوافل بھی پڑھتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں اور چاہے اپنی اپنی زبان میں، جو ان کے دل میں دعائیں اور ذکرِ الٰہی ہے وہ ذکرِ الٰہی کر رہے ہوں لیکن پورا ماحول اگر ذکر ِالٰہی کر رہا ہے تو وہ بھی ذکرِ الٰہی کا ایک اجتماعی رنگ ہے۔ اگر ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو پھر کب اور کس طرح اٹھائیں گے۔
پس ایک بہت بڑی ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پر ڈالی ہے اور اپنے ماننے والوں سے بڑی توقعات وابستہ فرمائی ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ اس ماحول کا حقیقی فائدہ تبھی ہو گا جب دنیا کی محبت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے مقابلے میں ٹھنڈی ہو جائے گی۔ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دینا یہ بہت بڑی بات ہے اور یہی چیز ہے جو حقیقی مومن بناتی ہے۔ اس جلسہ کے تین دنوں کے بعد دنیا کے کام بھی کرنے ہیں۔ لیکن اس تربیت کا اور شمولیت کا فائدہ تبھی ہو گا کہ جب ہم دنیا کے کاموں کے باوجود دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ ان تین دنوں میں خاص طور پر دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی کرنی ہو گی۔
ہم جلسہ کے دنوں میں یہ بھی یہاں دیکھتے ہیں کہ بازار بھی مہیا کیے گئے ہیں، سٹال بھی لگتے ہیں اور دنیاوی چیزوں کی یہاں خرید و فروخت بھی ہو جاتی ہے لیکن جلسے میں شامل ہونے والے بھی اور بازار لگانے والے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ بازاروں میں پھرنا اور شاپنگ کرنا اور اپنی چیزوں پر منافع حاصل کرنے کی کوشش کرنا دنیاداری ہے۔ اس لیے خریدار بھی اور دکاندار بھی اس سے بچیں اور جلسہ کے جو لوگ ہیں یہ دونوں خاص طور پر جلسہ کی کارروائی توجہ سے سنیں اور اس کے بعد وقفوں میں دونوں کا حق ہے، دونوں کو اجازت ہے کہ بازاروں میں جائیں لیکن پھر بازار کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں اور بازاروں کے حق یہ ہیں کہ وہاں چلتے پھرتے ایک دوسرے کو سلام کریں۔ ذکرِ الٰہی میں مصروف رہیں۔ دکانوں پر کسی خاص چیز کو دیکھنے کے بعد رَش کر کے دھکم پیل نہ کریں۔ دکاندار جائز منافعے سے اپنی چیزیں فروخت کریں۔کسی کی مجبوری سمجھ کر ناجائز منافع نہ کمائیں۔ بازاروں میں بھی جیسا کہ میں نے کہا ذکرِ الٰہی مستقل کرتے رہیں۔ جو دکاندار ہیں وہ بھی اس دوران میں (ذکرِالٰہی) بھی کرتے رہیں۔ یہ ظاہری شکل میں ہم اختیار کریں گے تو ہمارے دلوں کی حالت بھی بدلے گی اور ہمارے اندر تقویٰ بھی پیدا ہو گا، اللہ تعالیٰ کی محبت بھی پیدا ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمارے اندر یہ نیکیاں پیدا کرنے اور تقویٰ کا معیار بلند کرنے کے لیے مزید فرماتے ہیں کہ
خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے غرض یہی رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا سے مفقود ہو گئی تھی اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانے میں پائی نہیں جاتی تھی اسے دوبارہ قائم کرے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 277-278)
پھر آپ ایک موقعے پر ہمیں اپنے تقویٰ کے معیار بلند کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو۔ آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کیے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت دلوں میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ۔ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔‘‘
(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308)
پس یہ باتیں ہیں جنہیں ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ کس طرح ہم نے حقیقی تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کسی ایک نیکی کو بجا لانا تقویٰ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تمام قسم کی نیکیاں بجا لانا، خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے تمام قسم کے حقوق ادا کرنا اصل تقویٰ ہے۔ (ماخوذ از ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210) اس لحاظ سے اگر ہم جائزہ لیں تو خود ہی ہمارے سامنے ہماری حالتوں کی جو صورت بنتی ہے وہ آ جائے گی۔
بعض لوگ باہر جماعتی کاموں میں اچھے ہیں تو گھروں میں بیوی بچے ان سے تنگ آئے ہوئےہیں۔ بعض گھروں کے حق ادا کر رہے ہیں تواللہ تعالیٰ کے حق اور اس کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہے۔ اس قسم کی شکایتیں ملتی ہیں۔ بعض بظاہر عبادت کرنے والے ہیں تو معاشرے کے آپس کے معاملات میں ایک دوسرے کا حق مارنے والے ہیں۔ بعض دنیا والوں کے سامنے بعض نیکیاں کرنے والے ہیں تو صرف دکھاوے کے لیے اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو بھی جانتا ہے اور وہ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری جماعت شمار ہونے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے، اس کے فضلوں کا وارث بننے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے لطف و احسان کو حاصل کرنے کے لیے ہر جہت سے اور ہر پہلو سے اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جلسے کے اہتمام اسی غرض کے لیے کیے گئے ہیں کہ نیکیوں کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ اور جو مقررین ہیں وہ بھی اپنی تقریروں میں اس طرف توجہ دلاتے رہیں۔ ہمیں ایک ماحول میں رکھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی رہے کہ ہمارے ہر عمل میں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے
لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النور:38)‘‘
یعنی جنہیں نہ کوئی تجارت نہ خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل رکھتی ہے۔ فرمایا کہ ’’جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس طرح ،’’اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 20-21)
پس یہ وہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس حالت کے پیدا کرنے کی کوشش کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ ہم اس حالت کے حاصل کرنے والے بن سکیں اور جب ہم یہ حالت پیدا کریں گے اور اس کے لیے کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہمیں یاد رکھے گا جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے کہ اُذْکُرُوا اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کا اللہ تعالیٰ ذکر کرے، انہیں یاد رکھے۔ ہمارا مولیٰ ہمیں صرف اس بات پر اتنا نوازے کہ ہم دنیاوی مصروفیات میں اپنے مولیٰ کو نہیں بھولے اور ان دنوں میں خاص طور پر اس بات کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کا حقیقی ذکر کریں اور پھر اللہ تعالیٰ ہمیں یاد رکھ کراپنے فضلوں کا موردبنائے۔
پس جلسے میں آنے والے بھی اور ڈیوٹیاں دینے والے بھی ان دنوں میں ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کوتر رکھنے کی کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بنیں۔ اس سے بڑی اَور کیا بات ہمارے لیے ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یاد رکھے۔ پس اس کے حصول کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشاد کے مطابق آسمان پر آپؑ کی جماعت شمار ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ہمیں فکر میں ڈالنے والے ہونے چاہئیں کہ آسمان پر میری جماعت تب شمارہو گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ بیعت کے بعد ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے عزیزوں کی طرف سے بھی دھتکارے گئے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے یہاں اس لیے ہجرت کرکے آئے کہ احمدی ہونے کی وجہ سے مخالفینِ احمدیت کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ ملکی قانون نے ہماری مذہبی آزادی پر پابندیاں لگائیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود اور ان سب تکلیفوں کے باوجود جو پاکستان میں یا بعض اَور ممالک میں احمدی برداشت کر رہے ہیں یا آپ میں سے بھی بعض نے کی ہیں پھر ہم اپنے عملوں کی کمی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شمار نہ ہوں اور ان لوگوں میں اور ان خوش قسمت لوگوں میں شامل نہ ہوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو یہ کتنا گھاٹے کا سودا ہے۔ پس ان دنوں میں بہت دعائیں کریں اور ہمیں یہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ ہم ان لوگوں میں شمار نہ ہوں جن سے خدا تعالیٰ راضی نہیں بلکہ ان لوگوں میں شامل ہوں جن کا ذکر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے ہم پختہ تعلق جوڑنے والے ہوں۔ اپنے دلوں کے اندھیروں کو مٹانے والے ہوں۔ یہاں جلسہ کی کارروائی کے دوران بھی اور وقفوں میں بھی اور رات کو بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ یہ دعا مانگیں اور عہد کریں کہ اے خدا ہم نیک نیت ہو کر تیرے مسیح کے جاری کردہ اس جلسے میں شامل ہوئے جو یقیناً تیری خاص تائیدات اور اذن سے جاری ہوا۔ اس میں تیری رضا کے حصول اور تیرے ذکر میں بڑھنے اور تیری محبت کے حصول کے لیے شامل ہوئے ہیں۔ اپنی ان تمام برکات سے ہمیں متمتع فرما جو تو نے اس جلسے سے وابستہ کی ہیں اور ہمارے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا فرما جو تُو چاہتا ہے اور جس کو قائم کرنے کے لیے تُو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو اس زمانے میں بھیجا ہے تا کہ ہم اس کی بیعت میں حقیقی رنگ میں شامل ہونے والے بن سکیں۔ پس جب ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اور درود و استغفار کرتے ہوئے یہ دن گزاریں گے، اپنے دنوں کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کریں گے تو ہماری عبادتوں کے معیار بھی بلند ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بھی بنیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان جلسوں کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا تھا کہ جماعت کے افراد کا آپس کا تودّد و تعارف بڑھے۔(ماخوذ از آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352) پس جہاں نئے آنے والوں سے احمدیت کے رشتے کی وجہ سے محبت اور تعارف کا رشتہ قائم ہو گا وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ پرانے رشتوں میں مزید محبت پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے بے انتہا نوازتا ہے جو اپنے بھائی سے خدا تعالیٰ کی خاطر محبت کرتا ہے۔ پس ان دنوں کو آپس کی رنجشوں کو دور کرنے کا ذریعہ بھی بنائیں نہ یہ کہ یہاں آکر اگر ان لوگوں کا آمنا سامنا ہو جائے جن کی آپس میں رنجشیں ہیں تو یہ آپس کی رنجشیں غضب دکھانا شروع کر دیں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور بغض مزید بڑھ جائے اور وہ جلسے کے ماحول کو اس وجہ سے پھر خراب کرنے والے بن جائیں اور بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ناراضگی کا موجب بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جلسہ سالانہ کو بھی شعائر اللہ میں شامل فرمایا ہے تو جولوگ شعائر اللہ کے تقدس کونقصان پہنچاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آتے ہیں۔(ماخوذ از افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1931ء، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 389)پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ جن کی ناراضگیاں ہیں ان کو چاہیے کہ فوراً ایک دوسرے کے لیے صلح کا ہاتھ بڑھائیں اور اب ایسا ماحول پیدا کریں جہاں اناؤں کے خولوں میں بند ہونے کے بجائے اور اس کی آگ میں جلنے اور حسد کی آگ میں جلنے کی بجائے سلامتی اور صلح کا خوبصورت ماحول پیدا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ حدیث 10)
ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کیا یہ ارشاد ہماری حالتوں کی عکاسی کرتا ہے، ہمارے عمل اس کے مطابق ہیں؟ کیا ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سو فیصد اس پر عمل کرنے والے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے، اگر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سچ ہے تو پھر قضا میں ہمارا کوئی معاملہ آنا ہی نہیں چاہیےاور ملکی عدالتوں میں حقوق کے حصول کے لیے مقدمات جانے ہی نہیں چاہئیں۔ مجھے بڑے افسوس سے یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض لوگ یہاںجلسہ پر آتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پرانے کینوں اور رنجشوں کی وجہ سے جلسے کے دنوں میں اس ماحول میں بھی دست و گریبان ہو جاتے ہیں، لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ پولیس کو بھی بلانا پڑتا ہے۔ کیا یہ ایک مومن کی شان ہے؟!کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کے یہ عمل ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ایسے لوگوں کو نظامِ جماعت اگر جماعت سے باہر نکالے یا نہ نکالے وہ اپنے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں جماعت سے باہر نکل جاتے ہیں ا ور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشاد کے مطابق وہ آسمان پر آپؑ کی جماعت میں شامل نہیں ہیں۔
پس اپنے جائزے لیں، دوعملیاں نہ ہوں۔ اپنے دلوں کے میل ایسے لوگوں کو نکالنے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عفو، درگزر اور صلح کے طریق اختیار کرنے چاہئیں۔ دنیا کو یہ بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر ہماری روحانی اور اخلاقی حالتوں میں ایک انقلابی تبدیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح عہدیداران ہیں اور جلسہ کی ڈیوٹی دینے والے ہیں وہ ان دنوں میں خاص خیال رکھیں کہ ان کے اخلاق کے معیار بہت بلند ہونے چاہئیں۔ جن کی عام دنوں میں کسی سے کوئی رنجش تھی بھی تو ان کارکنوں کو جلسہ کے ماحول میں اسے صلح اور صفائی میں بدلنے کے لیے پہل کرنی چاہیے۔ نہ یہ کہ بدلے لینے کی صورت پیدا کریں۔ جلسے پر آنے والا ہر شخص مہمان ہے اور ہر عہدیدار اور ہر کارکن کا کام ہے کہ ہر قسم کی ذاتی رنجشوں کو دور کر کے اعلیٰ ظرفی اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کریں۔ عہدیداروں کی یہ خاص ذمہ داری ہے کہ ان میں برداشت کا مادہ زیادہ ہونا چاہیے۔ پس عہدیدار اپنے آپ کو ہر حال میں خادم سمجھیں اور افرادِ جماعت اور جلسے میں شامل ہونے والے عہدیداروں کو نظامِ جماعت کا نمائندہ سمجھیں تو تبھی کھچاؤ اور لڑائیوں کے ماحول میں بہتری آ سکتی ہے، آپس کی رنجشیں دور ہو سکتی ہیں۔
مجھے یہ بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بعض جماعتوں کے عہدیداروں نے اپنے عہدوں کا خیال نہیں رکھا۔ جلسے کے ماحول کی بات نہیں کر رہا ۔عام حالات میں بھی اپنی جماعتوں کی جماعتی ذمہ داریوں میں اور خدمتِ دین کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی بجائے دنیاوی عہدے کی طرح سمجھا ہے جس کی وجہ سے انہیں تبدیل بھی کرنا پڑا ہے۔
پس ایسے لوگ اگر یہاں جلسے پر آئے ہیں تو عبادت، ذکرِ الٰہی اور عاجزی میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ اگر ان کے خیال میں ان کے بارے میں غلط فیصلے بھی ہوئے ہیں تب بھی عاجزانہ راہیں اختیار کریں اور عاجزانہ راہیں اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور نظامِ جماعت کے بارے میں دلوں میں رنجشیں نہ لائیں۔ اگر غلط فیصلے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ وہ جانتا ہے، غیب کا بھی علم رکھتا ہے ، حاضر کا بھی علم رکھتا ہے۔ اس کے آگے اگر عاجز ہو کر جھکا جائے تو وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور مشکلات سے نکالتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اصل چیز عہدہ نہیں بلکہ اصل چیز اپنے بیعت کے حق کو ادا کرنا ہے۔ چاہے وہ عہدے دار ہے یا فردِ جماعت ہے اسے اس حق کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے اور اس حق کی ادائیگی کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ
’’اے میری ! جماعت خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو ، وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر ِآخرت کے لیے ایسا طیار کرے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طیار کیے گئے تھے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے ۔ لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لیے ہے اور بدقسمت ہے وہ جس کا تمام ہم و غم دنیا کے لیے ہے۔ ایساانسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی۔‘‘
فرمایا ’’اے سعادت مند لوگو !تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لیے مجھے دی گئی ہے۔ تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو، نہ آسمان میں سے ، نہ زمین میں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا۔ لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروساکرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں۔ سوتم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصّوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفسِ امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا۔ سو تم دل کے مسکین بن جاؤ۔ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لیے وعظ کرتے ہو۔ سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اورتمہارے دلوں کو صاف کرے۔ کیونکہ انسان کمزور ہے ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خداتعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں۔ اور خدااور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63)
پس یہ وہ معیار ہے جس پر ہم میں سے ہر ایک کو پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہیے، عہدیداروں کو بھی، کارکنوں کو بھی اور افرادِ جماعت کو بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں ،جو آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ، سعادت مند کہا ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کا مورد بنتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی نظرمیں سعادت تھی جو یہ فضل فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کی توفیق دی۔ یہ سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا۔ یہ پہلا قدم ہے یہ انتہا نہیں ہے۔ اس کی انتہا کے حصول کے لیے اس تعلیم پر عمل کرنا ضروری ہے جو آپ کو دی گئی ہے۔ دنیا کے کاروباروں کو اور کاموں کو بھی اس سوچ کے ساتھ ہمیں کرنا ہو گا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو کبھی نہ بھولو۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی کاروباروں سے منع نہیں کرتا بلکہ یہ ضروری ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس بات سے روکتا ہے کہ انسان راہب بن جائے، دنیا سے کٹ جائے، ایسی زندگی گزارے جو دنیا سے کٹی ہوئی زندگی ہو۔ دنیا میں رہنے کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات سے روکا ہے کہ دنیا کو انسان دین پر مقدم کر لے۔ دین ہر حالت میں مقدم رہنا چاہیے۔ ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر احمدی کے چہرے کے پیچھے احمدیت کا چہرہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا چہرہ ہے، اسلام کا چہرہ ہے۔ پس ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ ان چہروں کی حفاظت کرے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائی ہے اور موقع دیا ہے ان کی زیادہ بڑی ذمہ داری ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہماری بیعت کا دعویٰ کر کے پھر ہمیں بدنام نہ کریں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 137)
پس اس ارشاد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ صرف عہدیداروں کے لیے ہے اور باقی اس سے بَری الذّمہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہر شخص جو آپ کی بیعت میں شامل ہے اسے یہ فرمایا ہے اس لیے ہمیں اپنے قول و فعل میں کبھی تضاد نہیں رکھنا چاہیے ورنہ ہماری بیعت کے دعوے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ، کھوکھلے دعوے ہیں اور جلسہ میں شمولیت صرف دنیاداری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک دعا اس وقت میں پیش کرتا ہوں جس سے آپؑ کے درد کا اظہار ہوتا ہے جو آپؑ کے دل میں اپنے ماننے والوں کے لیے ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دمِ زندگی ہے کیے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچّی محبّت عطا کر دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہو گی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ یہ دعا ہمارے حق میں پوری ہو۔ ہماری نسلوں کے حق میں پوری ہو اور قیامت تک ہماری نسلیں بھی اس دعا سے فیض اٹھاتی چلی جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعا کی قبولیت کے لیے ہمیں عملی کوشش بھی کرنی ہو گی۔ اپنی حالتوں کو بھی کوشش کر کے بدلنا ہوگا اور دردِدل سے دعا بھی کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
اس دعا کے اگلے حصے میں آپ نے یہ بھی دعا کی ہے جس کے ہمارے حق میں قبول نہ ہونے کے لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبختِ ازلی ہے جس کے لیے یہ مقدّر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خداترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا! میری طرف سے بھی منحرف کر دے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو۔‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398)
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی حالت سے بچائے جس میں ہم خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادے سے منحرف ہونے والے ہوں۔ ہمارے ایمانوں کو ہمیشہ سلامت رکھے بلکہ اس میں اضافہ کرتا چلا جائے اور ہم ان تمام دعاؤں کے حاصل کرنے والے بنیں جو آپ نے اپنے ماننے والوں کے لیے اور ان کے حق میں کی ہیں۔
جلسہ کے بابرکت اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے بھی ان دنوں میں دعائیں کرتے رہیں اور محتاط بھی رہیں۔ دائیں بائیں نظر بھی رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہر شریر کی شرارت، ہر حاسد کے حسد سے ہمیں بچاتا رہے۔
٭…٭…٭