خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ19؍جولائی 2019ء
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ19؍جولائی 2019ء بمطابق 19؍ وفا 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح (مورڈن، سرے) ،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
آج بھی بدری صحابہ کا ذکر ہو گا ۔ جن صحابی کا آج پہلے ذکر ہے ان کانام ہے حضرت عامر بن سلمہؓ۔ حضرت عامر بن سَلَمہؓکو عمرو بن سلمہؓ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ بَلِیّ سے تھا۔ بلیّ عرب کے ایک قدیم قبیلہ قُضَاعہ کی ایک شاخ ہے جو یمن کے علاقے میں واقع ہے۔ اسی نسبت سے انہیں عامر بن سلمہ بَلَوِیؓ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عامر انصار کے حلیف تھے۔ حضرت عامر بن سلمہؓ کو غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ468، الانصار و من معھم من بنی جزء وحلفائھم ، دارالکتب العلمیة 2001ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ280، عامر بن سلمة داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
(اسدالغابۃ جلد 3 صفحہ 121 عامر بن سلمہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)
دوسرے صحابی جن کا ذکرہے ان کا نام حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ ہے۔ حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو عدی سے تھا جو حضرت عمر بن خطابؓ کا قبیلہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ کا شجرۂ نسب پانچویں پشت پر ریاح نامی شخص پر جا کر حضرت عمرؓ سے اور دسویں پشت پر کعب نامی شخص پر جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکٹھا ہو جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ کے والد کا نام سُراقَہ بن مُعْتَمِر اور ان کی والدہ کا نام اَمَّہ بنت عبداللہ تھا۔ ان کی بہن کا نام زینب اور بھائی عمرو بن سُراقَہؓ تھے۔ حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ کی بیوی کا نام اُمَیمہ بنت حارِث تھا۔ ان سے ان کا بیٹا عبداللہ پیدا ہوا۔ سیرت نگاروں کی اکثریت نے ان کو جنگ بدر میں شریک ہونا بیان کیا ہے لیکن چند ایک نے کہا ہے کہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور غزوۂ احد اور بعد کے معرکوں میں شامل ہوئے تھے۔ بہرحال اکثریت کی رائے کے مطابق حضرت عبداللہؓ اور ان کے بھائی عَمرو بن سُراقَہؓ کو غزوہ ٔبدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت عبداللہؓ کی نسل میں سے عَمرو یا عثمان بن عبداللہ، زید اور ایوب بن عبدالرحمٰن کا ذکر ملتا ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ462، من بنی عدی وحلفائھم، دارالکتب العلمیة 2001ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ91-92، عبد اللہ بن سُرَاقَہ، دارالکتب العلمیة 2005ء)
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ256 ،عبد اللہ بن سُرَاقَہ، جلد 4 صفحہ137،عمر بن الخطاب، جلد 1 صفحہ121،محمد رسول اللہ، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
عبداللہ بن ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ نے اپنے بھائی عمروؓ کے ہمراہ مکے سے مدینہ ہجرت کی اور دونوں نے حضرت رِفَاعہ بن عبدالمنذِرؓ کے ہاں قیام کیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 4صفحہ389، عبد اللہ بن سُرَاقَہ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں 35؍ ہجری میں وفات پائی۔
(البدایۃ والنہایۃ جلد 4 جزء 7صفحہ 212،سنۃ 35ھ، ذکر من توفی زمان عثمان….، دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت عبداللہ بن سُراقَہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تَسَحَّرُوْا وَلَوْ بِالْمَاءِ۔ کہ سحری کیا کرو خواہ پانی ہی کیوں نہ ہو یعنی سحری کرنا لازمی قرار دیا۔
(اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 256 عبداللہ بن سُرَاقَہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء)
پھر اگلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت مالک بن ابو خَوْلِیؓ۔ حضرت مالک بن ابو خولیؓ کا تعلق قبیلہ بنو عِجل سے تھا جو قریش کے قبیلہ بنو عَدی بن کعب کے حلیف تھے۔ ابوخَولی ان کے والد کی کنیت تھی جبکہ ان کا نام عمرو بن زُہَیر تھا۔ حضرت مالکؓ کا نام ہِلال بھی بیان کیا جاتا ہے ۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ462، من حضر بدرًا من المسلمین / من بنی عدی و حلفائھم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 209 خولی بن ابی خولی لداراحیاءالتراث العربی 1996ء)
حضرت عمرؓ نے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت مالکؓ اور ان کے بھائی حضرت خَوْلِیؓ بھی شامل تھے۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ338، منازل المہاجرین بالمدینۃ/ منزل عمر واخیہ…… دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)
حضرت مالکؓ اپنے بھائی خولیؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے اور ایک قول کے مطابق غزوۂ بدر میں حضرت خولیؓ اپنے دو بھائیوں حضرت ہِلالؓ یعنی حضرت مالکؓ اور حضرت عبداللہؓ کے ہمراہ شریک ہوئے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 209 خولی بن ابی خولی لداراحیاءالتراث العربی 1996ء)
حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں حضرت مالک بن ابو خولیؓ کی وفات ہوئی تھی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ،جلد 5،صفحہ533،مالک بن ابی خولی،دارالکتب العلمیہ،بیروت2005)
پھر اگلے جن صحابی کا ذکرہے ان کا نام ہے حضرت وَاقِد بن عبداللہؓ۔ حضرت واقدؓ کے والد کا نام عبداللہ بن عَبْدِ مَنَاف تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔ حضرت واقدؓ خَطَّاب بن نُفَیل کے حلیف تھے۔ اور ایک قول کے مطابق وہ قریش کے قبیلہ بنو عدی بن کعب کے حلیف تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 298 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ403 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں جن افراد کے اسلام قبول کرنے کا ذکر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے ان میں حضرت واقدؓ بھی شامل ہیں۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 1 صفحہ170، ذکر من اسلم من الصحابۃ بدعوۃ ابی بکر ؓ دار الکتاب العربی بیروت 2008 ء)
حضرت واقدؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 298 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)
دار ارقم کے بارے میں کچھ عرصہ ہوا مَیں بیان کر چکا ہوں کہ یہ کیا تھا۔ مختصر طور پر بیان کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خیال پیدا ہوا کہ مکّے میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جائے جہاں مسلمان جمع ہوں،نماز وغیرہ کے لیے آئیں اور بے روک ٹوک اور اطمینان سے اپنے تربیتی امور کے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ اسی طرح اسلام کی تبلیغ بھی وہاں کی جا سکے تو اس غرض کے لیے ایک مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نومسلم ارقم بن ابی ارقمؓ کا مکان پسند فرمایا جو کوہِ صفا کے دامن میں تھا ۔اس کے بعد مسلمان یہیں جمع ہوتے تھے، یہیں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ لوگ جنہیں حق کی تلاش تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب آتے تھے تو آپ ان کو یہیں اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت حاصل کر گیا اور دارالاسلام کے نام سے بھی مشہور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریباً تین سال تک دارِ ارقم میں کام کیا۔ یعنی بعثت کے چوتھے سال آپ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپ نے اس میں یہ تبلیغی سرگرمیاں اور تربیتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ دارِ ارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارِ ارقم سے نکل کر کھلے طور پر تبلیغ کرنے لگ گئے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 129)
حضرت عمرؓ نے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت واقِدؓ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت واقدؓ نے مکّے سے مدینہ ہجرت کے وقت حضرت رِفاعہ بن عبدالمنذِرؓ کے ہاں قیام کیا پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت واقدؓ اور حضرت بِشْر بن بَرَاءؓ کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 298 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)
حضرت واقدؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 299 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عبداللہ بن جَحشؓ کی قیادت میں ایک سَریہ بھجوایا تو اس میں حضرت واقدؓ بھی شامل تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ403 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)
اس سریے میں کفار کے ایک شخص عَمرو بن حَضْرَمِی قتل ہوا اسے حضرت واقدؓ نے قتل کیا تھا۔ اسلام میں یہ پہلا مشرک تھا جو قتل ہوا اور حضرت واقدؓ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کسی مشرک کو کسی جنگ میں قتل کیا ہو۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ404 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)
اس سریہ کی تفصیل حضرت عبداللہ بن جَحشؓ کے ضمن میں مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ حضرت واقدؓ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کے آغاز میں وفات پائی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 299 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت نَصر بن حارِثؓ۔ حضرت نَصْر بن حارِثؓ انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنوعَبد بن رَزَاخ میں سے تھے۔ ان کا نام نُمَیر بن حارِث بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی کنیت ابوحَارِث تھی۔ ان کے والد کا نام حارِث بن عَبْد اور والدہ کا نام سَوْدَہ بنت سُوَّادْ تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 346 نصر بن حارِث دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 1 صفحہ405، من حضر بدرًا من المسلمین دار الکتاب العربی بیروت 2008 ء)
حضرت نَصر بن حارِثؓ کو غزوۂ بدر میں شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کے والد حارِث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت نصرؓ جنگِ قادسیہ میں شہید ہوئے۔
(اسد الغابة فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ299 نصر بن حارِث دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)
قادسیہ ایران، موجودہ عراق میں ایک مقام ہے جو کوفہ سے پینتالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور 14؍ ہجری میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان قادسیہ کے مقام پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تھی جس کے نتیجے میں پھر ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی تھی۔
(تاریخ الطبری جلد 4 صفحہ111دار الفکر بیروت 2002ء)(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 229 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
جن کا اب ذکر ہو گا وہ حضرت مالک بن عمروؓ صحابی ہیں۔ حضرت مالک بن عمروؓ کا تعلق قبیلہ بنو سُلَیم کے خاندان بنو حَجَر سے تھا اور یہ بنو عَبد ِشمس کے حلیف تھے۔ ان کے والد کا نام عَمرو بن سُمَیط تھا۔ حضرت مالکؓ اپنے دو بھائیوں حضرت ثَقْف بن عَمروؓ اور حضرت مُدْلِجْبن عَمروؓ کے ہمراہ جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔
(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 326 «ذکر من حضر بدرًا من المسلمین دار ابن حزم بیروت 2009ء)
(سبل الہدىٰ والرشاد، في سيرة خير العباد جلد 4صفحہ 116ذکر اسماء من شھدوا بدرا دار الكتب العلمية بيروت 1993ء)
حضرت مالکؓ غزوۂ احد اور دیگر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل رہے اور 12 ہجری میں جنگِ یَمامہ میں یہ شہید ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3صفحہ72 من حلفاء بنی عبد شمس دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت نُعمان بن عَصَرؓ ہے۔ حضرت نعمانؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ بَلِیّ سے تھا اور قبیلہ بنو مُعَاویہ کے حلیف تھے۔ انہیں لَقِیط بِن عَصَر بھی کہا جاتا تھا۔ اسی طرح انہیں نُعمان بَلَوِیّ کے نام سے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت نُعمان بن عَصَرؓ بیعتِ عَقَبہ اور غزوۂ بدر اور اسی طرح باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ اِن کی شہادت جنگ یمامہ میں ہوئی اور بعض کے نزدیک حضرت نُعمان وہ شخص تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتدین سے جنگ میں طُلَیْحَہ نے شہید کیا تھا۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ466،467 الْأَنْصَارُ وَمَنْ مَعَهُمْ/ مِنْ بَنِي مُعَاوِيَةَ وَحُلَفَائِهِمْ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)
(اسد الغابہ فی تمییز الصحابہ جلد 5صفحہ318 اَلنُّعْمَانْ بِنْ عَصَرْ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔لبنان2008)
(الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 5 صفحہ510 لَقِیْط بِنْ عَصَرْ ، دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عُوَیم بن سَاعِدہؓ۔ حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ کا تعلق قبیلہ اَوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ حضرت عویمؓ بیعت عَقَبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک ہوئے۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں جو حوالہ ہے اس کے مطابق بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل مدینہ کے انصار کا ایک گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا جن کی تعداد چھ تھی اور بعض روایات میں آٹھ افراد کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان میں حضرت عُوَیم بن ساعدِہؓ بھی شامل تھے۔ طبقات الکبریٰ کے مطابق ہجرت مدینہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ سے حضرت عمرؓ کی اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت حاطِب بن ابی بَلْتَعَہ کی مؤاخات قائم فرمائی تھی۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عُوَیم بن ساعِدہؓ اللہ کے بندوں میں سے کیا ہی اچھا بندہ ہے اور وہ اہلِ جنت میں سے ہے۔
ایک روایت کے مطابق جب یہ آیت نازل ہوئی کہ فِیْہِ رِجالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا وَاللّٰہُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ (التوبۃ:108) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عُوَیم بن ساعِدہؓ کیا ہی اچھا بندہ ہے۔ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 349 تا 351، عویم بن ساعِدہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 222)
اس آیت فِیْہِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا وَاللّٰہُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ۔ کا ترجمہ یہ ہے کہ اس میں آنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہو جائیں اور اللہ کامل پاکیزگی اختیار کرنے و الوں کو پسند کرتا ہے۔
حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ عَاصِم بن سُوَیدؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ کی بیٹی عُبیدہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر بن خطابؓ جب حضرت عُوَیم بن ساعِدہؓ کی قبر پر کھڑے تھے تو انہوں نے فرمایا دنیا میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس صاحبِ قبر سے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو بھی جھنڈا گاڑا گیا عُوَیم اس کے سائے تلے ہوتے تھے۔
(اسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ جلد4 صفحہ 304، عویم بن ساعِدہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1994ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں حارِث کے باپ سُوَید نے حضرت مُجَذَّر کے باپ زِیَاد کو قتل کر دیا ۔ اس کے بعد ایک دن مقتول کے بیٹے حضرت مُجَذَّرنے سُوَید پر قابو پا لیا اور انہوں نے اپنے باپ کے قاتل کو مار ڈالا۔ یہ دونوں واقعات اسلام سے پہلے کے ہیں اور یہی واقعہ جنگ بُعَاث جو اَوس اور خزرج کے درمیان جنگ تھی اس کا سبب بنا تھا۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے تو دونوں مقتولوں کے بیٹوں نے، یعنی حارِث بن سُوَید اور حضرت مُجَذَّربن زِیَادؓ، اسلام قبول کر لیا ،مسلمان ہو گئے، اور دونوں ہی غزوۂ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ اس روایت کی تصدیق کہاں تک ہے ؟ بہرحال یہ روایت ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی حارِث بن سُوَید موقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے کہ اپنے والد کے بدلے میں حضرت مُجَذَّرؓ کو قتل کریں لیکن اسے ایسا موقع نہ میسر آسکا۔ غزوۂ احد میں جب قریش نے مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا تو حارِث بن سُوَید نے پیچھے سے حضرت مُجَذَّر کی گردن پر وار کر کے انہیں شہید کر دیا اور ایک قول کے مطابق یہ بھی ہے کہ حارِث بن سُوَید نے حضرت قَیْس بن زیدؓ کو بھی شہید کیا تھا۔ غزوۂ حمراء الاسد سے واپسی پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو بتایا کہ حارِث بن سُوَید اس وقت قبا میں موجود ہے۔ حارِث بن سُوَید نے حضرت مُجَذَّر بن زیاؓد کو دھوکے سے قتل کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ آپؐ حارِث بن سُوَید کو حضرت مُجَذَّر بن زِیَادؓ کے بدلے میں قتل کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کے فوراً قبا تشریف لے گئے اور عام طور پر اس وقت آپؐ تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ اس وقت قبا میں سخت گرمی تھی۔ آپؐ وہاں پہنچے تو قبا میں مقیم انصاری مسلمان آپ کے پاس آ کر جمع ہو گئے جن میں حارِث بن سُوَید بھی تھا جو ایک یا دو زرد رنگ کی چادریں لپیٹے ہوئے تھا۔ حضرت عُوَیْمَر بن ساعِدہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مسجد قبا کے دروازے پر حارِث بن سُوَید کو قتل کیا۔ سیرة الحلبیہ میں ان صحابی کا نام جن کا ذکر ہو رہا ہے عُوَیم کے بجائے عُوَیْمَر بھی لکھا ہوا ہے جبکہ طبقات ابن سعد اور باقی جگہوں میں آپؓ کا نام عُوَیم بن ساعدة ہی ہے۔ بہرحال ایک اَور روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عُوَیم بن سُوَید کو قتل کرنے کا ،مارنے کا نہیں فرمایا تھا جس نے مسلمان کو دھوکے سے شہید کیا تھا ۔ دونوں ہی مسلمان تھے۔ قتل کا بدلہ قتل لیا گیا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو حکم دیا تھا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حارِث نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے مُجَذَّر کو قتل کیا ہے مگر اس وجہ سے نہیں کہ مَیں اسلام سے پھر گیا ہوں ، نہ اس لیے کہ مجھے اسلام کی سچائی میں کوئی شبہ ہے بلکہ اس لیے کہ شیطان نے مجھے غیرت اور عار دلائی تھی اور اب میں اپنے اس فعل سے خدا اور اس کے رسولؐ کے سامنے توبہ کرتا ہوں اور مقتول کا خون بہا دینے کے لیے تیار ہوں اور مسلسل دو مہینے روزے رکھوں گا اور ایک غلام کو آزاد کروں گا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارِث کی اس معافی کو قبول نہیں کیا اور اسے قتل کی سزا دی گئی۔
(السیرة الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ353-354 باب ذکر مغازیہﷺ، غزوہ حمراء الاسد، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 349 عویم بن ساعِدہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یہ روایت سیرة الحلبیة کی ہے۔ ابوعمر کہتے ہیں کہ حضرت عویمؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔یہ روایت ابوعمر کی ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں 65 یا 66 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔
(اسد الغابة فی معرفة الصحابة جلد4 صفحہ 304، عویم بن ساعِدہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1994ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت نُعْمَان بِن سِنَان ؓہے۔ حضرت نُعْمَان بِن سِنَانؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو نُعمان سے تھا۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ حضرت نعمانؓ بنو نُعمان کے آزاد کردہ غلام تھے جبکہ ابن سعد نے انہیں بنو عُبَید بِن عَدِیّ کا آزاد کردہ غلام لکھا ہے۔ حضرت نُعْمَان بِن سِنَانؓ کو غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ471، الانصار ومن معھم / من بنی النعمان، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 293 ‘‘النعمان بن سنان داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5 صفحہ 315 ‘‘النعمان بن سنان ’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عَنْترہ مولیٰ سُلَیمؓ۔ حضرت عَنْترة حضرت سُلَیْم بن عمروؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ یہ حضرت عَنْترہ سُلَمِی ذَکوانِی تھے اور وہ قبیلہ بنو سَوَاد بن غَنَم کے حلیف تھے جو انصار کی ایک شاخ تھی۔ حضرت عَنْترہؓ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہوئے۔ غزوۂ احد کے روز شہید ہوئے۔ انہیں نَوفَل بن مُعَاوِیہ دِیْلِیّ نے شہید کیا۔ ایک قول کے مطابق حضرت عنترہ کی وفات جنگ صِِفّین میں حضرت علیؓ کے دور ِخلافت میں 37؍ ہجری میں ہوئی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 عَنْتَرَۃ السُلَمِيّ صفحہ 1246 دارالجیل بیروت 1992ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت نُعمان بن عبد عَمروؓ ہے۔ حضرت نُعمان بن عبد عَمروؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خَزرج کی شاخ بنو دِینَار بِن نَجَّارسے تھا۔ ان کے والد کا نام عبدِ عَمرو بن مسعود تھا اور والدہ کا نام سُمَیراء بنتِ قَیْس تھا۔ حضرت نُعمان بن عبد عمروؓ غزوۂ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ جنگ بدر میں ان کے بھائی ضَحَّاک بن عبد عمرو بھی ان کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت نُعمان بن عبد عمروؓ کو غزوۂ احد میں شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ حضرت نعمانؓ اور حضرت ضحاکؓ کا ایک تیسرا بھائی بھی تھا جن کا نام قُطْبَہؓ تھا، انہیں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ واقعہ بئر معونہ میں حضرت قطبہؓ کی شہادت ہوئی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ394 ‘‘النعمان بن عبد عمرو’’ ، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2012ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5 صفحہ 316 ‘‘النعمان بن عبد عمرو’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کا خاوند، بھائی اور باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ احد میں شریک ہوئے اور وہ سب شہید ہو گئے تھے۔ جب ان کی تعزیت اس عورت سے کی گئی تو اس نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ تو لوگوں نے کہا کہ اے اُمِّ فلاں ! آپؐ ٹھیک ہیں اور الحمد للہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ تو پسند کرتی ہے، تو اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے دکھاؤ میں آپؐ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ تو پھر اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے دکھایا گیا۔ جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگی کہ ہر مصیبت آپؐ کے بعد معمولی ہے۔
(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 545، باب غزوة اُحد، شَأْنُ الْمَرْأَةِ الدِّينَارِيَّةِ، دار الکتب العلمیة بیروت 2001)
ایک اور روایت میں اس عورت کے بیٹے کے شہید ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ احد کے موقعے پر جب اہلِ مدینہ بہت گھبراہٹ کا شکار ہو گئے تھے کیونکہ یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے حتی کہ مدینے کے گلی کوچوں میں چیخ پکار مچ گئی تھی تو ایک انصاری خاتون پریشان ہو کر گھر سے نکلی تو اس نے آگے اپنے بھائی، بیٹے اور شوہر کی لاش دیکھی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ پہلے اس نے کسے دیکھا تھا مگر جب وہ آخری کے پاس سے گزری تو اس نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ تیرا بھائی، تیرا شوہر، تیرا بیٹا ہے۔ اس نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا وہ آ گے ہیں۔ وہ عورت چلتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور پھر کہا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ! جب آپؐ سلامت ہیں تو مجھے کسی نقصان کی کوئی پروا نہیں۔
(المعجم الاوسط للطبرانی حدیث7499جلد 05 صفحہ 329-330 من اسمہ محمد ، دار الفکر بیروت 1999)
ایک قول کے مطابق اس عورت کا نام سُمَیراء بنتِ قَیسؓ تھا جو نُعمان بن عبدِ عَمروؓ کی والدہ تھیں۔
(کتاب المغازی لمحمد بن الواقدی جلد 1 صفحہ 251-252،باب غزوة احد۔ دار الکتب العلمیة بیروت2001)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقعے پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں اس بہادری کی مثالیں بہت کثرت سے ملتی ہیں۔ دنیوی لوگوں میں تو کروڑوں لوگوں اور سینکڑوں ملکوں میں سے ایک آدھ مثال ایسی مل سکے گی مگر صحابہؓ میں، چند ہزار صحابہؓ میں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی یہ مثال ہے جو ایک عورت سے تعلق رکھتی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کئی دفعہ اسے بیان کر چکا ہوں۔ (یہ مثال میں بھی یہاں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں) اور جو اس قابل ہے کہ ہر مجلس میں سنائی جائے اور اس کی یاد کو تازہ رکھا جائے۔ بعض واقعات ایسے شاندار ہوتے ہیں کہ بار بار سنائے جانے کے باوجود پرانے نہیں ہوتے۔ ایسا ہی واقعہ اس عورت کا ہے جس نے جنگ احد کے موقعے پر مدینے میں یہ خبر سنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ وہ مدینے کی دوسری عورتوں کے ساتھ گھبرا کر باہر نکلی اور جب پہلا سوار احد سے واپس آتے ہوئے اسے نظر آیا تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ تمہارا خاوند مارا گیا ہے۔ اس نے کہا میں نے تم سے رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا ہے اور تم میرے خاوند کی خبر سنا رہے ہو ۔ اس نے پھر کہا کہ تمہارا باپ بھی مارا گیا ہے۔ مگر اس عورت نے کہا میں تمہیں رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں اور تم باپ کا حال بتا رہے ہو۔ اس سوار نے کہا کہ تمہارے دونوں بھائی بھی مارے گئے۔ مگر اس عورت نے پھر یہی کہا کہ تم میرے سوال کا جواب جلد دو ۔ میں رشتے داروں کے متعلق نہیں پوچھتی ۔ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں۔ اس صحابی کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ آپؐ بخیریت ہیں ۔ اس لیے اس کے نزدیک اس عورت کے لیے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ اس کے متعلقین کی موت سے اسے آگاہ کیا جائے مگر اس عورت کے نزدیک سب سے پیاری چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی ۔ اس لیے اس نے جھڑک کر کہا کہ تم میرے سوال کا جواب دو۔ اس پر اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا کہ جب آپؐ زندہ ہیں تو پھر مجھے کوئی غم نہیں خواہ کوئی مارا جائے ۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اور ظاہر ہے کہ اس مثال کے سامنے اس بڑھیا کی مثال کی کوئی حقیقت نہیں جس کے متعلق خود نامہ نگار کو اعتراف ہے، (کسی واقعہ کے بارے میں ذکر کر رہے ہیں کہ اس کا دل مغموم)غم کے بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہوتا تھا اور آپؓ بیان کرتے ہیں وہ دل میں رو رہی تھی۔ کسی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ دل مغموم تھا اور دل میں رو رہی تھی لیکن اظہار نہیں کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مگر صحابیہ کا واقعہ یہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اس نے ضبط کیا ہوا تھا اور دل میں رو رہی تھی اور ظاہر نہیں کر رہی تھی بلکہ یہ صحابیہ تو دل میں بھی خوش تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ اس عورت کے دل پر صدمہ ضرور تھا گو وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جس عورت کا بھی اپنے اس بیان میں ذکر فرما رہے ہیں یا اخباروں نے اس زمانے میں اس کو لکھا تھا جب آپؓ نے یہ بیان فرمایا مگر اس صحابیہ کے دل پر تو کوئی صدمہ بھی نہیں تھا اور یہ ایسی شاندار مثال ہے کہ دنیا کی تاریخ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی اور بتاؤ اگر ایسے لوگوں کے متعلق یہ نہ فرمایا جاتا کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ تو دنیا میں اَور کون سی قوم تھی جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جاتے؟ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرا دل اس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں کہ اس نے میرے محبوب کے لیے اپنی محبت کی ایک بے مثل یادگار چھوڑی۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 20 صفحہ542-543 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1939)
پھر اسی عشق و محبت کا ذکر بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ آپؓ نے اس طرح بیان فرمایا کہ‘‘ دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اسے یکے بعد دیگرے باپ بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔’’
(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ۔ انوار العلوم جلد نمبر 25 صفحہ 439-440)
پھر ایک دوسری جگہ آپؓ اس بارے میں مزید فرماتے ہیںکہ ذرا اس حالت کا نقشہ اپنے ذہنوں میں اب کھینچو۔ تم میں سے ہر ایک نے مرنے والے کو دیکھا ہو گا۔ کوئی نہ کوئی قریبی مرتا ہے۔ کسی نے اپنی ماں کو، کسی نے باپ کو، کسی نے بھائی کو، بہن کو مرتے دیکھا ہو گا ۔ذرا وہ نظارہ تو یاد کرو کہ کس طرح اپنے عزیزوںکے ہاتھوں میں اور گھروں میں اچھے سے اچھے کھانے پکوا کر اور کھا کر، علاج کروا کر اور خدمت کرا کر مرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے اور کس طرح گھر میں قیامت برپا ہوتی ہے اور مرنے والوں کو سوائے اپنی موت کے کسی دوسری چیز کا خیال تک بھی نہیں ہوتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے دلوں میں ایسا عشق پیدا کر دیا تھا کہ انہیں آپؐ کے مقابلے میں کسی اَور چیز کی پروا ہی نہ تھی مگر یہ عشق صرف اس وجہ سے تھا کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر عشق تھا تو اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ آپؐ کے محمدؐ ہونے کی وجہ سے عشق نہیں تھا بلکہ آپؐ کے رسول ؐاللہ ہونے کی وجہ سے یہ تھا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عاشق تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا تھا اس لیے آپؐ کے صحابہ آپؐ سے پیار کرتے تھے اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی دیکھ لو ان کے دلوں میں بھی آپؐ کی ذات کے ساتھ کیا محبت اور کیا عشق تھا۔ پھر آپؓ نے اس عورت کا یہ واقعہ بھی بیان فرمایا ۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ محبت تھی جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی مگر باوجود اس کے وہ خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے اور یہی توحید تھی جس نے ان کو دنیا میں ہر جگہ غالب کر دیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے مقابلے میں وہ نہ ماں باپ کی پروا کرتے تھے اور نہ بہن بھائیوں کی اور نہ بیویوں کی اور خاوندوں کی۔ ان کے سامنے ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رضی اللہ عنہم فرما دیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدم کیا مگر آپؓ فرماتے ہیں کہ بعد میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ رہی اور اب اگر ان کو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو محض دماغی ہے۔ دماغ میں ضرور ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں ۔ توحید کے قائل ہیں ۔ دل میں یہ نہیں ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے تو ان کے دلوں میں محبت کی تاریں ہلنے لگتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کے ذکر پہ بھی تاریں ہلتی ہیں۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 23 صفحہ 46-47، خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1942)
شیعہ سنی سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی اولاد کے ذکر پر جوش میں آ جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مسلمانوں کے دلوں کی تاریں نہیں ہلتیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نعمت ہمیں خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ کی محبت اور نام سے بھی ایک ایسا ہیجان ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہیے کیونکہ حقیقی ترقی اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہی حاصل ہو گی۔ توحید پہ قائم رہنے سے ہی حاصل ہو گی۔ پس یہ ہے بنیادی اصول جسے ہمیں، ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر اللہ اور رسول ؐکی حقیقی محبت اور اس کا صحیح ادراک پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب میں بعض مرحومین کا ذکر کروں گا جن کا جنازہ بھی نماز کے بعدپڑھاؤں گا ۔ پہلا ذکر مکرم مودود احمد خان صاحب امیر جماعت کراچی کا ہے جو مکرم نواب مسعود احمد خان صاحب کے بیٹے تھے۔ 14؍جولائی کو 78؍ سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 12؍ اپریل 1941ء کو یہ قادیان میں مکرم مسعود احمد خان صاحب اور صاحبزادی طیبہ صدیقہ صاحبہ کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے پوتے تھے اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے نواسے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی ۔ پھر کچھ دیر حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے ساتھ بھی پریکٹس کی ۔پھر ایک مشہور لاء فرم ہے آرڈگنم (ORR, DIGNAM)اس کے ساتھ منسلک ہو گئےاور ڈھاکہ چلے گئے۔ وہاں کام کرتے رہے اور تقریباً 52 سال اسی کمپنی کے ساتھ رہے ۔ ان کے سینئر پارٹنر (senior partner)تھے اور ان کا شمار پاکستان کے سینئر کارپوریٹ وکلاء میں ہوتا تھا۔ بین الاقوامی کمرشل قوانین اور بینکنگ اور کارپوریٹ قوانین کے ماہر تھے اور اس حوالے سے بڑی شہرت رکھتے تھے۔ پاکستان کے کچھ کارپوریٹ قوانین کو بھی انہوں نے ترتیب دیا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کی طرف سے آپ کو ڈائریکٹر شپ کی پیشکش ہوتی تھی لیکن آپ انکار کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ایسے عہدوں میں انسان کچھ نہ بھی کر رہا ہو تو دوسروں کی وجہ سے ہی بدعنوانیوں کے الزامات لگ جاتے ہیں اور اس طرح پھر یہ چیز جو ہے جماعت کی بدنامی کا باعث بن سکتی ہے اس لیے میں ان سے بچتا ہوں۔
ان کی اہلیہ کے علاوہ انہوں نے دو بچے چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ ان کا بیٹا بھی وکالت سے منسلک ہے اور بیٹی اپنے خاوند کے ساتھ کینیڈا میں ہے ۔ ان کے میاں خاوند لڑکی کا یا مودود خان صاحب کا داماد جو ہے یہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی پوتی کا بیٹا ہے۔
مودود احمد خان صاحب اکتوبر 1996ء میں امیر ضلع کراچی مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ نائب امیر اور سیکرٹری امور خارجہ کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن، ناصر فاؤنڈیشن، طاہر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے اور 84ء میں جماعت پرجو ابتلا آیا اس کے نتیجے میں پریس کے ساتھ بھی ان کا کافی اچھا رابطہ رہا۔ ان کی اہلیہ امة المؤمن صاحبہ جو ملک عمر علی صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں اور ان کی والدہ کا نام سیدہ سعیدہ بیگم تھا جو حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی بیٹی تھیں ، وہ کہتی ہیں کہ بڑی سادہ طبیعت، خوش اخلاق، ہمدرد، منکسر المزاج اور شفقت کرنے والے تھے۔ جن سے بھی آپ کا تعلق رہا ہے ایسا ہی تھا کہ ہر کوئی یہ کہتا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سے سالہا سال کا تعلق ہے۔ چاہے وہ جماعت کا چھوٹے سے چھوٹا کارکن ہو یا سینئر ممبر ہو۔ پھر آپ ہی کہتی ہیں کہ کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس میں کسی بھی لحاظ سے میں نےبحیثیت شوہر یا بحیثیت باپ ان میں کمی دیکھی ہو۔ آئیڈیل شوہر تھے، آئیڈیل باپ تھے، آئیڈیل شخص تھے اور ہر شخص آپ سے بڑا متاثر ہوتا تھا۔
ان کے بیٹے مامون احمد خان کہتے ہیں کہ آئیڈیل باپ تھے۔ بچپن سے ہی ہمیں نماز کی عادت ڈالی۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی مجھے اپنے ساتھ نماز فجر پر لے جایا کرتے تھے اور بڑوں کی عزت اور خدمت کی تلقین بھی کیا کرتے تھے اور ہم دونوں بہن بھائیوں پر ان کی نماز کی پابندی کا اور دوسری مالی قربانی کا بڑا اثر ہے۔ مالی قربانی میں بھی صف اول میں تھے اور کہتے ہیں جب ہم ربوہ جاتے تھے تو بہشتی مقبرہ میں لے جاتے تھے اور بزرگوں کی قبروں پر اور صحابہؓ کی قبروں پر لے جا کے ہمیں ا ن کے بارے میں تعارف بھی کروایا کرتے تھے۔ انکساری آپ میں بڑی تھی اور غنٰی بڑا پایا جاتا تھا۔ غریبوں سے بڑے عاجز ہو کے ملتے تھے لیکن یہ نہیں کہ کسی افسر سے اس لیے ملنا کہ شاید میری ترقی کا باعث بن جائے یا مجھے فائدہ ہو، ان کے سامنے بالکل وہ اپنا ایک وقار رکھتے تھے ۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں مَیں ان سے مذاق سے کہا کرتی تھی کہ آپ باقی لوگوں سے بڑا اچھی طرح ملتے ہیں لیکن جب کوئی بڑا افسر ہوتا ہے تو وہاں آپ بڑا خاص وقار سے رہتے ہیں ۔ لگتا ہے وہاں آپ کی نوابیت سامنے آ جاتی ہے۔
پھر سندھ کے اسیران کے لیے انہوں نے بڑا کام کیا ۔ شہداء کی فیملیز کے لیے وہاں کافی کام کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں دوروں پرمجھے بھی لے جاتے تھے ۔ ان فیملیوں کا خیال رکھتے۔ ان کو تحائف دلواتے۔ مہمان نوازی کا وصف ان میں بہت زیادہ تھا۔ اس کا ہر ایک لکھنے والے نے ذکر کیا ہے۔ ان کی اہلیہ بھی کہتی ہیں کہ بعض دفعہ دس منٹ پہلے فون آتا تھا کہ اتنے مہمان آ رہے ہیں کھانا تیار کر دو اور ہمیشہ فون پر اطلاع دیتے اور فوراً فون بند کر دیتے تا کہ کوئی عذر کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ خلافت سے ان کا بے انتہا ادب کا اور پیار کا تعلق تھا، اخلاص کا تعلق تھا۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں مجھے اور میری بہن کو اور ہمارے دوسرے بچوں کو بھی تلقین کرتے کہ ہفتے میں ایک بار تم نے ضروری طور پر خلیفہ وقت کو اپنے حالات بتانے کا خط لکھنا ہے اور فیکس کرنی ہے اور اس تعلق کو بڑھانا ہے۔
پھر ان کو کچھ عرصہ پہلے، دو سال ہوئے کینسر کی تکلیف ہوئی۔ پھر علاج ہوتا رہا۔ علاج میں اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو گیا۔ انہوں نے مجھے بھی لکھا علاج ٹھیک ہے۔ میں نے دفتر دوبارہ بھی جانا شروع کر دیا ہے ۔ تقریباً آدھے سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیا ہے لیکن پھر چند دن پہلےایک دم ان کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر اسی میں لگتا ہے کہ دل کا حملہ ہوا اور اس کی وجہ سے جاں بر نہیں ہو سکے۔ بہرحال ان کا جب کینسر کا علاج ہو رہا تھا تو ان کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم اس شخص سے بڑے متاثر ہیں ۔ ایک تو یہ کہ بڑے صبر اور حوصلے والے ہیں ۔ دوسرے ہمارے سے گفتگو ہوئی تو ہمیں پتا لگا کہ بڑے سکالر بھی ہیں۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں جب ہم جاتے تھے تو ہسپتال کے ڈاکٹر ان کو دیکھ کے احتراماً کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیںغیر از جماعت نوجوان بھی تعزیت کے لیے آئے۔ ایک نوجوان نے مجھے کہا کہ ان کے اخلاق کا اور مینٹور شپ (mentorship)کا میری زندگی پر بہت اثر ہے۔
پھر ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ایک خاص وصف یہ تھا کہ چندوں کے بڑے پابند تھے۔ان کی بڑی اچھی آمد تھی۔ بڑے صاحب حیثیت تھے لیکن کہتی ہیں میں نے کبھی آمد نہیں پوچھی، کبھی خیال دل میں آیا بھی تو پھر کبھی جرأت نہیں ہوئی لیکن کبھی کبھی چندوں کی لِسٹ پر جب نظر پڑتی تھی تو پتا لگتا تھا کہ کتنے چندے یہ دے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے کیا آمد ہے۔ پھر اس کے علاوہ مرحومین کے چندوں کی بھی ایک لمبی فہرست تھی۔ کہتے تھے گھر کا خرچ کم کرو اور جماعت کے لیے قربانی زیادہ کرو بلکہ یہ کہتی ہیں مجھے تو بعض دفعہ یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ زیادہ کماتے ہی اس لیے ہیں کہ جماعت کو زیادہ سے زیادہ دیں۔
کووں سے شدید نفرت تھی اور یہ تو ہر کوئی ان کے متعلق کہتا ہے، میں بھی گواہ ہوں کہ سخت نفرت تھی اور منع کیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ کبھی کسی کے خلاف بات نہیں سنی۔ چغل خوری کے بھی بہت زیادہ خلاف تھے اور ایک نصیحت جو آپ نے کئی بار کی وہ یہ تھی کہ زندگی میں کسی سے امید نہ لگانا جو کرنا ہے اپنی طاقت سے کرو تا کہ بعد میں کسی سے شکوہ نہ پیدا ہو۔
میجر بشیر طارق صاحب نے بیان کیا وہ بھی نائب امیر تھے شاید یا کسی اَور عہدے پر تھےکہ ایک مرتبہ انہوں نے ان سے کہا کہ ضرورت سے زیادہ آپ نرمی سے پیش آتے ہیں۔ تھوڑی سختی کیا کریں۔ بعض کاموں میں سختی کرنی پڑتی ہے تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ آپ ایک والنٹیئر پر کس طرح سختی کر سکتے ہیں، جو اپنا وقت نکال کر خدمت کے لیے آیا ہے ۔ اس پر سختی کیسے کر سکتے ہیں؟! پس انہوں نے بڑے پیار سے کام لیا اور خدام نے بھی مجھے لکھا۔ قائدین نے بھی لکھا کہ جماعت کراچی میں حالات کی وجہ سے ہم ڈیوٹیاں بھی دیتے تھے تو وہ بڑے پیار سے یہ ہمارے سے کام لیتے تھے۔ بلکہ مرکز نے کہا تھا امراء کے ساتھ سکیورٹی ہونی چاہیے۔ خدام ڈیوٹی پر جاتے تھے تو ان کا خیال رکھتے۔ اپنے گھر پہنچ کر کہتے کہ مجھے اپنے گھر جا کر فون پہ اطلاع دینا کہ خیریت سے پہنچ گئے ہو۔ ایک قائد نے لکھا ہے کبھی کبھی میرے پاس اگر اپنی سواری نہ ہوتی تو اپنی کار مجھے دے دیتے تھے کہ یہ گھر لے جاؤ تا کہ احتیاط سے گھر پہنچ جاؤ۔
ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ابا نے ہمارے اندر بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ پر یقین اور خلافت سے مخلصی اور خلیفۂ وقت کی فرمانبرداری کی بہت بڑی مثال پیش کی اور اس پر قائم رہنے کی ہمیں تلقین کرتے تھے اور جلسے بیماری میں بھی بڑی باقاعدگی سے سنتے رہے۔ لائیو سٹریم یو۔ ایس۔اے کا جلسہ سنا۔ مجھے روز کہتے تھے کہ تم بھی سنا کرو۔ پھر جرمنی اور کینیڈا کا جلسہ جب اکٹھا ہو رہا تھا تو یہ بیٹی کینیڈا رہتی ہے تو اس نے کہا کہ جلسے پہ انہوں نے کہا کہ میں جرمنی کا جلسہ سن رہا ہوں اور باقاعدگی سے خطبات وغیرہ سننے کی ان کی عادت تھی۔ رمضان کے مہینے کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ اس مہینے میں کبھی کہیں جانے کا یا سفر کا پروگرام نہیں بناتے تھے تا کہ رمضان کا جو احترام ہے وہ قائم رہے۔ اس میں بہت سے لوگوں کے لیے سبق ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر سفر کے بہانے نکال لیتے ہیں اور روزے چھوڑ دیتے ہیں۔
کراچی کے ایک سابق مربی سید حسین احمد ہیں، ان کے کزن بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کراچی کے دورانِ قیام جب میں وہاں مربی سلسلہ تھا تو اجلاسِ عاملہ میں کسی مشکل مرحلہ پر اکثر کہتے تھے کہ یہ اللہ کے کام ہیں ہم نے تو صرف ہاتھ لگانا ہے اس لیے اپنی کوشش کرنی چاہیے۔ ہر ملنے والے کا کھڑے ہو کر استقبال کرتے تھے۔ ہر سوالی کی درخواست کو غور سے سنتے اور پڑھتے تھے، مناسب کارروائی کرتے تھے۔ یتامیٰ ،بیوگان اور غرباء کی حتی المقدور امداد کیا کرتے تھے۔ باوجود جماعتی بجٹ کی تنگی کے گنجائش پیدا کر لیا کرتے تھے۔
کراچی کی ایک خاتون ہیں۔ مریم ثمر صاحبہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری کراچی جماعت کے لیے ایک شفیق باپ کی طرح تھے اور ہر ایک کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے تھے۔ سب کی فکر کرتے تھے۔ بہت عاجز اور بہت معاملہ شناس تھے۔ ایک مرتبہ کسی پروگرام میں ان کا نام نواب مودود احمد خان لکھا گیاتو انہوں نے اپنی قلم سے نواب کا لفظ کاٹ دیا۔
قائمقام امیر قریشی محمود صاحب نائب امیر ہیں کہتے ہیں کہ اپنے دَور امارت میں ایک نہایت شفیق اور مہربان باپ کی طرح افراد جماعت کراچی کی رہنمائی کی اور بڑے ہر دلعزیز شخص اور شفیق اور قابل احترام وجود تھے۔ بہت متحمل مزاج تھے۔ بردبار شخصیت کے حامل تھے۔ انکسار والی طبیعت تھی۔
خصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کا انکسار تھا۔ بڑا ہو یا چھوٹا، امیر ہو یا غریب ،تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ ہر ایک کے ساتھ نہایت محبت سے ملتے تھے اور توجہ سے ان کی بات سنتے تھے۔ پھر مشورے سے نوازتے تھے اور ہر ایک آنے والے کو چاہے چھوٹا ہو بڑا ہو یہ کرسی سے اٹھ کے ملا کرتے تھے۔ جماعتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور روزانہ رات دیر تک دفتر میں بیٹھ کر کئی گھنٹے اپنے جماعتی مفوضہ امور سرانجام دیتے تھے۔ اپنے دفتر سے سیدھے جماعت کے دفتر میں آتے تھے اور پھر رات دس بجے تک بیٹھتے تھے۔ پھر جماعت کے بچوں اور نوجوانوں کو حصولِ تعلیم کے لیے راغب کرنے کی بہت کوشش کرتے تھے۔ بحیثیت امیر آپ ہر شعبہ کے سیکرٹری سے نیز صدران حلقہ جات سے ذاتی رابطہ رکھتے تھے اور گاہے بگاہے ان کے شعبہ جات کے کاموں میں ان کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ صدر انصار اللہ پاکستان لکھتے ہیں کہ جماعت کی تعلیم اور تربیت کے لیے بڑے (فکر مند )رہتے تھے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ میں دَورے پر وہاں گیا، عہدیداروں کا ریفریشر کورس تھا تو میرے پاس آئے اور بڑے درد سے مجھے کہا کہ آپ ریفریشر کورس کے لیے کراچی آئے ہیں میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج فجر کی نماز پر مسجد میں صرف ہم تین انصار تھے جبکہ مسجد کے قریب بہت سے گھر ہیں اور گاڑیاں بھی ہر ایک کے پاس ہیں۔ آسانی سے نماز فجر پہ آ سکتے ہیں اور پھر انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں سارے عہدیداران آئے ہوئے ہیں آپ ان کو سمجھائیں کہ اولاً اپنے اندر نیک اور پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور عبادت کی طرف خصوصی توجہ کریں۔ پھر اپنی اولادوں اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی بھی فکر کریں۔ کہتے ہیں جب یہ بات کر رہے تھے تو ان کے اندر ایک درد تھا۔
پھر ایک خاتون نے لکھا ہے کہ ہم انڈیا جا رہے تھے۔ قادیان جا رہے تھے تو ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ انڈین کرنسی تھی اور پہلے ہمیں یہی تھا کہ لے جانے کی اجازت ہے لیکن بعد میں کہا گیا کہ نہیں ہے تو ہر ایک کو فارم پُر کرنے کے لیے دیا گیا۔ انڈین امیگریشن کے ایک کارکن نے انہیں بتایا کہ کرنسی لے جانے کی اجازت تو نہیں ہے مگر اگر آپ غلطی سے لے آئے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ اس فارم میں اس کا ذکر نہ کریں اور لے جائیں لیکن امیر صاحب نے ان کی بات نہیں مانی اور فارم میں اپنے پاس موجود جو ان کی رقم تھی تھوڑی رقم نہیں تھی تقریباً پچیس تیس ہزار روپے تھے، اس کو declareکر دیا۔ امیگریشن کے اس کارکن نے دوبارہ کہا کہ یہ یہاں نہ لکھیں ورنہ ہم قانون کی رو سے اس رقم کو ضبط کرنے پر مجبور ہیں۔ پھر بھی آپ نے فارم میں پوری دیانت داری سے یہ رقم declareکی اور پھر ان کو خوشی سے ساری رقم دے دی کہ ٹھیک ہے تم اس کو ضبط کرو۔کسی بھی قسم کی آسانی سے فائدہ نہ اٹھایا ۔
اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا خدام نے بھی لکھا کہ بڑی خاص توجہ ہم پر ہوتی تھی۔ ڈیوٹی دینے والوں کا شکریہ ادا کرتے تھے اور اس طرح شکر گزار ہوتے تھے جس طرح ہم نے ان پر بہت احسان کیا ہے۔ امتیاز حسین شاہد صاحب کراچی کے ڈرِگ روڈ کے امیر ہیں کہتے ہیں کہ اگر میں ان کی شخصیت کو ایک کوزے میں بند کرنے کی کوشش کروں تو جو صفات سامنے آئیں گی وہ یہ ہیں عاجزی اور انکساری، عشقِ خلافت اور احترامِ نظام جماعت۔
پھر یہ کہتے ہیں کہ 2016ء میں کراچی میں امارات مقامی کا نظام قائم ہوا اور ان کا تقرر امیر کے طور پر ہوگیا۔ کہتے ہیں میں امیر صاحب ضلع کے پاس گیا کہ بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے تو انہوں نے مجھے کہا کہ بھاری ذمہ داری تو ہے۔ لہٰذا ہمیشہ یاد رکھیں کہ کبھی کوئی مشکل پیش آئے تو خلیفۂ وقت کو دعا کے لیے خط لکھ دیا کریں اور اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے اور کہا کہ میں بھی یہی کرتا ہوں۔ اس لیے بڑی باقاعدگی سے ان کے ہر ہفتے جمعہ سے پہلے اور کراچی کا ہر اہم جو کوئی بھی فنکشن ہوتا یا کوئی واقعہ ہوتا یا چندوں کے سال کے آخر ہوتے تو ضرور دعا کے لیے مجھے لکھا کرتے تھے۔
قائد خدام الاحمدیہ بلال حیدر ٹیپو کہتے ہیں کہ امیر صاحب کو سورة المؤمنون سے بہت لگاؤ تھا۔ اکثر خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں تلاوت ہوتی تو مجھے کہتے ،سورة المؤمنون تلاوت کروائیں اور پھر پیار سے نصیحت بھی کرتے کہ اس سورت کو ،خاص طور پہ شروع کا حصہ غور سے پڑھا کرو۔ کہتے ہیں آج بھی جب میں سوچتا ہوں دل گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے اپنی نمازوں کی حفاظت کی، ہر لغویات سے پرہیز کیا اور انہوں نے ہمیں ایک مثال بن کر دکھایا کہ مومن فلاح کیسے پا سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو دوسری نصیحت مجھے یاد ہے وہ یہ کہ ایک دن مجھے اکیلے میں انہوں نے پیار سے کہا کہ میری زندگی کا یہ نچوڑ ہے کہ ہر ہفتے خلیفہ وقت کو خط ضرور لکھا کرو اور بڑے پیار سے مجھے یہ بات سمجھائی اور کہتے ہیں میں بھی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہوں۔
خلافت کی اطاعت حقیقت میں بہت زیادہ تھی اور بڑا احترام تھا۔ خاندان کا ہی ایک فنکشن تھا وہاں کچھ ایسی باتیں ہوئیں جو مجھے پتا لگیں، میں نے ان کو بھی لکھا کہ آپ بھی وہاں موجود تھے اور اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجھے امید نہیں تھی۔ اس پر ان کا خط آیا ۔اور پہلے تو معافی کا خط تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے لکھا کہ مجھے اس بات پہ خوشی بھی ہوئی کہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہمیں کوئی احساس دلانے والا ہے، ہماری کوئی تربیت کرنے والا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے میرا بڑا شکریہ بھی ادا کیا ۔ رشتے میں بڑے تھے۔ رشتے کا تعلق تھا۔خلافت سے پہلے میرا ان سے کافی احترام کا جو رشتہ تھا وہ تو قائم تھا ہی لیکن میرے خلیفۃالمسیح منتخب ہونے کے بعد انہوں نے انتہائی عاجزی سے بلکہ جب میں ناظر ِاعلیٰ ہوا ہوں،حضرت خلیفہ رابعؒ نے مقرر کیا تو اس وقت بھی بڑی عاجزی سے انہوں نے نظام کا احترام کرتے ہوئے میری عزت کی اور ہر طرح سے انہوں نے وفا اور عزت کا سلوک کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ جو ہے وہ خلیفہ عبدالعزیز صاحب نائب امیر جماعت کینیڈا کا ہے جو 9؍جولائی کو حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے 84؍ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا تعلق جموں کشمیر کے مشہور احمدی خلیفہ خاندان سے تھا۔ ان کے والد حضرت خلیفہ عبدالرحیم صاحبؓ دادا حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونیؓ اور نانا حضرت عمر بخش صاحبؓ تینوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ ان کے دادا کو سری نگر کشمیر کے محلہ خانیار میں حضرت عیسیٰ کی قبر دریافت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصانیف میں متعدد جگہ ذکر فرمایا ہے۔ کینیڈا جماعت کے اولین ممبران میں سے تھے۔ 1967ء میں پاکستان سے کینیڈا شفٹ ہوئے۔ پیشے کے طور سے وکیل تھے۔ پھر انہوں نے وہاں اپنی لاء فرم قائم کی۔ پھر جماعت کو بھی قانونی معاملات میں ہمیشہ مدد دیا کرتے تھے۔ کینیڈا جماعت میں ان کی خدمات کا عرصہ نصف صدی سے زائد ہے۔ کینیڈا کے پہلے نیشنل صدر تھے۔ پہلے صدر قضاء بورڈ تھے اور آخر دم تک نائب امیر کینیڈا کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 2010ء میں ان کو حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ انتہائی ملنسار، ہر دلعزیز، ہنس مکھ، معاملہ فہم، صائب الرائے اور ایک نیک، مخلص، باوفا انسان تھے۔ صحت کی خرابی کے باوجود اپنے مفوّضہ فرائض آخر وقت تک بڑی ہمت سے ادا کرتے رہے۔ خلافت سے گہری محبت اور عقیدت کا تعلق تھا اور جو بھی یہاں سے ہدایت جاتی تھی ہمیشہ اس پہ بڑی کوشش کرتے تھے کہ عمل کریں۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔
٭…٭…٭