جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2019ء کے اختتامی اجلاس سے سیدنا امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا معرکہ آرا خطاب
’’دنیا کی بقا کے لئے آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسلامی تعلیم ہے ‘‘
(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا۔ (الاحزاب۔22)
یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔
غیر مسلم دنیا یا مغربی دنیا یا ترقی یافتہ دنیا میں جو مسلمانوں کے متعلق تحفّظات پائے جاتے ہیں وہ ان کی اسلامی تعلیم کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے زیادہ ہیں اور اس پر بعض مسلمانوں کے اسلام کے نام پر شدّت پسند عمل اور دہشت گردی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے عمل نے مزید ان کے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے کہ اسلام ہے ہی دہشت گردی کا مذہب۔ آج اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور اسلامی تعلیم کے بارے میں غلط تاثر کو زائل کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے غلام صادق مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کی جماعت کے سپرد کیا ہے۔ پس اس کے لیے ہر احمدی کو بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے لوگ تو پریس اور میڈیا کی خبروں کو سن کر سمجھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں یعنی جو پریس کہہ رہا ہے وہی سو فیصد سچ ہے۔ مذہب سے دلچسپی ویسے ہی عمومی طور پر دنیا کی اکثر آبادی کو نہیں ہے۔ پس ان حالات میں بڑی سخت محنت سے اور مسلسل کوشش سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو بتانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ عام غیر مسلم تو یہی سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے یہ عمل ان کی تعلیم کی وجہ سے ہیں اور بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے یہ عمل ہیں۔
پس جیسا کہ میں نے کہا اس اثر کو زائل کرنے اور دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنے کے لیے ہر احمدی کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے قول اور عمل سے دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا عمل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے تو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے حق بھی ادا کرے اور بندوں کے حق بھی ادا کرے۔ جو اللہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے یقیناً بندوں کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور ان حقوق کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے اپنے پیارے اور محبوب نبی اور مطاع اور انسان کامل کا نمونہ رکھا ہے ۔ اور پھر ہمیں یہ کہا کہ یہ کامل نمونہ تمہارا رہنما ہے اسے اپناؤ جو اس کی امت میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس اُسوے کے ہر پہلو پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور پھر دنیا کو بھی بتاؤ کہ حقیقی اسلام یہ ہے نہ کہ وہ اسلام جو چند دہشت گرد اسلام کے نام پر پیش کرتے ہیں اور جس کو مغربی میڈیا اَور زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے کیسی کیسی خوبصورت مثالیں اپنے اُسوے سے پیش فرمائی ہیں ان کے چند پہلو میں اس وقت پیش کروں گا تا کہ ہم اپنے آپ کو ان نمونوں پر پرکھیں اور اعلیٰ اخلاق کی روشنی میں جو آپؐ نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے اس کا عملی زندگی میں جائزہ لیں۔ اسلامی تعلیم کی روشنی میں جو آپؐ نے ہمیں ہدایات دی ہیں ان کا جائزہ لیں، جو نمونے دکھائے ہیں ان کے مطابق اپنے آپ کو دیکھیں۔ جب ہم اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں گے تبھی دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ حقیقت میں اسلام چیز کیا ہے اور دنیا کی بقا کے لیے آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسلامی تعلیم ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا اصل مقصد تو عبادت قرار دیا ہے۔ہمارے آقا و مطاعؐ نے ہمیں صرف یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ تمہاری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اس لیے عبادت کی طرف ہر مومن کو توجہ کرنی چاہیے اور وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، بلکہ آپ نے اپنی عبادت کے معیار قائم کر کے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں جن کی قبولیت کی سند بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ۔ وَتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ۔
(الشعراء:219-220)
یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے جب تُو کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری بھی۔ پس یہ ہے آپؐ کے سجدوں اور عبادت کی حالت کہ بے قراری میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کی نظر ڈال کر خاص طور پر آپؐ کی اس عبادت اور بے قراری کا ذکر فرما رہا ہے۔ یہ بے قراری کس لیے تھی ،کس کے لیے تھی؟ یہ بے قراری اور دعائیں اپنی امّت کے لیے تھیں۔ یہ بے قراری اور دعائیں انسانیت کے لیے تھیں۔ یہ بے قراری اور دعائیں ان لوگوں کے اپنے مقصدِ پیدائش کے سمجھنے کے لیے تھیں جو اللہ تعالیٰ سے دُور ہیں کیونکہ یہ دوریاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا سکتی ہیں اس لیے آپؐ کی اس بے قراری کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو یہ بھی فرمایا کہ
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔
(الشعراء:4)
کیا تُو اپنی جان کو اس لیے ہلاک کر دے گا کہ وہ کیوں مومن نہیں ہوتے۔ تیرا دل اس بات پر بے چین ہے کہ کافر کیوں ہدایت نہیں پاتے، کیوں خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر اپنی دنیا و عاقبت نہیں سنوارتے۔ پس جہاں آپؐ کی عبادت کے معیار کا پتہ چلتا ہے یہاں اِس سے، وہاں اس سے آپؐ کےپاکیزہ دل کی اس کیفیت کا بھی پتہ چلتا ہے جو انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے آپؐ کے دل میں تھی ۔جو آپؐ کا درد تھا اس کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ پس جس کے دل میں انسانیت کے لیے درد کی یہ کیفیت ہو وہ کیا کبھی ظلم کر سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ آپؐ نے تو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت اور اس کے لیے درد میں زندگی کا ہر لمحہ قربان کیا۔ آپؐ کی عبادت کی کیفیت کو دیکھنے کا بعض دفعہ صحابہؓ کو بھی موقع مل جاتا تھا۔ ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپؐ کے سینے سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔
(سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث 904)
یہ دعائیں کیا تھیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی دعائیں تھیں۔ یہ امت کے لیے دعائیں تھیں۔ یہ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے دعائیں تھیں۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے اس وقت بھی انقلاب پیدا کیا اور صدیوں کے مردے زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد بن گئے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے قبولیت کا درجہ پاتے ہوئے اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادقؑ کو اس بگڑے ہوئے زمانے میں اسلام کے احیائے نَو کے لیے بھیجاہے۔ پس آج یہ ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ خدا تعالیٰ کے حضور اس اُسوے پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ سجدے کریں جو صرف ہمارے ذاتی مقاصد کے لیے نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیے ہوں۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانے کے لیے ہوں۔ انسانیت کو اپنے پیدا کرنے والے خدا کے قریب لانے کے لیے ہوں۔ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ہوں۔
فرض اور باجماعت نمازوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اہتمام بلکہ بعض حالات میں کہنا چاہیے مشقت فرماتے تھے اِس کا اس ایک واقعے سے خوب اندازہ ہو سکتا ہے۔ غزوۂ اُحد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے رخسار میں ٹوٹ گئیں تو اس کی وجہ سے آپؐ کا بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ آپؐ زخموں سے نڈھال تھے۔ علاوہ ازیں ستّر صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں زیادہ اعصاب شکن تھا۔ اس روز بھی آپؐ اذان کی آواز پر اسی طرح نمازفجر کے لیے تشریف لائے، جس طرح عام دنوں میں تشریف لاتے تھے۔
(ماخوذ از اسوۂ انسان کامل صفحہ 84)
اور آپؐ کا یہی عمل تھا جس نے صحابہؓ میں بھی عبادتوں کے معیار قائم کر کے دکھائے۔
پس آج ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا جب ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ اب مسیح موعودؑ کی جماعت کے ذریعہ سے اسلام کا احیائے نَو ہونا ہے، ہم ہیں جنہوں نے اسلام کی تعلیم کو دوبارہ زندہ کرنا ہے، کیا ہماری عبادتوں اور باجماعت نمازوں کے معیار اس کے قریب بھی ہیں؟ ذرا سی تکلیف پر مسجد نہ آنے کے بہانے ہوتے ہیں۔ صبح اٹھ کر دو چھینکیں آ جائیں تو کہہ دیتے ہیں کہ آج طبیعت خراب ہے نماز گھر میں پڑھ لو۔ سستیاں تو کوشش کرنے سے دور ہوتی ہیں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بھی اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کریں۔ یہ وہ دعائیں ہی ہیں جو دنیا میں انقلاب کا اس زمانے میں ذریعہ بنیں گی۔ ہماری تبلیغ بغیر دعاؤں کے بے نتیجہ ہے۔ ہماری علمی کاوشیں بغیر دعاؤں کے بے نتیجہ ہیں۔ پس اگر دنیا کو حقیقی اسلام سکھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں خدا تعالیٰ سے اس معیار کا تعلق جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوےکی پیروی میںچلتے ہوئے قائم کیے تھے اور جس کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس طرح کھینچا ہے فرماتے ہیں کہ
‘‘موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے یَأکُلُوْنَ کَمَا تَأکُلُ الْاَنْعَام۔’’(محمد:13) یعنی وہ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح جانور کھا رہے ہیں۔ ‘‘یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہو گئی۔ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۔ (الفرقان:65)یعنی وہ اپنے ربّ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں۔’’
(ملفوظات جلد 9 صفحہ 145)
پس یہ وہ حالت ہے جو ہمیں بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ یہ کہ فجر کی نماز کے وقت بھی اٹھنے میں سستی دکھائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپؐ جان کنی کی حالت میں تھے اور سانس اُکھڑ رہا تھا یہ تھا کہ نماز اور غلام کے حقوق کا خیال رکھنا ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب وھل اوصی رسول اللہ حدیث 2698)
یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے اور مخلوق کا حق ادا کرنے کی آپؐ کی کیفیت اور یہ وہ آخری نصیحت ہے جس کو ایک مومن کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہی ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کا مقصد ہے جسے ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے نہ کہ سستیوں اور دنیاوی مصروفیات میں ڈوب کر اپنی زندگی کے مقصد کو بھی بھول جائیں۔
پھر اللہ تعالیٰ پر توکّل کی حالت ہے تو اس بارے میں بھی آپؐ کے نمونے اعلیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا۔ (النساء:82) یعنی اور اللہ پر توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے۔ تو پھر آپؐ کی زندگی میں ہر موقعے پریہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں بلکہ مرض الموت کے وقت بھی آپؐ کو اس چیز کی فکر تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی حالت میں مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں جس میں ذرا سا بھی اللہ تعالیٰ پر توکّل نہ کرنے کا شبہ پیدا ہو سکتا ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس آپؐ نے سات یا آٹھ دینار رکھوائے۔ آخری بیماری میں فرمایا کہ عائشہؓ !وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں مَیں نے عرض کیا کہ وہ میرے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ وہ صدقہ کر دو۔ پھر حضرت عائشہؓ کسی کام میں مصروف ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دوبارہ ہوش آئی تو پوچھا کہ وہ صدقہ کر دیا؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ ابھی نہیں کیا۔ آپؐ نے ان کو بھیجا کہ جاؤ ابھی جاؤ اور میرے پاس لے کے آؤ۔ آپؐ نے وہ دینار منگوا کر اپنے ہاتھ پر رکھ کر گنے اور پھر فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اپنے ربّ پر کیا توکل ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دینار صدقہ کر دیے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 183 ذکر الدنانیر التی قسمھا رسول اللہ ؐ فی مرضہ الذی مات فیہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
لیکن دوسروں کو آپؐ نے یہ نصیحت فرمائی کہ مَیں تو اللہ تعالیٰ کا نبی اور محبوب ہوں یہ میرے ساتھ سلوک ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تم توکّل بھی کرو لیکن اپنی اولاد کو فقر اور ابتلا سے بچانے کے لیے ان کے لیے اگر تمہارے پاس کوئی جائیداد ہے یا کوئی رقم ہے تو چھوڑ کر جاؤ۔ 3/1 حصہ سے زیادہ کی وصیت کی اجازت نہیں دی۔
(صحیح البخاری کتاب الوصایا باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر من ان یتکففوا الناس حدیث 2742)
اور اللہ تعالیٰ نے اس لیے قرآن کریم میں وراثت کا طریق بھی تفصیل سے بتا دیا لیکن ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ابنِ آدم کے دل کی ہر وادی میں ایک گھاٹی ہوتی ہے، ہر انسان کے دل میں ایک گھاٹی ہے، ایک وادی ہے اور جس کا دل ان سب گھاٹیوں کے پیچھے لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا کہ کون سی وادی اس کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتا ہے تو اللہ اسے ان سب گھاٹیوں سے بچا لیتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب التوکل والیقین حدیث 4166)
پس اسلام دنیا کے کاموں کی بھی اجازت دیتا ہے لیکن رات دن صرف جائیدادیں بنانے اور دنیا کے کاموں میں مبتلا رہنے سے منع کرتا ہے اور بنیادی چیز جس کی طرف توجہ دلاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس پر توکّل ہے اور جب یہ ہو تو دنیاوی مشکلات سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا اگر تم اللہ پر توکّل کرو جس طرح کہ اس پر توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں ضرور اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندے کو دیتا ہے۔ جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب التوکل والیقین حدیث 4164)
پس یہ بات ہمیں اس طرف ہمیشہ توجہ دلانے والی ہونی چاہیے کہ رزق خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے اور اس کے حصول کے لیے ہمیں اپنی عبادتوں کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔ کام ضرور ہوں لیکن اصل توکّل اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو اور کام کے لیے عبادتیں قربان نہ ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توکّل کے بارے میں ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ‘‘واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لیے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکّل کرنے والے تھے۔ کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی۔ کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی۔ اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہو گا۔ بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعاتِ خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکّل کر کے کُھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں۔’’
(براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 111-112)
پھر اعلیٰ اخلاق کا ایک وصف شکر گزاری ہے۔ اس وصف کے اعلیٰ معیار کا ہمارے آقا و مطاع کا نمونہ اور اسوہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت اس بات کی تلاش رہتی تھی کہ کس طرح شکر گزار بنیں۔ خدا تعالیٰ کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ بنیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے اس مقصد کے لیے آپؐ دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ! تُو مجھے اپنا شکر بجا لانے والا اور بکثرت ذکر کرنے والا بنا دے۔
(سنن ابو داؤد کتاب الوتر باب ما یقول الرجل اذ اسلم حدیث 1510)
اور ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اے اللہ! مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا سب سے زیادہ شکر کرنے و الا ہوں اور تیری نصیحت کی پیروی کرنے والا ہوں اور تیری وصیت کو یاد کرنے والا ہوں۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 216 حدیث 8087 مسند ابی ھریرہ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
کیا ہی عاجزی کا مقام ہے! دنیا کا سب سے زیادہ شکر گزار یہ دعا کر رہا ہے کہ میں سب سے زیادہ شکر گزار بنوں۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روٹی کے ٹکڑے پر کھجور رکھ کر کھا رہے تھے اور فرماتے تھے یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے اور اس پر شکر گزاری فرما رہے تھے۔
(سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب فی التمر حدیث 3830)
ا کثر یہ ہوتا کہ سرکے سے یا پانی سے ہی روٹی تناول فرماتے اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہوتے۔
(صحیح الاثر وجمیل العبر من سيرة خير البشر ﷺ جلد 1 صفحہ 254، مکتبۃ روائع المملکۃ، جدہ 2010ء از الشاملہ)
آج کل ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو اعلیٰ کھانا بھی میسر آتا ہے اور پھر بھی ہزار نخرے ہوتے ہیں۔ گھروں میں بعض ناچاقیاں اسی وجہ سے پیدا ہو رہی ہوتی ہیں کہ بیوی نے اچھا کھانا نہیں پکایا۔
پھر فتح مکّہ پر آپؐ کی عاجزی اور شکر گزاری کی مثال ایک انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ روایت میں آتا ہے جب آپؐ ذی الطویٰ مقام پر پہنچے تو سرخ یمنی کپڑے کا عمامہ باندھے ہوئے اپنی سواری پر ٹھہر گئے اور یہ خیال کر کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح دے کر کس قدر عزت افزائی کی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزی اور شکر گزاری سے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ یوں لگتا تھا کہ آپؐ کی ریش مبارک سواری کے کجاوے سے چھو جائے گی۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 546 ذکر الاسباب الموجبۃ المسیر الیٰ مکۃ وذکر فتح مکۃ …… مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
پھر آپؐ کی احسان مندی اور شکر گزاری کی ایک اعلیٰ مثال یوں ملتی ہے کہ جب مکے کے مسلمانوں پر کفّار کی طرف سے ظلم کیے گئے اور مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور شاہ حبشہ نے انہیں پناہ دی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی بادشاہ کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا۔ چنانچہ جب نجاشی کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ان کے استقبال کے لیے خود کھڑے ہوئے۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! ان کے استقبال کے لیے ہم کافی ہیں کہ ان کی مہمان نوازی بھی ہم کریں گے استقبال بھی کر لیں گے آپؐ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے ساتھ بڑے اخلاق کے ساتھ پیش آئے تھے اور عزت سے انہیں اپنے پاس رکھا تھا اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس احسان کا بدلہ خود اتاروں۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 72 باب ذکر مغازیہ غزوۃ خیبر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
پس یہ ان لوگوں کے لیے بھی سبق ہے جو یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں کہ ان حکومتوں نے جنہوں نے ہمیں یہاں پناہ دے کر ہمارے لیے سہولتیں مہیا کی ہیں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان ملکوں کی بہتری کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال کریں اور انہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم نہ صرف علمی طور پر بلکہ عملی طور پر بھی دکھا کر بتائیں کہ کیا حقیقی اسلام ہے اور یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بھی طرح نقصان نہیں ہم نے پہنچانا یا ان سے غلط طریق سے مالی منفعت حاصل نہیں کرنی، کوئی سہولت حاصل نہیں کرنی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو ہمیں دین ملا اور جس طرح ہمیں ہر خلق کی گہرائی اور اس کے اعلیٰ معیار کا علم ہوا اس پر شکر گزاری کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے۔’’ بغیر کسی مشقت اور محنت کے ہمیں وہ سیدھا راستہ دکھا دیا ‘‘وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانہ میں دکھائی گئی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اِس فضل اور نعمت کا شکر کرو۔ اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمالِ صالحہ کو بجا لاؤ جو عقائدِ صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کردعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے۔’’
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 149-150)
پس یہ ہے ایک احمدی کے حقیقی شکر گزار ہونے کا طریق۔
پھر ایک خلق امانت کی ادائیگی ہے اور عہد کی پابندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ۔
(المومنون: 9)
اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح ہم انہیں پورا کر رہے ہیں۔ اس کے اعلیٰ ترین معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح قائم فرما کر ہمارے سامنے اپنا اسوہ پیش فرمایا۔ روایت میں آتا ہے کہ جب اسلامی فوجوں نے خیبر کو گھیرا تو اس وقت وہاں کے ایک یہودی سردار کا ملازم جو جانور چرانے والا تھا جانوروں سمیت اسلامی لشکر کے علاقے میں آ گیا اور مسلمان ہو گیا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! میں تو اب مسلمان ہو گیا ہوںمیں واپس بالکل جانا نہیں چاہتا ۔ واپس جاؤں گا تو میرے پہ ظلم بھی ہو گا ۔ یہ بکریاں میرے پاس ہیں ان کا اب میں کیا کروں۔ یہ یہودی کا ریوڑ ہے، ان کا مالک یہودی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بکریوں کا منہ قلعے کی طرف پھیر کر ہانک دو وہ خود اس کے مالک کے پاس پہنچ جائیں گی۔ چنانچہ اسی طرح ہوا اور قلعے والوں نے وہ بکریاں لے لیں۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 517 ذکر المسیر الیٰ خیبر مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
یہ ہے وہ اعلیٰ ترین مثال امانت اور دیانت کی کہ جنگ کی صور ت ہے، دشمن کا مال ہاتھ آیا ہے لیکن مسلمان ہونے والے کو پہلا سبق آپؐ نے یہ دیا کہ ایک مسلمان کا امانت اور دیانت کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے۔ اس مال پر نہ تمہارا کوئی حق ہے نہ ہمارا۔ اسے اس کے مالکوں کو لوٹا دو۔ آج کل کے اس ترقی یافتہ معاشرے میں جنگ کی صورت میں کہیں بھی دنیا میں آپ کو یہ معیار نظر نہیں آئیں گے۔ جو اسلام پر اور اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ اس خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
پھر عہد کی پابندی کا حال ہے کہ دشمن بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آپؐ عہد کے پابند ہیں۔ ہرقل کے دربار میں ابوسفیان کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ آج تک اس شخص نے ہمارے ساتھ بدعہدی نہیں کی۔
(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب کتب النبی ؐ الیٰ ھرقل ملک الشام …… حدیث (1773)
پھر صلح حدیبیہ میں جب معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو ایک شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا آتا ہے جو مسلمان ہونے کی وجہ سے زنجیروں میں جکڑا گیا ہے اور پناہ طلب کرتا ہے لیکن اس کا باپ جو مسلمان نہیں ہے وہاںموجود ہے ۔ وہ آپؐ سے کہتا ہے کہ اب ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہمارا کوئی آدمی آپؐ کے ساتھ نہیں جائے گا۔ اس لیے آپؐ اسے ساتھ نہیں لے جا سکتے چاہے وہ آپؐ کی پناہ میں آنے کے لیے بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ شخص بہتیرا شور مچاتا ہے کہ کیا میں کافروں میں واپس کر دیا جاؤں گا تا کہ وہ مجھے تکلیفیں پہنچائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں ہاں اب معاہدہ ہو گیا ہے حالانکہ اس وقت معاہدہ ابھی لکھا جا رہا تھا، کچھ شرائط لکھی گئی تھیں لیکن دستخط ہونے سے پہلے ہی آپؐ نے فرمایا کیونکہ لکھا گیا ہے اس لیے بڑے مقصد کی خاطر اور اس معاہدے کی خاطر تمہیں قربان ہونا پڑے گا ۔ اس لیے تم واپس جاؤ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تم چند روز صبر کرو میں تمہیں خوش خبری دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی پیدا کر دے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس معاہدے کی وجہ سے آج میں مجبور ہوں کیونکہ ہم بدعہدی نہیں کرتے۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 504 امر الھدنۃ امر ابی جندل ابن سھیل بن عمرو مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
تو یہ معیار تھے آپؐ کے معاہدوں کی پابندی کے۔ آج کل کی دنیا دار حکومتیں تو اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ آج ایک معاہدہ ہوتا ہے اور کل وہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں بھی اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہمارے اپنے معاہدوں کی پابندی کے معیار کیا ہیں۔ اپنی روز مرہ زندگی میں ہمیں اپنی مثالیں دیکھنی چاہئیں۔ اپنی گھریلو زندگی میں بھی اس کی مثال دیکھیں کہ کیا عہدوں کی پابندی ہم کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تو گھریلو زندگی میں بھی عہد کی پابندی کے متعلق فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلق قائم کرے پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز بھی دنیا کو بیان کرتا پھرے۔
(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم افشاء سر المراۃ حدیث1437)
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ یہ گھٹیا حرکت کرتے ہیں۔ نہایت ذلیل اور کمینی حرکت کرتے ہیں اور پھر صرف زبانی ہی نہیں بتاتے لوگوں کو بلکہ وٹس ایپ پر اور دوسرے میڈیا پر جو آج کل میسجز کے ذریعہ سے، ٹویٹر کے ذریعہ سے اس بات کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ یقیناً سب سے بڑے خائن ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور اگر علیحدگیاں بھی ہو جاتی ہیں تو تب بھی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ایک دوسرے کا راز باہر نکالے۔ یہ بہت بڑی خیانت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑمیں آنے والی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں ضرور پوچھے گا۔
پس ایسے لوگوں کو اپنی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ عہد کی پابندی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‘‘کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کیے جائیں گے۔ ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا۔ وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔’’
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19-20)
پس اگر خدا تعالیٰ سے خالص تعلق جڑے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بھی پابندی ہو گی اور گھریلو عہدوں سے لے کر باہر کے معاشرے کے عہدوں تک یہ پابندیاں ہوں گی اور دوسرے تعلقات کو نبھانے میں بھی یہ پابندیاں ہوں گی۔ کاروباری معاہدوں اور عہدوں میں بھی یہ پابندیاں ہوں گی۔ ہر قسم کے عہدوں کی خدا تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے پابندی سے ہر قسم کے نقصان سے پھر ایسے لوگ بچنے والے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ہم عہدوں کی پابندی کر رہے ہیں اور یہی ایک حقیقی احمدی کا طریق اور حقیقی مسلمان کا طریق ہونا چاہیے۔
پھر عاجزی ایک بہت بڑا خلق ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان:64)
اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ لڑتے نہیں کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہیں ایک طرف ہو جاتے ہیں،فضول باتیں نہیں کرتے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اپنا اسوہ کیا تھا؟ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری بہت زیادہ تعریف نہ کرو جس طرح عیسائی ابن مریمؑ کی کرتے ہیں۔ میں صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ پس تم مجھے صرف اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔
(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم …… حدیث 3445)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ ‘‘ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضورؐ کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار
اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (الکہف:111)
ہی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزوِ لازم قرار دیا۔جس کے بدوں مسلمان مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ سوچو! اور پھر سوچو!! پس جس حال میں ہادیٔ اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے۔’’
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 117-118)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر فرمایا کہ تم لوگ اپنے جھگڑے لے کر میرے پاس آتے ہو اور میں بھی ایک بشر ہوں اور ہو سکتا ہے تم میں سے ایک اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو اور میں جو سنوں اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دوں جو زیادہ باتیں کرنے والا ہے، زیادہ دلیلیں پیش کرنے والا ہے۔ پس جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں، ان دلیلوں کی وجہ سے دے دوں اور اس کا حق نہ ہو، حق اس کے بھائی کا بنتا ہو اور میں اس کے بھائی کے حق میں سے اسے کچھ دے دوں تو وہ اس کو نہ لے۔ ایمانداری کا تقاضا یہی ہے کہ باوجود فیصلے کے نہ لےکیونکہ ایسی صورت میں میں اس کو آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔
(صحیح البخاری کتاب الشہادات باب من اقام البینۃ بعد الیمین حدیث 2680)
اپنے حق میں فیصلہ تو کرا لو گے لیکن وہ آگ کا ٹکڑا ہو گا بہتر یہی ہے کہ اس آگ کے ٹکرے سے بچو ،جہنم کی آگ سے بچو اور صاف صاف کہہ دو کہ نہیں میرا حق نہیں۔ حق کسی کا بنتا ہے۔
پس جو لوگ غلط فیصلے کروانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے بڑا خوف کا مقام ہے۔ گھریلو زندگی میں بھی آپؐ کی عاجزی اور گھر والوں کی مدد کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام میں مدد فرماتے تھے۔ آپؐ کپڑے خود دھو لیتے تھے،گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے تھے۔ خود اونٹ کو باندھتے تھے، پانی لانے والے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے تھے، بکری خود دوہتے تھے، اپنے ذاتی کام بھی خود کر لیتے تھے۔ خادم سے کوئی کام لیتے تو اس میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے حتٰی کہ اس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوندھ لیتے تھے۔ بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صفحہ 176 حدیث 271، 272، 273 باب الثانی فصل فی تواضعہﷺ مطبوعہ جائزۃ دبی الدولیۃ للقرآن الکریم 2013ء) (وسائل الوصول إلى شمائل الرسولﷺ جلد 1 صفحہ 241۔ دار المنہاج جدہ 1425ھ۔ از الشاملہ)
آج کل گھروں میں بعض مرد بڑا تکبر دکھاتے ہیں۔ کپڑے وقت پر نہ دھلیں تو گھر میں فساد کھڑا ہو جاتا ہے حالانکہ اب تو ہاتھ سے نہیں دھونے، واشنگ مشین گھر میں موجود ہے، خود بھی وہ واشنگ مشین میں کپڑے ڈال سکتے ہیں لیکن پھر بھی اتنی بھی تکلیف نہیں کرنی۔ جھاڑو تو پھیرنا اب رہا نہیں ہر جگہ hoover ہیں، آرام سے hooverپھیرا جا سکتا ہے لیکن وہاں بھی نخرے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے گھروں میں فساد ہو رہا ہوتا ہے۔ پس احمدی ہو کر ہمیں اپنے نمونے دکھانے چاہئیں۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باہر کی زندگی دیکھیں تو اس میں بھی آپؐ کے اعلیٰ نمونے ایک مثال ہیں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ‘‘متکبر خدا تعالیٰ کے تخت پر بیٹھنا چاہتا ہے۔ پس اس قبیح خصلت سے ہمیشہ پناہ مانگو۔ خدا تعالیٰ کے تمام وعدے بھی خواہ تمہارے ساتھ ہوں مگر تم جب بھی فروتنی کرو ۔کیونکہ فروتنی کرنے والا ہی خدا تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے۔ دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اگرچہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپؐ کو خدا تعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں آپ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص آپؐ کے حضور پکڑ کر لایا گیا۔ آپؐ نے دیکھا تو وہ بہت کانپتا تھا اور خوف کھاتا تھا مگر جب وہ قریب آیا تو آپ نے نہایت نرمی اور لطف سے دریافت فرمایا کہ تم ایسے ڈرتے کیوں ہو؟ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور ایک بڑھیا کا فرزند ہوں۔’’
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 258)
پھر ایک موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی اور انکساری کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘خالی شیخیوں سے اور بے جا تکبّر اور بڑائی سے پرہیز کرنا چاہیے اور انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہیے۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حقیقتاً سب سے بڑے اور مستحق بزرگی تھے ان کے انکسار اور تواضع کا ایک نمونہ قرآن شریف میں موجود ہے۔ لکھا ہے کہ ایک اندھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر قرآن شریف پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن آپؐ کے پاس عمائدِ مکہ اور رؤسائے شہر جمع تھے اور آپؐ ان سے گفتگو میں مشغول تھے ۔ باتوں میں مصروفیت کی وجہ سے کچھ دیر ہو جانے سے وہ نابینا اُٹھ کر چلا گیا۔ یہ ایک معمولی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق سورت نازل فرما دی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں گئے اور اسے ساتھ لا کر اپنی چادر مبارک بچھا کر بٹھایا۔’’
آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں عظمت الٰہی ہوتی ہے ان کو لازماً خاکسار اور متواضع بننا ہی پڑتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی بے نیازی سے ہمیشہ ترساں و لرزاں رہتے ہیں
آنانکہ عارف تر اند ترساں تر’’
کہ وہ لوگ جو زیادہ جانتے ہیں زیادہ ڈرتے ہیں ‘‘کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نکتہ نواز ہے اسی طرح نکتہ گیر بھی ہے۔ اگر کسی حرکت سے ناراض ہو جاوے تو دم بھر میں سب کارخانہ ختم ہے۔ پس چاہیے کہ ان باتوں پر غورکرواور ان کو یاد رکھو اور عمل کرو۔’’(ملفوظات جلد 10 صفحہ 343-344)
آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نےتو ہمیں جو نصیحت فرمائی وہ یقیناً ہمیشہ ہمارے لیے عمل کے لیے ہے اور جو نصیحتیں ہیں آپؐ کی وہ یقیناً ہمیں فکر میں ڈالنے والی ہونی چاہئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا۔ تم میں سے کوئی بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم! آپؐ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پاؤں گا لیکن اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا پس تم سیدھے رہو اور شریعت کے قریب رہو اور صبح اور شام اور رات کے اوقات میں عبادت کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے۔ عبادت کرو اور درمیان کا رستہ اختیار کرو۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 753 حدیث 10688 مسند ابو ھریرہ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
میانہ روی ہر معاملے میں ضروری ہے۔ دنیا داری میں نہ پڑ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا داری کا جائز اختیار دیا ہے لیکن میانہ روی ہونی چاہیے۔ خدا نہ بھول جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق ادا کرنے ہیں وہاں اس کی طرف توجہ کرو۔ جو کاروبار ہے اس کی طرف توجہ کرو اور اس کے جو حق ہیں وہ ادا کرنے کی کوشش کرو لیکن دنیا داری خدا تعالیٰ کے حق کے مقابلے پہ نہیں ہونی چاہیے۔ دین دنیا پر ہمیشہ مقدم ہونا چاہیے۔ جب یہ ہو گا تو آپؐ نے فرمایا تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کا رحم تمہیں مل جائے گا، فضل مل جائے گا۔ پس جہاں اس بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف کا بھی اظہار ہو رہا ہے اور فرمایا کہ جب میرا یہ حال ہے تو تم لوگوں کو کس قدر خدا تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کا رحم مانگنے کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بناتا ہے اور ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کس ذریعہ سے قبول کیے جائیں گے اس لیے اس رحم اور فضل کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادتوں اور اعلیٰ اخلاق کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔
ظاہری حالت بھی اور انسان کے چہرے کے تاثرات بھی اس کے اخلاق کی عکاسی کرتے ہیں اس بارے میں صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کس طرح بیان کرتے ہیں۔ حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھے۔
(صحیح البخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبی حدیث 3549)
لوگ خوش شکل ہوں تو تکبّر پیدا ہو جاتا ہے۔ آپؐ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے خدا! جس طرح تو نے مجھے خوش شکل بنایا ہے اسی طرح خوب سیرت بھی بنا دے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 288 حدیث 25736 مسند عائشہ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
یہ زندگی کے چند پہلو ہیں جو میں نے ابھی بیان کیے ہیں جن سے آپؐ کی سیرت کی خوبصورتی روشن ہو کر نظر آتی ہے لیکن عاجزی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں کہ میری سیرت میرے اخلاق میرے عبادت کے معیار ہمیشہ ایسے ہوں جو تجھے اور تیری مخلوق کو پسند ہوں۔
پھر ایک اور صحابی گواہی دیتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کا چہرہ متبسم نہیں دیکھا اور مسکرانے والا نہیں دیکھا۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب ما رایت احدا اکثر تبسما حدیث 3641)
اُم معبد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں یوں بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دور سے دیکھنے میں لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور قریب سے دیکھنے میں انتہائی شیریں زبان اور عمدہ اخلاق والے تھے۔
(مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 3 صفحہ 10-11 کتاب الھجرۃ حدیث 4274 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت علیؓ بیان فرماتے ہیں کہ آپؐ لوگوں میں سب سے زیادہ فراخ سینہ تھے اور گفتگو میں لوگوں میں سب سے زیادہ سچے تھے اور ان میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور معاشرت و حسن معاملگی میں سب سے زیادہ معزز تھے اور محترم تھے۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب وصف آخر من علی حدیث 3638)
آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی بے شمار مثالیں اور اخلاق کے بے شمار مثالیں ہیں۔ آپؐ کے اخلاق کے کسی پہلو کو بھی لے لو وہ آپؐ میں کامل اور مکمل نظر آتا ہے اور یہی اسوہ ہے جسے اپنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ پس اگر ہم نے دنیا کو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چہرہ دکھلانا ہے تو آپؐ کے اُسوے کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل اور قول سے وہ چہرہ دکھانا ہو گا تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے کا بھی حق ادا کر سکیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے لیے اس زمانے میں بھیجا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۔ (القلم:5) توخُلق عظیم پر ہے اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہو گا کہ جہاں تک درختوں کے لیے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامّہنفس محمدؐی میں موجود ہیں۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔’’
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 606 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ‘‘وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُرزور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا …… وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیّین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیساکہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحیٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اُسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کامل نبی کی امت میں آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اس خوبصورت اور روشن چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کر کے دنیا کے اندھیروں کو دور کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ اب دعا کر لیں۔
٭٭٭دعا٭٭٭