ذہنی صحت (Mental Health)
ہمارا ذہن خدا تعالی کی خدائی کا ایسا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والے بھی اس کے معترف ہیں اور مانتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں اور انسانی دماغ خود بخود بتدریج ترقی کرکے نہیں بنا ۔ بناوٹ کے لحاظ سے انسانی دماغ کروڑوں اربوں حساس خلیوں اور عناصر سے مل کر بنا ہے جو خدا تعالی کی طرف سے ودیعت کیے گئے کام کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ سب خلیوں کی بناوٹ ایک ہوتی ہے مگر اپنے کام کی وجہ سے ان کی شکل میں کچھ فرق ہو سکتا ہے اس لیے اگر دماغ کے کسی حصہ کو کسی وجہ سے نقصان پہنچ جائے تو وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آتا۔ ہمارے جسم میں ہر وقت ٹوٹنے پھوٹنے اور ٹھیک ہونے کا عمل ہوتا رہتا ہے وہ دماغ میں نہیں ہوتا اور دماغ کے اس متاثرہ حصے کا کام جسم میں پھر نہیں ہوتا ۔ دماغ کا کام فیصلہ کرنا اور پھر اس کو جسم کے ہر حصے میں حکم دینا کہ وہ کام ہو جائے چاہے وہ ہارمون ہوں، انزائم ہوں، جسم کے ریشے ہوں یاغدود ہوں یا دل جگر ہو ان میں صحیح کام ہوتا رہے ۔ دماغ کے کام کرنے کے بارے میں اگر بات کی جائے تو ایک ضخیم کتاب سے بھی زیادہ لکھا جا سکتا ہے مگر یہ پھر بھی نا مکمل ہوگی کیونکہ ابھی تک سائنس دماغ کے بہت سے حصوں کے کام کا خود بھی پتہ نہیں کر سکی۔ اور دنیا بھر میں انسانی دماغ اور اس کے رویوں پر ریسرچ ہو رہی ہے تاکہ انسان بہتر سے بہتر زندگی گزار سکے۔ انسانی دماغ بچے کے لیے جب ماں کے پیٹ میں بننا شروع ہوتا ہے اس میں مستقل تبدیلی اور نشوونما ہوتی ہے یہ تبدیلیاں بالکل ایسی ہوتی ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو مکمل بالغ انسان کی طرح اپنی بناوٹ رکھتا ہے مگر سب کچھ حجم میں چھوٹا ہوتا ہے پھر وقت کے ساتھ اسی بناوٹ میں نشوونما ہوتی ہے اور اس نشوونما میں اردگرد کا ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہے جو ذہنی اور جسمانی بناوٹ پر اثر کرتا ہے جیسے ایک مزدور کے یا ہاتھ سے کام کرنے والے کے ہاتھ سخت اور بھرے ہوتے ہیں۔ ننگے پاؤں چلنے والوں کے پاؤں چوڑے ہوتے ہیں ایک ڈاکٹر انجینئر یا کسان کا دماغ اور ان کا رویہ بالکل فرق ہو گا مگر انسانیت کا جذبہ اور احساسات ایک ہوں گے۔ انسان کی صحت و تندرستی میں دماغ اور اعصاب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں والدین کے ذہن کی صلاحیتیں، ماں کی صحت، خوراک اور موجودہ حالات کا اثر پھر پیدائش کے بعد جس طرح کا ماحول ملتا ہے ذہن وہ علم اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح ایک شخصیت کا ذہن سامنے آتا ہے جو آئندہ انسان کے رویوں اور قوت عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ چھوٹی سی مثال ہے دو سال تک آپ جو بھی الفاظ بچوں کے سامنے بات کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں یا اپنے گرد جو وہ الفاظ یا آوازیں سنتا ہے ان کو ایسے الفاظ کے ذخیرہ میں جمع کرتا جاتا ہے اور پھر عمر کے ساتھ جب وہ بولنا شروع کرتا ہے تو ساری زندگی اس ذخیرے سے الفاظ نکال کر استعمال کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ اور حالات کے ساتھ نئے الفاظ بھی اس اسٹور میں جمع ہوتے رہتے ہیں مگر بنیادی الفاظ کا ذخیرہ وہی رہتا ہے۔ اس لیے اگر بچہ دو سال کی عمر تک کسی وجہ سے نہ سن سکے جیسے کانوں کے پردے کے پیچھے پانی پڑ جانا یا بار بار انفیکشن ہونا تو بنیادی الفاظ کا ذخیرہ ہمیشہ کم رہتا ہے اور یہ بولنے اور ذہانت پر اثر کر سکتا ہے۔ ذہن میں سوچ اور تبدیلی کا عمل انسان کے آخری سانس تک ہوتا رہتاہے ۔ ایک صحت مند بالغ ذہن 5 بنیادی حسیات کے باہمی تعاون سے نتائج اخذ کر کے جسم کو حکامات جاری کرتا ہے۔ ان حسوں میں
1۔ دماغ کی بنیادی بناوٹ
2۔ ارد گرد کا ماحول
3۔ مثبت اور منفی انداز فکر
4۔پیار، محبت، ہمدردی، مدد، تکلیف،جذبات، احساسات
5۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت
جسم اور ذہن کی نشوونما اکٹھی ہوتی ہے۔ جسم ذہن کا تابع ہوتا ہے۔ اگر یہ مل کر کام نہ کریں تو دونوں میں تضاد پیدا ہوتا ہے جیسے ذہن میں کچھ اَور سوچ ہے اور جسم عمل کچھ اَور طرح سے کر رہا ہے تو ہمارے لاشعور کو تضاد کا پیغام ملتا ہے اور اس تضاد کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد آپ کے ذہن و جسم کااکٹھا مل کر کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری کا آغاز ہے ۔ ایک صحت مند دماغ کے ساتھ صحت مند جسم کام کر سکتا ہے ، بیمار جسم کے ساتھ صحت مند ذہن کام کر سکتا ہے اور آپ کو صحت کی طرف لاسکتا ہے مگر ایک بیمار ذہن کے ساتھ صحت مند جسم صحت مندانہ طور پر کام نہیں کر سکتا ۔ سوچ اور عمل میں تبدیلیاں وقت اور حالات کے ساتھ آتی ہیں ایسی کوئی تبدیلی جو صحت مند انسانوں کی روز مرہ زندگی پر اثر کرے تو اس کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں سے بڑھ کر تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ ذہنی بیماریاں جب شدّت پکڑتی ہیں تو جسم کو معذور بنا دیتی ہیں جو صرف مریض کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ رہنے والوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہوتی ہیں ۔
ذہنی بیماریاں مختلف طرح کی ہوتی ہیں۔ ہم صرف ان بیماریوں کی بات کریں گے جو ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہیں اور روزانہ کی زندگی میں خلل پیدا کرتی ہیں ۔ ہم پیدائشی یا موروثی ذہنی بیماریوں کو اس مضمون میں شامل نہیں کریں گے۔ ہم اُن بیماریوں کی بات کریں گے جو حالات اور انسان کی دانستہ یا نادانستہ طور پر خود پیدا کردہ ہوتی ہیں اور جن کی علامات ایک حد سے بڑھ جائیں تو انسان کی روزمرہ زندگی پر اثر کرتی ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنے ایک سروے سے پتہ لگایا کہ ذہنی صحت کی خرابی کی علامات دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ یہ صورتحال بہت پریشان کن ہے اور ہمیں ذہنی صحت کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ مضمون فائدہ مند ثابت ہوگا ۔
ہماری ذہنی صحت مزاج ،سوچ اور عمل میں تبدیلی ہے ۔ اگر یہ تبدیلی غیر معمولی ہو جائے تو یہ اتنا ہی ہمیں ذہنی بیماریوں کی طرف لے جائے گی ۔ فکر اور پریشانی کا علاج کروالیا جائے تو مریض شفا پا کر نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔
اب ہم ان علامات اور ان بیماریوں کو سمجھیں گے کہ ہم کیسے ان سے بچ سکتے ہیں تاکہ کوئی بھی تکلیف بڑھ کر دوسرے میں تبدیل نہ ہو جائے ۔ فکر کسی بھی کام کو کرنے کے لیے سوچ ہے۔ فکر صحت مندانہ ہوتی ہے اور اگر حد سے بڑھ جائے تو غیر صحت مندانہ بھی ہوجاتی ہے۔ اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ فکر پریشانی کی پہلی سٹیج ہے جیسے کہیں جانے کی تیاری کی فکر ، امتحان کی تیاری کی فکر ، خریداری کی فکر ۔ اَور کچھ نہ سہی تو کیا پکائیں کی فکر تو یقیناً فوراً لاحق ہی ہو جاتی ہے کہ حل ہونے میں نہیں آتی۔ پھر پیسوں کی کمی کی فکر۔نوکری ختم ہوجانے کی فکر ۔ جائیداد کی فکر ۔ جائیدادوں کے مسئلے ۔اولاد کی تربیت کی فکر ۔دلوں کی قدورتوں کی فکر ۔بیمار کی دیکھ بھال کی فکر۔ اپنی بیماری کی فکر ۔ بچوں کے رشتوںکی فکر۔ کسی کے پیاروں سے دوری کی فکر۔ اور پھر آپ کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کب آپ کی صحت مندانہ فکر پریشانی میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ فکر اور پریشانی کو الگ الگ سمجھنے میں بہت کم فرق ہے۔ فکر بہت جلد پریشانی میں داخل ہو جاتی ہے۔ پریشانی کسی چیز کی کمی کا احساس ہے جس کے لیے آپ مثبت انداز میں اپنے جسم کا عمل ظاہر کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے یہ یقین رکھیں کہ پریشان ہونا صحت مندانہ عمل ہے یہ آپ کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت دیتا ہے ۔ پریشانی کا مثبت نتیجہ فیصلے کی قوت کو جِلا دیتا ہے ۔ پریشانی کو اپنا دوست بنا کر اس سے سبق سیکھ کر آگے چلیں۔ آپ کو صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ اس پریشانی کو پُرسکون رہ کر حل کرتے ہیں اور اس کے حل ہونے تک انتظار میں اپنی روزمرہ زندگی کے کام نارمل طریقے سے کرتے ہیں یا اس کو بڑھا کر ذہنی بیماریوں کی طرف لے جاتے ہیں ۔ پریشانی آپ کو آگے بڑھنے کی طاقت دیتی ہے جس کو کامیابی سے حل کرنا آپ کی سرخروئی ہے ۔ یہ زندگی ہے یہاں آپ کو ہر چیز کے حصول کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے چاہے وہ آپ کی صحت ہو، پڑھائی ہو، نوکری ہو یا روزمرہ زندگی کا چھوٹا یا بڑا کوئی کام۔ چاہے وہ عام زندگی میں اتنی اہمیت کا حامل بھی نہ ہو مگر آپ کو اسے کرنا پڑتا ہے اور بعض حالات میں اگر وہ کام دوسروں سے بھی تعلق رکھتا ہے تو آپ کو اس میں دوسروں کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ ساتھ آپ کے تعلقات کا مضبوط ہونا، مثبت رویہ اختیار کرنا اور وسائل کا صحیح استعمال کرنا ہے جو آپ کی پریشانی کا حل نکال کر آگے بڑھاتا ہے ۔انفرادی پریشانی ہم پر زیادہ اثر کرتی ہے۔ اس کے بعد خاندان کی۔ خاندان کی پریشانیاں اگر دھیان سے نہ حل کی جائیں تو وہ بھی ہمیں بیماری کی طرف لے جاتی ہیں۔ اگر آپ اس چارٹ کو دیکھیں تو پتہ لگے گا کہ کیسے زندگی کی تکالیف ان پر اثر کرتی ہیں۔ اگر آپ کے خاندان میں ذہنی بیماریاں ہیں تو آپ اپنا خاص خیال رکھیں ورنہ آپ ان بیماریوں کا شکار ایک عام آدمی سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ہر طرح کی مشکل یا پریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں ہر مشکل اور پریشانی کا حل کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتا ہے ۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭