سیرت النبی ﷺ

آنحضرت ﷺ کا اندازِ نصیحت

(فضل الرحمٰن ناصر۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

تقریر جلسہ سالانہ یوکے 2019ء

ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ

(الذٰریٰت:56)

حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی اصلاح کے لیے رحمت بناکربھیجا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوبھیجا تا صدیوں سے بگڑے ہووں کو اعلیٰ اخلاق سکھلائے جائیں ۔ اور خالق اورمخلوق میں جودوری پیداہوگئی ہے اس کودورکیاجائے۔ آپؐ نے سکھلایاکہ اپنے رب کا ، اپنے خالق ومالک کا پیارکیسے حاصل کرنا ہے اور اس کی مخلوق کےحقوق کیسے اداکرنے ہیں ۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھاکہ

ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ

(الذٰریٰت:56)

تُو نصیحت کرتا چلا جا۔ یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے

آپ نے جس ہمدردی اورمحبت اوردل سوزی اورمحنت سے مسلسل نصیحت کایہ فرض اداکیا اس کا قرآن کریم میں یوں ذکرہے:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ

(الشعرا:04)

(اے محمد ﷺ)کیاتو اس غم سے اپنے تئیں ہلاک کردے گاکہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح سے براہ راست فیض پانے والے خوش نصیب صحابہ کے واقعات ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اکثراپنے خطبات وتقاریرمیں بیان کرتے ہیں۔

ایک موقعہ پرفرمایا:

آپؐ کی نصیحت کا انداز بھی عجیب تھا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم تھا کہ نرمی اور پیار سے اپنے ماننے والوں سے سلوک کرنا ہے۔ اس لیے آپؐ نے اپنوں یعنی اپنے قریبی عزیزوں، بچوں سے بھی سمجھانے کے لیے نرمی اور محبت اور شفقت کے سلوک فرمائے اور امت کے دوسرے افراد سے بھی، اپنے صحابہ ؓ سے بھی۔ اور ہمیشہ اس حکم کو مدنظر رکھا کہ تیرا کام نصیحت کرنا ہے آرام سے نصیحت کرتا چلا جا۔ اور ایک اعلیٰ معلم کا یہی نمونہ ہونا چاہیے۔ آپؐ نے ہمارے سامنے یہ نمونہ قائم کیا کہ اگر اصلاح معاشرہ کے لیے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں تو اپنے گھر سے اصلاح شروع کرو۔ اس کا اثر بھی ہو گا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ۔ ان راستوں پر چلو اور ان کو چلاؤ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والے راستے ہیں، جو اعلیٰ اخلاق حاصل کرنے والے راستے ہیں……چنانچہ چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف بھی آپؐ اپنے گھر والوں کو توجہ دلاتے اور ان کی تربیت فرماتے تھے، لیکن انتہائی صبر سے، حوصلے سے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ چھ ماہ تک فجر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے حضرت فاطمہ ؓ کے دروازے کے پاس سے یہ فرما کر گزرتے رہے کہ: اے اہل بیت! نما ز کا وقت ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ

اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا

(الاحزاب:34)

کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔

(ترمذی -کتاب التفسیر -باب ومن سورۃ الاحزاب)

ایک اَور حدیث میں اسی طرح نصیحت کرنے کا ذکر آتا ہے اور اس سے آپؐ کے نصیحت کے رنگ اور وصف کا پتہ لگتا ہے۔ حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺ رات کو ہمارے گھر تشریف لائے۔ اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لیے بیدار کیا۔ پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کئے۔ اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہا خدا کی قسم! جو نماز ہمارے لیے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اٹھا دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لیے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی کہ

وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا

(الکہف:55)

کہ انسان اکثر باتوں میں بحث کرنے والا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 1صفحہ91 مطبوعہ بیروت)

آپؐ ڈانٹ بھی سکتے تھے، سرزنش بھی کر سکتے تھے لیکن بڑے آرام سے نصیحت فرمائی۔ یہ بھی بچوں کو سمجھا دیا کہ یہ تو مَیں سمجھاتا رہوں گا بتاتا رہوں گا، بلاتا رہوں گا، میرا کام نصیحت کرنا ہے اور یہ جو تم نے بات کی ہے یہ غلط ہے۔ انسان کی بہت بحث کرنے کی عادت اچھی نہیں ۔ بحث کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اگست 2005ء)

آپ نے اپنے گھر میں بیویوں اوربیٹیوں اورگھر میں کثرت سے آنے جانے والے بچوںاورنوجوانوںجیسے حضرت علی اورحضرت زیداور حسن اور حسین اور اسامہ اور انس اورعبداللہ بن عمر اورعبداللہ بن عباس وغیرہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی نہایت شفقت اورمحبت اور دعاؤں سے ایسی تربیت کی کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کے میناربن گئے۔ لیکن اس ساری تعلیم وتربیت کے دوران آپ نے نہ کبھی کسی پرہاتھ اٹھایااورنہ کبھی غصہ میں گھرمیں کسی کوڈانٹا۔ خاص طورپر عورتوں کے احترام کا اور تعلیم وتربیت کا ایساماحول پیداکیا کہ چندسال میں ہی عرب کے معاشرہ میں عورت کووہ عزت حاصل ہوگئی کہ آپؐ کے بعض عالی شان صحابہ بعض الجھے ہوئے مسائل کوحل کرنے کے لیے آپ کی بیویوں سے رائے لیاکرتے۔ آپؐ کے حسن خلق اوراخلاق کریمانہ کانتیجہ تھا کہ آپ کی بیویوں نے آپ کے گھرکی سادہ اورغریبانہ زندگی کے مقابل پر دنیاکی زیب وزینت اورمال ومتاع کی ہرطرح کی پیشکش کو ٹھکرادیا ۔ اس لیے کہ آپ کاگھر آپ کے اس قول کی عملی تصویرتھاکہ

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي

(سنن الترمذي كتاب المناقب باب فضل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم)

یعنی کوئی خواہ کتنے ہی بڑے عہدے پرکیوں نہ پہنچ جائے ۔ سب سے بہترین وہ ہے جواپنے اہل و عیال کے لیے اچھاہے ۔اور گھروالوں سے بہترین سلوک میں میراطرزعمل تم میں سے سب سے بہترین ہے۔
حضرت اقدس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز زندگی اور طرزعمل اور طرز گفتگو میں وہ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ

اِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ

(سورۃ قلم آیت 5)

توسب سے عظیم اخلاق پرقائم ہے ۔ آپؐ کے اعلیٰ ترین اخلاق اور گریہ وزاری سے کی جانے والی دعاؤں اور گہری اور ہمدردانہ مسلسل نصیحت کا نتیجہ تھا کہ دلوں میں اورگھروں میں اوراسلامی معاشرہ کے عام ماحول میں پاک تبدیلیاں پیداہوتی چلی جاتیں ۔ آپ کے حسن خلق میں ایسی دلکشی تھی ایسانورتھا جودلوں کومسخرکرتا۔صحابہ رضوان اللہ علیھم بیان کرتے ہیں۔ آپؐ نہایت ہمدرد نرم مزاج اورحلیم الطبع تھے۔ہرمسلمان سے مہربانی سے پیش آتے۔ آپؐ فرمایاکرتے تھے کہ نرمی کااختیارکرنا معاملات کوخوبصورت بنادیتاہے اور جس سے نرمی نکال لی جائے وہ معاملہ بدصورت ہوجاتاہے ۔ایک صحابی بیا ن کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک جنگ کے موقع پر بھیڑ کی وجہ سے میراپاؤں آپ کے پاؤں پرجاپڑا میرے سخت جوتے کی وجہ سے آپ کو شدیدتکلیف ہوئی توآپ نے اپنی چھڑی سے یہ کہتے ہوئے میرا پاؤں پرے ہٹایا کہ بسم اللہ تم نے میراپاؤں زخمی کردیاہے ۔جس سے مجھے بہت ندامت ہوئی ۔ساری رات بہت پریشان رہا ۔ اگلے دن کسی نے مجھے نام لے کرپکاراکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلارہے ہیں ۔میں شدیدگھبراہٹ میں آپ کی خدمت میں حاضرہوا۔شایداب سزا ملے گی ۔لیکن آپ نے کمال شفقت سے فرمایاکل میں نے اپنی چھڑی سے تمہارے پاؤں کو ہٹایاتھا مجھے اس کابہت افسوس ہے یہ اسی بکریوں کاتحفہ ہے لے لواوریہ بات دل سے نکال دو۔

(مسنددارمی ۔باب فی سخاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلد1۔صفحہ 36بحوالہ حدیقۃ الصالحین ۔صفحہ 57)

آپؐ کے حسن خلق کی شہرت سن کر دوردور سے لوگ خاص طورپر نوجوانوں کے گروہ کے گروہ مختلف علاقوں سے آکر کئی کئی دن مدینہ میں قیام کرتے اورآپؐ کے ساتھ نمازیں اداکرتے اورقرآن کریم اور علم وحکمت سیکھتے وہ سب یہی بیان کرتے ہیں کہ آپ نہایت حلیم الطبع اورنرم دل اور شفقت سے تربیت کرتے تھے۔آپؐ کی باتوں میں ایسے تاثیرتھی کہ صحابہ آپ کی محبت اوررضامندی اوردعا حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار آپ کی ہربات پرعمل کرنے کے لیے بے تاب رہتے اورنمازیں اداکرنے اورروزے رکھنے اورقرآن کریم کوپڑھنے پڑھانے میں ایک دوسرے سے مقابلے کرنے لگتے۔بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں یہ بھی سمجھاناپڑتاکہ میانہ روی اختیارکرو تمہارے جسم کابھی تم پرحق ہے ۔ تمہاری آنکھ کابھی تم پرحق ہے تمہاری بیوی اوراہل وعیال کابھی تم پرحق ہے تمہارے گھرآنے والے مہمان کابھی تم پرحق ہے ۔

(صحیح بخاری ۔کتاب النکاح باب لزوجک علیک حق)

آپؐ کے صحابہ ہرروز اس جستجومیں رہتے کہ آپ رات کے اندھیروں میں اُٹھ اُٹھ کراپنے رب سے کیسے رازو نیاز کیاکرتے ہیں ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رشتہ داری کی وجہ سے بعض اوقات آپ کے گھرآکر اس لیے سوجاتے کہ دیکھیں کہ آپ رات کو کس طرح بیدارہوکرنماز تہجداداکرتے ہیں خصوصا ًآپ کاصبح کے وقت تلاوت قرآن کریم کرنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی دلکش سنت تھی کہ صحابہ کو یہ ادائیں بہت ہی پیاری لگتیں ۔اوراس پربعض نے یہ اشعاربھی کہے

وَفِينَا رَسُولُ اللّٰهِ يَتْلُو كِتَابَهُ

إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الْفَجْرِ سَاطِعُ

ہمارے اندراللہ تعالیٰ کا وہ رسول ہے جوکہ ایسے وقت میں اٹھ کر قرآن کریم پڑھتاہے اوراس کی تلاوت کرتاہے جب صبح کوپوپھوٹتی ہے ۔

أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا

بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ

اس نے ہم کواندھے پن کے بعد سیدھاراستہ دکھادیا۔ اسی کی برکت ہے کہ ہمارے دل اس یقین سے پرہیں کہ جوبھی وہ بات کہتاہے وہ لازماپوراہوکررہنے والی ہے ۔

يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ

إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ مَضَاجِعُ

وہ اس طرح رات بسرکرتاہے کہ اس کاپہلورات کااکثرحصہ اپنے بسترسے جداہوتاہے جب کہ مشرکوں پر ان کے بستربہت بھاری ہورہے ہوتے ہیں ۔

(صحیح بخاری ۔کتاب الصلوٰۃ ۔ابواب التہجد)

رات کی تنہائیوں میں دیرتک اللہ تعالیٰ کے حضورکھڑے دعائیں کرنا آپؐ کے اسوہ حسنہ کاایک ایساحصہ ہے جوابتداسے آپ کی زندگی کالازمی جزوتھا۔ اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ کاآپ کویہ حکم تھاکہ

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا

(المزمل:7)

یعنی اندھیری راتوں کی دعائیں نفسانی جذبات کوقابومیں رکھنے میں مدددیتی ہیں اوراس سے نصیحت اورباتوں میں اثرپیداہوتاہے ۔

آپؐ جو اپنی بیویوں اور بچوں اورصحابہ کے اعلیٰ اخلاق دیکھنا چاہتے تھے اس کاذکرکرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقعہ پرفرمایاکہ

حضرت عائشہ ؓسےروایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں چھوٹے قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو صفیہ کے بارے میں یہ باتیں ہی کافی ہیں۔ ان کے چھوٹے قد پر طنز کیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اگر یہ سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کو بھی مکدّر کر دے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب – باب فی الغیبۃ)

تو آپؐ نے بڑے آرام سے ان کو یہ سمجھایا کہ میرے سے قریبی تعلق رکھنے والوں کے معیار اخلاق بہت اونچے ہونے چاہئیں۔ اس چھوٹی سی مذاق میں کی گئی بات کو گو اس میں طنز بھی شامل تھا، عام طور پہ معمولی سمجھا جاتا ہے لیکن آپؐ نے اس کا بھی نوٹس لیا کیونکہ جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہے، جب اس کو پہنچتی ہے تو اس کے لیے تو وہ بہت بڑی بات بن جاتی ہے۔ اور آپؐ نے طنز سے کراہت کا اظہار بھی فرما دیا۔ بات کرنے والے کو بڑے اچھے انداز میں اس طرف توجہ بھی دلا دی کہ جس کو تم مذاق سمجھ رہی ہو یہ اتنی بڑی بات ہے جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور میرے قریبیوں کے اخلاق کے معیار اتنے اونچے ہونے چاہئیں کہ کبھی ذرا سی بھی ایسی بات نہ ہو جس سے کسی بھی قسم کا جھگڑا پیدا ہو۔ اور مثال دے کر یہ فرمایا کہ بظاہر یہ چھوٹی باتیں ہیں جو اپنے اندر اتنا گند لیے ہوئے ہیں کہ سمندر کا پانی جس کی انتہا نہیں ہوتی اس میں بھی اگر اس گند کو ڈالا جائے تو اس کو بھی یہ خراب کر دے۔ تو یہ ہیں اعلیٰ اخلاق، اور کس خوبصورت طریقے سے آپؐ نے سمجھایا۔

نیز فرمایا:ایک اعلیٰ خلق سچ بولنا اور سچ کا قیام ہے اور جھوٹ سے نفرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کے لیے بھی یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک اور جھوٹ سے اجتناب کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے آپؐ بچوں کو بھی پہلا سبق یہی دیا کرتے تھے کہ سچ بولو۔ اور ماؤں اور باپوں کو بھی یہ کہا کرتے تھے کہ ان کو سچ سکھاؤ۔ اس طرح پر ہر نئے مسلمان ہونے والے کے لیے بھی یہی سبق ہوتا تھا کہ سچائی کو اختیار کرو، ہمیشہ سچ بولو۔ اب سچ کو قائم کرنے کے لیے اور بچوں میں اس کو راسخ کرنے کے لیے کتنا اس کا خیال رکھا کرتے تھے، اس بات کا ایک روایت سے پتہ لگتا ہے۔

عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ ایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ مَیں اس وقت کم سن بچہ تھا۔ مَیں کھیلنے کے لیے جانے لگا تو میری امی نے کہا عبداللہ ادھر آؤ میں تمہیں چیز دوں گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے جواب دیا کہ ہاں میں کھجور دوں گی۔ آپﷺ نے فرمایا اگر واقعی تمہارا یہ ارادہ نہ ہو تا اور صرف بچے کو بلانے کے لیے ایسا کہا ہوتا تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا۔

(مسند احمد بن حنبل حدیث عبداللہ بن عامر۔ ؓ جلد 3صفحہ 447 مطبوعہ بیروت)

اس چھوٹی عمر میں آنحضرتﷺ کی یہ نصیحت بچے کے ذہن پر نقش ہو گئی۔ اب جس بچے کی اٹھان ایسے ماحول میں اور ان نصیحتوں کے ساتھ ہوئی ہو وہ کبھی زندگی بھر جھوٹ بول سکتا ہے؟ اور ایسے ہی تربیت یافتہ بچے ہوتے ہیں جو پھر دنیا کو سچائی دکھانے والے بن جاتے ہیں۔

پھر آپؐ بڑے حوصلے سے برداشت کیاکرتے تھے اور اگر کوئی انتہائی ناپسندیدہ شخص بھی آپؐ کے پاس آ جاتا اس سے بھی آپؐ کبھی بداخلاقی سے پیش نہیں آئے ۔اگر کوئی غلط حرکت کر جاتا تھا تو اس کو بھی بڑے اچھے طریقے سے برداشت کر لیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ بعض بدو ، گاؤں کے لوگ آیا کرتے تھے،جو بعض حرکتیں کر جاتے اور صحابہ کو اس پر بڑا غصہ چڑھا کرتا تھا۔ لیکن آپ ﷺ نہایت اچھے طریقے سے سمجھا دیتے تھے لیکن کبھی غصہ نہیں کیا۔

ایک روایت میں ذ کرآتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجدمیں ایک اعرابی آیا اور وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ لوگ اس کی طرف لپکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو منع کرتے ہوئے فرمایا۔ ‘‘اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی کا ڈول بہا دو۔ تم لوگوں کی آسانی کے لیے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لیے۔’’

(بخاری – کتاب الوضوء – باب صب الماء علی البول فی المسجد)

ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ بعد میں وہ بد و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا ہمیشہ تذکرہ کیا کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ رسول کریمﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپؐ نے کس طرح محبت سے مجھے سمجھایا۔ مجھے کوئی گالی نہیں دی۔ سرزنش نہیں کی، مارا پیٹا نہیں بلکہ آرام سے سمجھا دیا۔ تو دیکھیں ایک اَن پڑھ کو پیار سے سمجھانے سے ہی اس کی کایا پلٹ گئی۔

پھر پڑوسی ہیں،پھر آپؐ نے فرمایا کہ پڑوسی سے اچھا سلوک کرنا اتنا بڑا خلق ہے کہ جبریل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ وہ اسے وارث ہی نہ بنادے۔ اتنی اہمیت ہے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی۔

پھر حکام کی اطاعت ہے۔ اس بارے میں آپؐ نے ہمیشہ ہی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ حکام کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہے اور اعلیٰ اخلاق کا یہ تقاضا ہے اور اچھا شہری ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے افسر کی اطاعت کرو۔ کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر مقرر ہو جائے، تمہارا افسر مقرر ہوجائے تو اس کی اطاعت کرو اور پھر جس ملک میں رہ رہے ہو جس کے شہری ہو اس سے محبت کرنے کے بارے میں فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس لیے جہاں یہ اخلاق تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے افسروں کی اطاعت کرو اور اپنے وطن سے محبت کرو وہاں یاد رکھو کہ یہ چیزیں ایمان کا حصہ بھی ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کو جس ملک میں بھی وہ رہ رہا ہے ملکی قانون کی پابندی کرتے ہوئے امن اور سکون سے رہنا چاہیے۔
پھر افسروں کو بتایا کہ تمہارے اعلیٰ اخلاق کیا ہیں۔ اس وقت تمہارے اعلیٰ اخلاق قائم ہوں گے جب تم اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھو گے اور قوم کی خدمت کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لاؤگے۔ اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کی خدمت کی طرف توجہ دو گے تو تبھی تم اچھے افسر اور اچھے لیڈر کہلاسکتے ہو۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اگست 2005ء)

آپؐ نے بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے بھی نصائح فرمائیں۔ فرمایاکہ جب تمہارے پاس کسی بھی قوم کاکوئی معززشخص آئے تواس کی تعظیم کرو۔(جامع المسانیدوالسنن جلد8صفحہ 353۔دارالفکر بیروت 1994ء)آپؐ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ آپؐ کسی بھی قوم کے ایلچی کوکسی طرح کی بھی تکلیف نہیں پہنچاتے تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی ۔ باب قتل حمزۃ) بلکہ آپ نے اپنے آخری دنوں میں بطور وصیت یہ تاکیدفرمائی کہ جب تمہارے پاس کسی بھی قوم کے نمائندے آئیں توان کوتحفے تحائف دیاکرناجیسے میں دیاکرتاہوں۔

(صحیح بخاری باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب)

آپ ﷺ نےتہذیب وتمدن سے کوسوں دور، جہالت پرفخرکرنے والی قوم میں اصلاح کا کام کیا ۔جہاں نہ کوئی سکول تھانہ مدرسہ آپ نے گھرمیں اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے گفتگوکرنے اورحصول علم کے آداب سے لے کر ملکوں اورقوموں اوردنیاپرحکمرانی کے سب آداب نہایت شفقت اورمحبت سے سکھائے،مکہ مدینہ کی چھوٹی چھوٹی بظاہر سادہ اورپس ماندہ بستیوں میں آپ سے تربیت پانے والوں نے اپنے وقت میں ایران اورروم اورمصر اورشام اوردجلہ وفرات کے گردبسنے والے جاہلانہ اورظالمانہ معاشروں کوبدل کران میں علم وعرفان کے ایسے چشمے جاری کئے جوپھرصدیوں تک کل نوع انسان کوصراط مستقیم دکھانے کاکام کرتے رہے۔ آپ کے شاگردوں نے مشرق ومغرب کی علمی وادبی اورمذہبی دنیاکی کایاپلٹ دی۔بلکہ اگریہ کہاجائے توبالکل سچ اوردرست ہے کہ آج بھی دنیاکے پاس انسانی رشتوں کے تقدس کوبحال کرنے اور معاشرے کے مختلف طبقات میں محبت وپیارپیداکرنے کے لیے آپ کی تعلیم اور آپ کے اسوہ کے علاوہ کوئی لائحہ عمل ہی موجودنہیں …نہ یورپ کافلسفہ ٹوٹتے ہوئے گھرانوں اورخاندانوں کوجوڑ سکتاہے نہ مشرقی رسوم ورواج گھروں میں امن قائم کرسکتے ہیں ۔نہ دنیاکی بڑی سے بڑی یونیورسٹیوں کےپاس وہ نصاب ہے جوآئندہ نسلوں کو ماں باپ اور بہن بھائیوں کوآپس میں محبت وپیار کے ہنرسکھاسکے ۔ٓاپ کی نصائح معاشرے میں سائنس کے قوانین کی طرح عمل کرتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ جیسے آپؐ نے فرمایا جنت ماں کے قدموں تلے ہے اورباپ جنت کادروازہ ہے۔ ماں باپ اگر بچوں کے لیے راتوں کو اٹھ اٹھ کر گریہ وزاری سے دعائیں کرتے چلے جائیں تو ان کی دعائیں بچوں کی زندگیوں میں عظیم الشان انقلابات لے آتی ہیں ۔ یہی وہ سب سے قیمتی اور محفوظ خزانہ ہے جودعاؤں کی شکل میں ماں باپ آسمان پرجمع کرتے جاتے ہیں۔جوپھراپنےاپنے وقت پراولادکے کام آتاچلاجاتاہے۔ پھر آپؐ نے فرمایاکہ اکرموااولادکم واحسنواادبھم یعنی بچوں سے عزت سے پیش آؤ اوران کی تربیت کرتے ہوئے ان کے عزت نفس کاخیال رکھو۔ اب بچوں کی تربیت میں اگر عزت نفس کاخیال نہ رکھاجائے تو اچھی سے اچھی بات اچھی سے اچھی نصیحت بھی ان کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنے والی بن جاتی ہے اور وہ تربیت کرنے والوں سے بھاگنے لگتے ہیں ۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔سلام کورواج دو ،بھوکوں کوکھاناکھلاؤ اورمعاشرے سے بھوک کو جوکئی طرح کے جرائم کی جڑ ہے کو مٹاؤ ،رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو ۔فرمایا۔

وصلّوا بالليل والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام

(ترمذی ابواب صفحہ القیامۃ)

راتو ں کوایسے وقت میں اٹھ کرنما ز اداکروجب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ توتم بڑے آرام سے جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ یہ ایسی نصائح ہیں جوہرگھرکوہرشہرکوامن کاگہوارہ بناسکتی ہیں ۔ آپ کی بظاہرچھوٹی چھوٹی باتیں جو بچپن سے ہی اگر محبت اورپیارسے باربار کانوں میں پڑتی رہیں تووہ سکون جس کی تلاش میں بچے بوڑھے جوان مرد عورتیں گھروں سے باہرسڑکوں اورگلیوں اورکلبوں میں مارے مارے پھرتے ہیں وہ سکون ان کو گھرمیں ہی میسرآجائے ۔

آپؐ نے اپنی امت کو بھی یہ بات راسخ کروائی کہ اللہ تعالیٰ کویہ بات شدیدناپسندہے کہ تم وہ بات کہوجوکرتے نہیں۔ آپؐ جن نیک کاموں کی نصیحت کرتے ان پر خود نہایت خوبصورتی سے عمل کرتے ۔ جس طرح عبادت اوردعاؤ ں میں آپ کاقدم سب سے آگے تھا اسی طرح خدمت خلق کے دوسرے کاموں میں بھی آپ سب سے آگے ہوتے ۔مدینہ میں کوئی خطرہ محسوس ہواتوسب سے پہلےگھوڑے پرسوارہوکر اکیلے ہی حفاظت کے اقدامات کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔مسجدنبویؐ کی تعمیر اور جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کی کھدائی میں آپؐ سب لوگوں کے ساتھ مل کر اس طرح وقارعمل کرتے رہے کہ آپ کاجسم مبارک بھی گردوغبارسے اٹ جاتا۔ گوعام حالات میں آپ کایہ ارشادتھاکہ

النظافۃ من الایمان

صفائی بھی ایمان کاحصہ ہےاوراس کااس قدراہتمام تھاکہ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کے پسینہ سے بھی خوشبوآتی اورآپ کوئی ایسی چیز نہیں کھاتے تھے کہ جس سے منہ سے بوآئے ۔

(شمائل نبی صلی اللہ علیہ وسلم )

کبھی صحابہ کے ساتھ نہایت بے تکلفی کے ساتھ تشریف فرماہوتے اور سوالات پوچھ کر بات ذہن نشین کرواتے ۔ ایک دفعہ پوچھاکہ بتاؤ وہ کونسادرخت ہے جس کی مثال بالکل مومن جیسی ہے ۔جس کاپھل بھی مفید جس کی گٹھلی بھی مفید جس کے پتے بھی مفیدجس کاتنابھی مفید گویااس کی ہرچیز فائدہ مندہے ۔ پھرخودہی بتایاوہ کھجورہے ۔ گویاایک مومن مسلمان کو نوع انسان کے لیے ایساہی مفیدوجودہوناچاہیے ۔
بعض اوقات مثالیں دے دے کرنیکی کے راستے ذہن نشین کرواتے ۔ فرمایااچھے دوست کی مثال خوشبو بیچنے والے کی سی ہے اس کے پاس جاؤ توخوشبو خریدلوگے ورنہ خوشبوتو مفت میں آئے گی ۔اور برادوست آگ کی بھٹی دوھنکنے والے کی طرح ہے ۔ اس کے پاس جاؤ گے تو کپڑے جلیں گے ورنہ اس کی بدبوسے طبیعت خراب ہوگی۔

اسی طرح فرمایا۔ پانچ نمازوں کی مثال اس نہرکی ہے جوکسی کے گھرکے آگے بہتی ہواور وہ اس میں پانچ وقت نہائے۔ کیاایسے شخص کے جسم پرکوئی میل باقی رہ جائے گی ۔گویا باوضوہوکر پنجوقتہ نماز اہتمام سے اداکرنے سے ہرطرح کی ظاہری وباطنی گندگیوں سے انسان پاک وصاف ہوجاتاہے۔ پانچ نمازوں کی توساری عمربہت یاددہانی کروائی اپنے قول سے بھی اورعمل سے بھی حتٰی کے آخری ایام میں جبکہ چلنامشکل تھا دوصحابہ کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے ۔پاؤں زمین پرگھسٹتے جاتے ہیں مگرنماز باجماعت کے لیے مسجدمیں جاتے ہیں ۔ یہ بھی نمازباجماعت کے قیام کے لیے نصیحت کاانداز تھا۔ اور وہ جو آپ فرمایاکرتے تھے کہ قرۃ عینی فی الصلاۃ ۔نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس پاکیزہ جذبے کا کیسا اجردیا۔ زندگی کے آخری لمحا ت میں جب نماز کے لیے نکلنابالکل ہی ناممکن ہوگیا تو گھرکاپردہ اٹھاکر مسجد کودیکھا تو آپ ﷺ کے جانثار صحابہ نماز میں مصروف تھےخدانے آپ کی آنکھیں کیسی ٹھنڈی کیں ۔
میرے دوستو……جماعت احمدیہ کاخمیربھی اسی پاک مٹی سے گوندھاگیاہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اورآپ کے خلفاء جس محبت سے حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی پاکیزہ سیرت کی باربار یاددہانی کرواتے چلے جاتے ہیں اسی کی برکت ہے کہ آج ہراحمدی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جب دنیا سے رخصت ہوتو اس کی اولاد پنچوقتہ نما ز کی پابندہو۔ ماں باپ میں سے ہرایک کی تمنائیں اپنی آئندہ نسلوں کے لیے خداسےیہ دعائیں مانگتی ہیں کہ

یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا

جب آئے وقت میری واپسی کا

یہ کیسے ہوسکتاہے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں فرماتے ہیں ۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :

ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کاجوانمردنبی اورزندہ نبی اورخداکااعلیٰ درجہ کاپیارا نبی صرف ایک مرد کوجانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کاسردار رسولوں کافخر تمام مرسلوں کاسرتاج جس کانام محمدمصطفیٰ واحمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ جس کے زیرسایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جوپہلے اس سے ہزاربرس تک نہیں مل سکتی تھی

(سراج منیر روحانی خزائن جلد 12صفحہ 82)

نیز فرماتے ہیں کہ

اگر خواہی نجات از مستی نفس

بیا در ذیل مستان محمدﷺ

(روحانی خزائن ۔ جلد ۱۲۔صفحہ ۱۴)

اگر نفسانی حجابوں سے نجات چاہتے ہو اگر نفس کے جوشوں سے جو کئی طرح کے غم والم اور مصیبتوں کاباعث بنتے ہیں سے امن میں آناچاہتے ہو تو محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق میں شامل ہوجاؤ۔ اوراصلاح نفس اورتربیت اولادکے لیے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کواپناؤ۔ اوراپنے گھروں کو گریہ وزاری سے کی جانے والی دعاؤں اورقرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اورسننے سنانے سے پرکردو۔اورآپ ﷺ کی پرحکمت باتوں کو اورنصائح کو محبت اورشفقت سے سوتے جاگتے دروداورسلام پڑھ پڑھ کر بچوں کے کانوں اوردلوں میں ڈالتے رہو۔جس سے نصیحت میں جان پیداہوگی۔ اورآسمان سے برکتیں نازل ہوں گی۔کیونکہ آپ کی رحمت آج کے زمانے کوبھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی لیے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوبارباریہ الہام ہوا۔کہ

کل برکۃ من محمد صلی اللہ علیہ وسلم

یعنی ہریک برکت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے اوران کے توسط سے ہے

اللھم صل علی محمدوعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید۔ اللھم بارک علیٰ محمدوعلیٰ آل محمدکمابارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button