’’برکات الدّعا‘‘ (دوسرا حصہ۔ آخر)
تعارف کتاب: برکات الدّعا (روحانی خزائن ۔جلدششم)
مصنف : سلطان القلم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصلوٰۃو السلام
سن اشاعت : بار اول :اپریل 1893ء
تعداد صفحات: 23صفحات ۔زیر نظر ایڈیشن
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا رُوح پرور اوروجد آفریں پیغام جو روحانی خزائن کی ہر جلد میں ابتدائی طور شامل اشاعت ہے، اس میں حضورانور نے فرمایا:
‘‘سو اس زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پیغام ساری دنیا تک پہنچانے اور اسلام کی سچائی کو ساری دنیا پر ثابت کر نے اور خدائے واحد یگانہ کی توحید کا پر چار کرنے لیے اسلام کا یہ بطل جلیل، جری اللہ ،سیف کا کام قلم سے لیتے ہوئے قلمی اسلحہ پہن کر سائنس اور علمی ترقی کے میدان کار زار میں اترا اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا ایسا کرشمہ دکھایا کہ ہر مخالف کے پرخچے اُڑا دئیے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اسلام کا پرچم پھر سے ایسا بلند کیا کہ آج بھی اس کے پھریرے آسمان کی رفعتوں پر بلند سے بلند تر ہو رہے ہیں۔ اورساری دنیا پر اسلام کا یہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے ذریعہ پھیل رہا ہے اور پھیلتا رہے گا۔’’ انشاءاللہ
(روحانی خزائن ایڈیشن 2008ء صفحہ3)
حضور ؑ فرماتے ہیں کہ سید صاحب اپنے دوسرے رسالہ میں تقدیر کو کوئی چیز نہیں سمجھتے اور پہلے رسالہ استجابت میں تقدیر کو مقدم رکھتے ہیں ۔دوسرا رسالہ جس کا نام ‘‘تحریر فی اصول التفسیر’’ہے ۔
آپ ؑ نے فرمایا ‘‘دعا منجملہ اسباب عادیہ کے ہے جس پر ایک لاکھ سے زیادہ نبی اور کئی ولی گواہی دیتے چلے آئے ہیں ۔اور نبیوں کے ہاتھ میں بجز دعا کے اور کیا تھا۔ ’’
حضورؑ نے اپنے رسالہ‘‘ تحریر فی اصول التفسیر’’ میں تفسیر کے 7معیار بیان فرمائے ہیں ۔اوّل معیار تفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہے، دوسرا معیار رسول اللہ ﷺ کی تفسیرہے ۔تیسرا معیار صحابہ رضوان اللہ علیہم کی تفسیر ہے ۔ چوتھا معیار خود اپنا نفس مطہرلے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے ۔پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے ۔ چھٹامعیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لیے سلسلہ جسمانی ہے۔ ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفات ِ محدثین ہیں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا : ‘‘یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے ۔کیونکہ صاحبِ وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتا ہے ۔اور بغیر نبوت اور تجدیدِ احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے ۔اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہوجاتے ہیں ۔جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں ۔سو اس کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس امت کے لیے کھلی ہے ۔ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ وارث ِحقیقی کوئی نہ رہے اور شخص جو دنیا کا کیڑا اور دنیا کے جاہ وجلال اور ننگ وناموس میں مبتلاہے وہی وارث ِعلم نبوت ہو۔’’
(صفحہ 21,20)
اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور نبوت یقینی کے لیے ہر زمانہ میں وحی سلسلہ کو محدثیت کے رنگ میں خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ۔اور ہر صدی میں ضرورت کے وقت اُن کے وارث پیدا کرتا رہتا ہے ۔اور اس صدی میںحضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس عاجز کو خداتعالیٰ نے زمانہ کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے تا منکرین کو سچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے۔
نیز فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے جلوے دکھارہا ہے قرآن کریم کے معارف کھل رہے ہیں ۔آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں ۔اسلام کے حسنوں، نوروں، برکتوں کے خدا تعالیٰ نئے سرے سے جلوے دکھا رہا ہے ۔جس میں دیکھنے کی آنکھ ہے اور اللہ کی اور رسول ﷺ کی محبت ہے وہ اٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہو جائے ۔اس کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے رکھی ہے اور یہ کہنا کہ وحی ولایت کی راہ محدود ہے۔ اور نشان ظاہر نہیں ہو سکتے دعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ ہلاکت کی راہ ہے نہ سلامتی کی ۔
آپ ؑنے فرمایا کہ صحیح تفسیر کے یہ سات معیار ہیںاور اس میں کوئی شک نہیں کہ سیّد صاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروںسے اپنے اکثر مقامات میں محروم وبے نصیب ہے۔
حضورعلیہ السلام نے سیّد صاحب کے اس عقیدہ کہ وحی نبوت بجز اپنے ہی فطرت کے ملکہ کے اور کچھ چیز نہیں اور اس میں اورخدا تعالیٰ میں ملائیکہ کا واسطہ نہیں ۔
اس کے جواب میں فرمایاکہ ‘‘ہمارے اس بدنی سلسلہ کے قیام اور اغراض ِمطلوبہ تک پہنچانے کے لیے خدا تعالیٰ نے آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں اور عنا صر کو ہمارے لیے مسخر کیا ہے اور کئی وسائط کے پیرایہ میںہو کر اس علت علل کا فیض ہم تک پہنچتا ہے ۔اور بے واسطہ ہر گز نہیں پہنچتا۔’’
اور یہ عاجز قریباً گیارہ برس سے شرف مکالمہ الہٰیہ سے مشرف ہے ۔(صفحہ 26)آپؑ نے فرمایا کہ اتنا ہی نہیں ملائک بعض وقت نظر آتے ہیں بلکہ بسا اوقات ملائک کلام میں اپنا واسطہ ہونا ظاہر کر دیتے ہیں۔
آپؑ نے فرمایا یقیناً سمجھو کہ وہ قادر خدا موجود ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔حضورعلیہ السلام نےخدا تعالیٰ کی صفات اور معرفت الٰہی کو قرآنی آیت سے کھول کر بیان فرمایا ہے ۔غرض آپؑ نے اس کتاب میں دعا کی اہمیت افادیت و ماہیت بیان کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت پیش کیے کہ وہ خدا بظاہر نا ممکن نظر آنے والے حالات میں بھی اپنے بندوں کی ایسی غیبی مدد فرماتا ہے کہ دنیا دعا کے اثر کو دیکھ کر حیرت میں پڑجاتی ہے۔
پس آج بھی ہم سب کو اس عظیم الشان نعمت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔معاملات خواہ ذاتی ہوں یا اجتماعی۔دینی معاملات ہوں یا دنیاوی ۔ہر ترقی اور کامیابی کی کنجی دعا ہی ہے اس بارے میں وضاحت کے لیے کافی ہے جب آنحضرت ﷺ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے فتوحات کے وعدے بھی تھے لیکن آپؐ دعا سے غافل نہیں ہوئے ۔اور گریہ و زاری کو انتہا تک پہنچا دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح کی خبر لے کر سجدہ سے سر اُٹھایا۔آج ہمیں بھی اپنی دعاؤں کو کمال تک پہنچانا ہوگا تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش موسلادھار ہو جائے اور جلد اسلام احمدیت کی عالمگیر فتوحات کو ہم سب قریب ترآتا دیکھیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں کی طرف متوجہ رہنے اور اپنے خدا سے زندہ تعلق قائم کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ‘‘برکات الدعا ’’کے آخر میں اپنی ایک فارسی کی نظم‘‘مستجاب دعا’’کے بارے میں تحریر فرمائی ہے ۔
آپ علیہ السلام نے ‘‘ برکات الدعا ’’کے آخر میں ایک خط بخدمت امراء و رئیسان و منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت ومنزلت کے نام بھی تحریر فرمایا ہے ۔جس میں آپؑ نے ان لوگوں کو کہا ہے کہ اسے غور سے پڑھو اس میں آپ نے لوگوں کے لیے خوشخبری دی ہے ۔
آپ علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ‘‘مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دینِ متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لیے بھیجا ہے تاکہ میں اس پُر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تما م دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کررہے ہیں اُن نوروں اوربرکات اور خوارق اور علوم ِ دینیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کیے گئے ہیں سویہ کام برابر دس برس سے ہو رہا ہے لیکن چونکہ وہ تمام ضرورتیں جوہم کو اشاعت اسلام کے لیے در پیش ہیں بہت سی مالی امدادات کی محتاج ہیں ۔
آپؑ نے فرمایا :اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ بطور تبلیغ آپ صاحبوں کو اطلاع دوں۔ سو سنو اے عالیجاہ بزرگو! ہمارے لیے اللہ جل شانہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں یہ مشکلات در پیش ہیں کہ ایسی تالیفات کے لیے جو لاکھوں آدمیوں میں پھیلانی چاہیے بہت سے سرمایہ کی حاجت ہے……اور چونکہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر تجدید دین کے لیے آیا ہے اور مجھے اللہ جل شانہ، نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا ۔اور مجھے اُس نے فرمایاکہ ‘‘ میں تجھے برکت پہ برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے’’۔ سو اِسی بنا پر مجھے آج خیال آیا کہ میں اربابِ دولت اور مقدرت کو اپنے کام کی نصرت کے لیے تحریک کروں ۔
(صفحہ35-34 )
آپ نے فرمایا : ‘‘بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتاً کہتا ہوں کہ اسلام کے لیے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے ۔ اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لیے آیا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے علمِ قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کیے ہیں ۔سو میری طرف آئو تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پائو ’’۔
آپ علیہ السلام نے اُن تمام امراء کی طرف عام اعلان لکھا کہ ‘‘ اگر اُن کو بغیر آزمائش ایسی مدد میں تامل ہوتو وہ اپنے بعض مقاصد اور مہمات اور مشکلات کو اس غرض سے میری طرف لکھ بھیجیں تاکہ میں ان مقاصد کے پورے ہونے کے لیے دعا کروں۔مگر اس بات کو تصریح سے لکھ کر بھیجیں کہ وہ مطلب پورا ہونے کے وقت کہاں تک ہمیں اسلام کی راہ میں مالی مدد دیں گے اور کیا انہوں نے اپنے دلوں میں پختہ اور حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ وہ ضرور اس قدر مدد دیں گے اگر ایسا خط کسی صاحب کی طرف سے مجھ کو پہنچا تو میں اس کے لیے دعا کروں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ بشرطیکہ تقدیر مبرم نہ ہو ضرور خدا تعالیٰ میری دعا سنے گا اور مجھ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع د ے گا’’۔
(صفحہ36-35)
اس خط کے آخر میں آپ علیہ السلام نے فارسی نظم بھی تحریر فرمائی ہے جس میں آپ علیہ السلام نے دین کی حالت کا بیان فرمایا ہے ۔
اس نظم کے بعد ایک اطلاع :‘‘آئینہ کمالات اسلام’’۔ ‘‘شائقین کے لیےاطلاع ’’ کے عنوان سے آپ علیہ السلام نے تحریر فرمائی ہے ۔جس میں آپ علیہ السلام نے اس کتاب ‘‘آئینہ کمالاتِ اسلام’’ کی تالیف ہونے کے بارے میں چھوٹا سا تعارف کرایا ہے ۔
برکات الدعا کے آخر میں حضور علیہ السلام نے اپنی ایک کتاب ‘‘براہین احمدیہ ’’ کے متعلق اشتہار دیا ہے ۔
اشتہار ‘‘کتاب براہین احمدیہ ’’ جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم مامور ہو کر بغرضِ اصلاح و تجدیدِ دین تالیف کیا ہے ۔جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے ۔
(صفحہ37،38)
آپ علیہ السلام نے اس اشتہار میںتحریر فرمایا :
‘‘اس کتاب میں دینِ اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیا گیا ہے ۔
اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالفِ اسلام اُن دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے ۔اگر کو ئی چاہے تو اپنی تسلی کے لیے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے ۔
دو م اُن آسمانی نشانوں سے جو کہ سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لیے ازبس ضروری ہیں ۔اس مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی دینِ اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے تین قسم کے نشانات ثابت کر کے دکھائے ہیں ۔’’
(صفحہ39-38)
آپ علیہ السلام نے اس اشتہار کو انگریزی زبان میں بھی تحریر فرمایا ہے ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تمام کتب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے لکھی ہیں اس لیے ان کا مطالعہ بہت مبارک اور فرشتوں کے نزول کا ذریعہ بنتا ہے کیونکہ ہم جب بھی پڑھیں گے تب ہمیں ان کے خاص نکات اور ان کی برکات کا اندازہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان با برکت تحریرات کا بغور مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امید وار
٭…٭…٭