ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسم نمبر 13)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

انسانی پیدائش کی اصل غرض

‘‘خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سورہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دُورجاپڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کی ذمہ داری اُن کے لیے نہیں رہتی۔وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہےیہی ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ پرایمان لاکرزندگی کا پہلوبدل لے۔موت کا اعتبار نہیں ہے۔ سعدیؒ کاشعر سچا ہے۔

مکُن تکیہ برعمرِ ناپائیدار

مباش ایمن ازبازیٔ روزگار

عُمرِناپائیدارپربھروسہ کرنادانشمندکاکام نہیں ہے۔ موت یونہی آکرلتاڑجاتی ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا جب کہ انسان اس طرح پر موت کے پنجہ میں گرفتا ر ہے۔ پھر اُس کی زندگی کا خداتعالیٰ کے سوا کون ذمہ دارہوسکتا ہے۔اگر زندگی خداکے لیے ہوتو اس کی حفاظت کرے گا۔’’

(ملفوظات جلداول صفحہ 182)

*۔اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سعدی کا یہ شعر استعمال کیا ہے ۔

مَکُنْ تَکْیِہْ بَر ْعُمْرِ نَاپَائیدَارْ

مَبَاشْ اَیْمَنْ اَزْ بَازِیِ رُوْزگَارْ’’

ترجمہ:۔ بے ثبات زندگی پر بھروسا نہ رکھو ۔زمانہ کی چالوں سے بے فکر مت رہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے وصال کی خبر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سعدی کے اس شعر کا پہلا مصرعہ وفات سے چند روز قبل17مئی 1908ءکو الہام کیا۔جو تذکرہ ایڈیشن ششم 2006ءصفحہ 640 پرتحریر ہےاسی طرح دوسرا مصرعہ بھی 26اپریل 1908ء کو الہام ہوا۔جو تذکرہ صفحہ نمبر638 پر ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button