جلنے والے خوش نصیب ہاتھ
جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز میرے سات سالہ بیٹے کا فون آیا کہ بابا کیا آپ نے ایم ٹی اے کی پرانی مشینیں دیکھی ہیں؟ میں نے کہا ابھی تو نہیں دیکھیں ۔ اس نے کہا ضرور دیکھیں اور مجھے تصویریں بھی بھیجیں ۔
دراصل امسال جلسہ برطانیہ کے موقع پر جلسہ گاہ میں ایم ٹی اے کی نمائش کا نعقاد کیا گیا تھا جس میں وہ پرانے آلات اور مشینیں بھی رکھی گئی تھیں جو ابتدائی دنوںمیں ایم ٹی اے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ ا س نمائش کی ڈاکو منٹری ایم ٹی اے پر چلائی گئی تو بچوں نے وہ پروگرام دیکھا اور مجھے فون کیا ۔میں اس وقت تک نمائش نہیں دیکھ پایا تھا ۔ چنانچہ اس کے بعد ایم ٹی اے کی نمائش دیکھنے گیا۔ مارکی کے درمیان میں وہ چندآلات رکھے گئے تھے جو شروع کے دنوں میں ایم ٹی اے کے لیے استعمال ہوتے رہے تھے ۔ ان آلات ،کیمرہ اور لائٹس وغیرہ کو دیکھ کر 1992ءکا وہ دور آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا جب ایم ٹی اے کی ابتدا تھی۔ اور مشکل حالات میں ہزار طرح کے مصائب اور رکاوٹوں کے پہاڑ تھے ۔ لیکن ایک مرد خدا کی ان تھک محنت،دعا، توجہ اور ذاتی دلچسپی ایک معجزہ برپا کرگئی ۔ ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا ’’کے الہام کے پورا ہونے کے نئے دور بلکہ ادوار کا آغاز ہو گیااور زمین اپنے رب کے نورسے کناروں تک منور ہونے لگی ۔
نمائش میں رکھا وہ کیمرہ دیکھا، جس سے ابتدائی پروگرام ریکارڈ کیے گئے تھے تو آنکھیں وہ منظر سامنے لے آئیں جب ہفتہ بھر حضورِ انور کے خطبہ جمعہ کا انتظار رہتا تھا ۔اس وقت تک ہمارے گائوں میں ایم ٹی اے کی ڈش نصب نہیں ہوئی تھی ۔ہم پانچ چھ کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرکے قریبی جماعت میں خطبہ سننے کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ سفر کبھی سائیکل پر ہوتا ،کبھی پیدل اور کبھی بس پر سوا رہو کر ۔ لندن میں اوقات کی تبدیلی کی وجہ سے گرمیوں میں خطبہ جلدی اور سردیوں میں دیر سے آتا تھا۔ گرمیوں میں ہم خطبہ سننے کے بعد اندھیرا ہونے سے پہلے گھر آجایا کرتے تھے جبکہ سردیوں میں واپس آنے تک رات ہو چکی ہوتی تھی اور ڈر لگا کرتا تھا ۔
ایک روز ہم معمول کے مطابق خطبہ سننے کے لیے پانچ چھ کلومیٹرز کا سفر طے کر کے چونڈہ پہنچ گئے ۔ اس وقت تک ڈش اینٹینا مسجد میں نہیں لگا تھا بلکہ ایک احمدی گھرانے میں یہ سہولت موجود تھی۔ ہم ان کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کسی وجہ سے ڈش اپنی جگہ سے ہل چکی ہے اور ایم ٹی اے کے سگنل نہیں آرہے۔ چنانچہ ٹی وی کو چھت پر لے کر گئے اور لگے ڈش کو سیٹ کرنے۔ ایک گھنٹے تک ہر طرح سے ڈش کو دائیں بائیں اوپر نیچے گھما گھما کر دیکھ لیا لیکن سگنل کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ خطبہ گزرے جانے کا افسوس ہو رہا تھالیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے ۔جب خطبہ گزر گیا اور ہر طرح سے مایوسی ہو گئی تو ٹی وی ریسیور نیچے لانے لگے۔ جب تاریں اتارنے کی باری آئی تو معلوم ہو ا کہ ڈش کی تار ریسیور کو لگائی ہی نہیں گئی تھی۔ سگنل بھلا کیسے وصول ہوتے! اس طرح کے واقعات ان ابتدائی دنوں میں عام تھے۔ وہ بھی سردیوں کے دن تھے۔ رات ہو چکی تھی۔ اندھیرے میں ڈرتے ڈرتے سائیکل چلاتے واپس گھر پہنچے ۔
میں نے جب یہ پرانے کیمرے، مکسر اور آڈیو چینل نمائش میں دیکھے تو تصور میں ایک فلم چلنے لگی کہ کس طرح یہ لوگ ان کیمروں کو سیٹ کرتے پروگرام بناتے اور ساری دنیا تک خلافت کی آواز پہنچانے کی بابرکت اور عظیم خدمت میں مصروف تھے۔ دنیا میںاربوں کیمرے بنے ہوں گے اور بنتے رہیں گے لیکن تاریخ احمدیت میں ایم ٹی اے کے لیے استعمال ہونے والے ابتدائی کیمرے امر ہو چکے ہیں ۔آنے والے وقتوں میں بھی یہ کیمرے اس عظیم الشان دور کی نشاندہی کرتے رہیں گے جب بے سرو سامانی کے عالم میں بھی محض خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی قدرت کی بدولت یہ آلات ابتدائی طورپر خلافت کی آواز او رتصویر کو دنیا تک پہنچایا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں ایم ٹی اے کے کام کو قریب سے دیکھ کر اندازہ ہوا ہے کہ یہ کس قدر محنت اور مشقت کا کام ہے ۔کتنا بھاری میٹیریل ایک جگہ سے دوسری جگہ کئی بار منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ایم ٹی اے کے کارکنان کو گھنٹوں کھڑے اور بعض اوقات گھنٹوں بیٹھ کر کام کرنا ہوتا ہے ۔ سب بھوک، نیند، بیماری سے بے پروا مصروف کا رہوتے ہیں ۔ کام کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ہفتے کے دن بھول جاتے اور تاریخ محو ہو جاتی ہے۔
نمائش میں رکھی ایک بھاری لائٹ پر بھی نظر پڑی۔ جو ایم ٹی اے کے ابتدائی دنوں میں سٹوڈیو میں استعمال ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ایک نوٹ بھی تھا کہ ابتدا میں ایم ٹی اے میں کام کرنے والا تقریباً ہر کارکن اور رضا کار اس لائٹ سے ہاتھ جلائے جانے کا تجربہ رکھتا ہے ۔ اب بیسیوں طرح کی سہولتیں آچکی ہیں اور سٹوڈیو لائٹس سے ہاتھ جلنے کا واقعہ اب تو نہ ہونے کے برابر ہو گا۔ سوچتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو ان کارکنوں پر کتنا پیار آیا کرتا ہو گا جن کے ہاتھ اس خدمت کی وجہ سے، اس گرم لائٹ کو اٹھانے سے جلتے ہوں گے۔ اور وہ کارکنان اور ان کے خدمتِ دین کی خاطر جلنے والے ہاتھ کس قدر خوش قسمت ہوں گےجنہیں امامِ وقت پیار بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے ہوں گے۔
آج ایم ٹی اے ہر روز ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ہر نشیب و فراز سے بآسانی گزر کر نئے نئے سنگ میل طے کر رہا ہے۔ اب مختلف زبانوں میں ایم ٹی اے کا اجرا ہو چکا ہے ۔ اور ان شاء اللہ ایسا وقت بھی دور نہیں جب ہر ملک میں اپنا اپنا ایم ٹی اے پیاسی روحوں کی تسکین کا سامان کر رہا ہو گا۔ اس امر کی ابتدا ہو بھی چکی اور آج مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں مقامی طور پر ایم ٹی اے چوبیس گھنٹے نشریات دے کر نئی انتہائوں کو چھو رہا ہے ۔ کہاں وہ وقت کہ خطبہ سننے کے لیے چھ کلومیٹرز کا سفر طے کر کے جاتے اور سگنل نہ ہونے کی وجہ سے بیٹھ بیٹھ کر خطبہ سنے بغیر ہی مایوس واپس آنا پڑتا اور کہاں یہ وقت کہ افریقہ کے دور دراز ملک میں مقامی زبان میں ڈیجیٹل سگنل گھروں میں ایک چھوٹے اینٹینا پر موصول ہورہاہے۔ یہ یقیناً خلافتِ احمدیہ کی دعا اور توجہ ہی کی برکت ہے۔
٭…٭…٭