ذہنی صحت(Mental Health) (قسط نمبر 3)
اگر آپ کے ذہن ،جسم اور جذبات یا سوچنے کے عمل میں ناپسندیدہ تبدیلی آجائے اور وہ جسمانی تکلیف سے ظاہر ہو جو آپ کی روزمرہ زندگی پر اثر کرے تو اس کو اسٹریس (Stress)یا ذہنی دباؤ کہتے ہیں۔ ہر شخص اپنے ظاہری وضع قطع میں دوسرے سے مختلف ہے۔ بالکل اسی طرح ہر شخص کی برداشت ،احساسات اور جذبات کے استعمال میں فرق ہے ۔ بعض لوگ کسی بات پر زیادہ توجہ نہیں کرتے نہ ہی اس کا کوئی خاص اثر لیتے ہیں کیونکہ یہ ان کا طریق ہے اور بعض لوگ صرف ایک پَر دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ کہیں بلی میرے برآمدے میں آکر کبوتر یا کسی پرندے کو تو نہیں کھا گئی۔ یا کسی بات کو سوچ کر ہی پریشان ہو جاتے ہیں کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی؟ یعنی از خود اپنے سوچنے اور حساسیت کی مناسب حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بیمار تو نہیں ہوتے البتہ ان کا اس طرح سوچنے کا عمل ان کو ہمیشہ پریشان کیے رکھتا ہے ۔
لفظ ‘اسٹریس’ (STRESS) مجموعہ ہے
S = suspicion, T = tension
R = rough, E = ego
S = silent, S = sad
کا۔ اسٹریس میں آپ شک و شبہ میں مبتلا رہتے ہیں ،تناؤ کا شکار ہوتے ہیں ۔آپ کا رویہ نامناسب ہو جاتا ہے ۔آپ اپنی انانیت یا دیگر باتوں کے غیر فطری بلند معیار بنا لیتے ہیں۔ اور ان کے ٹوٹنے کی صورت میں آپ چُپ سادھ لیتے ہیں، نامعلوم اداسی آپ پر گھیرا کر لیتی ہے ۔
الغرض غیرضروری فکر، غصہ اور پریشانی آپ کے روزمرہ کے معمول میں بہت سی ناپسندیدہ تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں جن میں مبتلا ہو کر آپ اپنی قوتِ فیصلہ کو کمزور کر لیتے ہیں، اپنے آپ کو ایک ناکام آدمی متصور کرنے لگتے ہیں، کسی بات سے بھی خوش نہیں ہوتے، ڈراؤنے خواب بھی دیکھنے لگتے ہیں، صبر اور حوصلے میں بھی کمی آنے لگتی ہے نیز بلاوجہ رونا، چھوٹی چھوٹی بات پر گھبراہٹ کا شکار رہنا ، شادی شدہ زندگی میں دلچسپی نہ رہنا، دانتوں میں ناخن چبانا، جسم کے کسی حصے کو غیر معمولی طور پر حرکت دیتے رہنا جیسے ٹانگ ہلاتے رہنا ، انگلیاں چٹخاتے رہنا، سانس کا بے ترتیب محسوس ہونا ، غیر معمولی طور پر پسینہ آنا ، پیٹ درد ہونا ، کھانا کھانے میں دشواری ہونا، بار بار بیمار ہونا ، بھول جانا ، جسم میں کمزوری محسوس کرنا ، اپنے پیارے بوجھ لگنا ، دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہو نا ، دل کا تیز دھڑکنا ، چڑچڑا ہونا وغیرہ بھی اس کی علامات میں شامل ہے ۔
ہر مریض کی اپنی علامات ہوتی ہیں۔ اور لازم نہیں کہ ہر ایک کو ایک سی علامات لاحق ہوں۔ اگر آپ کو مذکورہ بالا علامات میں سے پانچ مستقل رہتی ہیں جو آپ کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور آپ کی اپنی کوشش سے ٹھیک نہیں ہوتیںتو آپ کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ایسے حالات میں اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کرنا سود مند ثابت نہیں ہوتا۔
ذہنی دباؤ یا اسٹریس آپ کے جسم میں منفی طاقت پیدا کرتا ہے جو آپ کے مثبت انداز ِفکر کو اندر ہی اندر کھانے لگتا ہے۔ یہ منفی طاقت آپ کی پریشانی اَور بڑھاتی ہے اور آپ کو آئندہ کے لیے سوچنے نہیں دیتی بلکہ ماضی کی باتوں کو سوچنے اور گزرے وقت میں رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔جس طرح آپ کار چلاتے وقت درمیان کے پیچھے دیکھنے والے شیشے (back view mirror)سے مستقل پیچھے دیکھتے ہوئے کارنہیں چلا سکتے اور چونکہ آپ کو علم ہی نہیں ہو گا کہ آگے کیا ہو رہا ہے اس لیے آپ فیصلہ ہی نہیں کر سکتے کیا احتیاط کرنی ہے ،کون سا راستہ لینا ہے وغیرہ۔ اس لیے امکان ہوتا ہے کہ خدانخواستہ آپ حادثے کا شکار ہو جائیں گے۔
اگر آپ خدانخواستہ بیماری کو سمجھ نہ پائیں،اس کا علاج نہ کروائیں اور آپ کا ماحول اور حالات بھی نہ بدلیں جس کی وجہ سے آپ بیماری کا شکار ہوئے تو آپ کی یہ بیماری اگلی سٹیج پر چلی جاتی ہے یا مزید خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔
یعنی روزمرّہ زندگی میں بے چینی، اضطراب یا شدید گھبراہٹ کے دورے جنہیں panic attack بھی کہتے ہیں اگر مستقل طور پر آپ کے ہم سفر بن جائیں تو stress خطرناک صورت اختیار کر کے انگزائٹی (anxiety) کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس لفظ(Anxiety) کے معنی اردو میں بے چینی اور اضطراب دونوںہی بنتے ہیں۔ بات کو آسان کرنے کے لیے مثال کے طور پر ہم
A = Anxious
N= Nervous
X = Xenophobia fear of stranger
I = Insecure
E = Ego
T = Tense
Y = Yelling
بھی مراد لے سکتے ہیں۔ جب آپ انگزائٹی کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ کی ذہنی صحت مزید گرنے لگتی ہے اور علامات میں شدّت آنے لگتی ہےجو ہماری روز مرہ زندگی پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں۔ یعنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبراجانا ،پریشان ہوجانا، قوتِ برداشت کا کم ہونا، چیخنا چلانا ،تناؤ میں آجانا ،اجنبی لوگوں کا خوف ہونا،غیر محفوظ محسوس کرنا،ہر وقت الرٹ رہنا،بہت نمایاں ہو جاتے ہیں ۔
اس مرحلے سے پہلے تک تو بیماری کا شکار ہمارے اعصاب بنتے ہیں۔ لیکن اس مرحلے پر اعصاب کے ساتھ ساتھ دیگر اعضاء مثلاً دل وغیرہ کی علامات بھی نمایاں طور پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
اس مرحلے میں بعض اوقات مریض میں نفسیاتی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ تصوراتی طور پر ایسے خیالات کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے جن کا وجود سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔
اس ذہنی تکلیف میں انسان کو بعض اوقات خوف بھی لاحق ہو جاتا ہے جو آپ کو مستقل بے چینی، اضطراب یا انگزائٹی کی طرف اَور تیزی سے لے جاتا ہے ۔خوف پتہ لگنے والی بیماری ہے۔ خوف ایسی بات سے ہوتاہے جس کا انسان کو علم ہوتا ہے۔ دوسری جانب انگزائٹی ایسی چیزوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو انسان کو یا تو بالکل سمجھ میں نہ آ سکتی ہوں یا مکمل طور پر انسان ان کا ادراک نہ رکھتا ہو۔ شروع میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان میں انگزائٹی کی علامات کچھ گھنٹے رہ کر کم ہو جاتی ہیں اور stress کے درجے پر چلی جاتی ہیں۔
شروع میں مریض اپنی بیماری یا stressکو چھپا کر اپنے روز مرہ کے کام بڑی ذمہ داری سے کرتا رہتا ہے۔ مگر کوئی بھی ایسی بات جو اس کی برداشت سے باہر ہو اس کی انگزائٹی کو بڑھاتی اور اس میں ایک قسم کا خوف پیدا کر دیتی ہے۔ خوف کا یہ دورہ (panic attack) ہمیشہ اچانک اور انتہائی شدت سے ہی ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مریض آہستہ آہستہ ایسی جگہوں یا ایسی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے جن سے اسے خوف آتا ہو۔ مثلا وہ ایسے کھانے کھانا چھوڑ دیتا ہے جن سے یہ علامات پیدا ہوں۔ ان لوگوں کو ملنا چھوڑ دیتا ہے جن کی باتوں سے وہ پریشان ہوا۔ الغرض اس کی اپنے اوپر لگائی گئی پابندیاں اس کی اپنی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں۔ زندگی ماؤف ہو کر رہ جاتی ہے۔ بیماری کی شدت میں مریض اپنے رویے میں اَور سخت ہو جاتا ہے اور بعض اوقات علاج بھی نہیں کروانا چاہتا۔ بعض دفعہ مریض اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ بیمار ہے۔ اس صورت میں مریض کے خیال کرنے والے لوگوں کو خود ڈاکٹر سے رابطہ کرکے مشورہ لینا چاہیے۔
ہمیں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہر سوچنے کا عمل ہمارے دماغ میں ہوتا ہے، ان سوچوں میں سے بعض ‘پریشانی’ کی سوچیں بھی ہوتی ہیں اور یہ ایک صحت مندانہ عمل ہوتا ہے۔ انگزائٹی ظاہری علامات کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ پریشانی کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے جبکہ انگزائٹی بلاوجہ ہوتی ہے۔ پریشانی میں آپ لائحہ عمل طَے کرتے ہیں۔ انگزائٹی میں آپ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پریشانی میں آپ کو اپنے جذبات جیسے غصہ،دُکھ، ضبط وغیرہ اتنے گہرے نہیں ہوتے کہ آپ کی قوتِ فیصلہ پراثر انداز ہو مگر انگزائٹی میں ان جذبات میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے مثبت انداز میں کام کرنے کی صلاحیت بھی متأثر ہوتی ہے۔
مثلاً پریشانی میں اگر آپ سوچتے ہیں کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ فون کرے گا اور نہیں کیا تو آپ خود فون کرکے حال پوچھ لیں گے کہ شاید اس شخص کو کوئی پریشانی نہ ہو یا کام نہ پڑ گیا ہو۔ مگر انگزائٹی میں آپ اپنے ذہنی اور جسمانی دباؤ کے سٹریس ہارمون بڑھا لیں گے، دوسرے شخص کے متعلق منفی جذبات پیدا کر لیں گے اور کوئی نہ کوئی وجہ سوچ کر اس بات کا شکوہ دل میں رکھ کر اپنے آپ کو اَور پریشان کردیں گے، یہ سمجھے بغیر کہ آپ کے اپنے اندر کا یہ غصہ تیزاب کی صورت میں صرف اور صرف آپ کو ہی نقصان پہنچا رہا ہے۔ آپ کی یہ کیفیت آپ کو یہ سوچنے بھی نہیں دے گی کہ خود فون کر لویا خود جاکر مل آؤ۔ یہاں آپ کی جھوٹی انا اور نفس آگے آئے گا اور یہ چھوٹا سا مسئلہ اَور کئی بڑے مسائل کھڑے کردے گا جو آپ کی روزمرہ زندگی پر شدت سے اثر انداز ہوں گے ۔
ایک عام جائزہ کے مطابق عورتوں اور مردوں میں ذہنی بیماریوں کی شرح پیدائش ایک ہی ہے ۔مگر بیماریوں کی اقسام مختلف ہیں۔ ڈپریشن یا ما یو سی زیادہ تر عورتوں کوہوتا ہے ۔ اور ایک بڑے سروے کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت میں کسی نہ کسی ذہنی بیماری کی علامات پائی جاتی ہیں۔ آدمیوں میں عام طور پر شدت کی بیماریاں جیسے Personality Disorder ( شخصی تبدیلی ) زیادہ ہوتے ہیں۔ عورتو ں میں Post Traumatic Disorder(حادثے کی وجہ سے ذہنی علامات ) کی وجہ سے بھی ذہنی بیماریاں زیادہ ہیں کیونکہ دنیا کے تمام ہی ممالک میں عورتوں کا ایک طبقہ جسمانی تشدد کا بھی شکار ہوتا ہے۔ مردوں میں ذہنی بیماریوں کی وجہ زیادہ تر فنانشل (financial)یعنی پیسوں کے مسائل،سیاست، نوکری کا چھُوٹ جانا ،دوستوں کی بے وفائی اور بالغ بچوں کے مسائل بنتی ہے۔ عورتوں کو اگر یقین ہو جائے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں تو وہ ڈاکٹر کے پاس مشورے کے لیے زیادہ جاتی ہیںجبکہ زیادہ تر مرد اپنی بیماری کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اکثر صرف نشے کی وجہ سے پیدا ہونے والی علامات کے بارے میں اپنے معالج سے مدد لینا چاہتے ہیں ۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭