حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 21)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

آنحضرتﷺ کی دعا

جیساکہ میں بیان کر چکا ہوں آنحضرت ﷺ ہر معاملے میںنہایت حزم اور احتیاط سے کام لیتے تھے۔اب میں ایک حدیث نقل کرکے بتا نا چاہتا ہوں کہ آپؐ دعا میں بھی نہایت محتاط تھے اور کبھی ایسی دعا نہ کر تے جو یک طرفہ ہو بلکہ ایسی ہی دعا کر تے جس میں تمام پہلو مد نظر رکھے جا ئیں جیسا کہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کَانَ اَکْثَرُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ اٰتنا فی الدنیا حسنۃ)یعنی نبی کریمؐ اکثراوقات یہ دعا فر مایا کر تے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اس دنیا میں بھی نیکی اور بھلا ئی دے اور آخرت میں بھی نیکی اور بھلا ئی عنایت فرما اور عذاب نار سے ہمیں محفوظ رکھ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی آپ کی اس دعا کا ذکر فرمایا ہے۔فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِمِنْ خَلَاقٍ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَ ۃِحَسَنَۃًوَّقِنَاعَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 201-202)یعنی لوگوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کر تے ہیں کہ الہٰی اس دنیا کا مال ہمیں مل جا ئے اور ایسے لو گوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔اور کچھ ایسے ہیں جو کہتےہیں اے ربّ! اس دنیا کی بھلائی بھی ہمیں پہنچا اور آخرت کی نیکی بھی ہمیں پہنچا اور آگ کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ۔

اب اس دعا پر غور کر نے سے پتہ لگ سکتا ہے کہ آپ ؐ کس قدر احتیاط سے کام فر ما تے تھے۔عام طور پر انسان کا قاعدہ ہے کہ جو مصیبت پڑی ہو ئی ہو اسی طرف متوجہ ہو جا تا ہے اور دوسرے تمام امور کو اپنے ذہن سے نکال دیتا ہے اور ایک ہی طرف کا ہو رہتا ہے اور اس وجہ سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سےلوگ حق وحکمت کی شاہراہ سے بھٹک کر کہیں کے کہیں نکل جا تے ہیں اور سچائی سے محروم ہو جا تے ہیں لیکن آنحضرتؐ ایسے کامل انسان تھے کہ آپؐ مصائب سے گھبرا کر ایک ہی طرف متوجہ نہ ہو جاتے تھے بلکہ ہر وقت کل ضروریات پر آپؐ کی نظر رہتی تھی۔اور اس دعا سے ہی آپؐ کے اس کمال پر کا فی روشنی پڑ جاتی ہے کیونکہ آپؐ صرف دنیا کے مصائب اور مشکلات کو مد نظر نہ رکھتے تھے بلکہ جب دنیاوی مشکلات کے حل کر نے کے لیے اپنے مولا سے فر یا د کر تے تو ساتھ ہی ما بعد الموت کی جو ضروریات ہیں ان کے لیے بھی امداد طلب کر تے ۔اور جب قیامت کے دل ہلا دینے والےنظاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا کر خدا تعالیٰ کی نصرت کے لیے درخواست کر تے تو سا تھ ہی اس دنیا کی مشکلات کے دور کر نے کے لیے بھی جو مزرعۂ آخرت ہے التجا کر تے اور کسی مشکل یا تکلیف کو حقیر نہ جا نتے بلکہ نہایت احتیاط سے دنیاوی اور دینی ترقیوں کے لیے بغیر کسی ایک کی طرف سے غافل ہو نے کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتے۔

علاوہ ازیں اس دعا سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐ اپنی دعاؤں کے الفاظ میں بھی نہایت احتیاط برتتے تھے کیونکہ آپؐ نے یہ دعا نہیں کی کہ یا الٰہی ہمیں دین اور دنیا دے بلکہ یہ دعا کی کہ یا الٰہی ہمیں دین اور دنیا کی بہتری عنایت فرما کیونکہ بعض دفعہ دنیا تو ملتی ہے مگر وہ بجا ئے فائدے کے نقصان رساں ہو جا تی ہے۔اسی طرح دین بھی بعض لوگوں کو ملتا ہے مگر وہ اس کے ملنے کے باوجود کچھ سکھ نہیں پا تے اس لیے آپ ؐنے دعا میں یہ الفاظ بڑھا دیے کہ الٰہی دنیا کی بہتری ہمیں دے۔یعنی دنیا کے جس حصے میں بہتری ہو ہمیں وہ ملے ایسا کو ئی حصہ دنیا ہمیں نہ ملے جس کے ملنے سے بجا ئے فائدہ کے نقصان ہو اور آخرت میں بھی ہمیں بھلائی ملے نہ کہ کسی قسم کی برا ئی کے ہم حقدار ہوں۔

کسی کی در خواست پر کام سپرد نہ فرماتے

لو گوں کا قاعدہ ہو تا ہے کہ امراء سے فائدہ اٹھا نے کےلیے ہزاروں قسم کی تدابیر سے کام لیتے ہیں اور جب ان کے مزاج میں دخل پیدا ہو جا تا ہے تو اپنی منہ مانگی مرا دیں پا تے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ امراء مان لیتے ہیں۔مگر آنحضرتؐ ایسے محتاط تھے کہ آپؐ کے دربار میں بالکل یہ بات نہ چل سکتی تھی۔آپؐ کبھی کسی کے کہنے میں نہ آتے تھے اور آپؐ کے حضور میں با تیں بنا کر اور آپؐ کو خوش کرکے یا خوشامد سے یا سفارش سے کام نہ چل سکتا تھا۔آپؐ کا طریق عمل یہ تھا کہ آپؐ تمام عہدوں پر ایسے ہی آدمیوں کو مقرر فر ما تے تھے جن کو ان کے لا ئق سمجھتے تھے کیونکہ بصورت دیگر خطرہ ہو سکتا ہے کہ رعایا یاحکومت کو نقصان پہنچے یا خود عُمّال کا ہی دین خراب ہو۔ پس کبھی کسی عہدہ پر سفا رش یا در خواست سے کسی کا تقرر نہ فرماتے اور وہ نظارے جو دنیاوی بادشاہوں کے درباروں میں نظر آتے ہیں دربار نبوت میں بالکل معدوم تھے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فر ماتےہیں اَقْبَلْتُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعِیْ رَجُلَانِ مِنَ الْاَشْعَرِیِّیْنَ فَقُلْتُ مَاعَلِمْتُ اَنَّھُمَایَطْلُبَانِ الْعَمَلَ فَقَالَ لَنْ اَوْلَا نَسْتَعْمِلُ عَلَیَّ عَمَلِنَا مَنْ اَرَادَہٗ (بخاری کتاب الاجارۃ باب استئجارالرجل الصالح)یعنی میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے سا تھ اشعری قبیلہ کے دو اور آدمی بھی تھے ان دونوں نے آنحضرت ﷺ سے در خواست کی کہ انہیں کو ئی ملازمت دی جائے۔اس پر میں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ مجھے علم نہ تھا کہ یہ کو ئی ملا زمت چاہتے ہیں۔آنحضرتؐ نے ارشاد فر ما یا کہ ہم اسے جو خود خواہش کرے اپنے عُمّال میں ہر گز نہیں مقرر کریں گے یا فر ما یا کہ نہیں مقرر کریں گے۔

اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب سرور کا ئنات کو بنی نوع انسان کی بہتری کا کتنا خیال تھا۔اللہ اللہ یاتو یہ زمانہ ہے کہ حکومتوں کے بڑےسےبڑے عہدےخوددرخواست کرنے پر ملتے ہیں یا آپؐ کی احتیاط تھی کہ در خواست کر نے والے کو کوئی عہد ہ نہیں دیتے تھے۔

در حقیقت اگر غور کیا جا ئے تو ایک شخص جب کسی عہد ہ کی خود در خواست کر تا ہے تو صاف ثابت ہو تا ہے کہ اس کی کو ئی غرض ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ اس عہدہ پر قائم ہو کر وہ لوگوں کو دکھ دے اور ان کے اموال پر دست اندازی کرے۔مگر جس شخص کو اس کی درخواست کے بغیر کسی عہدہ پر مامور کیا جا ئے تو اس سے بہت کچھ امید ہو سکتی ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لے گا اور لوگوں کے حقوق کو تلف نہ کرے گاکیونکہ اسے اس عہدہ کی خواہش ہی نہ تھی بلکہ خود بخود اسے سپرد کیا گیا ہے۔

دوسرے یہ بھی بات ہے کہ جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو شخص خود کسی عہدہ کی درخواست کرے یا کسی سے سفارش کروائے اسے کو ئی عہدہ دینا ہی نہیں تو اس سے یہ بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے جا ئز و نا جا ئز و سائل سے حکام کے مزاج میں دخل پیدا کرنے کا بالکل سدّ باب ہوجا تا ہےاور خوشامد بند ہو جا تی ہے کیونکہ حکام سے رسوخ پیدا کر نے یا ان کی جھوٹی خوشامد کرنے سے یہی غرض ہو تی ہے کہ کچھ نفع حاصل کیا جا ئے ۔پس جب حاکم یہ فیصلہ کر دے کہ جو خود درخواست کرے گا اسے کسی عہدہ پر مامور نہ کیا جائے گا تو ان تمام باتوں کا سدِّ با ب ہو جا تا ہے۔اور گو آنحضرت ﷺ کا نفس پا ک ان عیبوں سے با لکل پا ک تھا کہ آپؐ کی نسبت یہ خیال کیا جاسکے کہ آپؐ کسی کی بات میں آجا ئیں گے مگر آپؐ نے اس طریق عمل سے مسلمانوں کے لیے ایک نہایت شاندار سڑک تیار کر رکھی ہے جس پر چل کر وہ حکومت کی بہت سی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں۔

مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس سے فا ئد ہ نہیں اٹھا یا بلکہ دوسری قوموں کی نسبت مسلمان حکومتوں میں ہی حکام کے منہ چڑھ کر لوگ بہت فا ئدہ اٹھا تے ہیں اور سفارشوں سے جو کام نکلتے ہیں لیاقت سے نہیں نکلتے۔اگر مسلمان حکام اس طرف غور کرتے تو آج اسلامی حکومتوں کا وہ حال نہ ہو تا جو ہے۔اور پھر آنحضرت ؐ جن لوگوں کی نسبت یہ احتیاط برتتے تھے ویسے لوگ بھی تو آجکل نہیں۔صحابی ؓ تو وہ تھے کہ جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے مال اور جا نیں بھی لٹا دیں وہ دوسروں کے اموال کی طرف کب نظر اٹھا کر دیکھ سکتے تھے۔مگر آج کل تو دوسروں کے اموال کو شِیرِ مادر سمجھا جا تا ہے۔پھر جب آنحضرت ﷺ ایسے پاک باز لوگوں کی نسبت بھی ایسے احتیاط برتتے تھے تو آج کل کے زمانہ کے لوگوں کی نسبت تو اس سے بہت زیا دہ احتیاط کی جا نی چاہیے۔

ساد گی ایک نعمت ہے

اس زمانے میں لوگ عام طور پر تکلف کی عادت میں بہت مبتلا ہیں اور اس زمانے کی خصوصیت نہیں جو قوم ترقی کرلے اس میں تکلف اپنا دخل کر لیتا ہے۔دولت اور مال اور عزت کے ساتھ سا تھ تکلف بھی ضرور آموجود ہو تا ہے اور بڑے آدمیوں کو کچھ نہ کچھ تکلف سے کام لینا پڑتا ہے لیکن جو مزا سا دگی کی زندگی میں ہے وہ تکلف میں نہیں۔اور گو تکلف ظاہر میں خوشنما معلوم ہو مگر اندر سے بہت تکلیف دہ ہو تا ہے۔ذوق نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ؎

اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام سے ہیں و ہ جو تکلف نہیں کر تے

تکلف کی وجہ سے لا کھوں گھرا نے بر باد ہو جا تے ہیں اور تصنع اور بناوٹ ہزاروں کی بر با دی کا باعث ہو چکے ہیںمگر چونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تکلف کے سوا ہماری عزت نہیں ہو تی برابر اس مرض میں مبتلا چلے جا تے ہیں اور کچھ علاج نہیں کرتے۔بادشاہ اور امراء یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تکلف اور بناوٹ سے ہم اپنی خاص شان نہ بنا ئے رکھیں گے تو ماتحتوں میں بھی ہماری عزت نہ ہو گی اور اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہوں گے اسی لیے بہت سے مواقع پر سادگی کو بر طرف رکھ کربناوٹ سے کام لیتے ہیں اور ہزاروں موقعوں پر اپنے ما فی الضمیر کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔میں ایک مجلس میں شامل ہوا جہاں بہت سے بڑے بڑے لوگ جمع تھے جو اس وقت ہندوستان میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور بعض ان میں سے لیڈرانِ قوم کہلاتے ہیں۔ان میں سے کچھ ہندو تھے کچھ مسلمان ۔جب سب لوگ جمع ہو گئے تو ایک بیرسٹر صاحب نے کہا ایک مدت ہو گئی کہ تکلف کے ہا تھوں میں تکلیف اٹھا رہا ہوں۔ہر وقت بناوٹ سے اپنے آپ کو سنجیدہ بنا ئے رکھنا پڑتا ہے اور بہت سی با تیں کر نے کو دل چاہتا ہے مگر تکلف مانع ہو تا ہے کیونکہ وہ شان قائم نہیں رہتی مگر اب میں با لکل تنگ آگیا ہوں۔ اس زندگی کا فا ئدہ کیا۔ایک دوسرے صاحب بو لے کہ بے شک میرا بھی یہی حال ہے اور میں تو اب اس زندگی کو جہنم کا نمونہ پا تا ہوں پھرتو سب نے یہی اقرار کیا اور تجویز ہو ئی کہ آج کی مجلس میں تکلف چھوڑ دیا جا ئے اور بے تکلفی سے آپس میں بات چیت کریں اور بناوٹ نزدیک نہ آئے۔مگر خدا تعالیٰ انسان کو اس سادگی سے بچائے جو اس وقت ظاہر ہوئی۔اسے دیکھ کر معلوم ہو سکتا تھا کہ آج دنیا کی کیا حالت ہے کیونکہ جس قدر قوم کے لیڈر یہ نمونہ دکھا رہے تھے اس کے عوام نے کیا کمی رکھی ہوگی۔ کلام ایسا فحش کہ شریف آدمی سن نہ سکے۔مذاق ایسا گندہ کہ سلیم الفطرت انسان بر داشت نہ کرسکے۔باتوں سے گزر کر ہا تھوں پر آگئے اور ایک دوسرے کے سر پر چپتیں بھی رسید ہونی شروع ہوگئیں۔پھر میوہ کچھ کھا رہے تھے اس کی گٹھلیوں کی وہ بو چھاڑ شروع ہو ئی کہ الامان۔میں نے تو سمجھا کہ اس گولہ باری میںمیری خیر نہیں ایک کو نہ میں ہو کر بیٹھ گیا۔ اور جب یہ سا دگی ختم ہو ئی تو میری جان میں جان آئی کہ آنکھ ناک سلامت رہے۔

جو نمونۂ سا دگی اس مجلس کے ممبران نے دکھا یا جو ہندو مسلمان دونوں قوموں میں سے تھے اس سے تو ان کے تکلف کو میں لوگوں کے لیے ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں مگر اس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ تکلف خود ان لو گوں کے لیے وبال جان ہو رہا تھا اور ہے۔گو وہ خوش نظر آتے ہیں مگر در حقیقت اپنی جھوٹی عظمت اور عزت قائم کر نے کے لیے لوگوں کے سامنے ایسے سنجیدہ بنے رہتے ہیں اور ایسے بنے ٹھنے رہتے ہیں کہ اپنے حقیقی جذبات کو چھپا نے اور اپنے جسم کو حد سے زیا دہ مشقت میں ڈالنے کی وجہ سے ان کے دل مردہ ہو گئے ہیں اور زندگی ان کے لیے تلخ ہو گئی ہے۔امراء کے مقابلے میں دوسرا گر وہ علماء اور صوفیاءکا ہے جو دین کے عماداور ستون سمجھے جا تے ہیں یہ بھی تکلفات میں مبتلا ہیں اور انہیں بھی اپنی عزت کے قائم رکھنے کے لیے تکلف سے کام لینا پڑتا ہے۔اپنی چال میں،اپنی گفتگو میں،اپنےاٹھنے بیٹھنے میں،اپنے پہننے میں،اپنے کھا نے میں ہر بات میںتکلفات سے کام لیتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اسی سے ہمارا تقدس ثابت ہو تا ہے۔یہ مذہبی لیڈر خواہ کسی مذہب کے ہوں اس مرض میں مبتلا ہیں۔مسلمان صوفیاء کو ہی کو ئی جا کر دیکھے کس طرح مراقبہ کی حالت میں اپنے مریدوں کے سامنے بیٹھتے ہیں مگر بہت ہو تے ہیں جن کے دل اندر سے اور ہی خواہشات رکھتے ہیں اور ان کی زندگیاں اپنے بھا ئیوں یعنی امراء سے زیادہ سکھ والی نہیں ہو تیں بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی تلخ ہوں کیونکہ وہ اپنے جذبات کے پورا کرنے کے لیے کو ئی نہ کو ئی راہ نکال لیتے ہیں مگر علماء اور صوفیا ء اس سے بھی محروم ہیں۔

میری اس بیان سے یہ غرض ہے کہ دنیا میں تکلف کا بہت دور دورہ ہے اور دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے عظماء اس مرض میں مبتلا ہیں اورنہ صرف آج مبتلا ہو ئے ہیں بلکہ دنیا میں یہ نقشہ ہمیشہ سے قائم ہے اور سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائیدو نصرت ہو اور بہت کم لوگ اس بناوٹ سے بچ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button