احمدی خواتین کا تبلیغ و تربیت میں کردار
تقریر جلسہ سالانہ یوکے 2019ء
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ(المائدہ:68)
اے رسولؐ! اچھی طرح پہنچا دے جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف اتارا گیا ہے۔ اور اگر تونے ایسا نہ کیا تَو گویا تُونے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ یقیناً اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
ہر رسول، نبی،مجدد اور امام نے تبلیغ کو اپنا فریضہ قرار دیا ہے۔
حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓسے فرمایا خدا کی قسم! تیرے ذریعہ ایک آدمی کا ہدایت پا جانا اعلیٰ درجہ کے سُرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔
(مسلم کتاب الفضائل باب فضائل علی بن ابی طالب و بخاری کتاب الجھاد)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا ثواب اس بات پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ اور جو شخص کسی گمراہی اور برائی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اسی قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر کہ اس بُرائی کے کرنے والے کو ہوتا ہے اور اس کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔
(مسلم کتاب العلم باب من سنّ حسنۃ اوسیئۃ)
حضرت اقدس مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
‘‘ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس کو ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔’’
( ملفوظات جلد سوم صفحہ 391)
اسلام کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ قوموں کے تفرقے مٹادے، رنگ اور نسل کی تمیز کو ختم کر دے، مشرق و مغرب کی خلیجیں پاٹ دے کہ فاصلے ختم ہوں اور سارے انسان خدا کے نام پر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے جھنڈے تلے ایک ہو جائیں۔ یہ وہ اعلیٰ اور آخری مقصد ہے جس کی طرف مختلف راہوں اور مختلف طریقوں سے اسلام دنیا کو لے جا رہا ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں:
آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ پر غور کرنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس پاک کلام کو لوگوں تک پہنچادینے میں اپنی جان تک کی پروانہیں کی ۔ مکّی زندگی اور طائف کے حالات جن مشکلات کا مجموعہ ہیں، وہ سب کی سب اسی ایک فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے آپ کو برداشت کرنی پڑی ہیں۔ ان تکالیف اور مصائب کو آپﷺ نے کیوں برداشت کیا؟ آپﷺ خاموش ہو کر اپنی زندگی گزار سکتے تھےپھر وہ بات کیا تھی جس نے آپﷺ کو اس امر پر آمادہ کر دیا کہ خواہ مصیبتوں کے کتنے ہی پہاڑ کیوں نہ ٹوٹ پڑیں۔ لیکن امرِالٰہی کے پہنچانے میں آپ تساہل نہ فرماویں گے؟ قرآن شریف سے ہی اس کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کو حکم ہوا تھا بَلِّغۡ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ۔ جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیاہے اسے مخلوقِ الٰہی کو پہنچادے۔ اور فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ(سورۃ الحجر: 95) جو تجھے حکم دیا جاتا ہے اس کو کھول کھول کر سنادے۔ اس پاک حکم کی تعمیل آپﷺ کا مقصودِ خاطر تھا۔ اور اس کے لیے آپﷺ ہر ایک آفت اور مصیبت کو ہزار جان برداشت کرنے کو آمادہ تھے۔ پھر قرآن شریف کے تو تیس سپارے ہیں اور ان میں ہزاروں ہزار مضامین ہیں۔ جن کو پہنچانا آپﷺ کا ہی کام تھا……اورپھر وہ شخص جو مسیح موعود ؑکے نام سے آیا ہے اور اس پیغام کو پہنچانا چاہتا ہے وہ بھی بالمقابل اُن کی تکلیفوں اور اذیتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ وہ تھکتا اور ماندہ نہیں ہوتا۔ اُس کا قدم آگے ہی آگے پڑتا اور اس مضمون کے پہنچانے میں کوئی سستی نہیں کرتا……پھر مخالفوں کی کیا کیا منصوبے اور تجویزیں مخالف کی طرف سے آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔
(حقائق الفرقان ص 116-115)
میدانِ عمل میں کام کرنے والی خواتین بفضل تعالیٰ اِس ارشادِ خدا وندی کی مِصداق نظر آتی ہیں۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (سورۃ الانعام:163)
کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
تبلیغ کرنے والوں کی ایک خصوصیت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہالَّذِیۡنَ یُبَلِّغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخۡشَوۡنَہٗ وَ لَا یَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا(سورۃ الاحزاب:40) یہ اللہ کی سنت ان لوگوں کے حق میں گزر چکی ہےجو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اُس سے ڈرتے رہتے تھے اور اللہ کے سوا کسی اَور سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
‘‘وہ ایمان دار بھی ہیں کہ بہادری سے دین کی راہ میں اپنی جانیں دے دیتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے۔’’
(جنگِ مقدس، روحانی خزائن جلد 6، صفحہ 276)
مستورات کی میدانِ تبلیغ کے تذکرہ میں سب سے پہلے قرآن مجید میں مذکور فرعون کی بیوی کا ذکر ضروری ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مومنین کی مثال کے لیے چن لیا۔
اوراللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔ جب اس نے کہا اے میرے ربّ! میرے لیے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔
(سورۃ التحریم:12)
اس نیک خاتون نے ہر ظلم کے آگے اپنے ایمان کی حفاظت کی۔
پھراسلام کے دور اوّل کی صحابیات کا ذکر آتا ہے، جنہوں نے بہادری سے دین کی راہ میں اپنی جانیں دیں ۔ ان مقدس لوگوںمیں سے ایک حضرت سمَیّہ ؓ ہیں ،جنہیں ابو جہل نے ران میں نیزہ مارا اور انہوں نے وہیں تڑپتے ہوئے جان دے دی۔ حضرت زنیرہ ؓکو ابو جہل نے اس بے دردی سے پیٹاکہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔
یہی وہ صحابیات ہیں جن کا نمونہ اس دور میں ہم احمدی عورتوں میں زندہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔
ان مقدس لوگوںمیں سےجنہیں اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی توفیق ملی ایک مکر مہ رُخسانہ طارق صاحبہ ہیں جو عید کے دن شہید کی گئیں ۔رُخسانہ نے عید کی نماز پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔طارق کے بڑے بھائی نے جو غیر احمدی تھا مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کر دیا ۔وہ طارق سے کہنے لگی کہ ہم ربوہ میں چلے جاتے ہیں ۔ یہ پا بندی اس پر گراں تھی ۔پھر وہ پرانے کپڑوں میں عید کی نماز پڑھنے چلی گئی ۔ حا لا نکہ شادی کے بعد یہ اس کی پہلی عید تھی …………
عید کی نماز میں وہ بہت روئی اور واپسی میں آتے ہوئے وہ بہت خوش تھی ۔سب کے لیے نا شتہ تیار کیا ۔اس کے خاوند بتاتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ آج اتنی خوش کیوں ہے ۔وہ گھر میں سب کو خوشی خوشی ملی ۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ اس کے آخری لمحات ہیں ۔طارق کا بڑا بھائی گھر آیا ۔آتے ہی گولی چلائی اور وہ شہیدہو گئی ۔
(محسنات 169 مصنفہ بشریٰ بشیر)
اسی طرح مکر مہ مبارکہ بیگم صا حبہ اہلیہ مکرم محمد سلیم بٹ صاحب چونڈہ پا کستان سے ہیں:
‘‘آپ 2؍مئی کو دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں قریبی گاؤں ڈوگراں گئی تھیں ۔ایک نو مبا ئع مکرم عابد صا حب کے گھر میں بیٹھی تھیں کہ ایک مخالف نے چھری سے وار کر کہ شدید زخمی کر دیا ۔ہسپتال میں 13 بو تلیں خون دیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور 9 مئی 1999ءکو خدائے تعا لیٰ کی راہ میںقر بان ہو گئیں ۔’’
(محسنات 179 مصنفہ بشری بشیر)
امر واقعہ یہ ہے کہ تبلیغ میں جذبہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، دلائل سے خواہ کتنے آراستہ ہوں جب تک جذبہ دل میں نہیں ہے اس وقت تک تبلیغ کوئی اثر نہیں کرتی۔
یہ احمدی خواتین علَم جہاد بلند کیے اپنے جوشِ ایمانی کا عملی مظا ہرہ کر رہی ہیں ۔کو ئی دنیا کا کو نہ ایسا نہیں جہاں عورتیں نہ بڑھ رہی ہوں ۔ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ؓکی والدہ کی بات کا بہت اثر ہوا کرتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒان کا ذکرکرتے ہوئے بیان فر ماتے ہیں:
‘‘کثرت سے خواتین ان کی سادہ باتیںسن کراحمدی ہوئیں ۔ایک عورت جو بہت متا ثر ہوئی اس نے پو چھا کہ مجھے بھی بتائیں کہ یہ علم آپ نے کہا ں سے پڑ ھا ہے ؟کیا طریقہ ہے کہ آپ کی بات میں اثر ہے ؟ انہوں نے دو باتیں فرمائیں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے تو کوئی علم نہیں ہے میں صرف اتنا جانتی ہو ں کہ اللہ سے ڈرتی ہو ں اور اس سے محبت کرتی ہوں ۔اتنی عظیم الشان بات کر دی ہے ان دو فقروں میں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ کس طرح یہ آپ کی ساری زندگی کے لیے رہنما بن سکتی ہیں ۔اللہ سے ڈرنے کے ساتھ ان کا یہ ذکر کرنا کہ محبت کرتی ہوں ۔یہ مضمون کو مکمل کر دیتا ہے …
جس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے بارہا تو جہ دلا ئی ہے اور آنحضرت ﷺنے چھو ٹی چھوٹی احادیث میں اسی مرکزی نقطے کو اٹھا یا ہے کہ دوکام کرو ، اللہ سے ڈرو اور اس سے محبت کرو ، ساری دنیا تمہارے قدموں میں ہو گی کیو نکہ قلوب کو فتح کیے بغیر اذہان کی فتح ممکن نہیں ۔ذہنوں میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک آپ دلوں پر حکومت نہ کریں ۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے مستورات سے خطابات۔ یکم اگست 1998ءص578)
حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ؓکی والدہ خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی زیارت کر چکی تھیں جب حضورؑ سیالکوٹ تشریف لائےتو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ؓکی والدہ نے اپنے شوہر سے حضور سے ملنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت چوہدری صاحب ؓکی والدہ کواجازت تو ملی لیکن ساتھ ہی کہا کہ ابھی بیعت نہ کریں تحقیق کر کےاکٹھے فیصلہ کریں گےاس پر والدہ صاحبہ نے کہا کہ اگر تو یہ وہی بزرگ ہیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا تو پھر تو میں بیعت میں تاخیر نہیں کر سکتی……حضرت چوہدری صاحب ؓکے والد صاحب یہ کہتے ہوئے کہ بغیر مشورہ فیصلہ نہ کریں کچہری چلے گئے ۔ جب واپس آئے تو زیارت اور بیعت کے بارے میں پوچھا۔ اس پر حضرت چوہدری صاحب ؓکی والدہ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا،
‘‘الحمد للہ ، میں نے بیعت کر لی ہے، اس پر حضرت چوہدری صاحب ؓکے والد نے رنج کا اظہار کیا تو والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے ۔ اس میں آپ کی خفگی مجھ پر کوئی اثر نہیں کر سکتی۔ اگر یہ امر آپ کو بہت نا گوار ہے تو آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں ۔ جس خدا نے اب تک میری حفاظت اور پرورش کا سامان کیا ہے، وہ آئندہ بھی کرے گا ۔’’
(میری والدہ ص33-32)
لاہور کی ایک خاتون نے خدا کے فضل سے کافی احمدی کیے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایاکہ میں بہت کم پڑھی لکھی ہوں لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ ا سلام کی محبت میں سرشار ہوں اور اس نشے کے ساتھ ، اس موج میں دعوت الی اللہ کر تی ہوں کہ سننے والے مجبور ہو جاتے ہیں ۔ جاہل سے جاہل آدمی بھی میرا یہ جذبہ دیکھ کر سننے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جب بھی موقع ملے اسی جذبے کے ساتھ تبلیغ کر تی ہوں اور یہ اسی کا پھل ہے۔
(محسنات صفحہ 147)
تبلیغ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی بچیوں کو اپنے عملی نمونے پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘تبلیغ کے لیے راستے آپ کو تلاش کرنے پڑیں گے۔ تبلیغ کے لیے خود مواقع پیدا کرو۔ اگر آپ پڑھائی میں ہوشیار ہیں۔ آپ کا حلیہ، رویہ،کردار اچھا ہے۔ سکارف ٹھیک ہے اور پردہ ہے۔ دوستیاں بڑھانے کی طرف توجہ نہیں ہے تو دوسری لڑکیاں آپ کی طرف متوجہ ہوں گی اور پوچھیں گی کہ کون ہو؟ تو تم بتاؤ کہ مَیں احمدی ہوں۔ پھر بتاؤ کہ امام مہدیؑ کو مانا ہے۔ اس طرح بات آگے بڑھے گی اور تبلیغ کا راستہ کھلے گا۔ ’’
(کلاس واقفاتِ نو8؍ اکتوبر 2011ء بمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء)
حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی صحابیات مہمان نوازی کے میدان میں اکثر مردوں پر سبقت لے گئی تھیں اور تبلیغ کے نتیجے میں جو بکثرت باہر سے وفود آتے تھے یا وہ نو مبائعین جن کو گھروں سے نکالاجاتا تھا ان کی ذمہ داری ادا کرنے میں اولین مسلم خواتین نے غیر معمولی خدمات سر انجام دی ہیں۔
ابتدائےاسلام میں جو لوگ اسلام لاتے ان کےلیے باقاعدہ انتظام نہیں تھا سوائے اس کے کہ حضرت اقدس محمدمصطفیٰﷺ انہیں مختلف صحابہ کے سپرد کر دیا کرتے تھے لیکن بہت سی مسلمان خواتین تھیں جنہوں نے ازخود اپنے اوپر یہ کام لے لیا ۔
ان میں حضرت اُم شریک ؓکا گھر تو ایک ایسا نمونہ تھا کہ وہ تمام گھرنَومسلمین اور دیگر تبلیغ کی غرض سے آنے والوں کے لیے ایک کھلا گھر تھا۔ جس میں دن رات ہر وقت یہی سلسلہ جاری تھا۔ کچھ ضرورت مند،گھروں سے نکالے ہوئے اور کچھ اسلام میں دلچسپی لینے والے جو مدینے آیا کرتے تھے ان کے لیے انہوں نے اپنا گھر وقف کر رکھا تھا۔
(خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒجلسہ مستورات یکم؍ اگست 1998ء)
حضرت اماں جانؓ کے گھر میں بھی ابتدامیں دن رات ہر وقت یہی سلسلہ جاری تھا۔ احمدیت میں دلچسپی لینے والے جو قادیان آیا کرتے تھے، ان کے لیے انہوں نے اپنا گھر وقف کر رکھا تھا۔ شروع میں تو سارا کھانا خود پکاتیں اور مہمانوں کی تمام ضرورتوں کا خیال خود رکھتیں۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کے لیے چندہ اکٹھا نہیں ہوتا تھا، حضور اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓنے عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سالن نہیں ہے اس پر حضرت اماں جانؓ کا زیور فروخت کر کے مہمانوں کے لیے سامان پہنچایا گیا۔
تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ یوں رہ نمائی فرماتا ہے:
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ(سورۃالنحل:126)اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا ربّ ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
قرآن مجید کی اس آیت کی تشریح حضرت مصلح موعود ؓنے یوں بیان فرمائی ہے کہ
‘‘چونکہ دین کی اشاعت اب وسیع ہونے والی تھی اس لیے حکم فرمایا …حکمت کے کئی معنی ہیں؛ مثلاً علم، پختگی،عدل، نبوت، حلم اور بردباری۔ جو کلام حق کے موافق ہو، محل اور موقع کے مناسب حال بات ہو۔ اس لیے فرمایا کہ حکمت کے ساتھ بلاؤ۔ پختہ باتیں بیان کرو،کوئی بات بھی کچی نہ ہو۔ نرمی کے ساتھ اور عقل سے کام لیتے ہوئے بات کیا کرو۔
الٰہی کلام کی مدد سے لوگوں کو دین کی طرف بلاؤ اور ایسے طریق سے کلام کرو جس کو دوسرا سمجھ سکے جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ لوگوں سے ان کے فہم اور ادراک کے مطابق کلام کیا کرو۔ ایسی بات کیا کرو جو سچی اور واقعات کے مطابق ہو۔
حضرت مصلح موعود ؓنے ایک اہم نکتہ کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ ‘‘دوسروں کو ہدایت دیتے دیتےخود ہی گمراہ نہ ہو جانا۔ جب تمہاری ہدایت اور دوسرے کی ہدایت ٹکرا جائےتو اس وقت تم اپنی ہدایت کی فکر کرواور دوسرے کی ہدایت کو خدا پر چھوڑ دو۔’’
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران کونصائح کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہیے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لیے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہیے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں۔ مردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں ’’۔
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا15؍اپریل 2006ء) (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2015ء)
پھر فرمایا الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ یعنی ایسی بات کرو جو دلوں کو نرم کر دے۔
وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُکہہ کر یہ بتایا ہے کہ ان سے جھگڑا کرتے وقت یہ بھی مد نظر رکھا کرو۔ کہ مختلف دلائل میں سے جو سب سے اعلیٰ اور مضبوط دلیل ہو، اس کو بطور بنیاد اور مرکزکے قائم کیا کرو۔ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہ وَھُوَ اَعْلَمُ بِا لْمُھْتَدِیْنَمیں بتلایا ہے کہ تم اچھی طرح سے تبلیغ کرتے رہو۔ لیکن اگر لوگ نہ مانیں تو اس سے یہ نتیجہ نکال کر مایوس نہ ہوجانا کہ ہمیں تبلیغ کرنی ہی نہیں آتی۔ کیونکہ بہت ممکن ہے۔ کہ تمہاری تبلیغ میں کوئی نقص نہ ہو۔ مگر مخاطب کے دل پر اس کے گناہوں کا ایسا رنگ ہو کہ خدا تعالیٰ اس کے لیے ہدایت کی کھڑکی نہ کھولے۔
غرض تبلیغ میں منہمک رہنا چاہیے۔ نتیجہ نکالنا اور اثر پیدا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔
(تفسیر کبیرسورۃ النمل ص274)
حضرت اقدس مسیح موعود ؑفرماتے ہیں :
‘‘جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہو اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے پس جادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُکے موافق اپنا عمل در آمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے:
یُؤْ تِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآ ءُ۔
(سورۃ البقرہ: 270)
(الحکم جلد 7 نمبر 9 مورخہ 10 مارچ 1903ء صفحہ 8)
اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ (سورۃحٰم السّجدہ: 35)
یہ تعلیم اس لیے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سن لے۔
(الحکم جلد 10 مورخہ 17 اکتوبر 1906ء صفحہ 4)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اور اے پیغمبر!اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کرلیں تو ہدایت پا گئے اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکمِ الٰہی پہنچادو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تُم ان سے جنگ کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لیے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کہ تھا نہ بحیثیت رسالت۔
(چشمہ ٔمعرفت، روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 243)
پس یہ خیال بھی غلط ہے کہ اسلام جنگوں کے زور سے پھیلا ہے ۔اسلام حسن خلق کی وجہ سے پھیلا ہے ۔
لجنہ اماءاللہ کی ممبرات جس والہانہ انداز میںاپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتی ہیں اس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ آج ساری دنیا کی احمدی خواتین لاکھوں کی تعداد میں کسی نہ کسی اہم کام سے منسلک ہو کر اپنے امام کی بتائی ہوئی سکیموں پر عمل کرنا عین سعادت سمجھتی ہیں۔ وہ بے نیاز ہو چکی ہیں دنیا کی لذتوں سے، وہ بے نیاز ہو چکی ہیں عام تفریح کے ذرائع سے، وہ شب و روز تبلیغ میں مصروف ہیں اور اس جوش سے دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں کہ دنیا حیرت زدہ ہے۔یہ احمدی خواتین علَم جہاد بلند کیے اپنے جوش ایمانی کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کوئی دنیا کا کونہ ایسا نہیں جہاں پر عورتیں آگے نہ بڑھ رہی ہوں۔
دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دین مصطفٰیؐ
مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار
ایک عالم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر
پھیر دے اے میرے مولیٰ اس طرف دریا کی د ھار
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒبیان فرماتے ہیں کہ
ہر احمدی جس تک میری آواز پہنچتی ہے وہ خود اپنا نگران بن جائے …اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرے کہ میں نے سال کے اندر اندر ایک احمدی ضرور بنانا ہے اور دعا کرے تو یہ کچھ مشکل امر نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کوئی چیز آپ کو دینا چاہتی ہے تو ہاتھ بڑھا کر اس کو نہ لینا سخت ناشکری ہے۔
(ماخوذ از خطباتِ طاہر جلد 4 صفحہ 809تا 810۔ خطبہ جمعہ 27؍ ستمبر 1985ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒمزید بیان فرماتے ہیں کہ:
‘‘لجنہ اما ءاللہ غانا میں بکثرت ہونے والی تبلیغ کی وہ خاموش کارکنات ہیں جن کا ذکر تفصیل سے نہیں ملتامگر اگر وہ خدمت نہ کرتیں تو غانا میں اس کثرت سے تبلیغ ہونا ممکن نہیں تھا۔ تمام غانا میں تمام میزبانی کے فرائض یہ احمدی خواتین ادا کر رہی تھیں اور کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں احمدی خواتین نے اپنے آپ کو میزبانی کے لیے پیش نہ کر رکھا ہو۔ ’’
(جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ یکم؍ اگست 1998ء)
لجنہ ا ما ءا للہ غانا ،کینیڈا، اور پاکستان کی لجنہ کے لیے باقاعدہ سکول قائم ہیں جہاں بچیاں دین سیکھتی ہیں اور دوسری عورتوں کو دین سکھاتی ہیں۔
تبلیغی سٹال لگانا بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اسی طرح لائیبریریوں میں کتابیں رکھوانا بھی بہت اہم کام ہے۔
اسی طرح وقف عارضی میں اکثر ممالک میں لجنہ تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں اور جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا ہے تبلیغ میں کوشاں رہتی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒبیان فرماتے ہیں کہ:
‘‘تو احمدی خواتین کے لیے اس میدان میں ایک کھلی دوڑ ہے جو مردوں سے کر سکتی ہیں اور اس دوڑ میں میں چا ہتا ہوں کہ احمدی خواتین بھرپور حصہ لیں اور فاستبقوالخیرات کا وہ نمونہ دکھا ئیں کہ ان کو دیکھ کر مرد کچھ شرمندگی محسوس کر کے اَور تیز بھاگنے کی کوشش کریں ۔
اب یہ دوڑ ایسی ہے کہ جس میں جسمانی ساخت کی مضبوطی کی ضرورت نہیں ۔مرد عام دوڑ میں تو آپ کو شکست دے سکتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ اس دوڑ میں بھی شکست دے سکیں ۔ پس فا ستبقو الخیرات آگے بڑ ھو اور تیزی سے نئے نئے میدان سر کرو اور یہی توقع ہے جو احمدی خواتین سے میں ہمیشہ رکھتا ہو ں ۔’’
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے مستورات سے خطابات ۔ یکم اگست 1998ءص570)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ایک موقع پر بیان فرمایاکہ
‘‘احمدی عورتیں……عملی زندگی کے بہت سے میدانوں میں مردوں سے مسابقت اختیار کر چکی ہیں، خصوصا ًدعوت الی اللہ کے میدان میں، خدمت خلق کے میدان میں اور مہمان نوازی کے تقاضے ادا کرنے کے میدان میں وہ بہت نمایاں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا نے ایک گاؤں میں تبلیغ کے لیے جانا تھا۔انہوں وقارِ عمل کرکے تین کلو میٹر سڑک بنائی تاکہ وہاں پہنچنے میں سہولت ہو اور اس سڑک کا بہت فائدہ پہنچا ۔گاؤں والوں کو جن کو تو فیق نہیں ملی تھی محض اس خدمت کی وجہ سے دھڑا دھڑ احمدی ہونے شروع ہو گئے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خواتین کو وقارِ عمل کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘ایک وقارِ عمل کا میدان ان کے لیے کھلا پڑا ہے ۔غریب گھروں میں جا کر وقارِ عمل کریں اور یہ غریب گھر دنیا کے امیر ترین ممالک میں بھی مل سکتے ہیں بلکہ امریکہ میں اس کثرت سے ہیں کہ ان کے تصوّر سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اگر احمدی خواتین خواہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتی ہوں گھروں تک پہنچیں اور ان کو سمجھائیں کہ ہمارے مذہب کا تقاضا ہے ۔بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کے بعد اس کے بندوں کی خدمت کرو ۔اس غرض سے بغیر کسی مقصد کے ہم تمہاری خدمت میں حا ضر ہوئی ہیں بغیر کسی مقصد کے سوائے اس کے کہ اللہ کہ رضا جوئی مقصد ہے ۔ یہ نیت خالص کر کے وہ اگر گھروں میں جائیں اور ان کی خدمت کریں تو بالواسطہ فائدہ یہ ہو گا کہ ایسی مسلمان خدمت کرنے والیوں کی خدمت کے ذریعے اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں دور ہونگی اور ان کو بھی رہنا آ جائے گا ۔ اتنے گندے ما حول میں زندگی بسر ہو رہی ہے ’’۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے مستورات سے خطابات ۔ یکم اگست 1998ءص578)
ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کارخدا رحمان ورحیم ہے ۔ اس کی محبت اور غیرت اپنی عام مخلوقات، اپنے عام بندوں سے بہت زیادہ ہے تو اندازہ کریں اُس کا اس سے کیسا تعلق ہوگاجو اس کی خاطر خدمت کے لیے نکلا ہے؟ خدا اپنے کام کرنے والوں کے لیے بڑی غیرت رکھتا ہے مگر جو خدا کی خاطر سفر کرتا ہے ، جو خدا کی خاطر کسی بہن کے پاس جاتا ہے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہےوہ اللہ کی نظر میں پیارا ہوتا ہے۔
تبلیغ میں واقفین زندگی کی بیویوں کا کردار اس پھول کی طرح ہے جس سے عطر بنتا ہے۔عطر کی خوشبو تو محسوس ہوتی ہے لیکن پھول نظر نہیں آتا۔ واقفین زندگی کی بیویوں کی زندگی بھی وقف ہوتی ہے۔ وہ ہر گرم اور سرد میں ان کا ساتھ دیتی ہیں، مشکلات کے وقت حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور اپنے خاوند کے کام کو خوش اسلوبی سے جاری رکھنے میں اپنے خلوص اور اعلیٰ اخلاص سے خاصا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی خاموشی میں ایک گو یائی ہو جاتی ہے، ایسی گو یائی جو حیرت انگیز طور پردلوں پر اثر کرنے والی ہوتی ہے۔ہماری جماعت ایسی مثالوں سے منور ہے۔
مکرم مولوی رحمت علی صاحب متفرق اوقات میں26 سال باہر رہے۔ ان کے بچے اپنی ماں سے پوچھتے تھے کہ ہمارے ابا کہاں ہیں؟ کہاں چلے گئے ؟ تو آبدیدہ ہو کر انڈونیشیا کی طرف انگلی اٹھا کر کہتیں کہ تمہارے ابا دین کی خدمت کے لیے وہاں گئے ہیں۔جب حضرت فضل عمر ؓنے مولوی صاحب کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا تو حضور ؓکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ جو عمر اکٹھے رہنے کی تھی وہ تو علیحدگی میں گزار دی اور اب میری خواہش ہے کہ ان پر موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ مجھ سے علیحدہ ہو ں اور خدا کے حضور میری یہ قربانی قبول ہو۔ (محسنات 125)
خواتین کو سنہری خدمات کی توفیق ملنا بھی در اصل حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی دعاؤں کا ثمرہ ہیں ۔ آپؑ فرماتے ہیں:
خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامتِ خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس نا چیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہراوے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیتِ باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کے لیے دن رات کوشش کرتا رہوں اور ان کے لیے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اور انکے لیے وہ روحِ قدس طلب کروں جو ربوبیتِ تامہ اور ربوبیتِ خالصہ کے کامل جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس روحِ خبیث کی تسخیر سے اُن کی نجات چاہوں کے جو نفسِ امّارہ اور شیطان کے تعلقِ شدید سے جنم لیتی ہے سو میں بتوفیقہِ تعالیٰ کاہل اور سست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدقِ قدم اختیار کر لیا ہے۔ غافل نہیں ہوں گا بلکہ ان کی زندگی کے لیے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور ان کے لیے خدا تعالیٰ سے وہ رُوحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح ان کے تمام وجود میں دوڑ جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لیے جو داخلِ سلسلہ ہو کر صبر سے منتظررہیں گے ایسا ہی ہوگا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لیے اور اپنی قدرت دکھانے کے لیے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے۔ تا دُنیا میں محبتِ الٰہی اور توبۂ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلاوے سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گااور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ وہ جیسا کہ اُس نے اپنی پاک پیشنگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا……اور اُس چراغ کی طرح جو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لیے بطور نمونہ ٹھہریں گے۔
(اشتہار 4؍مارچ 1889ء)
دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت لگانا ،داعی الی اللہ کا کام ہے اور یہ محض ایک نصیحت یا یادہانی سے نہیں ہوتا بلکہ ان کو اپنے ساتھ لگانے سے ہوتا ہے ۔ان کے دلوں میں کام کی محبت پیدا کرنا ایک فن ہے اور اس کے لیے قرآن نے اصولی روشنی ڈالی ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھا نا ہے ۔حضرت ابراہیمؑ کے سپرد اللہ نے قو موں کی زندگی کا کام کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تیرے ذریعے سے قو موں کو زندگی ملے گی ۔ حضرت ابراہیم ؑ عاجز مزاج تھے۔عرض کی رب ارنی کیف تحی الموتیکہ اے خدا! مجھے معلوم ہے کہ تو قوموں کو زندہ کرے گا لیکن کس طرح؟فر مایا چار پرندے لے، اپنے سے مانوس کر لے، پھر ان کو مختلف سمتوں میں بھیج دے۔ پھر ان کو آواز دے۔تو دیکھے گا کہ کس طرح تیری طرف اڑتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ نمونہ تھا حضرت ابراہیمؑ کا ۔پس ہر صدر اور ہر عہدے دار کو چاہیے کہ جماعت کے ساتھ ان کی تربیت کرے ۔ان کے سپرد کام کرے ۔ان کو دنیا میں پھیلائے ۔
حضور ِانور اید ہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں کہ
تبلیغ کے لیے بھی اپنی حالتوں میں پہلے پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سچے مسلمان کا نمونہ جب انسان بن جائے تو پھر سوال ہی نہیں کہ لوگوں کی توجہ پیدا نہ ہو۔ اس طرح باقاعدہ تبلیغ سے پہلے تبلیغ کے راستے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒبیان فرماتے ہیں کہ
‘‘جو احمدیت کے نام پر پناہ لینے آتا ہے وہ احمدیت بیچنے کے لیے تو نہیں آتا، لیکن اگر آپ نے احمدیت کے نام پر پناہ لی اور احمدی قدروں کو پیچھے چھوڑ آئیں یا یہاں آکر بری باتیں سیکھنی شروع کر دیں تواحمدیت کی پناہ سے تو نکل ٓائیں آپ، یہ تو احمدیت بیچنے والی بات ہے ۔ یہ تو وہی بات ہے جو قرآن مجید نے لکھی ہے کہ خدا کی آیات کو ادنیٰ ادنیٰ ذلیل قیمتوں پر نہ بیچو۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے تعلق توڑ لیتا ہے جو دین کو بیچنے لگ جاتے ہیں۔ خدا اپنے کام کرنے والوں کےلیے بڑی غیرت رکھتا ہے۔ اگر خواتین خدا سے دعا مانگتے ہوئےمحبت اور پیار سے صرف ایک ایک کو تبلیغ شروع کر دیں تو اگلے سال یہ تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔اس طرح دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہو گااس لیے تبلیغ سے غافل نہ ہوں۔اچھا مبلغ بننےکے لیےمحض اچھا علم کافی نہیں بلکہ اچھی طبیعت ضروری ہے، ایسی طبیعت جس سے لوگ پیار کرنے لگیں جس کی طرف لوگ کھینچے چلے آئیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔
(سورۃالاحزاب:30)
اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو تو یقیناً اللہ نے تم میں سے حُسنِ عمل کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے۔
(باقی آئندہ )
٭…٭…٭