امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء (6؍جولائی)
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء کے موقع پر مستورات سے خطاب
……………………………
06؍جولائی2019ء
بروز ہفتہ
…………………………………
حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چار بج کر پندرہ منٹ پر جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز ِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہا ئشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
٭ …صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
٭ …آج پروگرام کے مطابق لجنہ جلسہ گاہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خواتین کے اجلاس سے خطاب تھا۔
٭…آج لجنہ کے جلسہ گاہ میں صبح کے اجلاس کا آغاز دس بجے حضرت بیگم صاحبہ مد ّظلہا العالی کی زیر صدارت ہوا۔ جو دوپہر گیارہ بج کر 45 منٹ تک جاری رہا۔ اس سیشن میں تلاوتِ قرآن کریم اور اس کے اردو ترجمے کے علاوہ ایک اردو نظم اور عربی قصیدہ اور چار تقاریر ہوئیں۔ جن میں سے تین اردو زبان میں تھیں اور ایک جرمن زبان میں تھی ۔
٭ …پروگرام کے مطابق دوپہر 12 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ ناظمہ اعلیٰ اور صدر لجنہ اماء اللہ جرمنی نے اپنی نائب ناظماتِ اعلیٰ کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا۔ اور خواتین نے بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ نعرے لگائے اور اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔
٭ … اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔ جو عزیزہ درّ عجم ہیوبش صاحبہ نے کی۔ بعد ازاں اس کا اردو اور جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا ۔
٭ …اس کے بعد عزیزہ عائشہ سندس صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منظوم کلام ؎
اِک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا ءکے سامنے
خوش الحانی سے پیش کیا۔
٭…بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی 47 طالبات کو اسناد عطا فرمائیں اور حضرت بیگم صاحبہ مد ّظلہا العالی نے ان طالبات کو میڈل پہنائے۔
٭ …تعلیمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ان خوش نصیب طالبات کے اسماء درج ذیل ہیں۔
٭…تقسیم ایوارڈ کی تقریب کے بعد بارہ بجکر تیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نےخطاب فرمایا۔
٭…تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ النحل کی آیت 98اور سورۃ التوبہ کی آیت 112کی تلاوت فرمائی۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں نیک اور مناسبِ حال عمل کرے گا،مرد ہو کہ عورت، ہم اسے یقیناً ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دیں گے۔
پس یہ ہے خدا تعالیٰ کا انصاف کہ مردوں عورتوں دونوں کو ان کے عمل کا بدلہ ہے۔ بعض باتیں مردوں کے لیے فرض ہیںیا ان کے حالات کے مطابق ضروری ہیں اور عورت کے لیے اس طرح فرض اور ضروری نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے فرائض اور ڈیوٹیوں کی فہرست بھی بتا دی ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کے کیا فرائض ہیں اور مرد کے کیا فرائض ہیں۔ ان کی ایک لمبی فہرست ہے وہ تو میں بیان نہیں اس وقت کر سکتا۔ مثال دیتا ہوں، مثلاً نماز کو ہی لے لیں۔ مردوں پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ سوائے اشد مجبوری کے نماز باجماعت مسجد میں جا کر ادا کریں جبکہ عورت کے لیے یہ ضروری نہیں۔ حتیٰ کہ جمعہ بھی عورت کے لیے اس طرح فرض نہیں ہے جس طرح مرد کے لیے فرض ہے۔ مرد کو یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم باجماعت نماز پڑھو تو تمہیں اس کا ستائیس گنا ثواب ملے گا۔ تو کیا عورت باجماعت نمازنہ پڑھ کر ستائیس گنا ثواب سے محروم رہے گی یا اس کو اس لیے نماز باجماعت پڑھنا ضروری قرار نہیں دیا گیا کہ اسے کہیں ستائیس گنا ثواب نہ مل جائے اور اسے محروم رکھا جائے۔ نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر ایک کے مناسب حال عمل ہیں، اگر وہ ان عملوں کو سرانجا دے رہا ہے ، چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے تو اسے ثواب ملے گا۔ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا اور اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنا ہی اسے مرد کے برابر ثواب کا مستحق قرار دے دے گا۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک عورت کو فرمایا تھا کہ تمہارا اپنے گھروں کو سنبھالنا اور بچوں کی تربیت کرنا تمہیں اتنا ہی ثواب کا مستحق قرار دے گا یا بنائے گا جس کا ایک مرد اسلام کے راستے میں جانی و مالی جہاد کر کے مستحق ہوتا ہے۔
حضورانورِ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اگر عورت اپنے ذمہ کام کو سرانجام دے رہی ہے اور مرد اپنے ذمہ کام اور فرائض کو سرانجام دے رہا ہے اور دونوں اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تو ان کی اس دنیا کی زندگی بھی پاکیزہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے اس کی رضا کو حاصل کرنے والی ہو گی اور آخرت میں بھی ان کے عمل کے مطابق انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ پس جہاں اس آیت میں اسلام نے مرداور عورت دونوں کے حقوق کو تسلیم کیا ہے اور عورت ومرد کو یہ کہا گیا ہے کہ تمہیں تمہارے عملوں کے مطابق بدلہ دیا جائے گا، وہاں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اپنی حالتوں اور اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالو۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے عمل کرو۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس آیت میں ان لوگوں کے اعتراض کی بھی نفی کی گئی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرتا۔ اسلام نہ صرف نیک عمل کرنے والی عورتوں کو چاہے بظاہر اس کے عمل مرد کی نسبت کم محنت والے اور مشقت والے نظر آتے ہوں اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خبر دے کر اللہ تعالیٰ اسے اپنے انعامات سے نوازنے کا اعلان کرتا ہے بلکہ یہی نہیں، اپنی ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ادا کرنے پر مرنے کے بعد بھی بہترین اجر کا اعلان کرتا ہے۔ پس یہ ان لوگوں کی جہالت ہے جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ مرد اور عورت کے برابری کے حقوق نہیں ہیں اور ان لوگوں کی ان غیر مسلموں سے بڑھ کر جہالت ہے جو اس دنیاوی طور پر ترقی یافتہ معاشرے کی نام نہاد آزادی سے متاثر ہو کر کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر اسلام کی سچائی اور اسلام میں اپنے حقوق کے بارے میں سوچ میں پڑ جاتے ہیں یا کہنا چاہیے کہ عورتیں اور پڑھی لکھی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ،خاص طور پر لڑکیوں کی بات کر رہا ہوں،کہ اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں ہمارے حقوق دیے بھی ہیں کہ نہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اپنوں یا غیروں جس کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اسلام میں عورت کے حقوق نہیں اس کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا علم ہی نہیں۔ آج ہر احمدی کا کام ہے کہ دنیا کو بتائے کہ دین کیا ہے؟ ہمارے حقوق کیا ہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انبیاء دنیا میں بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لیے آتے ہیں اور مذہب اس دنیا کی زندگی اور مرنے کے بعد کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کی بات کرتا ہے اور ایک دنیا دار صرف اس دنیا کی زندگی کو ہی اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ پس یہ بات ہر احمدی مرد اور عورت اور لڑکے اور لڑکی کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اسلام جو کامل اور مکمل شریعت ہے جس میں مرد اور عورت ہر ایک کے حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کر دی گئی ہے اور ان پر عمل کر کے ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اسے ہم نے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنا ہے اور غیر مذہبی لوگوں یا دنیا دار لوگوں سے متاثر نہیں ہونا اور نہ صرف متاثر نہیں ہونا بلکہ ان کو مذہب کی حقیقت بتانی ہے، ان کو خدا تعالیٰ کے قریب لانا ہے، ان کو ان کی جاہلانہ سوچوں کی نشاندہی کر کے بتانا ہے کہ ہم جو احمدی مسلمان ہیں ٹھیک ہیں اور ہمارا جومذہب کے بارہ میں، خدا تعالیٰ کے بارے میں نظریہ ہے وہ ٹھیک ہے اور تم غلط ہو۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اس سوچ کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے احکامات کا پابند کرنا ہے اور دنیا کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا قائل کرنا ہے۔ جب یہ ہو گا تبھی ہم حقیقی احمدی کہلا سکیں گے تبھی ہمارے یہ جلسے منعقد کرنے کا فائدہ ہے۔ ہر سال آپ اجتماع کر لیں ، تربیتی کلاسیں منعقد کر لیں، جلسے منعقد کر لیں اور اس بات پر خوش ہو جائیں کہ ہماری اتنی حاضری ہے اور خلیفہ وقت نے ہم سے خطاب کیا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وقتی جوش بے فائدہ ہے۔ بعض فقرات مقررین کے یہاں تقریریں کرنے والوں کے بھی آپ کو وقتی طور پر جذباتی کر دیتے ہیں۔ جب تک ایک لگن اور کوشش کے ساتھ ان نیک باتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہ بنائیں، تو وقتی طور پر جذباتی ہونا یہ بے فائدہ چیز ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کا علم، آپ کی عقل، آپ کی روشن دماغی سب بے فائدہ ہیں اگر آپ اللہ تعالیٰ کی باتوں کو نہیں سمجھتیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتیں یا سن کر،سمجھ کر، پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس نیک اعمال کے لیے جہاں ان جلسوں میں بیان کی گئی باتوں سے فائدہ اٹھائیں وہاں اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تبھی ان جلسوں اور ان کارروائیوں کا فائدہ ہے۔ جیسا کہ آیت کے حوالے سے میں نے ذکر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کے نیک عمل پر جزا دینے کا کہا ہے اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے جزا کی بشارت پانے والوں کے بعض اعمال کا ذکر کیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ جو لوگ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، خدا کی حمد کرنے والے ہیں ،خدا کی راہ میں سفر کرنے والے ہیں، رکوع کرنے والے ہیں ،سجدہ کرنے والے ہیں، نیک باتوں کا حکم دینے والے ہیں، بری باتوں سے روکنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ایسے مومنوں کو تو بشارت دے دے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ بشر المؤمنین تو اس بشارت میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ توبہ کی قوت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے استغفار کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ اگر ان گناہوں سے بچنا ہے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے تو مستقل استغفار کرتے رہو۔ یہ میرے الفاظ ہیں۔آپ علیہ السلام کی باتوں کا مفہوم یہی ہے۔ پھر آپ علیہ السلام نے لکھا کہ بعض وقت انسان نہیں جانتا اور یک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آ جاتی ہے۔ اس کے لیے استغفار ہے کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
دنیا کے شغلوں، اس کے کاموں، اس کے کھیل کود اور لہو و لعب میں آجکل اتنی زیادہ attraction ہے اور انسان کا دل اس حد تک اس کی طرف مائل ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ دل پر زنگ لگ ہی جاتا ہے۔ جو چمک دین کی روشنی کی صفائی اور ستھرائی کی اور دل کے مصفّٰی ہونے کی ہے وہ ماند پڑ جاتی ہے اور دنیا کی جو رنگینیاں ہیں وہ غالب آ جاتی ہیں اور یہ جو دنیاکی رنگینیاں ہیں یہی زنگ ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس اگر ہم نے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے اور درست رکھنی ہے تو ایک مومن کے لیے مسلسل استغفار ضروری ہے اور سچی توبہ کے لیے محنت ضروری ہے۔ پس ہمیں اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ زنگ کو دور کرنے اور اندھیروں کو مٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک خاص کوشش سے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہوتا ۔اس لیے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لیے استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت بھی ضروری ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛
توبہ کرنے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عبادت کرنے والوں کو بشارت ہے۔ عبادت کے جو طریق خد اتعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں ان میں سب سے اہم نماز ہے۔ عورت گھر کی نگران ہونے کے لحاظ سے اپنی نمازوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نمازوں کی بھی حفاظت کی نگران ہے اور اس کو کرنی چاہیے۔ عورتوں میں ، ماؤں میں نمازوں کی عادت ہو، اس کا اہتمام ہو تو بچوں کو بچپن سے ہی نمازوں کی طرف توجہ دلانے والی یہ چیز ہوتی ہے اور عموماً ایسی ماؤں کے بچے نمازی ہوتے ہیں اور ایسی عورتیں اور ایسی مائیں ایسے بچوں کو پروان چڑھا رہی ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے والے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اچھی تربیت کرنے والی مائیں، بچوں کو عبادت گزار بنانے کی کوشش کرنے والی مائیں کم از کم اپنی اس کوشش کی وجہ سے جو وہ بچوں کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت حاصل کرنے والی بن جائیں گی اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ باپوں کے عملوں کی وجہ سے بگڑنے والے بچے ایک وقت میں ماؤں کی دعاؤں اور تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والے بن جاتے ہیں، نیکیوں کے راستے کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پس بے شک بعض ماؤں کے لیے بچوں اور خاص طور پر لڑکوں کی تربیت ایک خاص عمر کے بعد بہت بڑا چیلنج بن جاتی ہے لیکن ماؤں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور پھر خاص طور پر لڑکیاں تو عموماً ماؤں کے زیر اثر ہوتی ہے اگر لڑکیاں بگڑ رہی ہیں تو یہ تو خالصتاً ماؤں کا قصور ہے۔ اگر لڑکیاں آزادی کی طرف جا رہی ہیں تو یہ خالصتاً ماؤں کا قصور ہے۔ اگر لڑکیاں یونیورسٹیوں میں جا کر غلط قسم کی دوستیاں لگانی شروع کر دیتی ہیں تو ماؤں کو فکر کرنی چاہیے اور دعائیں زیادہ کرنی چاہئیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ حمد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی نعمتوں کی شکر گزار بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو بہتر حالات اور مالی بہتری مہیا فرمائی ہے اس کا شکر ادا کریں۔ جب حقیقی حمد کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو یہ خیال دل میں مضبوط ہو گا کہ تعریف کے قابل صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور میرے حالات کی بہتری اگر ہو سکتی ہے تو خدا تعالیٰ کے ساتھ جڑے رہنے سے ہو سکتی ہے اور ہوئی ہے اور اگر کبھی مشکلات اور تنگیوں کا سامنا کرنا بھی پڑے تو اللہ تعالیٰ کی حمد میں تب بھی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد میں کمی ناشکری کی طرف لے جاتی ہے اور ناشکری خدا تعالیٰ سے دور لے جاتی ہے۔ پس ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اس کی حمد کی طرف توجہ رکھنی چاہیے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر ایک خصوصیت یہاں مومن کی یہ بتائی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے اکثر جو یہاں آئی ہیں یا مرد ہیں جو یہاں آئے ہیں وہ اس لیے آئے ہیں کہ ان کے ملک میں ان پر حالات تنگ کیے گئے اور ہجرت کرنی پڑی اور ان ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ پس اس لحاظ سے آپ کے سفر بھی خدا کی راہ میں سفر ہیں۔ اپنے دین کو بچانے کے لیے ہیں یا آپ نے دین کی وجہ سے زندگیوں کو بچانے کے لیے یہ سفر کیے ہیں ۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں کوئی ایسی قابلیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ کہہ سکیں کہ ہم ان ملکوں میں آئے ہیں اور اپنی کسی قابلیت کی وجہ سے ہماری ہجرت ہے۔ پس جب ہجرت اس نام پر کی ہے کہ ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہو اور ہم خدا تعالیٰ کا حق ادا کر سکیں تو پھر خدا تعالیٰ کی باتوں کو ماننا بھی ضروری ہے اور یہاں آ کر جو مالی بہتری اور اکثر کو کشادگی پیدا ہوئی ہے وسعت پیدا ہوئی ہے وہ مزید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنیو الے بنیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آخر پر فرمایا:
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتوں کو سمجھنے والے ہوں ،اس پر عمل کرنے والے ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں، اس دنیا کی لغویات اور بیہودگیوں سے بچنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کو بچانے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مان کر جو ہم نے عہد کیا ہے اس عہد کو پورا کرنے والے ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
………………………………
٭…حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا مکمل متن حسبِ طریق علیحدہ شائع ہوگا۔
٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب ایک بج کر بیس منٹ تک جار ی رہا۔ آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
٭… اس کے بعد ممبرات ِ لجنہ اور ناصرات کے درج ذیل مختلف گروپس نے اپنی اپنی زبانوں میں دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کیے۔
افریقن، عربی، اردو، پنجابی ، جرمن، انگلش، سپینش، ترکی، بوسنین ، میسیڈونین، انڈونیشین، بنگلہ اورجمائیکا۔ اس موقع پر خواتین نے نعرہ ہائے تکبیر بھی بلند کیے۔
٭…بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کم عمر والے بچوں کے ہال میں تشریف لے آئے۔ حضور انور کی زیارت سے بچوں اور ان کی ماؤں کی خوشی دیدنی تھی۔ یہاں پر بھی ناصرات کے گروپس نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کیے ۔
٭… اس کے بعد ایک بج کر پینتالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مرادنہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نماز وں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
٭ … پروگرام کے مطابق ساڑھے چار بجے سہ پہر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمن اور دوسری مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کےلیے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے ۔ ان مہمانوں کے ساتھ یہ پروگرام کچھ وقت پہلے سےجاری تھا۔
٭ اس پروگرام میں شامل ہونےوالے مہمانوں کی تعداد 1179تھی۔ جرمنی کے مختلف شہروں سے آنے والے مہمانوں کی تعداد 502تھی۔ جبکہ جرمنی کے علاوہ دوسرے یورپین ممالک بلغاریہ،مسیڈونیا، مالٹا، البانیا، بوزنیا،کسووو،ہنگری، کروشیا، لتھوانیا، اسٹونیا، سلو وینیا وغیرہ سے341مہمان شامل ہوئے ۔
٭ …عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی تعداد 157تھی، جبکہ افریقہ کے ممالک سے آنے والے مہمانوں کی تعداد75اور ایشین ممالک سے تعلق رکھنے والے 104 مہمان شامل تھے ۔
٭ … مجموعی طور پر 67 اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ اس پروگرام میں شامل ہوئے۔
٭ … حضور انور کی آمد کے بعد پروگرام کا آغاز ہوا۔
٭…ملک ساؤٹومے اینڈ پرنسپ(SAÖ TOME and PRINCIPE) سے صدر مملکت کے نمائندہ URBINO JOSE GONCALVES BOTELHO جلسہ جرمنی میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ موصوف نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہو ں کہ آپ نے مجھے اس جلسے میں شرکت کے لیے دعوت دی۔ صدر مملکت افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ بعض مصروفیات کی وجہ سے وہ بذاتِ خود اس جلسہ میں شرکت نہ کرسکے۔
موصوف نے کہا اس طرح میں صدر مملکت کی طرف سے جماعت احمدیہ جرمنی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے نہایت شاندار طریق سے جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء کو منعقد کرنے کی توفیق پائی۔ میں اس اخوت اوربھائی چارے پر جو ہم نے جلسے پر دیکھا آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں بڑی خوشی اور مسرت سے جماعت احمدیہ جرمنی اور ہیومینٹی فرسٹ کی خدمات کو سراہتا ہوں جو وہ ہمارے ملک کے لوگوں کی معاشی اور تعلیمی اور فلاحی بہود کے لیے کر رہے ہیں۔ انہی خدمات میں سے میں چند ایک کا تذکرہ کرتا ہوں۔ مثلاً ہیومینٹی فرسٹ ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں سکولوں کی تعمیر اور ان میں بنیادی ضروریات کا سامان مہیا کر رہی ہے۔ اسی طرح ہائی سکول کے تین صد سے زائد طلباء کے لیے سکالر شپ کی سہولت مہیا کر رہے ہیں اور پورے ملک میں مسلسل میڈیکل کیمپ اور سرجری کیمپ منعقد کررہے ہیں۔ ضرورت مندوں اور متأثرین کے لیے ہمارے ملک میں ہیو مینٹی فرسٹ کی موجودگی نہایت فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے ۔
ہیومینٹی فرسٹ ان لوگوں کے لیے جو قدرتی آفات اور آگ لگنے سے متأثر ہوتے ہیں ،گھروں کی تعمیر کر رہی ہے۔
ہیومینٹی فرسٹ کی ان تمام خدمات پر میں خلیفۃ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمارے ملک میں ان کاموں کے لیے مدد کی ۔
٭… اس وقت ہیو مینٹی فرسٹ کے تحت ہمارے ملک میں ہسپتال کا منصوبہ صحت کے شعبہ میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ اس مقصد کے لیے موجودہ حکومت نے ہیومینٹی فرسٹ کو ROSA UBA BUDO میں ایک عمارت تحفہ میں دی ہے۔
آخر پر میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ساؤٹو مے اینڈ پرنسپ کی حکومت ہیو مینٹی فرسٹ اور جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک مضبوط اور مستقل دوستی رکھنے کی خواہاں ہے۔
میں اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر مملکت کی طرف سے خلیفۃ المسیح کو دعوت پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں جو ہمارے لیے بے انتہا عزت اور فخر کا باعث ہوگا۔ آپ کی توجہ کا بہت شکریہ!
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭