متفرق مضامین

تحریکِ ترکِ موالات، محمد علی جناح اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے‘خطاب’ کی واپسی

(اصغر علی بھٹی۔ نائیجر)

بنوری ٹاؤن کے ترجمان رسالے ماہنامہ بیّناتکی محرم 1440ھ کی اشاعت میں ایڈیٹر کے قلم سے ایک مضمون ‘‘عاطف میاں کی مخالفت کیوں ؟ وجوہ -اسباب-محرکات ’’کے نام سے ص 3 تا 20 تک شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ایڈیٹر صاحب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت کے شروع کے دنوں میں حکومت کی طرف سے 18 رکنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے قیام اور اس میں جناب عاطف میاں کی شمولیت کے اعلان کا ذکر کرنے کے بعد علماء کے احتجاج اور اس پر وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چودھری صاحب کے بیان کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ آگے چل کر جناب جاوید چودھری کے روزنامہ ایکسپریس میں ایک کالم بعنوان ‘‘کیا قائد اعظم کو پتہ نہیں تھا ؟ ’’اور اسی طرح سے روزنامہ جنگ کے کالم نگار جناب محمد بلال غوری کے 6؍ ستمبر 2018ء کی اشاعت میں لکھے گئے ‘‘شکریہ عمران خان’’کے نام سے کالم کا ذکر کرتے ہیں۔ایڈیٹر صاحب یہ سارا پس منظر اور ان دونوں مضامین کا خلاصہ درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں ‘‘یہ دونوں صحافیوں کے چیدہ چیدہ 13سوالات ،اعتراضات و اشکالات ہیں’’اور پھر جواب دیتے ہوئےجماعت احمدیہ کے ساتھ ساتھ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ اور محمد علی جناح صاحب کی ذات پرانتہائی نامناسب اورغیر حقیقت پسندانہ الز مات و اتہامات کا طومار باندھ دیتے ہیں۔ جیسےلکھا کہ ‘جناح صاحب نامساعد حالات میں پھنسے ایک مجبورو لاچار شخص تھے……وائسرائے کا جناح پر بہت دبائو تھا کہ سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ لگاؤ……یہاں تک کہ وائسرائے نے دھمکی دی،کہا اگر وزیر خارجہ نہ بنایا تو اختیارات کی منتقلی نہیں ہوگی یعنی آزادی پاکستان کا اعلان نہیں ہوگا……جناح صاحب نے وزیر خارجہ بنانے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ بادل ناخواستہ قبول کیا’۔آپ اندازہ لگا لیں کہ ظفراللہ خان جناح صاحب کی کتنی بات مانتا تھا۔بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے عدم تعاون اور ترک موالات کے سلسلہ میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ اعزازات و خطابات واپس کر دیں تو صرف چوہدری ظفراللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ عرب ملکوں سے رشتۂ اخوت مستحکم کرنے کی بجائے انہیں پاکستان سے بد ظن کرنے اور پاکستان سے دور کرنے کی پالیسی اختیار کی …اسلامی ہمسایہ برادر ملک افغانستان اور مصر سے جان بوجھ کر تعلقات کشیدہ کیے جن کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے……مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بجائے دیدہ و دانستہ طور پر خراب کیا گیا……فلسطین کا مسئلہ،ظفر اللہ خان صاحب نے صاف انکار کردیا وغیرہ وغیرہ۔

کیا واقعی جناح صاحب ایک مجبور اور لاچار لیڈرتھے جسے وائسرائے ہندبلیک میل کرتا رہا ؟ اور وہ خاموشی سے بلیک میل ہوتے رہے۔اورمجبوراً ایک‘‘نافرمان اورانگریز کے ایجنٹ’’کو وطن کا وزیر خارجہ قبول کر لیا۔بھلےچوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کا دفاع نہ کریں لیکن کم ازکم جس کو بانی پاکستان کہتے ہیں اس ایک سے تو وفا کریں اور ان مولوی صاحب کو حقائق سے روشناس کروائیں۔
سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا یہی ہے وہ ہستی جس کی تقدیس کے گیت گاتےہم جوان ہوئے؟ اورکیا ایسا ہی ‘کمزور’ اور مخالف کے آگے اتنی آسانی سے ہتھیار ڈال دینے والاہے بانیٔ پاکستان جس کی بہادری اور اصول پرستی کی داستانوں پر ہم نے اپنی ریاست پاکستان کی بنیادیں استوارکی ہیں؟کیا واقعی جناب جناح صاحب کی تصویر ایسی ہے جیسی اس دیوبندی مضمون نگار نے پینٹ کی ہے؟ یقیناً نہیں ۔یہ ایک ہارے ہوئے احراری مولوی صاحب کا کینہ تو ہو سکتا ہے جناح صاحب کا کردار نہیں۔جمعیۃ العلمائے ہند کے مولانا سبحان الہند کا میرٹھ میں دیا ہوا 1946ءکا خطبہ تو ہو سکتا ہے، جناح صاحب کا گفتار نہیں۔ ایک دفعہ ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا تھا ‘‘میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ پگڑی اور داڑھی آدمی کے وقار اور روحانیت میں اس قدر بھی اضافہ کر سکتی ہے (آس جزیرہ اکرم اعوان صفحہ14)مگر میں نے بیّنات کے ایڈیٹر صاحب کے اِس ‘رُخِ روشن ’کو دیکھا تو مجھے ڈاکٹر اجمل نیازی کا یہ قول یوں نظر آنے لگا کہ ‘میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ پگڑی اور داڑھی والے باوقار آدمی کے منہ سے اتنے بے بنیاد اور غیر حقیقی الزامات بھی نکل سکتے ہیں’’۔حقیت یہی ہے کہ اس 17صفحے کے مضمون میں جھوٹ کا انبار لگا دیا گیا ہے۔اگر صرف سر کے خطاب والی اس درفنطنی کا تجزیہ کیاجائے تو 15 جھوٹ تو صر ف اس کی سطح پر ہی تیرتے ہوئے پکڑے جا سکتے ہیں۔

خاکسار سر دست اپنی گزارشات کا دائرہ صرف سر کے خطاب والے حصے تک ہی محدود رکھے گا اس لیےآگے بڑھنے سےپہلےتحریکِ ترک موالات کا تعارف و پس منظر پیش کرتا ہےجس کے بعد بہت سے اعتراضات کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ۔ پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب تحریکِ ترک موالات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تحریک خلافت میں متوقع کامیابی کے بعد مسٹر گاندھی نے دوسرا قدم اٹھا یا اور 1920ء میں تحریکِ ترک موالات کا اعلان کر دیا ۔ 28؍ مئی 1920ءکو بمبئی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا جس میں عدم تعاون کے اصول کو تسلیم کیا گیا۔2؍ جون 1920ءکو الٰہ آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں ہندو اور مسلمان راہنمائوں نے شرکت کی۔اس میں تحریک ترکِ موالات کی قرار داد اصولاً پاس کر دی گئی اور اس طریقہ کار کو مسٹر گاندھی کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا۔اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی ترتیب دی گئی جو مندرجہ ذیل اشخاص پر مشتمل تھی 1) مسٹر گاندھی 2) مولانا محمد علی جوہر 3) مولانا شوکت علی 4) مسٹر کھتری 5) مولانا حسرت موہانی 6 ) ڈاکٹر کچلو

(محمد علی زندگی اور کارنامے مدراس 1921ء صفحہ55)(تحریک آزادی ہند اور ا لسواد الاعظم مصنفہ پروفیسر محمد مسعود احمد ص 116 ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور کراچی )

تو سب سے پہلی بات تو یہ سامنے آئی کہ تحر یک ترک موالات 1920ء میں شروع ہوئی جس میں بقول مولوی صاحب ‘‘بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے عدم تعاون اور ترک موالات کے سلسلہ میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ اعزازات و خطابات واپس کر دیں تو صرف چوہدری ظفراللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کرنے سے صاف انکار کردیا’’

اصولی طور پر پہلا سوال ذہن میں آتا ہے کہ جناح صاحب نے یہ اپیل کب کی؟کس موقع پر کی؟ کہاں سے کی؟کس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی؟ اور یہ کس اخبار میں شائع ہوئی ؟کس مؤرخ نے اسے اپنی تاریخ میں جگہ دی؟ وغیرہ وغیرہ۔ مگر آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ تاریخ کے ان سادہ سے سوالوں کا جواب نفی میں ہے ۔ یہ مولوی صاحب کا تاریخِ پاکستان سے کورا پن ہے یا جھوٹ بولنے کا خمار ہے ورنہ ایسی کوئی بات اشارہ کنایہ میں بھی کہیں نظر نہیں آتی۔

پھر دوسری بات جو اس سے بھی ا ہم ہے کہ ترک موالات کے لیے اپیل تو درکنار کیا خود جناح صاحب تحریک ترک موالات میں شریک ہوئے اور اس تحریک کو جائز اعلان کیا؟ تاریخ کا جواب پھرنفی میں ہے۔انہوں اس تحریک کو بالکل بھی جائز نہیں سمجھا۔ گو کہ کچھ مشہورمسلمان قائدین اور خاص طور پر دیوبندی علماء گاندھی جی کی چلائی ہوئی اس تحریک کا حصہ بنے مگر جناح صاحب ا ورمسلمانوں کا سواد ِاعظم اسے ایک ہندووانہ سازش سمجھتاتھا اور وہ اس کا حصہ نہیں بنے۔ بریلوی عالم دین جناب احمد رضا خان نے کھل کر اس مخالفت کی او ر فتاویٰ بھی دیے۔ چنانچہ پروفیسر محمد مسعود احمد صاحب انہی دنوں کلکتہ میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‘‘8 ستمبر 1920ءکو مسلم لیگ کا کلکتہ میں اجلاس ہوا۔لیکن جب اجلاس کے سامنے ترکِ موالات کی حمایت میں قرار داد پیش کی گئی تو قائد اعظم کرسی صدارت سے ہٹ گئے اور حکیم اجمل خان کی صدارت میں یہ قرار داد منظور ہوئی۔’’

(تحریک آزادی ہند اور ا لسواد الاعظم مصنفہ پروفیسر محمد مسعود احمد ص 116ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور کراچی )

بریلوی مفتی اعظم شاہ محمد مظہر صاحب نے گائو کشی کی موافقت میں اور تحریک ترک موالات و تحریک ہجرت کے خلاف فتوے دیے جو فتاویٰ مظہریہ مطبوعہ کراچی 1970ء میں ص 221تا 229پر محفوظ ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر سر علامہ اقبال بھی تحریک ترک موالات کے مخالف تھے ۔ تحریک کے زمانے میں آپ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جنرل سیکرٹری تھے۔ جنرل کونسل نے اپنے اجلاس میں ترک موالات کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ 21 نومبر1920ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے اجلاس میں علی برادران اور مولانا آزادنے ترک موالات کی حمایت میں تقاریر کیں جبکہ سر شیخ عبد القادر نے اس کے خلاف تقریر کی۔ جناح صاحب پہلے ہی اس تحریک سے الگ ہو چکے تھے۔دیوبندی علماءکی اسی روش یعنی ایک مشرک گاندھی کی پیروی پر مولانا احمد رضا خان نے مشہورطنزیہ ریمارک دیا تھا کہ ‘‘یہ کونسا دین ہے نصاریٰ کی ادھوری سے اجتناب اور مشرکین کی پوری میں غرقاب ’’۔

( المحجۃ المومنۃ فی آیۃ الممتحنۃ 1920 مطبوعہ حسنی بریلی بار دوئم ص 14)

اب جو شخص اس تحریک کو مسلمانوں کے خلاف گھنائونی سازش سمجھتا ہو وہ اس کے لیے تعاون کی اپیلیں کیسے کر سکتا ہے؟

اس سے بھی زیادہ اہم ایک اَور سوال ہے،کہ کیا اس وقت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے پاس ‘‘سر ’’کا خطاب موجود تھا بھی جسے انہوں نے واپس کرنے سے انکارکر دیا تھا؟تو تاریخ یہ ہےکہ چوہدری صاحب کے پاس تو اس وقت یہ خطاب تھا ہی نہیں۔ درحقیقت آپ کو یہ خطاب تحریک ترکِ موالات سے 17سال بعد یعنی 1937ء میں ملا جب آپ نے دو سال تک وزیر ریلوے کے طور پر بہترین کام کرتے ہوئے اپنا کام ختم کیا۔اب قاری خود اندازہ لگا سکتا ہے کہ بات میں کتنا وزن ہے۔

پھر اس سے بھی زیادہ ایک اَور اہم بات جو مضمون نگار نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ جناح صاحب کی ترکِ موالات کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے سب نے اپنے اعزازات واپس کر دیے۔ ‘‘بانی پاکستان محمد علی جناح نے جب انگریزوں سے عدم تعاون اور ترک موالات کے سلسلہ میں تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ انگریزوں کے عطا کردہ اعزازات و خطابات واپس کر دیں تو صرف چوہدری ظفراللہ خان واحد شخص تھا جس نے انگریزوں کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کرنے سے صاف انکار کردیا’’ اب یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے،انتہائی بڑا۔ مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا کہ کس کس نے اپنے اعزازات اور خطابات واپس کیے ؟ محوحیرت ہوں کہ ایک مذہبی عالمِ دین کسی سے نفرت میں اتنا بھی آگے جا سکتا ہے کہ اپنے ایمان ہی کو آگ لگا دے۔

دیکھیں تاریخ یہ بتاتی ہےکہ برٹش انڈیا میں بیسیوں قسم کے اعزازات اور خطابات تھےجو سینکڑوں نہیں ہزاروں مسلمانوں کو دیےگئے،خلعتیں عطا کی گئیں، جاگیروں سے نوازا گیا، مالی وظیفے دیے گئے۔انگریزی عدالت میں کرسی کےاعزازسے نوازا گیا۔شمس العلماء کے خطابات دیے گئے۔نمبردار،ٹمن دار، جاگیردار، نواب، سر، عالی جاہ کے اعزازات سے لادا گیا۔گھوڑی پال مربعے الاٹ کیے گئے۔ خان بہادر، احتشام الدولہ اور فیروز جنگ کے خطابات سے نوازا گیا۔ جی- سی- آئی – ای اور جی – سی – ایس – آئی اور کراؤن آف انڈیا جیسے تمغہ جات سے نوازا گیا۔ اس میں مولوی، عالم دین ،دانشور، ادیب، شاعر، فوجی، نواب،جاگیردار یعنی سب کے حصے میں حصہ بقدر جثہ انعامات و اعزازات آئے۔یہ سب اعزازات آج بھی ان مسلمان اشرافیہ کے پاس ہیں،ان کی اولادوں کے پاس ہیں۔ انگریز کی دی ہوئی کون سی جاگیر کسی نے واپس کی؟ پیر مہر علی شاہ صاحب نے نوابی کا خطاب واپس کیا ؟ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب جو مالی وظیفہ وصول کرتے رہے کیا انہوں نے کچھ واپس کیا؟ مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب نے شمس العلماء کا خطاب واپس کیا؟نہیں بالکل بھی نہیں۔بلکہ ایک دفعہ مکان کو آگ لگ گئی تو سر ٹیفکیٹ بھی جل گئے، دوبارہ دربار میں حاضر ہو گئے اور دربارسے یہ سرٹیفیکیٹ جاری کیےگئے۔انجمن حمایت اسلام کے صدر سر شیخ عبد القادر صاحب نے واپس کیا؟مولوی محمد حسین بٹالوی کے بچوں نے فیصل آباد کے پاس ملنے والی دو مربع سرکاری زمین واپس کی؟

مولوی عبدالرحیم عظیم آبادی الدر المنثور میں وہابی مولویوں کو ملنے والے اعزازات کی ایک فہرست یوں پیش کرتےہیں:

1۔ شمس العلماء جناب حضرت مولانا محمد سعید قدس سرہ ساکن محلہ مغلپورہ شہر پٹنہ

2۔شمس العلماء جناب مولانا محمد حسنؒ ساکن محلہ صادق پور شہر پٹنہ

3۔ شمس العلماء برادرم عزیز مولوی عبدالرؤف مرحوم ومغفور ساکن محلہ صادقپور شہر پٹنہ

4۔ شمس العلماء امجد علی صاحب ایم۔اے پروفیسر سنٹرل کالج الہ آباد ساکن صادقپور شہر

5۔ شمس العلماء جناب حضرت مولانا نذیر حسین مدظلہ محدث دہلوی ساکن سورج گڑھ ضلع مونگ

6۔ خان بہادر جناب قاضی محمد اجمل مرحوم ساکن قصبہ باڑہ ضلع پٹنہ

7۔ خان بہادر قاضی جناب مولوی فرزند احمد صاحب ساکن گیا۔

8۔ شمس العلماء جناب مولوی محمد یوسف صاحب ۔

ان میں سے کسی نے بھی واپس کیا ؟ نہیں ،سوچا تک نہیں۔ ایک لمبی فہرست ہے ۔ سب کےبیان کایہ مختصر مضمون متحمل ہی نہیں ہو سکتا مگر مختصر یہ کہ ان سینکڑوں علماء میں سے کسی نے بھی کوئی اعزاز کوئی اکرام واپس نہیں کیا۔
پھر اگر نوابوں اور رئیسوں کی طرف چلیں ۔ ریاست ٹونک،ریاست حیدر آباد دکن،ریاست رامپور،ریاست بہاولپور،ریاست جاورہ، والیان جون پور،والی قلات، والی چترال، والی ریاست امب ہزارہ،رئیس ہوتی ضلع مردان،رئیس خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ،صوبہ سر حد کے پہلے وزیر اعلیٰ صاحبزادہ عبد القیوم خان اور ان کا خاندان، حاجی نواب فتح علی خان قزل باش رئیس اعظم پنجاب کا خاندان،ملک غلام محمد رئیس پنڈی گھیپ ضلع اٹک کا خاندان،روسائے عیسیٰ خیل، رئیس اعظم ملتان خان بہادر مخدوم شیخ حسن بخش صاحب اور ان کا خاندان،ڈیرہ غازی خان کے کھوسے رئیس،شاہ پور کے ٹوانے، سرگودھا کا نون خاندان، نواب ممڈوٹ کا خاندان، قزلباش خاندان، بخاری فقیر، کالاباغ کے نواب،گگھڑ راجے، نمک سار کے جنجوعے، پنجاب کے کلاں شیخ ،لغاری تمندار، اور بلوچستان کے سرداران سب مسلما ن رئوساء کے انگریزی دربار سے ملنے والے اعزازا کی لسٹ بتانے کے لیے ایک کتاب کی ضخامت چاہئے۔ کسی نے واپس کیے ؟ نہیں آج بھی پاکستان کی سیاست کے یہی محور ہیں اور یہی اعزازات ان کی میراث و معراج ہیں۔پھر مولوی صاحب آپ نے کس بھرتے پر اتنا بڑا بول بول دیا ۔ آپ کی جماعت احمدیہ سے مخالفت کی سمجھ تو آتی ہے مگر تاریخ پر کالا کوڑا پھینکنے کا تُک سمجھ نہیں آیا؟کیا اس طرح سے تاریخ بدل جائے گی یا احمدیت فتح ہو جائے گی؟

پھروہ کہتے ہیں ناں کہ تعصب اندھا ہوتا ہے اور اندھا کر دیتا ہے۔مولوی صاحب کو چونکہ دشمنی جماعت احمدیہ سے ہے اس لیے تاریخ کے ہر کمزور لمحے کو وہ جماعت احمدیہ سے منسوب کرنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں جھوٹ ہی گھڑنا پڑے۔ اب دیکھیں مولوی صاحب جس واقعہ کو جناح صاحب اور چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کے درمیان نافرمانی پر فٹ کرنا چاہ رہے ہیں دراصل یہ واقعہ ڈاکٹر علامہ اقبال اور مولانا عبدالمجید سالک صاحب کے درمیان پیش آیا تھا ۔ وہ بھی ان دنوں جب آپ عین تحریک تر ک موالات کے درمیا ن حکومت سے سر کا خطا ب وصول کر رہے تھے ۔ مولانا رئیس احمد جعفری صاحب علامہ کی شان‘‘محکومیت’’کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:

‘‘اس دورمیں اس طوفان خیز اور ہنگامہ خیز دورمیں اقبال کا کیا حال تھا؟ وہ کس طرف تھے؟آزادی کے شیدائیوں اور ملت کے مجاہدوں کے ساتھ یا قوم کے دشمنوں یا ملک کے غداروں کے ساتھ ۔واقعات وحقائق بڑے بے مروت اور غیر جانبدار ہوتے ہیں۔وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے۔ سچی اور کھری بات کہتے ہیں۔حقائق کی زبان سے واقعات کا بیان یہ ہے کہ اقبال نہ صرف تحریک خلافت کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اس اصول سےاختلاف رکھتے تھے اور اسی لیے اس سے ہر طرح سے الگ اور غیر متعلق تھے جس طرح ایک مخالف ہوسکتا ہے۔یہی نہیں عین اس زمانہ میں جب لوگ ملازمتوں پر لات ماررہے تھے سرکاری سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کا بائیکاٹ کررہے تھے اقبال کو سر کا خطاب دیا گیا اور انہوں نے اس کو قبول بھی کرلیا جس پر کسی دل جلے نے یوں فقرہ چست کیا:

سرکار کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال

(اقبال اور سیاست ملی صفحہ273)

اوپر درج صرف مصرعہ نہیں ہے بلکہ مولاناعبدالمجید سالک کی

‘زمیندار’’اخبار میں شائع شدہ نظم کا ایک مصرعہ ہے جو مولانا سالک صاحب نے علامہ اقبال کے تحریک ترک موالات کے عین درمیان انگریز سرکار سےسر کا خطاب وصول کرنے پر طنزیہ لکھے تھے

پہلے تو سر ملت بیضا کے تھے وہ تاج

اب اور سنو تاج کے سر ہوگئے اقبال

کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پہ کوئی گستاخ

سرکار کی دہلیز پہ سر ہوگئے اقبال

یاد رہے انہیں دنوں ایک ہندو ڈاکٹر ٹیگور کو بھی خطاب ملاتھا مگر انہوں نے واپس کردیا ۔

(زندہ رود جلد نمبر2صفحہ270)

اقبال نے نہ صرف خود وصول کیابلکہ اپنے استاد مولانا میرحسن کی سفارش کرکے انہیںبھی شمس العلماء کا خطاب دلوایا۔(زندہ رود صفحہ257) بلکہ اعتراض ہونے پر تحریک خلافت اور ترک موالات والوں کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ ‘‘خلافت کمیٹیوں کے بعض ممبران بظاہر جوشیلے مسلمان لیکن درباطن اخوان الشیاطین ہیں’’۔

(مظلوم اقبال مطبوعہ1985ء شیخ اعجاز احمدصفحہ314)

بنوری ٹائون کے ترجمان کا جماعت احمدیہ جیسی عالمگیر اسلامی جماعت پر، حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب جیسے عرب دنیا کے وکیل پر اور محمد علی جناح صاحب جیسے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے محسن پر اتنے ظالمانہ اعتراضات کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم اور مفتی جناب فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی صاحب کے ماتمی الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے:

‘‘محسوس یہی ہوتا ہےکہ اخلاص اور للہیت جو دارالعلوم کی اصل روح تھی وہ بالکل نکل چکی ہے اور ایک خوبصورت ڈھانچہ ہے جو دیکھنے میں بڑا اچھا نظر آتا ہے مگر بے جان ہے ۔ کہنے کو اب بھی گوشے گوشے سے قال اللہ و قال الرسولؐ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔لباس تقویٰ کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر تقویٰ نہ لباس میں ہے نہ ظاہری صورت میں’’۔

( حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب مصنفہ مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی ص 146و147)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button