فرانس میں جی سیون کا سالانہ اجلاس
کچھ روز قبل دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے سربراہان اپنے سالانہ اجلاس پر فرانس کے ساحلی شہر BIARRITZمیں اکٹھے ہوئے تھے۔ ان سات ممالک کی معیشت سرمایہ دارانہ نظام پر قائم ہے ۔ اس لیے ان کو ہر سال Capitalism کے مخالفین کی طرف سے مظاہروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ 2017ءمیں ہیمبرگ میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں مظاہرین نے دکانوں اور کاروں کو آگ لگا کر شہر کا حلیہ بدل دیا تھا ۔ کئی سو ملین کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے 100 ملین کی امداد انشورنس کمپنیوں کو دی تھی۔ حکومت نے تنقید کرنے والوں کے منہ بند کرنے کے لیے وضاحت کی تھی کہ پانچ ہزار مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے کانفرنس کے لیے کسی بڑے شہر کا انتخاب حکومت کی مجبوری تھی۔ غالباً فرانس نے اس سے سبق سیکھ کرجی سیون کے لیے فرانس کے جنوب میں ایک چھوٹے شہر کا انتخاب کیا جو سپین کی سرحد سے بمشکل 30 کلومیٹر دور واقع ہے ۔
BIARRITZ میں نپولین کا موسم گرما گزارنے کے لیے آبائی محل بھی موجود ہے جو انیسویں صدی میں تعمیر ہوا تھا اور اب اس محل کو HOTEL DU PALAIS کہا جاتا ہے ۔ اس میں جی سیون اجلاس منعقد کرنے کے لیے فرانس کی حکومت نے مرمت اور زیبائش پر ساٹھ ملین یورو خرچ کیے۔ شہر کے ریلوے اسٹیشن اور ایئرپورٹ کو ریلوے سروسز اور فلائٹس کے لیے بند کر دیا گیا تھا ۔ شہر کے جس علاقے میں کانفرنس کا انعقاد ہوا وہاں کے رہائشیوں کو اسپیشل پاس جاری کیے گئے ۔ جبکہ 13ہزار سکیورٹی اہلکار ڈیوٹی پر مامور رہے۔
کیپیٹل ازم کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو اٹھارہ میل دور رکھا گیا اور انہیں سپین اور فرانس کو ملانے والے پل پر پُرامن مظاہرہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
جی سیون سربراہ ملاقات کا ایجنڈا مختصر تھا ۔ دنیا سے بے روزگاری کم کرنے کے لیے ملازمتوں کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ پوری دنیا میں غیر مساویانہ سلوک ختم کرکے تمام ممالک اور قوموں کے ساتھ مساوی سلوک کی پالیسی اپنائی جائے۔ موسمی تغیرات کا متبادل اب ہر انٹرنیشنل کانفرنس کا موضوع ہوتا ہے ۔ جی سیون کے ایجنڈا پر خواتین کو حکومتی امور میں زیادہ حصہ دینے کی تجویز بھی شامل تھی ۔ اس سارے ایجنڈے میں کوئی ایسی اہم بات نہ تھی جس کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کرکے فرانس میں اکٹھا ہوا جاتا ۔ ان بڑی طاقتوں پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ ‘‘ہاتھی کے دانت دکھانے کے اَور،کھانے کے اَور’’۔
اخباری رپورٹس کے مطابق زیادہ وقت امریکہ، چین اور یورپ کے درمیان تجارتی سرد جنگ کی نذر ہوگیا جس کا آغاز امریکن صدر ٹرمپ کی طرف سے کیا گیا تھا۔ دوسرا اہم موضوع موسمی تغیرات تھا جس میں گرین لینڈ کے گلیشیئر زپگھلنے سے اور برازیل میں آمازون رین فارسٹ(Amazon rain forest) میں لگنے والی بےقابو آگ اور اس کے دنیا کے درجہ حرارت پر پڑنے والے اثرات رہا ۔ برازیل میں دنیا کا سب سے بڑا جنگل جس کا نام آمازون ہے موجود ہے ۔ اس جنگل میں روزانہ سہ پہر تین بجے بارش ہوتی ہے اس لیے اس کو ایمازون رین فوریسٹ کہا جاتا ہے۔ اس سال وہاں برس ہا برس سے قائم بارشوں کا سلسلہ تھم گیا جس کے باعث جنگل میں آگ بھڑک اٹھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ جنگل دنیا کی آکسیجن کی 20 فیصد ضرورت پوری کرتا ہے یا یوں کہہ لیں دنیا کو مطلوب آکسیجن 20% اس جنگل کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس آگ پر تمام دنیا پریشان تھی کہ برازیل کی حکومت نے اس آگ کو بجھانے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ یورپی یونین نے برازیل کو فوری مدد فراہم کرنے کا اعلان کیالیکن برازیل کے صدر نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ فرانس میں موسمی تغیرات کے حوالے سے یورپی یونین کا دفتر ہے اس لیے فرانس کے صدر نے برازیل کے صدر کو آڑے ہاتھوں لیا اور برازیل کی طرف سے اس آگ سے متعلق جاری رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا ۔ اس لیے جی سیون کے اجلاس سے قبل اس مسئلے پر برازیل اور یورپی یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ امریکی صدراور دوسری طاقتوں آسٹریلیا، جاپان کے کہنے پر برازیل کے صدر نے جمعے کے روز جنگل کی آگ بجھانے کا آپریشن فوج کے حوالے کردیا ۔ چنانچہ جی سیون اجلاس میں مستقبل کے اس خطرے کا سدباب تلاش کرنے پر بات چیت ہوئی۔ فرانس کے صدر میکرون(Macron) نے اس حوالے سے آسٹریلیا ، چلی اور سپین کے سربراہان کو بطور مبصر کے مدعو کر لیا تھا ۔ جنہوں نے ایک ڈنرپر جی سیون سربراہان سے ملاقات کی۔ فرانس کے صدر نے برازیل کے صدر کو دھمکی دی تھی کہ اگر برازیل اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تو جنوبی امریکہ کے ممالک سے یورپی یونین فری ٹریڈ معاہدے کو معطل کردے گی ۔ جنوبی امریکہ کے ممالک نے ایک تجارتی بلاک mercosurکے نام سے بنا رکھا ہے جو یورپی یونین ممالک کے ساتھ تجارتی پالیسیوں کا فیصلہ کرتا ہے اور یورپی یونین نے اس معاہدے کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا ۔ جی سیون ممالک نے برازیل کو بیس ملین ڈالر کی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ یہ رقم آمازون کے جنگلات کو آگ سے محفوظ کرنے پر خرچ کرے گی۔ آگ لگنے کی صورت میں جی سیون ممالک سے فوری رابطہ کرکےان کو آپریشن کا شریک کار بنائے گی ۔ برازیل کے صدر نے اس 20 ملین کی امداد کو اس شرط پر قبول کیاہے کہ فرانس کے صدر اپنا بیان واپس لیں جس میں انہوں نے مجھے جھوٹا کہا ہے۔ آخری خبریں آنے تک دونوں ممالک کے سربراہ ملاقات کرنے پر راضی ہوگئے تھے اور اب بہت جلد یہ ملاقات کولمبیا میں ہوگی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو جی سیون ممالک کی اس کانفرنس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے کانفرنس میں شرکت کے لیے روانگی سے قبل ایک ایسا بیان داغ دیا تھا جس سے دوسرے ممالک کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔ انہوںنے چین کے مال پر مزیدکسٹم ڈیوٹی لگانے اور فرانس سے آنے والی شراب (وائن) پر کسٹم ڈیوٹی شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ چین نے بھی جواباً75بلین ڈالر کی نئی ڈیوٹی امریکن اشیا پر لگانے کی بات کی ہے۔ امریکی صدر نے چین پر پہلے 300 بلین کا ٹیکس لگایا اس میں 250 بلین کا مزید اضافہ کیا اور اب یکم اکتوبر سے چین کی بنی ہوئی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی کے نئے ٹیرف میں پچیس سے تیس فیصد اضافہ کردیا ہے۔ امریکی صدر کی اس آنکھ مچولی نے اقوام متحدہ کے قائم ادارے ورلڈ ٹریڈ
رگنائزیشن(WTO)کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ ادارہ اقوام متحدہ کے ممالک کے درمیان تجارتی ٹیرف کا فیصلہ اور عمل درآمد کی نگہداشت کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جس طرح 2017ء میں پیرس کلائمیٹ (Climate)معاہدے سے اچانک علیحدگی اختیار کرلی تھی اسی طرح یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ WTOسے بھی علیحدگی کا اعلان کردیں ۔ اس لیے اس بار جی سیون ممالک کے سربراہان امریکن صدر سے انفرادی ملاقاتوں میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آئے۔ برطانیہ کے نئے وزیراعظم نے جن کی صدر ٹرمپ سے پہلی ملاقات تھی نے ملاقات کے بعد پریس کو بتایا کہ میں نے امریکن صدر سے کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ بند کر دے۔ چین عالمی تجارت میں اپنی جو جگہ بنا چکا ہے اس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ اس لڑائی سے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی تجارتی دھچکا لگنے کا امکان ہے ۔
فرانس کے صدر نے امریکی صدر سے علیحدگی میں لنچ پر ملاقات کی۔ لنچ کے بعد امریکن صدر کا موڈ بالکل بدلا ہوا تھا اور انہوں نے اس ملاقات کو بہترین ملاقات قرار دیا۔ یوں تو امریکن صدر اور جرمنی کی چانسلر کے درمیان بھی ملاقات ہوئی لیکن مشترکہ اعلامیہ سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا تھاکہ دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی سرد مہری بدستور جاری ہے۔
جی سیون ممالک کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے ۔ لیکن گزشتہ سال کینیڈا میں ہونے والے اجلاس میں تجارتی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے امریکن صدر نے دستخط نہیں کیے تھے اس لیے 2018ءکی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا ۔اس بار بھی امریکن صدر کے رویے کو دیکھتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ کی رسم کو ضروری خیال نہیں کیا گیا البتہ کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی ایران کے وزیر خارجہ کی آمد، فرانس کے صدر سے طویل ملاقات اور اس کے بعد فرانس کے صدر کی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد یہ اعلان کہ امریکی صدر کو ایرانی صدر سے ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
٭…٭…٭