الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم محمد عمر صاحب کا اظہار تشکّر
محترم محمد عمر صاحب نائب ناظراعلیٰ قادیان نے اپنے حالات زندگی لکھ کر سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوائے تھے۔ اس پر حضورانور نے محترم ناظر اعلیٰ صاحب کو تحریر فرمایا کہ ‘‘ایک ہزار کی تعداد میں شائع کروائیں۔ خرچ مَیں ادا کردوں گا۔ مَیں نے جستہ جستہ دیکھا ہے۔ بعض واقعات ایسے ہیں جو دوسروں کے لیے ،خاص طور پر نئی نسل کے لیے، ازدیاد عمل اور معرفت کا باعث ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ انداز تحریر بھی اچھا ہے۔’’
چنانچہ یہ کتاب ‘‘اظہار تشکّر’’ کے نام سے شائع ہوئی جس میں سے منتخب واقعات اخبار ‘‘بدر’’ قادیان کی 22؍ستمبر، 29؍ستمبر، 6؍اکتوبر، 13؍اکتوبر اور 27؍اکتوبر 2011ء کی اشاعتوں میں شائع ہوئے ہیں۔
محترم محمد عمر صاحب اپنے ابتدائی حالات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ خاکسار کی پیدائش بمقام کنور (جو کیرلہ کی ابتدائی جماعتوں میں سے ہے) 25؍اپریل 1934ء کو مکرم پی کے ابراہیم صاحب کے ہاں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد خاکسار اپنے ماموں کے پاس کلکتہ چلا گیا جہاں کے مبلغ انچارج محترم مولانا محمد سلیم صاحب (سابق مبلغ بلاد عربیہ) کے خطبات سے متأثر ہوکر دینی تعلیم حاصل کرنے کی نیت سے 1954ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان چلاگیا۔ اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کے لیے اردو جاننا ضروری تھا کیونکہ ذریعہ تعلیم صرف اردو ہی تھا۔ مجھے اردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے داخلہ کے لیے کافی دقّت اٹھانی پڑی۔ کئی افراد نے واپس چلے جانے کا مشورہ بھی دیا۔ لیکن ناظر تعلیم و تربیت محترم حکیم خلیل احمد صاحب کی شفقت سے مجھے داخلہ مل گیا۔
ایک صبح جب مَیں تلاوت قرآن کریم کررہا تھا تو حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ بورڈنگ ہاؤس کے باہر کھڑے سنتے رہے۔ پھر آکر مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! تمہاری آواز میرے مرحوم بیٹے عبدالمالک کی آوازسے ملتی ہے۔ وہ مجھے روزانہ قرآن مجید سنایا کرتا تھا۔ اب میری بینائی بہت کمزور ہوگئی ہے، تم میرے گھر میں آکر روزانہ صبح تلاوت سنایا کرو۔ چنانچہ یہ سعادت مجھے ایک سال تک حاصل رہی۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر آپ قرآن کریم اپنے سینہ پر رکھ کر لیٹ جاتے اور میرا انتظار فرماتے۔ تلاوت کے وقت آپؓ پر رقّت طاری رہتی۔ روتے رہتے اور دعائیں مانگتے۔
تلاوت کے بعد آپؓ کی اہلیہ گرم چائے اور رس میرے لیے لے کر آتیں۔ دونوں مجھے اپنے والدین کی طرح تھے۔ میری خوشی پر خوش ہوتے اور نہایت شفقت سے پیش آتے۔ بتایا کرتے کہ اسلام قبول کرکے قادیان ہجرت کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھا ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرتا ہے وہ زمین میں کئی پناہ گاہیں اور کشائش پالیتا ہے۔آپؓ کی زبان پر حضرت مسیح موعودؑ کا اسم مبارک آتا تو آپؓ پر رقّت طاری ہوجاتی۔ حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے محسن کے نام سے یاد فرماتے۔ مجھے نصیحت فرماتے کہ حضرت اقدسؑ کی کتابوں میں نُور بھرا ہے جو دلوں کو منوّر کرتا ہے اور اس نُور کے بغیر خداتعالیٰ کی رضامندی حاصل نہیں ہوتی۔ 1960ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے سفر میں مجھے بھی آپؓ کے ہمراہ سفر کا موقع ملا۔ بارڈر عبور کرنے کے لیے ایک میل پیدل چلنا تھا۔ آپ کمزوری اور بیماری کے باوجود میرے کندھے کا سہارا لے کر چلتے رہے اور بار بار بیٹھ کر آرام بھی کرتے رہے۔ ایک سکھ نے آپؓ کے اس حالت میں سفر کرنے پر تعجّب کا اظہار کیا تو آپؓ بعد میں کہنے لگے کہ مَیں تو حضرت مصلح موعودؓ کے نورانی چہرہ کی زیارت کی خاطر جارہا ہوں جس کے لیے میری روح تڑپ رہی ہے اور دل بے تاب ہو رہا ہے۔ آخر ربوہ پہنچے تو ناسازیٔ طبع کے باعث آپؓ جلسہ گاہ بھی نہ جاسکے۔
مدرسہ احمدیہ کا نصاب 6؍سال کا تھا جن میں سے آخری دو سال پنجاب یونیورسٹی کا مولوی فاضل کے امتحان کا نصاب تھا۔ خاکسار 1961ء میں مولوی فاضل کے امتحان میں کامیاب ہوا۔ ایک سال مدرسہ احمدیہ میں معلّم رہا پھر حیدرآباد میں بطور مبلغ بھجوایا گیا۔
حیدرآباد میں سارا دن میلوں میل سائیکل چلاکر بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھانے میں گزرجاتا۔ رات کو باری باری ہر محلّہ کے مرکز میں لاؤڈسپیکر لگاکر جلسہ منعقد ہوتا۔ اُس زمانہ میں حیدرآباد میں ‘ہنری مارٹِن انسٹیٹیوٹ’ نامی عیسائی تنظیم تبلیغ میں بہت جوش رکھتی تھی۔ خاکسار نے ایک کتابچہ ‘‘عیسائی مشن سے چند استفسارات’’ اردو اور انگریزی میں شائع کیا۔ اس پر اُن کی طرف سے کئی بار دھمکیوں کے فون کیے گئے تاہم کسی کو جواب لکھنے کی ہمّت نہیں پڑی۔اسی طرح وہاں مسلمانوں کی ایک تنظیم ‘‘انجمن تعمیر ملّت’’ تھی جو ہر سال جلسہ سیرۃالنبیؐ کیا کرتی تھی جس میں عورتوں کے لیے بھی علیحدہ انتظام ہوتا تھا۔ ایک سال جلسہ سے ایک روز قبل ہمیں علم ہوا کہ جلسہ میں ایک معاند احمدیت بھی آرہا ہے جو ہمارے خلاف تقریر کرے گا۔ اس پر مَیں نے محترم امیر صاحب کے کہنے پر دو پمفلٹ بعنوان ‘‘ختم نبوت کی حقیقت’’ اور ‘‘افضل الانبیاء’’ تیار کیے جو راتوں رات ایک احمدی دوست کے پریس سے پچیس پچیس ہزار کی تعداد میں شائع کرواکے صبح جلسہ گاہ کے دروازوں پر خدام و لجنہ کے ذریعے تقسیم کروادیے گئے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ معاند کی تقریر کے تمام امور کا جواب ان پمفلٹوں میں موجود تھا۔ اس موقع پر اخبار ‘‘ضرب کلیم’’ کے ایڈیٹر مولانا سبحان صاحب نے مجھ سے جوابی پمفلٹ کی قبل از وقت تقسیم پر تعجّب کا اظہار کیا۔ مَیں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جماعت احمدیہ کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہے۔ بہرحال احمدی اس کارروائی سے بہت خوش تھے۔
1961ء میں میری شادی اپنے ماموں کی بیٹی امۃالحفیظ صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ خداتعالیٰ نے ان سے چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ میرا قیام حیدرآباد کے دارالتبلیغ کی تیسری منزل پر تھا۔ یہ عمارت 1939ء میں خریدی گئی تھی۔ 1967ء میں شدید بارشوں کے نتیجہ میں اس عمارت کا اکثر حصہ اچانک منہدم ہوگیا۔ مَیں بعد دوپہر مشن ہاؤس پہنچا تو دیکھا کہ تیسری منزل کے ایک کونے میں میری بیوی اپنی بچی کو گود میں لیے بے سہارا کھڑی تھی۔ نیچے اُترنا ناممکن تھا اور اُن کا بچ جانا بظاہر محال تھا۔ فائر فائٹر سیڑھی لے کر آئے لیکن کوئی اوپر جاکر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آخر ایک بزرگ شخص نے کہا کہ مَیں جاؤں گا خواہ میری جان بھی چلی جائے۔پھر وہ پہلے بچی کو اور پھر ماں کو نیچے لایا۔ اس طرح خداتعالیٰ نے معجزانہ طور پر دونوں کو بچالیا۔ اگلے روز مقامی اخبار ‘‘سیاست’’ نے منہدم عمارت کی تصویر دے کر اس سُرخی کے ساتھ خبر شائع کی کہ ایک ماں اور بچی کا معجزانہ طور پر بچ جانا۔
اس کے دو سال بعد دارالتبلیغ کی ازسرنَو تعمیر کی گئی۔ لیکن میری اہلیہ کو نفسیاتی طور پر یہ تکلیف ہوگئی کہ جب بھی کسی چیز کے گرنے کی آواز سُنتیں تو بے ہوش ہوکر گِر جایا کرتیں۔ علاج معالجہ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 1969ء میں جب مَیں جلسہ سالانہ کے لیے ربوہ گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے اس پریشانی کا عرض کیا۔ حضورؒ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ اسی وقت اپنی بیوی کو خط لکھیں کہ اُس کے لیے ایک ہی روحانی علاج ہے کہ لَٓاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا باِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھتی رہا کریں۔ چنانچہ خاکسار نے اسی وقت خط لکھ دیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے یہ بیماری پھر کبھی لاحق نہیں ہوئی۔ خاکسار نے اس نسخہ سے کئی احباب کا علاج بھی کیا۔
1970ء میں خاکسار کو بطور مبلغ انچارج چنائی میں تعینات کردیا گیا۔اُس زمانہ میں مدراس میں کوئی مشن ہاؤس نہیں تھا۔ میری رہائش کرایہ کے ایک مکان میں تھی اور جمعہ کی نماز چند میل دُور ایک احمدی کے مکان میں پڑھانے جایا کرتا تھا۔ بس کا کرایہ ایک روپیہ تھا۔ ابھی تنخواہ ملنے میں چار دن باقی تھے کہ جمعہ کا دن آگیا لیکن میری جیب میں ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ قرض مانگنے میں بھی حجاب تھا۔ اس لیے دعا کرتا رہا کہ خداتعالیٰ کوئی سبیل نکال دے۔ اسی اثناء میں ڈاکیا پچیس روپے کا ایک منی آرڈر لایا۔ جو محترم حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب کی والدہ محترمہ نے اس تحریر کے ساتھ بھجوایا تھا کہ ‘‘مولوی صاحب !آپ اچانک یاد آگئے۔ یہ حقیر رقم قبول کریں اور میرے بچوں کے لیے دعا کریں۔’’
مخالفین کے تامل زبان میں اعتراضات کا جواب دینے کے لیے 1971ء میں چنائی سے ماہنامہ ‘‘راہ امن’’ بطور ایڈیٹر جاری کیا۔ اس رسالہ کے نتیجہ میں کئی پھل بھی عطا ہوئے۔ غیراحمدیوں کے رسالہ ‘‘الاسلام’’ سے مسئلہ ختم نبوّت کے موضوع پر ہمارا مباحثہ بھی ہوتا رہا۔ آخر انہوں نے یہ کہہ کر مباحثہ بند کردیا کہ چونکہ احمدیوں کو رابطہ عالم اسلامی اور حکومت پاکستان غیرمسلم قرار دے چکی ہے اس لیے ان سے گفتگو نہیں کی جائے گی۔ چند ماہ بعد اُنہوں نے اپنا پریس فروخت کرنے کے لیے ہمارے رسالہ میں اشتہار شائع کروایا اور پھر اُن کا رسالہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
1994ء میں کوئمبٹور (تامل ناڈو) کے رسالہ ‘‘النجات’’ کے ایڈیٹر مولوی زین العابدین سے ہمارا مناظرہ ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہدایت پر شرائط وغیرہ طَے کرلی گئی تھیں۔ 9؍روز جاری رہنے والے اس مباحثہ میں روزانہ آٹھ گھنٹے بحث ہوتی رہی۔ حضورؒ کو روزانہ رپورٹ بھجوائی جاتی اور ہدایات حاصل ہوتیں۔ پاکستان سے مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کو بھی حضورؒ نے ہماری مدد کے لیے بھجوایا۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں ایک سو سے زائد افراد کو بیعت کی توفیق ملی اور کوئمبٹور میں مخلصین کی فعال جماعت قائم ہوئی۔ بعدازاں وہاں دو منزلہ خوبصورت مسجد بھی تعمیر کی گئی۔
1968ء میں شنکرن کوئلی کے دو زیرتبلیغ افراد نے کہا کہ اُن کے پیش امام صاحب اُن سے ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی عربی دان مبلغ کو لے کر آؤ۔ چنانچہ خاکسار چند دیگر احباب کے ہمراہ شنکرن کوئلی پہنچا اور اگلے روز شام تک وہاں ٹھہر کر پیش امام صاحب کو کئی پیغامات بھیجے لیکن وہ گفتگو پر آمادہ نہ ہوئے۔ جب ہم واپسی کے لیے ریلوے سٹیشن آئے تو اچانک پولیس کے کئی سپاہیوں اور مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہمیں گھیر لیا۔ پولیس انچارج نے پوچھا کہ تم لوگوں کا لیڈر کون ہے؟ محترم مولانا شریف احمد صاحب امینی آگے بڑھے۔ اُس نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ پاکستان سے آئے ہوئے جاسوس ہو۔ اس پر مولانا امینی صاحب نے بتایا کہ ہم سب ہندوستان کے باشندے ہیں۔ اور پھر پندرہ بیس منٹ تک انگریزی زبان میں جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض و غایت، عالمگیر حیثیت اور پُرامن پالیسی پر تقریر کی اور شنکرن کوئلی آنے کا مقصد بتایا۔ اس طرح وہاں موجود سینکڑوں افراد خاموشی سے ہماری تبلیغ سنتے رہے۔ تقریر ختم ہونے پر انچارج پولیس نے ہم سب سے مصافحہ کیا اور کہا کہ ہمیں غلط رپورٹ ملی تھی اور آپ لوگ آزادانہ طور پر تبلیغ کرسکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ، جو ہمیں ہتھکڑیوں میں دیکھنے کے لیے آئے تھے، مایوسی سے واپس چلنے لگے۔ لیکن ہمارے زیرتبلیغ دوست نے کہا کہ صداقتِ مسیح موعود کے لیے ہمیں اس سے زیادہ کسی نشان کی ضرورت نہیں اور مَیں ابھی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح وہاں پر ہی پانچ افراد کے بیعت فارم پُر کیے گئے اور نئی جماعت تشکیل دے دی گئی۔ اس وقت شنکرن کوئلی میں ایک فعّال جماعت، مسجد اور مشن ہاؤس موجود ہے۔
مدراس میں تعیناتی کے دوران ایک بڑی مسجد کے پیش امام کی طرف سے گفتگو کرنے کا پیغام ملا۔ اڑہائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد وہ پیچھا چھڑانے لگے کہ علمی مسائل میں اُلجھنے کی فرصت اُنہیں کہاں!۔ بالآخر مَیں نے حدیث پیش کی کہ جو اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ پھر کہا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمّت محمدیہ میں کوئی زمانہ بھی امام سے خالی نہیں ہے۔ آپ بتائیں کہ اس زمانہ کا امام کون ہے؟ وہ کہنے لگے کہ ‘‘مَیں ہوں’’۔ مَیں نے کہا کہ مَیں ایک محلّہ کے امام کی بات نہیں کررہا بلکہ امام الزّماں کی بات کررہا ہوں۔ وہ بڑے غصے سے کہنے لگے کہ جو بھی ہو مَیں امام الزماں ہوں۔ مَیں نے گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ ہم خدا پر چھوڑتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ موصوف اپنی مسجد میں کسی لڑکے سے بدفعلی کے جرم میں مار پیٹ کرنے کے بعد سامان سمیت مسجد سے باہر دھکیل دیے گئے ہیں۔
1991ء میں خاکسار کا تقرر بطور مبلغ انچارج فلسطین ہوا۔ کبابیر کی خوبصورت مسجد محمود اور مشن ہاؤس کا ذکر حکومتِ اسرائیل کی سرکاری گائیڈ بُک میں تین صفحات میں جماعت احمدیہ کے عقائد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ چنانچہ وہاں جو سیاح آتے ہیں وہ اکثر ہماری مسجد کو دیکھنے بھی ضرور آتے ہیں۔ عیسائیت، یہودیت اور اسلام کے حوالہ سے فلسطین میں موجود مقاماتِ مقدّسہ دیکھنے کی توفیق بھی مجھے ملی۔
خاکسار کو قرآن مجید کے تامل ترجمہ میں خدمت کرنے کے علاوہ تامل زبان میں 7 کتب لکھنے اور 4 کتب کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ اسی طرح ملیالم زبان میں 8 کتب لکھنے کی اور 6 کتب کا ترجمہ کرنے نیز مختلف زبانوں میں بے شمار مضامین لکھنے کی توفیق بھی ملی۔
1978ء میں پہلی دفعہ خاکسار کو سری لنکا کا دورہ کرنے اور بعدمیں کئی بار کئی کئی ماہ کے لیے وہاں کے دورے کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ دراصل 1958ء میں سری لنکا کے مبلغ محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب کا تبادلہ ہوا تو پھر وہاں کوئی مبلغ تعینات نہیں کیا جاسکا جس کے نتیجہ میں وہاں تعلیم و تربیت کا بہت نقصان ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ کئی نوجوانوں کو نماز پڑھنا بھی نہیں آتی تھی، چندوں کا نظام نہیں تھا، خاندانی چپقلش انتہا پر تھی،جماعتی کام صرف خطبہ سننے تک محدود تھا اور خطبہ میں دلآزار باتیں بھی کہہ دی جاتی تھیں۔ چنانچہ وہاں جاکر چندوں کا نظام ازسرنَو قائم کرنے اور ذیلی تنظیموں کا قیام عمل میں لانے کی توفیق ملی۔
خاکسار نے سری لنکا پہنچ کر ایک ہندواخبار کو انٹرویو دیا اور جماعت احمدیہ کے امن بخش عقائد کا تعارف کروایا۔ اس پر مسلمان ایک جوش کے ساتھ مخالفت پر اُتر آئے۔ اُن کی مساجد میں خطبات کے علاوہ اخبارات میں اور ریڈیو کے پروگراموں میں بھی ایک مہم شروع ہوگئی۔ لیکن ہمارا جواب نشر کرنے کے لیے ریڈیو کے حکّام تیار نہیں تھے۔ آخر ملک بھر کی مسلمان جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ 21؍اپریل 1978ء کو جماعت احمدیہ کے خلاف یوم جہاد منایا جائے گا اور نگمبو میں واقع احمدیہ مسجد پر قبضہ کرلیا جائےگا۔ یہاں ہماری خوبصورت مسجد کے ساتھ قبرستان کا وسیع رقبہ ہے۔ نیز ایک سکول بھی ہے اور کئی ایکڑ کا ایک گراؤنڈ بھی۔اس گراؤنڈ میں شرپسندوں نے اپنا جلسہ منعقد کیا گیا جس میں کئی اسلامی ممالک کے سفیر بھی شامل ہوئے۔
جلسہ کی صدارت رابطہ عالم اسلامی کے سری لنکا کے لیے نمائندے ایم ایچ محمد نے کی جو سری لنکا کے وزیراطلاعات بھی تھے۔ تین چار تقاریر ہوئیں جن میں احمدیہ مسجد پر قبضہ کرنے کی تحریک بہت زورشور سے کی گئی۔ اچانک آسمان پر نہایت سیاہ بادل چھاگیا اور بجلی بند ہونے کی وجہ سے خوب اندھیرا چھاگیا۔ ساتھ ہی موٹے قطروں والی تیز بارش شروع ہوئی تو لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ گراؤنڈ میں کچھ ہی دیر میں ٹخنوں تک پانی کھڑا ہوگیا۔ اسی اثنا میں ایک بڑا سانپ سٹیج پر چڑھ گیا جسے دیکھتے ہی سٹیج پر موجود جُبّہ پوش سفرا ء سٹیج سے کُود کُود کر بھاگنے لگے۔ کسی نے بلند آواز میں کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا بھی قادیانی ہوگیا ہے۔ رات آٹھ نو بجے تک میدان بالکل خالی تھا۔
سری لنکا میں کولمبو کے علاوہ نگمبو، پسیالہ اور پولہ ناروا میں احمدیہ جماعتیں قائم ہیں۔ کولمبو سے پچاس میل دُور پسیالہ نامی گاؤں کے صدر جماعت کی خواہش پر خاکسار وہاں ایک جمعہ پڑھانے پہنچا۔ ناریل کے پتوں سے بنی ایک جھونپڑی نما مسجد تھی۔ نماز کے بعد خاکسار نے وہاں موجود لوگوں سے پختہ مسجد بنانے کے لیے چالیس پچاس ہزار چندہ کی تحریک کی ۔ وہاں موجود مخیّر احباب میں سے کسی نے سیمنٹ، کسی نے اینٹ اور کسی نے لوہے وغیرہ کا سارا خرچ دینے کا وعدہ کیا اور قریباً پچاس ہزار کے وعدے بھی ہوگئے۔ چنانچہ ایک کمیٹی برائے تعمیر مسجد بنادی گئی۔ اگلے سال جاکر ایک خوبصورت مسجد کا افتتاح خاکسار نے وہاں پر کیا۔
نومبر 1983ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ آسٹریلیا سے واپس پاکستان جاتے ہوئے پانچ روز کے لیے سری لنکا میں قیام فرما ہوئے۔ مختلف تربیتی اور انتظامی پروگراموں کے علاوہ حضورؒ کی ہدایت پر نصف ایکڑ زمین مع دو منزلہ عمارت کے خریدی گئی جو مسجد اور مشن ہاؤس کے طور پر استعمال کی جانے لگی۔ بعدازاں ایک عمارت جامعہ احمدیہ کے لیے بھی تعمیر کی گئی۔ خاکسار نے جلسہ سالانہ کا اجرا دوبارہ کیا اور چار نوجوانوں کو قادیان اور ربوہ کے جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھجوایا جو اِس وقت سری لنکا کے چاروں مشنوں میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
2007ء میں خاکسار کو ناظراصلاح و ارشاد قادیان مقرر کیا گیا۔ اسی سال لندن اور جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے اور تقاریر کرنے کی توفیق ملی۔ نیز بعض مقامی جماعتوں کا دورہ بھی کیا۔
خاکسار کو 1965ء سے 2009ء تک (تین چار سالوں کے علاوہ ) جلسہ سالانہ قادیان میں بھی تقریر کرنے کی توفیق ملتی رہی ہے۔ نیز بہت سی اہم کانفرنسوں میں تقاریر کرنے کا موقع ملا جنہیں بہت سراہا گیا۔ مثلاً
1۔ اپریل 1977ء میں تامل ناڈو میں ہندوؤں کے مرکز Madurai میں شری شنکر آچاریہ سوامی کی زیرنگرانی مختلف علمی موضوعات پر جلسے منعقد ہوئے۔ ایک دن مذاہبِ عالم کے نام پر رکھا گیا جس میں تقریر کرنے کے لیے مختلف اسلامی جماعتوں کو دعوت دی گئی لیکن احمدیہ جماعت کے علاوہ باقی سب نے ہندوؤں کے جلسہ میں تقریر کرنے سے معذرت کردی۔ جماعت کا سہ رُکنی وفد جلسہ میں پہنچا۔ محترم حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب اور مکرم محمد کریم اللہ صاحب نوجوان (ایڈیٹر اخبار ‘آزاد نوجوان’) نے انگریزی میں نہایت پُراثر تقاریر کیں اور خاکسار نے نصف گھنٹہ تک اپنا ایک مقالہ پڑھا۔ جلسہ کے بعد شری شنکر آچاریہ سوامی جی نے رقعہ بھیجا کہ وہ ہمارے وفد سے علیحدگی میں ملنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم اُن کے آشرم میں پہنچے جہاں بہت سے دانشور اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز موجود تھے۔ سوامی جی نے ہمیں اپنے قریب جگہ دی۔ وہ اسلام کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار تھے جن کو دُور کرنے کی ہم نے کوشش کی۔ آتے وقت انہوں نے صندل کا ایک ایک ہار ہم تینوں کو دیا۔ یہ تحفہ اُن کی طرف سے صرف معززین کو ہی دیا جاتا ہے۔
2۔ نومبر 1993ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی زیرصدارت ایک عظیم الشان جلسہ پیشوایانِ مذاہب منعقد ہوا جس میں شری آر وینکٹ رامن سابق صدر جمہوریہ ہند مہمان خصوصی تھے۔ خاکسار کی تقریر کے اختتام پر انہوں نے کہا: Very Sweet Lecture
3۔ مئی 1994ء میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے سوامی سری رام کرشن مٹھ کے بہت بڑے ہال میںجماعت احمدیہ نے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں وزیر ثقافت شری دیوراج مہمان خصوصی تھے۔ خاکسار کی تقریر کے بعد انہوں نے تامل اخبار ‘ویرکیسری’ کے ایڈیٹر کو بلاکر ہدایت کی وہ میری ساری تقریر من و عن اخبار میں شائع کردیں۔ چنانچہ 12مئی کی اشاعت میں یہ تقریر شامل کی گئی۔
………٭………٭………٭………
آنکھیں ۔ نعمتِ عظمیٰ
ہمارے جسم میں استعمال ہونے والی توانائی کا چالیس فیصد ہماری آنکھیں استعمال کرتی ہیں۔ آنکھوں کی حفاظت کے حوالے سے مکرم نصیر احمد عارف صاحب کا ایک معلوماتی مضمون ہفت روزہ ‘‘بدر’’ 9؍جون 2011ء میں شامل اشاعت ہے۔
یہ ضروری بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم کسی بھی عارضہ سے دوچار ہوکر جو بھی دوا استعمال کرتے ہیں اُس کے اثرات ہماری آنکھوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے دواؤں کے زیادہ استعمال یا نشہ آور اشیاء (سگریٹ وغیرہ) سے پرہیز کرنا چاہیے اور علاج بالغذا پر زور دینا چاہیے ۔
اپنی آنکھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ گندے ہاتھ یا گندے کپڑے آنکھوں کو نہ لگائیں۔ غسل اور وضو کرتے وقت نیز رات سونے سے پہلے آنکھوں میں پانی کے چھینٹے دے کر انہیں دھونا چاہیے۔ غرارے کرنا اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کرنا بھی آنکھوں کے لیے مفید ہے۔ اگر آنکھوں میں کچھ پڑ جائے تو کبھی نہ ملیں بلکہ پانی کے چھینٹوں سے صاف کرنے کی کوشش کریں۔ تیز دھوپ، روشنی اور دھواں آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
آنکھوں کی صحت کے لیے چند امور ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ صبح کی سیر اور سبزے کو دیکھنے سے آنکھوں کو طاقت ملتی ہے۔ اسی طرح وہ خوراک جس میں وٹامن A ہو وہ فائدہ مند ہے جس میں دودھ، دہی، انڈا، مکھن اور مچھلی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سونف، بادام اور مونگ پھلی میں بھی کافی وٹامن A پایا جاتا ہے۔اس کے ساتھ وٹامن C بھی استعمال کریں تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ فالتو مادے جسم سے نکل جائیں گے۔
اگر ہمارے جسم میں خون کی کمی پیدا نہ ہو تو بھی جسم کئی قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں فولاد استعمال کرنا چاہیے جو چند سبزیوں مثلاً پالک، مولی، شلجم، بندگوبھی، کھیرا، کدّو، ٹینڈے وغیرہ میں اور خصوصاً ان سبزیوں کے چھلکے میں پایا جاتا ہے۔
آنکھوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ کم روشنی میں نہ پڑھیں۔ نیز پڑھتے وقت کتاب پر روشنی پڑنی چاہیے نہ کہ آنکھوں پر۔ اسی طرح لیٹ کر یا جُھک کر بھی نہ پڑھیں۔ چلتی ہوئی گاڑی میں بھی پڑھنے سے گریز کریں۔ اسی طرح مسلسل نہ پڑھیں اور کمپیوٹر بھی مسلسل استعمال نہ کریں بلکہ ہر آدھے گھنٹے بعد کچھ دیر کے لیے اپنی آنکھوں کو بند کرکے انہیں آرام دیں۔ خواتین جب سلائی کڑھائی کا باریک کام کریں تو بھی آنکھوں کو آرام دینے کے لیے وقفہ کریں۔
اگر بچپن میں ہی نظر کی کمزوری پیدا ہوجائے تو یاد رکھیں کہ بچوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک دینے سے اُن کی نظر کی کمزوری ختم ہوسکتی ہے۔ بچوں کے حوالے سے ایک احتیاط ہمیشہ کریں کہ بہت چھوٹے بچوں کو نوکیلی چیزیں نہیں تھمانی چاہئیں۔
………٭………٭………٭………
ہفت روز ‘‘بدر’’ 18؍اگست 2011ء میں شامل اشاعت مکرم ثاقب زیروی صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
لکھیں گے لہو سے افسانے تاریخ کو پھر دہرائیں گے
رکھے گا زمانہ یاد جسے وہ نقش وفا بن جائیں گے
ہم پر ہے خدا کا فضل و کرم ، ہنس ہنس کے سہیں گے جور و ستم
ہم اپنے پیار کی شبنم سے نفرت کی آگ بجھائیں گے
ہم شام کا پہلا تارا ہیں ہم لوگ ہیں صبح کی پہلی کرن
تنویر کی صورت پھیلیں گے خوشبو کی طرح چھا جائیں گے
بے نُور دلوں کے ویرانے سیراب کریں گے اشکوں سے
ہم اپنی آبلہ پائی سے کانٹوں کی پیاس بجھائیں گے
یہ دنیا والے اے ثاقبؔ جتنے بھی ستم چاہیں ڈھالیں
ہم اپنے مدنی آقا کا اُسوہ ہی فقط اپنائیں گے
ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان 9؍جون 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جس میں مغربی ممالک کی نومسلم خواتین کے پردے کے بارے میں تأثرات پیش کیے گئے ہیں۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
جب چُنی مَیں نے مسلماں ہو کے پردے کی ڈگر
اِک نئے ‘کے ٹو’ کی چوٹی کو مجھے کرنا تھا سَر
مغربی ماحول کی پروردہ عورت کے لیے
حُکمِ پردہ تھا بہت انجان راہوں کا سفر
اِک احساسِ تحفّظ مجھ کو پردے نے دیا
مطمئن رہتی ہوں مَیں خود کو مکمل ڈھانپ کر
جو بھی ہے اَنمول شے لازم ہے پوشیدہ رہے
کوئی عاقل چوک میں رکھتا نہیں لعل و گہر
حُکم پر قرآن کے لبّیک صد لبّیک ہے
راستہ واضح ہو جب تو کیا اگر اور کیا مگر
مجھ کو آزادی نہیں عرشیؔ خدا درکار ہے
مَیں بہت مسرور ہوں پردے میں قصّہ مختصر