ہمارے سالانہ اجتماعات۔ خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہداور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اورمواخات میں دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لیے سرگرمی اختیار کریں ۔’’
(شہادت القرآن ،روحانی خزائن جلد 6صفحہ394)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد پر عمل پیرا ہونے کی عملی تصویر جلسہ سالانہ ہے ۔اور یہی وہ اغراض ہیں جن کے حصول کے لیے ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے سالانہ اجتماعات منعقد کرتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پر جن کی خداداد فراست نے احمدیت کے مستقبل میں احمدی نوجوانوں کے بھرپور کردا رکو بھانپا اور عالمگیر غلبہ اسلام کے لیے ‘‘خدام الاحمدیہ ’’جیسی عظیم الشان اور بابرکت تحریک کی 1938ء میں بنیاد رکھی ۔
حضور نے ابتداء میں ہی خدام کو اس عہد پر کاربند رہنے کی تلقین فرمائی تھی کہ
‘‘میں آئندہ یہی سمجھوں گا کہ میں احمدیت کا ستون ہوں اور اگر مَیں ذرہ بھی ہلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں سمجھوں گا کہ احمدیت پر زد آگئی ۔’’
خلفائے احمدیت کے ارشادات میں ان اجتماعات کے اغراض و مقاصد ان کے حصول اور ان کی برکات کے بارہ میں بہت خوب روشنی پڑتی ہے ۔ذیل میں چند ارشادات درج کیے جاتے ہیں ۔
نصائح حضرت مصلح موعود ؓ
اجتماع کی اہمیت
سیدنا حضرت مصلح موعود اجتماع کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘خدام الاحمدیہ کی غرض ان میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ احمدیت کے خادم ہیں اور خادم وہی ہوتا ہے جو آقا کے قریب رہے۔ جو خادم اپنے آقا کے قریب نہیں رہتا۔وقت کے لحاظ سے یا کام کے لحاظ سے وہ خادم نہیں کہلا سکتا۔’’
(مشعل را ہ جلد اوّل صفحہ 246)
عبادات میں شغف کا محرک
اجتماع کے انعقاد کی بنیادی غرض نوجوانوں میں اسلامی شعائر کو اپنی زندگیوں میں رائج کرنا ہے کہ یہی قیام احمدیت کا مقصد ہے۔ چنانچہ اجتماعات میں خطاب فرماتے ہوئے حضور نے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
‘‘قومی زندگی کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ قوم کے نوجوان پہلے سے بہتر ہوں ۔پس اس کے لیے میں خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ذکر الٰہی ، نمازوں کی پابندی اور عمدگی کے ساتھ ادا کرنے اور تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔’’
(مشعل را ہ جلد اوّل صفحہ 362تا363)
‘‘جب تم سچائی پر قائم ہوجائو گے ۔جب تم نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرلو گے ۔جب تم دین کی خدمت کے لیے رات دن مشغول رہو گے۔ تب جان لینا کہ اب تمہارا قدم ایسے مقام پر ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں۔’’
(مشعل را ہ جلد اوّل صفحہ 31)
رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزہ
نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو
عادتِ ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں
دل میں ہو عشقِ صنم ٗ لب پہ مگر نام نہ ہو
قیام کی غرض و غایت کی طرف توجہ
اجتماعات کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ خدام کو ان کے قیام کی غرض و غایت کی طرف توجہ دلائی جاتی رہے اور ان کے کانوں میں بار بار یہ آواز پڑتی رہے کہ ان کی زندگیوں کا مقصد کیا ہے ؟اس ضمن میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد یاد رکھنے کے قابل ہے :
‘‘میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلا ًبعد نسلٍ دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے ۔آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولاد کے دلوں میں ۔یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہوجائے ۔ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرلے جو دنیا کے لیےمفید اور بابرکت ہو ۔اگر ایک یا دو نسلوں تک ہی یہ تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔’’
(مشعل را ہ جلد اوّل صفحہ 80)
نصائح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ
ہر مجلس کے نمائندہ کی شمولیت کیوں ضروری ہے
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے بارہا ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں ہر مجلس کی نمائندگی کو ضروری قرار دیا ۔ اور اس بات پر اس قدر زور دیا کہ آپ نے امرائے ضلع اور مربیان اور معلمین کو اس امر کا مکلّف فرمایا کہ وہ ‘‘گائوں گائوں ،قریہ قریہ جاکے، جاتے رہ کر۔ایک دفعہ نہیں ، جاتے رہ کر ،ان کو تیار کریں کہ کوئی گائوں یا قصبہ یا شہر نمائندگی سے محروم نہ رہے ۔’’
(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 557)
یہ نمائندگی کیوں ضروری ہے؟آپ نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
‘‘حقیقت یہ ہے کہ ان اجتماعات میں کم از کم ایک نمائندہ تو ہر مجلس کا شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ واپس جاکے بتائے کہ اس نے کیا دیکھا ۔کیا سنا ۔کن ضرورتوں کو محسوس کیا۔ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی کیا تجاویز پیش ہوئیں اور کس طرح سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم وقت کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ ’’
(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 74)
نئی نسل کو ذمہ داری کا احساس دلانا
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
‘‘اکثر نوجوان اور بچے جس وقت اپنی بھرپور جوانی میں پہنچیں گے اور جس وقت انتہائی قربانیوں کا وقت آئے گا اور وہ اللہ کے فضل سے قربانیاں دے رہے ہوںگے۔ان کے اوپر بڑا بوجھ پڑے گا اسی لیے ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ ہمارے بچے اور خدام آئیں اور خدام الاحمدیہ کے منتظمین کو اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ صحیح رنگ میں آپ کی تربیت کرنے کی توفیق دے بہت سے مضامین ہیں جو نئے ہیں اس لیے کہ نئے مسائل کو ان کے ذریعہ ہم نے حل کرنا ہے۔’’
(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 420)
ہمارے اجتماع دنیاوی میلے نہیں
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں :
‘‘ ہمارے یہ اجتماع دنیوی میلے نہیں ۔یہ اجتماع ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں ۔ذہنی تربیت کے لیے اس معنی میں کہ بہت سی نیکی کی باتیں شامل ہونے والوں کے کانوں میں پڑتی ہیں اور ذہنوں میں جلا پیدا ہوتا ہے اور اخلاقی لحاظ سے اس معنی میں کہ اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے خدام و انصار کو کہ حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کرو۔’’
آپ ؒ نے مزید فرمایا:
‘‘آپ اپنا پروگرام بناتے ہیں ۔اس میں برکتیں بھی پڑسکتی ہیں اور برکتیں نہیں بھی پڑسکتیں۔دعائیں کریں گے تو بابرکت ہوجائیں گے ۔دعائیں کریں گے توآپ کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ دنیا میں ایک انقلاب عظیم بپا کردے گا ۔’’
(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 556)
اجتماع میں شامل ہونے والے خوش قسمت
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اجتماع میں شامل ہونے والوں کو خوش قسمت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
‘‘آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اجتماع میں شرکت کا موقع عطا کیا ہے۔ باقی دوسرے بچے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس اجتماع کی برکتوں سے محروم رہے ہیں اور میری اس ہدایت کو نہیں سن سکے آپ ان کو جاکر بتائیں تاکہ وہ اس سے محروم نہ رہیں ۔’’
(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 184)
نئی روح اور نئی زندگی بخشنے والا
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:
‘‘جو نمائندے ان اجتماعوں میں شامل ہوں گے ۔وہ ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی لے کر واپس جائیں گے۔’’
( مشعل راہ جلد دوم صفحہ 631)
نصائح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
آخری مقصد۔ دین
سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اجتماعات کا مقصد بیان کرتے ہوئے ہالینڈ میں فرمایا:
‘‘اجتماعات کا مقصد خالصۃً دینی ہے اور اگرچہ کھیلوں وغیرہ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے ۔عام علمی مقابلے بھی ہوتے ہیں لیکن آخری مقصد و منتہاء دین ہی ہے ۔’’
( احمدیہ بلیٹن ہالینڈ شمارہ نمبر 2 جولائی 1987ء)
اعتقاد و ایمان میں زیادتی
شامل ہونے والے کس طرح سے ان اجتماعات سے فائدہ اُٹھاتے اور برکات حاصل کرتے ہیں ۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
‘‘شامل ہونے والوں کے اندر نئے ولولے نئی امنگیں جاگتی ہیں اور جماعت پر اُن کا اعتقاد اور ایمان بہت بڑھ جاتا ہے اور ان اجتماعات میں شامل ہونے والے بہت سے خاموش فیصلے کرتے ہیں…اور پھر یہ فیصلے ان کی کایا پلٹ دیتے ہیں ۔’’
برکات کے حصول کا ذریعہ
حضور ؒنے ذکرالٰہی کی مجالس میں فرشتوں کے نزول والی حدیث کے حوالے سے بتایا کہ ہر اجتماع میں شرکت کرنے والے ان سے بہت سی برکتیں پاتے ہیں ۔
حضور نے فرمایا کہ یہ بات ہے تو تمثیل لیکن اس میں جو کچھ بیان فرمایا گیا ہے وہ بعینہٖ درست اور حق ہے اور ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جماعت کے اجتماعات اور جلسوں میں وہ شامل ہونے والے بھی برکات پا جاتے ہیں جو کسی اور غرض سے آتے ہیں ۔اس ضمن میں بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں چار سی آئی ڈی انسپکٹر احمدی ہوئے۔حالانکہ وہ منفی مقاصد کے لیے اور رپورٹ کی تیاری کے لیے آئے ہوئے تھے ۔مگر ان اجتماعات کی برکت سے احمدی ہوگئے اور پھر مخلص احمدی رہے ۔
حضور انور نے یہ بھی بتایا کہ ربوہ میں ایسے ہی آنے والوں میں سے ہر سال کچھ نہ کچھ بیعتیں ہوجایا کرتی تھیں۔
(ضمیمہ ماہنامہ مصباح اکتوبر 1988ء )
نصائح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ
مقام کی یادد ہانی
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بروح القدس نے ایک اجتماع پر پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ اجتماع میں سنی ہوئی باتوں کو یادرکھیں اور احمدی خادم کے مقام کو یادرکھیں۔چنانچہ فرمایا:
‘‘جوکچھ تربیتی،اخلاقی اور روحانی امور کی بابت یہاں آپ نے سنا ان باتوں کو یادرکھیں اور یہ سب نیک یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں اور جہاں بھی جائیں یہ یادرکھیں کہ آپ ایک احمدی خادم ہیں۔ یہ ایک اعزاز ہے اور سعادت ہے جو خدا کے خاص فضل سے تمہارے حصہ میں آئی ہے۔ اس لیے اپنے اس مقام اوراعزازکی ہمیشہ حفاظت کریں اور کبھی بھی نہ بھولیں کہ آپ کے اس نام اور مقام کے تقاضے کیا ہیں۔’’
خلافت کا احترام
یہ اجتماعات خلافت کا احترام پیدا کرنے اور اخلاص و وفا میں غیر معمولی ترقی کے ضامن ہیں۔اس ضمن میںآ پ نے فرمایا:
‘‘اپنی ساری عبادتوں،اپنی ساری نیکیوں اور اپنے سارے کاموں کو بابرکت انجام تک پہنچانا چاہتے ہوتوخلافت سے محبت اور اس کا ادب اور اس کا احترام اپنے ایمان کا جزوبنالو۔ اور یہ امر خوب یاد رکھو اور اپنی نسلوں کو ان کے خون کی رگوں میں یہ بات شامل کردوکہ تمہاری تمام تر ترقیات اب صرف اور صرف خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں،اس کے پیچھے پیچھے چلو،اس کے اشاروں کو حکم سمجھ کر چلو،تو تم دیکھو گے کہ فتوحات او رترقیات کی منزلیں تمہارے قدم چومیں گی۔ان شا ء اللہ’’
(مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم صفحہ 114)
احساس ذمہ داری پیدا کرنے والا
ان اجتماعات کے نتیجہ میں جو احساس ذمہ داری پیدا کرنا مقصود ہے ۔اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے نہایت جلال کے ساتھ فرمایا :
‘‘پس اس بارے میں بھی خاص کوشش کرکے اس طرف توجہ دیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح معنوں میں خدام احمدیت بنائے۔ صرف نعرے اور ترانے اور وعدے ہی نہ ہوں صرف ،بلکہ حقیقت میں آپ میں وہ کچھ نظر آئے جو ایک احمدی خادم میں نظرآنا چاہیے اور اگرآئندہ کیونکہ بچوں نے بھی سنبھالنا ہے، چھوٹی عمر کے خدام ہیں انہوں نے سنبھالناہے، جوں جوں جماعت نے انشاء اللہ پھیلنا ہے، یہ تبدیلیاں نہ کیں تو پھر جماعت تو ترقی کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ لیکن آپ کے اپنے حلقوں میں آپ کو محرومی کا احساس ہونے لگ جائے گا۔ کیونکہ آئندہ خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں بھی بڑھنی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا، جماعت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ۔
پس اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں۔ اپنے مقام کو سمجھیں اور اگر آپ نے اپنے مقام کو سمجھ لیا، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا توپھر دشمن ہزارحربے استعمال کرے احمدیت کو ختم کرنے کے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ دشمن جتنا مرضی زور لگا لے وہ جماعت کو نقصان نہیںپہنچا سکتا۔ پس احمدی نوجوانو اور بچو!اٹھو اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلندکرو اوراپنے اخلاق کے معیار بھی بلند کرو۔’’
(ماہنامہ ‘‘خالد’’نومبر2004ء)
ترقی کی روح کو پیدا کرنے کا ذریعہ
ان اجتماعات کو ترقی کی روح کو پید اکرنے کا ذریعہ بتاتے ہوئے ایک اور موقع پر بیان فرمایا:
‘‘جب جماعت کی مختلف ذیلی تنظیمیں اپنے اجتماعات منعقد کرتی ہیں تو اس میں، قدرتی طور پر، خاص طور پر توجہ پیدا ہوتی ہے۔ لجنہ کو اپنی انفرادیت کا احساس پیدا ہوتا ہے، انصار کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، خدام کو اپنی اہمیت کا احساس ہورہا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی جماعت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جس نے اپنے علیحدہ پروگرام بنا کر (عمر اور مزاج کے لحاظ سے مختلف پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں)، ان پروگراموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کا ایک فعال حصہ بننا ہے۔
جب تک کسی قوم کے ہر طبقے کو اور ہر فرد کو اپنی اہمیت کا احساس نہ ہوجائے کہ ہم جماعت کا ایک حصہ ہیں جس کے ساتھ جماعت کی ساکھ اور ترقی وابستہ ہے، اس وقت تک وہ ترقی کی روح نہیں پیدا ہوتی۔ ترقی کی روح تب ہی پیدا ہوتی ہے جب قوم کے ہر طبقے میں یہ احساس ہوجائے کہ ہماری ایک اہمیت ہے۔ پھر قومیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہیں۔’’
(مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 120تا121)
اجتماعات میں کھیل رکھنے کے مقاصد
دینی ، علمی اور روحانی معیاروں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ یہ اجتماعات صحتِ جسمانی کی طرف توجہ مبذول کرنے کا ایک اہم طریقہ ہیں ۔اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘یہ اجتماعات جو ہیں ذیلی تنظیموں کے اس لیے منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ مختلف پروگراموں میں حصہ لے کر خدام اپنے دینی،علمی، روحانی معیاروں کو بہتر کرسکیں اور بہتر کرنے کی طرف توجہ دے سکیں اور ساتھ ہی مختلف کھیلوں کے پروگرام ترتیب دے کراس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جسم کا جو حق ہے وہ بھی ادا کیا جائے کیونکہ صحت مندجسم ہوگا تو جو اصل مقصدہے زندگی کا،یعنی عبادت،اُس کا بھی حق ادا ہوسکتا ہے اور پھر کھیلوں کے پروگراموں سے ذہنی تفریح بھی ہوجاتی ہے شائقین کی بھی اور Playersکی بھی۔ اس لیے ہماری کھیلوں کے پروگراموں میں یہ مقصد اصل میں مدنظر ہوتا ہے۔’’
(مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ 50)
علمی مقابلے علم کی جاگ لگانے کے لیے ہیں
اجتماعات کا ایک اہم حصہ علمی مقابلے ہیں ۔یہ مقابلے کیوں منعقد کیے جاتے ہیں اور اس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے اس کی وضاحت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی زبان مبارک سے پڑھیے ۔
‘‘علمی مقابلے ہیں۔ وہ بھی اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ آپ کے ذہنوں میں علم کی جاگ لگائی جائے۔ قرآن کریم میں سے مختلف مقابلے کرواکر آپ کو اس روحانی مائدے سے یہ روحانی غذا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اتاری ہے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اُس پر غور کریں اور اس کے علم کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔’’
(مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ52)
احمدی اور غیر احمدی میں امتیاز واضح کرنے کا موقع
ان اجتماعات کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تربیت کے ایسے ذرائع بتائے جائیں جو دنیا کو ایک احمدی اور غیر احمدی میں فرق کا احساس دلائے ۔چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی روحانی اور جسمانی تربیت ہو۔ احمد ی نوجوان جو ہے اس کی اس طرزپرتربیت کی جائے کہ اس میں اور غیر میں ایک فرق محسوس ہو۔’’
(مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ146)
اس ضمن میں حضور انور نے خاص طورپر احمدی خادم کے جن اہم امتیازات کا ذکر فرمایا ان میں نماز باجماعت ،قرآن کریم کی تلاوت، اس کو سمجھنے اور عمل کرنے ، بُرے ماحول اور بُری دوستیوں سے پرہیز شریفانہ لباس زیب تن کرنے ، داڑھی رکھنے، با اخلاق بننے ، دعوت الی اللہ کرنے اور خلیفہ وقت کی نصائح پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
مستقل تبدیلی کی طرف پیش قدمی
اجتماعات کے نتیجہ میں یہ احساس اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر مستقل تبدیلی پیدا کرے ۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں فرماتے ہیں:
‘‘آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ صرف اجتماع کے یہ تین دن ہی آپ میں عارضی تبدیلی کا باعث نہ بنیں بلکہ ایک مستقل تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تقویٰ کے معیار بڑھائیں۔ عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ مغرب کی بیہودہ کشش آپ کو اپنی طرف راغب کرنے والی نہ بن جائے۔ اپنے ان بھائیوں کی قربانیوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے ہوئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لیے ہر کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی وفاؤں اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے لیے ہر قربانی دے رہے ہیں ۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ستمبر 2010ء ۔الفضل انٹرنیشنل 15؍اکتوبر 2010ءصفحہ8)
اپنے عہد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا
اجتماعات کے نتیجہ میں اراکین کو ان کے عہدکی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تا ان کے سامنے ہمیشہ ان کے قیام کے مقاصد پیش نظر رہیں ۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘پس خدام الاحمدیہ جماعت احمدیہ کا وہ طبقہ ہے جنہوں نے اپنے آپ کو اس تنظیم سے منسلک کیا ہے جو احمدیت کے خدام ہیں۔جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ دین کودنیا پر مقدم رکھیںگے اور اس کی خاطر اپنی جان، مال، وقت اور عزت قربان کریںگے۔ خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں گے۔ خلیفہ وقت کا ہر حکم جو معروف ہے جو فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِکی طرف توجہ دلانے والا ہے، اس پر عمل کرنے کے لیے ساری قوتیں صرف کر دیں گے پس آپ اپنے عہد کی طرف توجہ دیں۔’’
(مشعل راہ جلدپنجم حصہ ششم صفحہ200)
مستقبل کی لیڈر شپ کی تیاری
حق یہ ہے کہ یہ اجتماعات اپنے اندر بہت سی جہات رکھتے ہیں اور اس کاہر پروگرام مستقبل کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوتاہے ۔آج ہم تھوڑے ہیں مگر خدا کے فضل سے وہ وقت قریب آتا جاتا ہے جب کہ خلافتِ احمدیہ کے زیر سایہ دنیا کی قومیں آرام کریں گی ۔ان کی تربیت کا عظیم الشان بوجھ ہم پر پڑنے والا ہے ۔یہی وہ فکر ہے جس کا ذکر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بروح القدس بار بار اپنے خطابات میں فرماچکے ہیں چنانچہ ایک اجتماع کے موقع پر فرمایا :
‘‘خدام الاحمدیہ وہ لوگ ہیں جو آئندہ زمانے میں جماعت کی لیڈر شپ سنبھالنے والے ہیں ، جماعت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں ۔اگر آپ لوگوں نے اصلاح نہ کی اور دنیا میں اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بے انتہا قومیں اسلام اور احمدیت کو قبول کرچکی ہیں ، تو پھر اُن میں سے لوگ آگے بڑھیں گے اور آپ پیچھے رہ جائیں گے ۔اس لیے ہمیں بہت زیادہ فکر کرنی چاہیے، اُن لوگوں کو جن کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی ، جنہوں نے احمدیت قبول کرکے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ، ہم نے کبھی اُن کے نام کو بٹّہ نہیں لگنے دینا ۔پس اس لحاظ سے بھی ہر خادم کو اور ہر ہوش مند طفل کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے ۔’’
(مشعل راہ جلد پنجم حصہ ہفتم صفحہ 149)
ہم تو جس طرح بنے کام کیے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو
اپنی اس عمر کو اک نعمتِ عظمیٰ سمجھو
بعد میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایام نہ ہو
٭…٭…٭