مومن دلیر اور شجاع ہوتا ہے
صبح سیر کو جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:
‘‘ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ہمت اخلاق فاضلہ میں سے ہے۔ اور مومن بڑا بلند ہمت ہوتا ہے۔اور اسے ہر وقت خدا تعالیٰ کے دین کی نصرت اور تائید کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اور کبھی بزدلی ظاہر نہ کرنی چاہیے۔بزدلی منافق کا نشان ہے۔مومن دلیر اور شجاع ہوتا ہے۔مگر شجاعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس میں موقع شناسی نہ ہو۔موقع شناسی کے بغیر جو فعل کیا جاتا ہے وہ تہوّر ہوتا ہے۔ مومن میں شتابکاری نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ نہایت ہوشیاری اورتحمل کے ساتھ نصرت دین کے لیے تیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا ۔انسان سے کبھی ایسا فعل سرزد ہو جاتاہے جوخداتعالیٰ کوناراض کر دیتا ہے اور کبھی خوش کر دیتا ہے۔مثلاً اگر کسی سائل کو دھکا دیا تو وہ سختی کا موجب ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا فعل ہوتا ہے۔ اس لیےاسے توفیق نہ ملے گی کہ وہ اسے کچھ دے سکے ۔لیکن اگر اس سے نرمی اور اخلاق سے پیش آئے گا،تو خواہ اسے پیالہ پانی کا ہی دے دے تو وہ ازالۂ قبض کا موجب ہو جائے گا۔
استغفار۔ قبض کا علاج
انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے۔بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔نمازوں میں لذّت اور سرور پیدا ہوتا ہے۔لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی سی حالت ہو جاتی ہے۔جب ایسی حالت ہو جائے تو اُس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے۔نماز بھی بار بار پڑھے۔قبض کے دُور ہونے کا یہی علاج ہے۔
حقیقی علم
علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اور خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر: 29) ا گر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 295-294)
٭…٭…٭