رپورٹ دورہ حضور انور

امیر المو منین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کا جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر اختتامی خطاب

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء

……………………………………………

07؍جولائی2019ء

بروز اتوار

……………………………………………

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چار بجکر پندرہ منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

٭… صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

٭… آج جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا تیسرا اور آخری روز تھا۔ پروگرام کے مطابق تین بجکر 45 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور بیعت کی تقریب ہوئی۔

یہ عالمی بیعت تھی جو MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ دنیا بھر کے ممالک میں براہِ راست (Live) نشر ہوئی اور دنیا کے تمام ممالک کی جماعتوں نے اس مواصلاتی رابطہ کے ذریعہ اپنے پیارے آقا کی بیعت کی سعادت پائی۔

٭… آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر جرمنی، گیمبیا، چیچنیا، سیریا، رومانیہ، بیلجیم، سینیگال، لبنان،گنی کوناکری، ازبکستان، ہالینڈ، ترکی، سربیا، کوسوو و(Kosovo)، گھانا اور البانیا سے تعلق رکھنے والے 37؍ افراد نے بیعت کی سعادت پائی۔ آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

٭… بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمازِ ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔

نماز وںکی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جونہی سٹیج پر تشریف لائے تو ساری جلسہ گاہ فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ اور احباب جماعت نے بڑے ولولے اور جوش کے ساتھ نعرے بلند کیے۔

٭… اختتامی تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جو مکرم الیاس منیر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے کی اور بعد ازاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ تلاوت کا جرمن ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔

٭… اس کے بعد عزیزم مرتضیٰ منان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام ؎

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے

کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔

٭… بعد ازاں پروگرام کے مطابق جرمنی کے صوبہ Thuringian سٹیٹ کی سیکرٹری فار کلچر و یورپ، ڈاکٹر Babette Winter نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔

٭… اس کے بعد ایک عرب سکالر ڈاکٹر محمد حبش صاحب نے جن کا تعلق سیریا سے ہےاپنا ایڈریس پیش کیا۔

٭… بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے اور اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے والے طلباء کو سندات اور میڈل عطا فرمائے۔

حضور انور کے دستِ مبارک سے درج ذیل 53 خوش نصیب طلباء نے تعلیمی ایوارڈ حاصل کیے۔

ایوارڈ لینے والے ان 53 طلباء میں سے 41 کا تعلق جرمنی سے ہے جب کہ ایک کا پاکستان سے، ایک بیلجیم سے، دو کا فن لینڈ سے، ایک کا ترکی سے، ایک کا سوئٹزر لینڈ سے، ایک لتھوانیا سے، دو کا سویڈن ، ایک کا سپین سے، ایک کا بورکینا فاسو اور ایک کا بینن سے تھا۔

تقسیم ایوارڈ کی تقریب کے بعد پانچ بجکر 18 منٹ پر حضور انور نے اپنا اختتامی خطاب فرمایا:

تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ احزاب کی آیت 22 کی تلاوت فرمائی اور اس کا ترجمہ بیان فرمایا۔اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

غیر مسلم دنیا یا مغربی دنیا یا ترقی یافتہ دنیا میں جو مسلمانوں کے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں وہ ان کی اسلامی تعلیم کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے زیادہ ہیں اور اس پر بعض مسلمانوں کے اسلام کے نام پر شدت پسند عمل اور دہشت گردی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے عمل نے مزید ان کے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے کہ اسلام ہے ہی دہشت گردی کا مذہب۔ آج اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور اسلامی تعلیم کے بارے میں غلط تاثر کو زائل کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے غلام صادق مسیح موعود اور مہدی معہود کی جماعت کے سپرد کیا ہے۔ پس اس کے لیے ہر احمدی کو بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے لوگ تو پریس اور میڈیا کی خبروں کو سن کر سمجھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں یعنی جو پریس کہہ رہا ہے وہی سوفیصد سچ ہے۔ مذہب سے دلچسپی ویسے ہی عمومی طور پر دنیا کی اکثر آبادی کو نہیں ہے۔ پس ان حالات میں بڑی سخت محنت اور مسلسل کوشش سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو بتانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا اصل مقصد تو عبادت قرار دیا ہے۔ہمارے آقا و مطاع نے ہمیں صرف یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ تمہاری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے، اس لیے عبادت کی طرف ہر مومن کو توجہ کرنی چاہیے اور وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے بلکہ آپ نے اپنی عبادت کے معیار قائم کر کے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں جن کی قبولیت کی سند بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الذی یرک حین تقوم۔ وتقلبک فی الساجدین۔ یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے جب تو کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری بھی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس جس کے دل میں انسانیت کے لیے درد کی یہ کیفیت ہو وہ کیا کبھی ظلم کر سکتا ہے؟ یقیناً نہیں!آپ نے تو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت اور اس کے لیے درد میں زندگی کا ہر لمحہ قربان کیا۔ آپ کی عبادت کی کیفیت دیکھنے کا بعض دفعہ صحابہ کو بھی موقع مل جاتا تھا۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ اس وقت شدتِ گریہ و زاری کے باعث آپ کے سینے سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔ یہ دعائیں کیا تھیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی دعائیں تھیں۔ یہ امت کے لیے دعائیں تھیں۔ یہ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے دعائیں تھیں۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے اس وقت بھی انقلاب پیدا کیا اور صدیوں کے مردے زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد بن گئے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے قبولیت کا درجہ پاتے ہوئے اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو اس بگڑے ہوئے زمانے میں اسلام کی احیائے نو کے لیے بھیجا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس آج یہ ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ خدا تعالیٰ کے حضور اس اسوے پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ سجدے کریں جو صرف ہمارے ذاتی مقاصد کے لیے نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیے ہوں۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانے کے لیے ہوں۔ انسانیت کو اپنے پیدا کرنیو الے خدا کے قریب لانے کے لیے ہوں۔ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کی حالت ہے تو اس بارے میں بھی آپ کے نمونے اعلیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا۔ یعنی اور اللہ پر توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے۔ تو پھر آپﷺ کی زندگی میں ہر موقعے پریہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں بلکہ مرض الموت کے وقت بھی آپ ﷺ کو اس چیز کی فکر تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی حالت میں مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں جس میں ذرا سا بھی اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرنے کا شبہ پیدا ہو سکتا ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس آپ نے سات یا آٹھ دینار رکھوائے۔ آخری بیماری میں فرمایا کہ عائشہ وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا کہ وہ میرے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ وہ صدقہ کر دو۔ پھر حضرت عائشہ کسی کام میں مصروف ہو گئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دوبارہ ہوش آئی تو پوچھا کہ وہ صدقہ کر دیا۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ابھی نہیں کیا۔ آپؐ نے ان کو بھیجا کہ جاؤ ابھی جاؤ اور میرے پاس لے کے آؤ۔ آپؐ نے وہ دینار منگوا کر اپنے ہاتھ پر رکھ کر گنے اور پھر فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب پر کیا توکل ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دینار صدقہ کر دیے لیکن آپ نے دوسروں کو یہ نصیحت فرمائی کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا نبی اور محبوب ہوں ، یہ میرے ساتھ سلوک ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تم توکل بھی کرو لیکن اپنی اولاد کو فقر اور ابتلا سے بچانے کے لیے ان کے لیے اگر تمہارے پاس کوئی جائیداد ہے یا کوئی رقم ہے تو چھوڑ کر جاؤ۔ 1/3 حصہ سے زیادہ کی وصیت کی اجازت نہیں دی اور اللہ تعالیٰ نے اس لیے قرآن کریم میں تفصیل سے وراثت کا طریق بھی بتا دیا لیکن ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ابن آدم کے دل کی ہر وادی میں ایک گھاٹی ہوتی ہے۔ ہر انسان کے دل میں ایک گھاٹی ہے، ایک وادی ہے اور جس کا دل ان سب گھاٹیوں کے پیچھے لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کون سی وادی اس کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اسے ان سب گھاٹیوں سے بچا لیتا ہے۔ پس اسلام دنیا کے کاموں کی بھی اجازت دیتا ہے لیکن رات دن صرف جائیدادیں بنانے اور دنیا کے کاموں میں مبتلا رہنے سے منع کرتا ہے اور بنیادی چیز جس کی طرف توجہ دلاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس پر توکل ہے اور جب یہ ہو تو دنیاوی مشکلات سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر اعلیٰ اخلاق کا ایک وصف شکر گزاری ہے۔ اس وصف کے اعلیٰ معیار کا ہمارے آقا و مطاع کا نمونہ اور اسوہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت اس بات کی تلاش رہتی تھی کہ کس طرح خدا تعالیٰ کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ بنیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ دعا کیا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ! تو مجھے اپنا شکر بجا لانے والا اور بکثرت ذکر کرنے والا بنا دے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا سب سے زیادہ شکر کرنے و الا ہوں اور تیری نصیحت کی پیروی کرنے والا ہوں اور تیری وصیت کو یاد کرنے والا ہوں۔ کیا ہی عاجزی کا مقام ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ شکر گزار یہ دعا کر رہا ہے کہ میں سب سے زیادہ شکر گزار بنوں۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روٹی کے ٹکڑے پر کھجور رکھ کر کھا رہے تھے اور فرماتے تھے یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے اور اس پر شکر گزاری فرما رہے تھے۔اکثر یہ ہوتا کہ سرکے سے یا پانی سے ہی روٹی تناول فرماتے اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہوتے۔ آج کل ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو اعلیٰ کھانا بھی میسر آتا ہے اور پھر بھی ہزار نخرے ہوتے ہیں۔ گھروں میں بعض ناچاکیاں اسی وجہ سے پیدا ہو رہی ہوتی ہیں کہ بیوی نے اچھا کھانا نہیں پکایا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر ایک خلق امانت کی ادائیگی ہے اور عہد کی پابندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا والذین ھم لامٰنٰتِھم وعھدھم راعون۔اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں……روایت میں آتا ہے کہ جب اسلامی فوجوں نے خیبر کو گھیرا تو اس وقت وہاں کے ایک یہودی سردار کا ملازم جو جانور چرانے والا تھا جانوروں سمیت اسلامی لشکر کے علاقے میں آ گیا اور مسلمان ہو گیا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں تو اب مسلمان ہو گیا ہوں، میں بالکل واپس جانا نہیں چاہتا۔ واپس جاؤں گا تومیرے ساتھ ظلم بھی ہو گا۔ یہ بکریاں میرے پاس ہیں ان کا اب میں کیا کروں۔ یہ یہودی کا ریوڑ ہے ان کا مالک یہودی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف پھیر کر ہانک دو وہ خود اس کے مالک کے پاس پہنچ جائیں گی۔ چنانچہ اسی طرح ہوا اور قلعہ والوں نے وہ بکریاں لے لیں۔ یہ ہے وہ اعلیٰ ترین مثال امانت اور دیانت کی کہ جنگ کی صور ت ہے، دشمن کا مال ہاتھ آیا ہے لیکن مسلمان ہونے والے کو پہلا سبق آپ نے یہ دیا کہ ایک مسلمان کا امانت اور دیانت کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے۔ اس مال پر نہ تمہارا کوئی حق ہے نہ ہمارا۔ اسے اس کے مالکوں کو لوٹا دو۔ آج کل کے اس ترقی یافتہ معاشرے میں جنگ کی صورت میں کہیں بھی دنیا میں آپ کو یہ معیار نظر نہیں آئیں گے جو اسلام پر اور اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ اس خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر عہد کی پابندی کا حال ہے کہ دشمن بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آپ ﷺ عہد کے پابند ہیں۔ ہرقل کے دربار میں ابوسفیان کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ آج تک اس شخص نے ہمارے ساتھ بدعہدی نہیں کی۔ پھر صلح حدیبیہ میں جب معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو ایک شخص زنجیروں میں جکڑا ہوا آتا ہے جو مسلمان ہونے کی وجہ سے زنجیروں میں جکڑا گیا ہے اور پناہ طلب کرتا ہے لیکن اس کا باپ جو مسلمان نہیں ہے وہاں موجود ہے ۔ وہ آپ سے کہتا ہے کہ اب ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہمارا کوئی آدمی آپ کے ساتھ نہیں جائے گا۔ اس لیے آپ اسے ساتھ نہیں لے جا سکتے چاہے وہ آپ کی پناہ میں آنے کے لیے بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ شخص بہتیرا شور مچاتا ہے کہ کیا میں کافروں میں واپس کر دیا جاؤں گا تا کہ وہ مجھے تکلیفیں پہنچائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں ہاں اب معاہدہ ہو گیا ہے حالانکہ اس وقت معاہدہ ابھی لکھا جا رہا تھا، شرائط لکھی گئی تھیں لیکن فائنل نہیں تھیں۔ شرائط دستخط ہونے سے پہلے ہی آپﷺ نے فرمایا کہ چونکہ لکھا گیا ہے اس لیے بڑے مقصد کی خاطر اور اس معاہدے کی خاطر تمہیں قربان ہونا پڑے گا لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی فرما دیا، اسے خوشخبری بھی دے دی۔ تم واپس جاؤ، تم چند روز صبر کرو، میں تمہیں خوش خبری دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی پیدا کر دے گا۔ آج میں اس معاہدے کی وجہ سے مجبور ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہم بدعہدی نہیں کرتے۔ تو یہ معیار تھے آپ کے معاہدوں کی پابندی کے۔ آج کل کی دنیا دار حکومتیں تو اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ آج ایک معاہدہ ہوتا ہے اور کل وہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں بھی اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہمارے معاہدوں کی پابندی کے اپنے معیار کیا ہیں۔ اپنی روز مرہ زندگی میں ہمیں اپنی مثالیں دیکھنی چاہئیں۔ اپنی گھریلو زندگی میں بھی اس کی مثال دیکھیں کہ کیا عہدوں کی پابندی ہم کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تو گھریلو زندگی میں بھی عہد کی پابندی کے متعلق فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہو گی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلق قائم کرے پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز بھی دنیا کو بیان کرتا پھرے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ یہ گھٹیا حرکت کرتے ہیں۔ نہایت ذلیل اور کمینی حرکت کرتے ہیں ا ور پھرلوگوں کوصرف زبانی ہی نہیں بتاتے بلکہ وٹس ایپ پر اور دوسرے میڈیا پر جو آج کل میسجز کے ذریعہ سے ٹویٹر کے ذریعہ سے اس بات کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ یقینا ًسب سے بڑے خائن ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور اگر علیحدگیاں بھی ہو جاتی ہیں تو تب بھی یہ حق نہیں ہے کسی کو کہ ایک دوسرے کا راز باہر نکالے۔ یہ بہت بڑی خیانت ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑمیں آنے والی بات ہے یہ۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں ضرور پوچھے گا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر عاجزی ایک بہت بڑا خلق ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما۔اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ لڑتے نہیں، کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہیں ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ فضول باتیں نہیں کرتے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اپنا اسوہ کیا تھا؟ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری بہت زیادہ تعریف نہ کرو جس طرح عیسائی ابن مریم کی کرتے ہیں۔ میں صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ پس تم مجھے صرف اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ پھر دیکھیں کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار انما انا بشر مثلکم ہی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا جس کے بدوں مسلمان مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔۔۔ گھریلو زندگی میں بھی آپؐ کی عاجزی اور گھر والوں کی مدد کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام میں مدد فرماتے تھے۔ آپؐ کپڑے خود دھو لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے تھے۔ خود اونٹ کو باندھتے تھے ۔ پانی لانے والے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے تھے۔ بکری خود دوہتے تھے۔ اپنے ذاتی کام بھی خود کر لیتے تھے۔ خادم سے کوئی کام لیتے تو اس میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے حتی کہ اس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوند ھ لیتے تھے۔ بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر آپؐ نے فرمایا پس تم سیدھے رہو تم سیدھے رہو اور شریعت کے قریب رہو اور صبح اور شام اور رات کے اوقات میں عبادت کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے۔ عبادت کرو اور درمیان کا رستہ اختیار کرو۔میانہ روی ہر معاملے میں ضروری ہے۔ دنیا داری میں نہ پڑ جاؤ۔ دنیا داری کا جائز اختیار دیا ہے اللہ تعالیٰ نے لیکن میانہ روی ہونی چاہیے۔ خدا نہ بھول جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق ادا کرنے ہیں وہاں اس کی طرف توجہ کرو۔ جو کاروبار ہے اس کی طرف توجہ کرو اور اس کے جو حق ہیں وہ ادا کرنے کی کوشش کرو لیکن دنیا داری خدا تعالیٰ کے حق کے مقابلے پہ نہیں ہونی چاہیے۔ دین دنیا پر ہمیشہ مقدم ہونا چاہیے۔ اب یہ جب ہو گا تو آپ نے فرمایا تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کا رحم تمہیں مل جائے گا۔ فضل مل جائے گا۔ پس جہاں اس بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف کا بھی اظہار ہو رہا ہے اور فرمایا کہ جب میرا یہ حال ہے تو تم لوگوں کو کس قدر خدا تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کا رحم مانگنے کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بناتا ہے اور ہمیں یہ نہیں پتا کہ کس ذریعہ سے قبول کیے جائیں گے اس لیے اس رحم اور فضل کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادتوں اور اعلیٰ اخلاق کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے انک لعلٰی خلق عظیم۔ تو خلق عظیم پر ہے اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورے میں اس چیز کے انتہائی کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے … اگر یہ عظیم الشان نبیؐ دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میںآئے جیساکہ یونس اور ایوب اور مسیح ابن مریم اور ملاکی اور یحٰی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اس نبیؐ کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اللّٰھم صل وسلم وبارک علیہ واٰلہ واصحابہ اجمعین واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔

آخر پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کامل نبی کی امت میں آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اس خوبصورت اور روشن چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کر کے دنیا کے اندھیروں کو دور کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…حضور انور کا یہ خطاب چھ بجکر 18 منٹ تک جاری رہا۔

خطاب کے آخر پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button