سارے مسائل کا واحد حل
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘پس وہ ما ئیں جو خدا کی سمت حر کت کر رہی ہوں اُن کے اندر پا ک تبدیلیاں پیدا ہو تی ہیں ۔جب میں نے اس مضمو ن پر غور کیا تو میرے بہت سے مسا ئل حل ہو گئے ۔میں آپ کو یہ تا کید کر تا ہوں کہ آپ اپنا خیال ر کھیں کہ مغربی تہذ یب یا دوسری تہذیبوں کی رَو میں نہ بہ جا ئیں ۔یہ کر یں اور وہ کریں اور ایسی پا بند یا ں ا ختیا ر کریں ۔یہ سا ری نصیحتیں ہیں کبھی اثر کر جا تی ہیں کبھی لوگ ان سے اَور ز یا دہ بد ک جا تے ہیں اور پیچھے ہٹ جا تے ہیں لیکن…… اگر آپ خدا تعالیٰ کی محبت میں مبتلاہو جا ئیں تو سا رے معا ملے حل ہو جاتے ہیں ۔پھر کسی اَور نصیحت کی ضرورت با قی نہیں ر ہتی۔پھر خدا خو د آپ کو سنبھا ل لے گا ،وہ خو د آپ کے کام بنائے گا اور کون سی راہ اس طرف جا تی ہے اور کون سی راہ اس سمت سے مخالف چلتی ہے ۔پھر کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے محبوب کی راہ چھوڑکر اس کے مخا لف سمت چلنے والی راہوں پر قدم ما رے پھر تو قربا نیوں کا مسئلہ بھی حل ہو جا تا ہے، پا کیز ہ ز ندگی کا مسئلہ بھی حل ہو جا تا ہے۔معاشرہ کے اختلا ف کے سب مسا ئل بھی حل ہو جا تے ہیں ۔سا رے مسا ئل کا ایک حل ہے اور وہ حل یہی ہے کہ خدا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اس کے نتیجہ میں جو نسلیں پیدا ہو ں گی وہ یقیناً خدا والی نسلیں بنیں گی لیکن اُس کے آثا ر ظا ہر ہو نے چا ہئیں اور وہ آثار دو طرح سے ظا ہر ہو تے ہیں اوّل یہ کہ جو انسان خدا کی سمت میں حر کت کر تا ہے اس کے اندر پا ک تبد یلیاں پیدا ہو نی شروع ہو جاتی ہیں ،و ہ غیرکی بجا ئے اپنی ذا ت کا شعور حا صل کر نا شروع کر دیتا ہے اس کو پھر اس سے کو ئی غر ض نہیں ر ہتی کہ میرے ہمسائے کے گھر خدا ہے یا نہیں اس کو یہ فکر لا حق ہو تی ہے کہ میرا گھر اتنا صا ف ہے یا نہیں کہ اس میں خدا اُترآئے ۔جب آپ کے گھر کو ئی معزز مہمان آنے لگتا ہے تو کبھی یہ نہیں ہو ا کہ آپ گھر چھو ڑکر دوسرے گھر وں میں بھا گ جا ئیں کہ تم صفا ئیا ں شروع کر دو۔مہمان آپ کے گھر آنا ہے کو ئی اور اپنے ہاں صفا ئیا ں وہ کیو ں کرے گا۔جب آپ غیروں کو نصیحت کر تی ہیں تو آپ عملاًیہی بات کر رہی ہوتی ہیں ۔آپ یہ تمنا کرتی ہیں کہ خدا آپ کے گھر اُترے اور صفا ئیاں غیروں کے گھروں کی کروا ئی جا رہی ہیں ۔یہ سوچ ہی نہیں رہی ہیں کہ مہمان تو آپ کا آنے والا ہے ۔پس جب آپ کو یہ خیا ل پیدا ہو گا کہ کو ن مہمان آپ کے دل میں اُتر نے والا ہے تو اس شعور کے ساتھ ہی آپ کو اتنی برا ئیاں وہا ں د کھا ئی د ینے لگیں گی کہ جتنے دا غ صا ف کر یں گی کو ئی نہ کو ئی نیا دا غ ظا ہر ہو جائے گا۔اور انسان جس کو یہ تجربہ ہو اس کو یہ علم ہے کہ جتنی آپ گھر کی صفا ئی کریں کو ئی نہ کو ئی ایسا کو نہ کُھدراد کھا ئی د یتا ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ابھی صفا ئی کامل نہیں ہو ئی ۔اور جب اس کو صا ف کر دیتی ہے تو بعض دوسری جگہیں جو پہلے صا ف د کھا ئی د یتی تھیں اس کے مقابل پر دا غدار د کھا ئی د ینے لگتی ہیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔’’
(حوّا کی بیٹیاں اور جنّت نظیر معا شرہ صفحہ نمبر 23تا 24)