الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت مولوی نورالدینؓ میں مشابہت
ماہنامہ ‘‘مشکوٰۃ’’ قادیان جون 2011ء میں مکرم برہان احمد ظفر صاحب کی جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر کی جانے والی ایک تقریر شائع ہوئی ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ کے حوالے سے چند مشترک امور پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ اوّلین اور آخرین کے درمیان اُس کمال درجے کی مشابہت کا ایک پہلو پیش کیا جاسکے جس کا اشارہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے۔
قریشی نسب
حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت حکیم مولوی نورالدین ؓ کا تعلق نسبی طور پر خاندانِ قریش سے تھا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کا نسب نامہ 34ویں پشت پر حضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کا شجرۂ نسب ایک مشہور قریشی سردار کعب بن لوئی پر جاکر آنحضرت ﷺ کے شجرۂ نسب سے مل جاتا ہے۔ اس طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بھی اُسی شمع نُور کی ایک کرن دکھائی دیتے ہیں جسے قرآن کریم نے سراج منیر قرار دیا ہے۔
غیراللہ سے نفرت
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ بچپن سے ہی پاکیزہ فطرت تھے اور بت پرستی سے متنفّر تھے۔ صرف چار سال کی عمر میں آپ کے والد ابوقحافہ آپ کو ایک بت خانہ میں لے گئے اور ایک بڑے بُت کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ تمہارا خدا ہے اس کو سجدہ کرو۔ آپؓ نے بُت کو مخاطب کرکے کھانا اور کپڑا مانگا اور جواب نہ ملنے پر کہا کہ مَیں تجھے پتھر مارتا ہوں اگر تُو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا اور ساتھ ہی ایک پتھر مار دیا۔ اس پر ابوقحافہ نے غضب ناک ہوکر آپؓ کے منہ پر ایک تھپڑ مارا اور گھسیٹتے ہوئے اُمّ الخیرؓ کے پاس لے گئے جنہوں نے آپؓ کو گلے سے لگایا اور ابوقحافہ سے فرمایا کہ ‘‘اِسے اس کے حال پر چھوڑ دو، جب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔’’
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا بھی خداتعالیٰ پر کامل یقین ایسا تھا کہ کبھی غیراللہ کا خیال بھی آپؓ کے دل میں نہ گزرا۔ چنانچہ جب آپؓ پنڈدادنخان میں ہیڈماسٹر تھے تو ایک انسپکٹر آیا اور سکول کا معائنہ کرنے کے بعد کہنے لگا کہ مَیں نے سنا ہے کہ آپ بڑے لائق ہیں اور نارمل وغیرہ پاس کرکے بہت عمدہ اسناد حاصل کی ہیں، شاید اسی باعث سے آپؓ کو اس قدر ناز ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہم اس ایک بالشت کے کاغذ کو خدا نہیں سمجھتے اور پھر وہ سند منگواکر اُسی وقت پھاڑ کر پھینک دی۔ یہ دیکھ کر انسپکٹر نے اپنے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا کیونکہ اُس کے خیال میں اُس کے الفاظ کے نتیجے میں ہی آپؓ نے ایک ایسا عمل کردیا تھا جو بظاہر نقصان دہ تھا۔
قبول کرنے میں پہل
حضرت ابوبکرؓ زمانۂ جاہلیت میں ہی اپنے پاکیزہ اخلاق کی وجہ سے اندھیرے میں نُور کی حیثیت رکھتے تھے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں آپؓ کو اُس ذات کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا جس نے سراج منیر بننا تھا۔ دونوں کے مزاج اور خصائل میں حیرت انگیز مشابہت تھی کہ آپؓ کے اخلاق آنحضورﷺ کے اخلاق کا عکس جمیل دکھائی دیتے تھے۔ اور سینے میں نُور ایسا کامل تھا کہ آنحضورﷺ کے دعویٰ کو سنتے ہی بلاتردّد ایمان لے آئے۔
اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ ریاست جمّوں سے ایک اشتہار دیکھ کر اشتیاقِ ملاقات میں قادیان پہنچے اور حضور علیہ السلام کو دیکھتے ہی دل میں کہا کہ یہی مرزا ہے تو اس پر مَیں سارا ہی قربان ہو جاؤں۔ پھر بیعت لینے کے لیے عرض کیا تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ مَیں اللہ کے حکم کے بغیر اس معاملہ میں کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتا۔ اس پر آپؓ نے عرض کیا کہ پھر حضورؑ وعدہ فرمائیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آجائے سب سے پہلے میری بیعت لی جائے۔ حضورؑ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ 23؍مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے سب سے پہلے حضورؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔
حضورؑ نے آپؓ کے بارہ میں ‘‘ازالہ اَوہام’’ میں فرمایا: ‘‘انہوں نے ایسے وقت میں بلاتردّد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں…۔’’
اسی طرح حدیث مبارکہ ہے: مَیں نے تم لوگوں سے کہا کہ مَیں تم سب کی طرف رسول ہوں تو تم نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے مگر ابوبکر نے تصدیق کی۔
مالی قربانی
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز آنحضورﷺ کے صدقہ کرنے کے حکم پرمَیں نے اپنے دل میں کہا کہ حضرت ابوبکرؓ سے آج کے دن مَیں سبقت لے جاسکتا ہوں۔ چنانچہ مَیں اپنا آدھا مال لے کر آیا تو آنحضورﷺ کے پوچھنے پر ‘گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟’عرض کیا کہ آدھا مال گھر پر چھوڑ آیا ہوں۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنا سارا مال لے آئے اور آنحضورﷺ کے یہ دریافت کرنے پر کہ ‘اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟’ عرض کیا کہ اُن کے لیے اللہ اور اللہ کے رسولؐ کو باقی چھوڑا ہے۔ تب مَیں نے کہا کہ مَیں ان سے کبھی بھی کسی شَے میں سبقت نہیں لے جاسکتا۔
حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بارے میں فرمایا کہ: ‘‘اُس نے اپنا تمام چیدہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیا ہے۔’’نیز خود آپؓ نے بھی حضورؑ کی خدمت میں اپنے خطوط میں ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ‘‘میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپؑ کا ہے۔ حضرت پیرومُرشد! مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مُراد کو پہنچ گیا۔’’
پھر حدیث مبارکہ ہے: ‘مجھے کسی شخص کے مال سے ایسا فائدہ نہیں پہنچا جیسا کہ ابوبکرؓ کے مال سے’۔ اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ‘‘… مَیں نے دین کی نصرت کی راہوں میں اس کو سابقین میں سے پایا اور مجھ کو کسی شخص کے مال نے اس قدر نفع نہیں پہنچایا جس قدر کہ اس کے مال نے جو کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دیا اور کئی سال سے دیتا ہے’’۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے ذریعہ معاش تجارت سے بے شمار روپیہ کمایا اور اسلام کی خدمت میں وقف کیے رکھا۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بھی اپنے پیشہ حکمت سے بے شمار روپیہ کمایا اور اشاعتِ اسلام میں پانی کی طرح بہادیا۔
جہاد
آنحضورﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام معرکوں میں شامل ہوکر دشمنِ اسلام کے ہر وار کا دفاع کرتے رہے۔ جبکہ دورِ آخرین میں حدیث مبارکہ ‘‘یَضَعُ الْحَرْب’’ کی روشنی میں حضرت مسیح موعودؑ نے جس قلمی جہاد کا آغاز فرمایا تو اس حوالہ سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضورؑ سے پوچھا کہ آپؑ کی مریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہیے کہ خداتعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو؟ آپؑ نے فرمایا کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں۔
چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے پہلے ‘‘فصل الخطاب لمقدمۃ اھل الکتاب’’ تصنیف فرمائی۔ اس کے بعد آریوں کے اعتراضات کے جواب میں ‘‘تصدیق براہین احمدیہ’’ لکھی۔ اور پھر ایک مُرتد کے اعتراضات کے جواب میں کتاب ‘‘نورالدین’’ تصنیف فرماکر اپنے آقا علیہ السلام کے قلمی جہاد میں سلطان نصیر ہونے کا حق ادا کردیا۔
عشق قرآن
حضرت ابوبکرؓ کو قرآن کریم سے عشق تھا ۔ چنانچہ ابن دغنہ کے پناہ دینے کے بعد آپ ؓ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چبوترہ سا بطور مسجد بنالیا۔ آپؓ وہاں نماز پڑھتے اور قرآن کریم کی تلاوت ایسے سوز سے کرتے کہ سننے والے متأثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کو تفسیرالقرآن کا ملکہ بھی عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ حدیث مبارکہ ہے: ‘‘جو وحی مجھ پر نازل کی گئی مَیں نے اُس کو ابوبکر کے سینے میں نچوڑ دیا ہے’’۔ خلیفہ بننے کے بعد آپؓ نے جمعِ قرآن کا اہم ترین فریضہ نہایت مشقّت اور تدبّر سے سرانجام دیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ‘‘جس طرح اس کے دل میں قرآن کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے ایسی محبت اَور کسی کے دل میں نہیں دیکھتا۔اور اس کی پیشانی میں آیاتِ مبین کی محبت چمکتی ہے اور اس کے دل میں خداتعالیٰ کی طرف سے نُور ڈالے جاتے ہیں…۔’’
اطاعتِ امام
حضرت ابوبکرؓ رسولِ خداﷺ کی محبت میں ایسے محو تھے کہ آنحضورﷺ کی ہر بات پر فوری لبیک کہتے۔ ایک دفعہ مکّہ والوں کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرنے لگے تو آنحضورﷺ کے ارشاد فرمانے پر رُک گئے اور پھر کفّار کی ہر تکلیف برداشت کی۔ جب مال پیش کرنے کی تحریک ہوئی تو سارا مال آپؐ کے قدموں میں ڈال دیا۔ کسی غلام کو آزاد کرانے کی آنحضورﷺ نے خواہش ظاہر کی تو فوراً اُس غلام کو خرید کر آزاد کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ آنحضورﷺ کو آپؓ سے بہت محبت تھی جس کا ذکرکئی احادیث میں ملتا ہے۔
اطاعتِ امام کے حوالے سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا حال بھی ایسا تھا کہ بھیرہ میں اپنا مکان اور مطب بنوانا شروع کیا۔ اسی اثنا میں لاہور آنا ہوا تو ایک روز کے لیے قادیان بھی چلے آئے۔ ایک یکّہ والے سے واپسی کی شرط پر کرایہ مقرر کیا۔ جب قادیان پہنچ کر حضورعلیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو حضورؑ نے فرمایا کہ مولوی صاحب! اب تو آپ فارغ ہیں۔ آپؓ نے بلا تأمل عرض کیا کہ ہاں حضور! اب تو مَیں فارغ ہی ہوں۔ یہ سُن کر آپؓ نے حضورؑ سے واپسی کی اجازت لینے کی بجائے یکّہ والے کو ہی واپس کردیااور قادیان میں ہی ٹھہر گئے۔ دوسرے دن حضورؑ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تکلیف ہوگی ایک بیوی کو بلالیں۔ آپؓ نے بیوی کو بلانے کا پیغام بھیرہ بھیجتے ہوئے لکھ دیا کہ آپؓ کے زیرتعمیر مکان کا کام روک دیا جائے۔ چند دن بعد حضورؓ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے آپ اپنا کتب خانہ یہیں منگوالیں۔ چنانچہ آپ نے کتب بھی منگوالیں۔ چند روز بعد حضورؑ نے فرمایا کہ دوسری بیوی کو بھی بلالیں وہ آپ کی زیادہ مزاج شناس ہے۔ چنانچہ اُسے بھی بلالیا۔ اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ مولوی صاحب! اب بھیرہ کا خیال دل سے نکال دیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ پھر واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا، پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔
بے مثال اطاعت کا نمونہ حضرت مولوی صاحبؓ کی ساری زندگی میں غیرمعمولی طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپؓ مطب میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا: حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپؓ اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اُٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جُوتا گھسیٹتے جاتے تھے کہ حضورؑ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔خلیفہ بننے کے بعد اکثر فرمایا کرتے کہ نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اُس کے پیچھے یوں دیوانہ پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جُوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔
حضورؑ نے اسی لیے آپؓ کے بارہ میں فرمایا تھا کہ ‘‘میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔’’
انتخابِ خلافت
آنحضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کا نام خلافت کے لیے پیش فرمایا لیکن سب نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر اتفاق کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اور حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ کے بارہ میں فرمایا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرلو اور مَیں اس کی بیعت کرلوں گا۔ لیکن جماعت کے تمام عمائدین نے آپؓ ہی کو خلافت کے لیے منتخب کیا۔
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ‘‘اے لوگو! خدا کی قسم ، نہ مَیں کبھی دن میں اور نہ رات میں امارت کا خواہاں تھا … البتہ مجھے خوف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ برپا ہوجائے اس لیے اس بار گراں کو اٹھانے کے لیے تیار ہوگیا۔’’
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بھی بیعتِ خلافت لینے سے قبل جو تقریر فرمائی اس میں فرمایا: ‘‘میری پچھلی زندگی پر غور کرلو مَیں کبھی امام بننے کا خواہش مند نہیں ہوا۔ مولوی عبدالکریم مرحوم امام الصلوٰۃ بنے تو مَیں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا۔ …’’
حضرت ابوبکرؓ نے اپنی وفات سے پہلے تمام قرض چکادیا اور اس کا اعلان کردیا۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بھی وفات سے قبل اپنا تمام قرض چُکاکر اپنی وصیّت میں اس کو درج فرمادیا۔
حضرت ابوبکرؓ نے وفات سے قبل ہدایت دی کہ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد میرے مال میں ایک اونٹنی، ایک غلام اور اپنی چادر کا جو اضافہ ہوا ہے یہ چیزیں میرے جانشیں کے سپرد کردی جائیں گویا کچھ بھی بیت المال سے اپنے گھر میں رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے بھی اپنی وصیت میں یہ بیان فرمایا کہ بیت المال سے میری اولاد کے لیے زکوٰۃ، صدقہ و خیرات یا یتامیٰ و مساکین فنڈ سے روپیہ نہ دینا۔اشد ضرورت کے لیے قرضۂ حسنہ دیا جاسکتا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ کی عمر بوقت وفات 63 سال تھی جو آنحضورﷺ کی عمرمبارک کے برابر تھی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی عمر 74 سال تھی یعنی حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کے برابر۔
………٭………٭………٭………
ہفت روز ‘‘بدر’’ 4؍اگست 2011ء میں شامل اشاعت مکرم حبیب الرحمٰن ساحر صاحب کی (شہیدانِ لاہور کی یاد میں کہی جانے والی) ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
نہیں ! نہیں ! کہ مَیں صد چاک سو گلاب مرے!
ہیں زیب خُلدِ بریں پاک سو گلاب مرے
لہُو سے اُن کے فروزاں نمودِ صبح مری!
بہشت و عرش کی اِملاک سو گلاب مرے!
‘‘لگے ہیں پھول مرے بوستاں میں’’ لامحدود!
ہے بیج گرچہ پئے خاک سو گلاب مرے!!
گزید شب ہیں تمہارے خدنگ چشم تمام!
سفیر رحمت لولاکؐ سو گلاب مرے!!
غُبارِ وہم و گماں ہیں تمہارے خواب و خیال!
ورائے سرحدِ ادراک سو گلاب مرے!!
زکوٰۃ عِشق ادا ہو بہ چشم نم یارو!
حذر ! حذر ! کہ ہیں نمناک سو گلاب مرے!!
وہ سابقیں ہیں فقد نحبہ کا تاج … زہے!
یہ لاحقیں ہیں فمن ینتظر کی لاج … زہے!!