متفرق مضامین

تقسیم برِّ صغیر کے وقت پنجاب کے سرحدی کمیشن میں جماعت احمدیہ کا موقف

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

گذشتہ چند ہفتوں سے برِ صغیر کے افق پر ایک بار پھر کشیدگی کے بادل چھائےہوئے ہیں۔اور اس کشیدگی کے ساتھ 1947ءمیں ہونے والے تاریخی واقعات کا تذکرہ بھی ہو رہا ہے۔ یہ تاریخی واقعات تو دہرائے جا رہے ہیں اور ان پر بحث بھی ہو رہی ہے لیکن بالکل اس طرح جیسے فیض نے کہا تھا؎

کِھل گئے زخم کوئی پھول کِھلے یا نہ کھِلے

یعنی بجائے مسائل کا حل نکالنے کے پرانے زخم تازہ ہو رہے ہیں۔جہاں مسئلۂ کشمیر کا ذکر ہو اور تقسیم ہند کے مراحل کا ذکر ہو ، وہاں لازمی طور پر اس کمیشن کی کارروائی کا ذکر بھی آتا ہے جس کے سپرد صوبہ پنجاب کی تقسیم تھی ۔ایک لحاظ سے پنجاب کی تقسیم کا مسئلہ، کشمیر کے مسئلے کا پیش خیمہ بنا کیونکہ اگر دونوں میں سے کسی ملک کو کشمیر کی ریاست تک کا راستہ ملنا تھا تو ہی اس کے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اس ریاست کو اپنے ساتھ ملحق کر سکے۔ جماعت ِاحمدیہ کا پنجاب کے سرحدی کمیشن کی کارروائی سے گہرا تعلق تھا۔ایک حوالہ تو یہ ہے کہ ضلع گورداسپور اور تحصیل بٹالہ کے بارے میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اس نے پاکستان میں شامل ہونا ہے یا ہندوستان میں تو ہی یہ طے ہونا تھا کہ قادیان کس ملک میں شامل ہو گا۔ اور اس کمیشن کے سامنے جماعت ِاحمدیہ نے اپنا میمورنڈم بھی پیش کیا تھا۔یہ میمورنڈم مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا۔ اور دوسرا حوالہ یہ ہے کہ پنجاب کے سرحدی کمیشن کے روبرو مسلم لیگ کا مقدمہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی صلح کی کوششیں

سب سے پہلے تو اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ِ احمدیہ ہمیشہ صلح جوئی ، امن اور بھائی چارے کے قیام کی داعی رہی ہے۔ اور یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جب ایک تنازعہ پیدا ہو رہا ہو تو دونوں فریقوں کے لیڈروں کو بار بار مذاکرات کے ذریعہ اس کا حل نکالنا پڑتا ہے۔ اگر اس فرض کو ادا نہ کیا جائے یا کسی وجہ سے لیڈر آپس میں صلح صفائی کی صورت نہ نکال سکیں تو بعض مرتبہ کئی نسلوں کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔اور بد قسمتی سے برصغیر میں اب تک یہ ہو رہا ہے ۔1946ءمیں مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی ۔ اور ہندوستان کی آزادی کے دن قریب آ رہے تھے۔اور بجا طور پر یہ خدشہ بڑھ رہا تھا کہ اگر یہ اختلافات دور نہ ہوئے اور افہام و تفہیم سے مسائل حل نہ کیےگئے تو یہ جھگڑے کئی دہائیوں تک چلتے جائیں گے۔ دارالحکومت ہونے کی وجہ سے اُس وقت دہلی تمام سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ستمبر 1946ءمیں دہلی تشریف لے گئے۔اوروہاں مختلف لیڈروں سے حضورؓ کی ملاقات بھی ہوئی ۔ کانگرس کے لیڈروں میں مولانا ابوالکلام آزاد صاحب، پنڈت جواہر لال نہرو صاحب اور گاندھی جی کی حضوؓر کے ساتھ ملاقات ہوئی اور ان کے علاوہ سر فیروز خان نون اور نواب چھتاری بھی حضورؓ سے ملنے آئے۔اور بعض لیڈروںکو حضور نے خطوط لکھے۔ ان میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی شامل تھے۔

اُ س وقت بھوپال کے مسلمان نواب بھی بڑے خلوص سے اس بات کی کوششیں کر رہے تھے کہ ہندوستان کی ان دونوں پارٹیوں میں صلح کی کوئی صورت نکل آئے اور اس سلسلہ میں اُن کی گاندھی جی سے بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔اور گاندھی جی نے ایک یادداشت پر دستخط بھی کر دیے لیکن اس کے بعد کانگرس نے اس مفاہمت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اُس وقت حضور ؓکس سمت میں کوششیں فرما رہے تھے اس کا اندازہ اُس گفتگو سے لگایا جا سکتا جو حضور نے گاندھی جی سے فرمائی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“میں مسٹر گاندھی سے بھی ملا ۔میرا منشا تھا میں ان سے تفصیل سے بات کروں گا۔اور انہیں بتائوں گاکہ آپس کا تفرقہ ٹھیک نہیں۔ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ وہ چھوڑ دیں اور کچھ لیگ چھوڑ دے۔تاکہ ملک کی بد امنی خطرناک رنگ اختیار نہ کر لے۔ میں نے ان سے کہا کہ لڑتے آپ ہیں لیکن آپ لوگوں کی جان پر اس کا وبال نہیں بلکہ ان ہزاروں ہزار لوگوں پر ہے جو قصبوں میں رہتے ہیں یا دیہات میں رہتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی کو نہیں سمجھتے۔وہ ایک دوسرے کو ماریں گے ، ایک دوسرے کو لوٹیں گے اورایک دوسرے کے گھروں کو جلادیں گے۔جیسے جھگڑا لیگ اور کانگرس کا تھا۔لیکن مسجد اور لائبریری ڈھاکہ میں ہماری جلا دی گئی۔حالانکہ نہ ہم لڑے نہ ہم بد امنی پیدا کرنا جائز سمجھتے ہیں۔مگر وہاں کے ہندوئوں نے ہماری مسجد اور ہماری لائبریری کو جلا کر یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے بڑا تیر مارا ہے۔اور یہ خیال کر لیا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جب اس قسم کے اختلاف پیدا ہوں تو انسانی عقل ماری جاتی ہے۔ اور سیاہ اور سفید میں فرق کرنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔غرض گاندھی جی پر میں نے یہ بات واضح کی اور انہیں کہا کہ آپ کو اس بارہ میں کچھ کرنا چاہیے۔گاندھی جی نے اس کا جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ یہ کام آپ ہی کر سکتے ہیں میں نہیں کرسکتا۔”

[الفضل 13 ؍نومبر1946ءصفحہ5]

ان حالات میں بھی جب بسا اوقات صلح کرانے والے شخص کو گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے، جماعت ِاحمدیہ کی طرف سے مفاہمت اور صلح کرانے کی کوشش ہوتی رہی۔دوسری طرف اُسی وقت مجلس ِاحرار اور جمعیۃ العلماء کی طرف سے ایسے تبصرے کیے جا رہے تھے جو کہ صورت ِحال کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہے تھے۔چنانچہ اس بارے میں 18؍اکتوبر 1946ءکو الفضل میں ایک اداریہ بھی شائع ہوا۔

اس اداریہ میں اس رویے کی مذمت کر کے اس کو درست کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

[الفضل23؍ستمبر،11؍اکتوبر،12؍اکتوبر،14؍اکتوبر،15؍اکتوبر، 16؍اکتوبر1946]

صلح کی نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جن خدشات کا اظہار فرمایا تھا وہ درست نکلے ۔ آزادی کے وقت تک کانگرس اور مسلم لیگ میں مفاہمت اور صلح کا ماحول نہ پیدا ہوا۔ آزادی کے وقت پنجاب کی زمین خون سے رنگ دی گئی ۔ اتنی خون ریزی ہوئی جس کی مثال پنجاب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، تاریخ کی بدترین نقل ِمکانی ہوئی اور نتیجہ یہ کہ لاکھوں گھر اجڑ گئے۔

جون 1947ءمیں وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ برطانوی حکومت مقامی ہندوستان کے نمائندوں کو اقتدار سپردکر کے رخصت ہو جائے گی ۔ اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کیا جائے گا۔جو مسلمان اکثریت کے علاقے پاکستان کے علاقے سے ملے ہوں گے وہ پاکستان کا حصہ بنیں گے اور باقی علاقے ہندوستان کا حصہ بنیں گے۔اور یہ تقسیم کرتے ہوئے ‘دیگر عوامل ’کو بھی مدِ نظر رکھا جائے گا۔اسی وقت جماعت ِاحمدیہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پنجاب کا صوبہ ہر لحاظ سے ایک یونٹ ہے۔ دوسرے صوبوں کی طرح اسے بھی تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔اور وائسرائے کو اس مضمون کی تار بھی دی گئی۔پنجاب کی تقسیم کے لیے بننے والے کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف تھے۔دو جج کانگرس کے اور دو جج مسلم لیگ کے نامزد کردہ تھے۔

تقسیم ِ پنجاب کے کمیشن کے روبرو مسلم لیگ کا موقف

کانگرس کا مقدمہ جس ٹیم نے پیش کیا اس کی قیادت سیتل واڈ صاحب کر رہے تھے جو بھارت کے پہلے اٹارنی جنرل بنے۔اور مسلم لیگ کی طرف سے دلائل حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے پیش کیے تھے اور ان کی مدد ملک فیروز خان نون صاحب نے کی۔ جہاں تک مسلم لیگ کے میمورنڈم کا تعلق ہے تومسلم لیگ کے میمورنڈم میں یہ اصول بیان کیا گیا تھا کہ یہ فیصلہ کہ کون سی تحصیل کس ملک میں شامل ہونی چاہیے، یہ دیکھ کر ہونا چاہیے کہ کس تحصیل کی اکثر آبادی کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتی ہے۔اور ‘دیگر عوامل ’کو محض سرحد میں معمولی ردو بدل کے لیے زیر غور لایا جائے، ا س سے زیادہ اسے وقعت دینا اور اس کی بنا پر وسیع علاقے کسی ملک کے حوالے کردیناجمہوری اصولوں کے خلاف ہوگا۔اور اس میمورنڈم کے آخر میں یہ موقف بیان کیا گیا تھا کہ پنجاب کی مسیحی برادری اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ان کا مفاد اس بات میں ہے کہ پنجاب کا زیادہ سے زیادہ حصہ پاکستان میں شامل ہو جائے۔ اس لیے ان کی تعداد کو بھی پاکستان کے حامیوں میں شامل کرنا چاہیے۔اس سلسلہ میں تحصیل اجنالہ ، فیروز پور، جالندھر اور زیرہ کے اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے کہ مسلمانوں اور مسیحی برادری کی آبادی مل کر اکثریت کو مزید مضبوط کر دیتی ہے۔

کانگرس اور سکھ احباب کا موقف

جب سیتل واڈ صاحب اور ان کی ٹیم نے کانگرس کا موقف پیش کیا تو واضح کر دیا کہ صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ کس ضلع میں کس کی آبادی زیادہ ہے۔ نہ یہ دیکھنا کافی ہے کہ ان اضلاع کے منتخب نمائندوں نے ابھی کس ملک میں شامل ہونے کے حق میں رائے دی ہے۔ انہوں نے کانگرس کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ گورداسپور، لاہور، شیخوپورہ،گوجرانوالہ،لائل پور(موجودہ فیصل آباد)، منٹگمری (موجودہ ساہیوال)، اور سیالکوٹ کے اضلاع بھی بھارت میں شامل کیے جائیں۔ اور یہ سب اضلاع مسلمان اکثریت کے تھے۔اور اس سے بڑھ کر یہ مطالبہ پیش کیا کہ دریائے چناب کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد بنانا مناسب ہو گا ور نہ ہمیں بہت سی دفاعی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ اگر نقشہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان اضلاع کو نکالنے کے بعد پاکستان کے حصہ میں پنجاب کا بہت تھوڑا رقبہ آتا تھا۔ کشمیر کو علیحدہ کرنے کامنصوبہ اُس وقت تک تو بہر حال بن ہی چکا تھا۔اس صورت ِحال کے نتیجہ میں پاکستان کا قائم رہنا بھی مشکل ہو جانا تھا کیونکہ اُس وقت بہاولپور اور قلات سمیت کسی ایک مسلمان ریاست نے بھی پاکستان سے الحاق کاا علان نہیں کیا تھا۔

البتہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کانگرس نے کیا دلائل پیش کیے تھے کہ کیوں یہ مسلمان اکثریت والے اضلاع بھارت کا حصہ بنا دیے جائیں اور کیوں یہ نہ دیکھا جائے کہ ان کی اکثریت کس ملک میں شامل ہونا چاہتی ہے؟ مسٹر سیتل واڈ کا نظریہ یہ تھا کہ آخری دو مردم شماریاں قابل ِاعتبار نہیں کیونکہ ان میں پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ اگر ایسا تھا تو پھر سارا انتخابی عمل ہی قابل ِاعتبار نہیں تھا کیونکہ وہ ان ہی مردم شماریوں کی بنا پر ہوا تھا۔ایک اَور نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ سکھوں کا ایک ملک میں جمع ہونا ضروری ہے اور وہ پاکستان میں نہیں رہ سکتے۔ مگر جن اضلاع کا وہ ذکر کر رہے تھے ان میں مسلمانوں کی تعداد سکھ احباب سے بہت زیادہ تھی۔ اسی کلیہ کے تحت مسلمانوں کا بھی ایک ملک میں رہنا ضروری تھا۔ کانگرس کے میمورنڈم میں یہ دلائل بلکہ تفصیلی ضلع وار اعداد و شمار پیش کیے گئے تھے کہ اگرچہ ان اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ان اضلاع میں ٹیکس اورسیلز ٹیکس ہندو زیادہ دے رہے ہیں اور زیادہ جائیدادوں اور زمینوں اور کاروباروں کے مالک تو ہندو ہیں۔ ان کی نسبت مسلمانوں کا ٹیکس بھی کم ہے اورجائیدادیں اور زمینیںبھی۔ اس لیے ان اضلاع کو بھارت کا حصہ بنانا چاہیے۔ جب لاہور کے متعلق بات ہوئی کہ اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے کہ بھارت میں تو کانگرس کی طرف سے ان دلائل کے علاوہ یہ دلائل پیش کیے گئے کہ لاہور میں زیادہ تر بنک آفیسر تو مسلمان نہیں ہیں اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسے پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان میں شامل ہونا چاہیے۔ اور تعلیمی ادارے زیادہ غیر مسلموں کے ہیں۔اور لاہور میں ریلوے کی ورکشاپ بھی ہے ۔ اگر یہ ورکشاپ پاکستان میں چلی گئی تو بھارت کے پاس پنجاب میں کوئی ریلوے ورکشاپ نہیں ہو گی۔ اس لیے بھی لاہور کو بھارت میں شامل ہونا چاہیے، باوجود اس کے کہ لاہورکی اکثریت پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ ضلع گورداسپور میں بھی مسلمانوں کی چند فیصد کی اکثریت تھی۔ اس کے بارے میں کانگرس نے یہ دلیل بھی پیش کی کہ کانگڑہ اور امرتسر کے درمیان ریلوے لائن کٹ جائے گی، اس لیے اس ضلع کو بھی بھارت کے حوالےکردو۔کانگرس کے بعد سکھوں کا میمورنڈم اس سے بھی بڑھ کر تھا بلکہ اس میں مسلمانوں کے بارے میں ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ اس میں ایک یہ دلیل بھی پیش کی گئی تھی کہ پنجاب میں مسلمانوں کی زیادہ تر تعداد فقیروں، جولاہوں، موچیوں، کمہاروں ، چوہڑو ں چماروں ، ترکھانوں، تیلیوں، نائیوں، لوہاروں ، دھوبیوں، قصائیوں اور میراثیوں پر مشتمل ہے اور ان کی زمین میں جڑیں نہیں ہیں۔ اور ان کے متعلق اعداد و شمار بھی پیش کیےگئے۔ جبکہ ہندو اور سکھ آبادی میں اس قسم کے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان کی زمین میں جڑیںمضبوط ہیں۔قطع نظر اس بات کہ یہ ایک خلاف ِعقل دعویٰ تھا یہ پڑھ کر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ایک آدمی اور ایک ووٹ کا اصول اور برابری کے سبق سب کیا ہوئے؟

جماعت ِ احمدیہ کا میمورنڈم کیا تھا؟

اب یہ جائزہ پیش کیا جاتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کے میمورنڈم میں کیا موقف پیش کیا گیا تھا؟ اس میمورنڈم میں اس بات نشاندہی کی گئی تھی کہ قادیان اس ضلع کا حصہ ہے جو کہ مسلم اکثریت کا ضلع ہے، اس تحصیل کا حصہ ہے جو کہ مسلم اکثریت کی تحصیل ہے۔جس ذیل ، جس قانون گو اور جس تھانہ میں قادیان واقع ہے وہ سب مسلم اکثریت کے ہیں اور اس کے اورپاکستان کے درمیان مسلم اکثریت کا علاقہ ہے، اس لیے قادیان کو مغربی پنجاب یعنی پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔جماعت ِ احمدیہ کے میمورنڈم میں اس نظریہ کو رد کیا گیا تھا کہ ‘دیگر عوامل ’کی بنا پر وسیع علاقے کسی ملک میں شامل کر دینے چاہئیں ۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ اس علاقے کی اکثریت کس ملک میں شامل ہونی چاہیے۔اور اس بات کا ردّ کیا کہ تقسیم کے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ زیادہ جائیداد اور زمینیں کس کے پاس ہیں کیونکہ مسلمانوں نے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا ہی اس وجہ سے تھا کہ ان کے نزدیک ان کے حقوق متحدہ ہندوستان میں محفوظ نہیں تھے اور انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم کر کے پسماندہ بنایا جا رہا تھا۔اور اس دلیل کا کانگرس کی طرف سے پیش کیا جانا اس لیے بھی غلط ہے کیونکہ خود کانگرس کا نظریہ ہے کہ کسی کے پاس کتنی جائیداد یا دولت ہے اس سے اس کے سیاسی حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور جن صوبوں میں کانگرس کی حکومت ہے وہاں قانون بنا کر بڑی زمینداریوں کو ختم کیا جا رہا ہے بلکہ بڑے زمینداروں کی زمینوں کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہی اصول صحیح تھا کہ جس کی جائیداد زیادہ ہے اس کے سیاسی حقوق زیادہ ہونے چاہئیں تو انہیں چاہیے تھاکہ بڑی زمینداریاں ختم کرنے کی بجائے انہیں زیادہ سیاسی حقوق دیتے۔

اس کے بعد جماعتِ احمدیہ کے میمورنڈم میں اس بات کا تاریخی پس منظربیان کیا گیا کہ کیوں مسلمان اقتصادی طور پر دوسری اقوام سے پیچھے رہ گئے۔یہ حقائق بیان کیے گئے کہ لارڈ کرزن کے وائسرائے بننے سے قبل تک برطانوی حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ مسلمانوں کو کمزور کیا جائے۔اور وہ حکومتی ادارے جن سے فوائد حاصل کیے جا سکتے تھے غیر مسلموں کے ہاتھ میں چلے گئے تھے۔ ان پالیسیوں کے نتیجہ میں مسلمان پسماندہ رہ گئے تھے اور اب ان تجاویز کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ ان کے پاس رہ گیا ہے وہ بھی ان سے چھین لیا جائے۔سکھ احباب کے اس دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ سرگودھا، لائلپور، ملتان، منٹگمری اور شیخوپورہ کے نہری کالونیوں میں ان کی آباد کردہ زمینیں زیادہ ہیں، اس میمورنڈم میں یہ بیان کیا گیا کہ یہ زمینیںمسلمان آبادیوں کی چراگاہیں تھیں جنہیں سرکاری قرار دے کر حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لیا اور جب نہریں بن گئیں تو سکھوں کو ان کی خدمات میں یہ زمینیں دی گئیں ۔ ا ور اس زیادتی کے بعد دوسری زیادتی یہ کی جارہی ہے کہ یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان زمینوں کی ملکیت کی بناء پر یہ علاقہ بھارت کا حصہ بنا دیا جائے۔اگر کانگرس کا یہ نظریہ قبول کر لیا جائے کہ زیادہ جائیدادوں اور زمینوں کی بنیاد پر اور اکثریت کی مرضی کے خلاف یہ فیصلہ کیا جائے کہ یہ علاقے کس ملک کا حصہ بنیں گے تو پھر ہمیں یہ حساب بتا دیا جائے کہ ان اموال، جائیدادوں اور زمینوں کے عوض کتنے لوگوں کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔ اس آزادی کے دَور میں یہ نظریات قبول نہیں کیے جا سکتے۔ اور اس کمیشن کے لیےیہ مناسب نہیں ہے کہ سرحد میں معمولی ردو بدل کے علاوہ ‘دیگر عوامل ’کو زیر ِغور لائے ۔ فیصلے کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ کس علاقے کی اکثریت کس ملک کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ اور اگر مسیحی برادری پاکستان کا حصہ بننا چاہے تو ان کی رائے پاکستان کے حق میں شمار کرنا ضروری ہے۔جماعت ِاحمدیہ کے میمورنڈم میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ وائسرائے نے ایک بیان میں ضلع گورداسپور کی مسلمان آبادی کے جو اعدادو شمار بیان کیے ہیں وہ بھی غلط ہیں اور کم کر کے بیان کیے گئے ہیں۔

[دی پارٹیشن آف پنجاب ناشر سنگ ِ میل 1983ء ،جلد 1ص281تا391، 420تا 422، 428تا 450جلد 2ص220تا223]

حقائق درج کر دیے گئے ہیں ۔ چونکہ آج کل تقسیم ِ برصغیر کے مرحلہ کے بارے میں ایک بار پھر زور و شور سے بحثیں کی جا رہی ہیں، اس لیے ان حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ ہر کوئی ان کو پڑھ کر اپنی رائے قائم کر سکتا ہے۔ ایک بار پھر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ آپس میں مفاہمت اور صلح صفائی سے اور انصاف کے اصولوں پر قائم رہ کر ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ایک غلطی دوسری غلطیوں کو جنم دیتی رہے گی اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button