ہجرت اور تاریخ انبیاء
ہجرت کے لغوی و اصطلاحی معنی
ہجرت کا لفظ ھَجَرَ سے ہے، جس کے معنے دور ہونے،چھوڑ دینے یا اعراض کرنے کے ہیں۔ھَاجَرَ کا مطلب ہے اس نے ترک وطن کیا۔ اورہجرت سے مراد‘‘الخروجُ من أرضٍ إِلَى أُخْرَى’’ایک زمین سے دوسری کی طرف نکلنا ہے۔
(تاج العروس جزء14صفحہ 397)
مشہور ماہر لغت علامہ احمد بن محمد فیومی حموی(770ھ) ہجرت کے معنی یوں بیان کرتے ہیں کہ
‘‘وَالْهِجْرَةُ بِالْكَسْرِ مُفَارَقَةُ بَلَدٍ إلَى غَيْرِهِ فَإِنْ كَانَتْ قُرْبَةً لِلّٰهِ فَهِيَ الْهِجْرَةُ الشَّرْعِيَّةُ’’
(المصباح المنير فی غريب الشرح الكبيرجزء2صفحہ634)
ہجرت سے مراد ایک علاقہ کو چھوڑ کردوسرے علاقہ کی طرف جانا ہے اور اگر یہ قرب الٰہی کے حصول کی خاطر ہوتو یہ ہجرت شرعیہ کہلائے گی۔
پس ہجرت سے مراد انسانوں کامعاشی ومعاشرتی اورسیاسی و مذہبی حالات کے پیش نظر ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونا ہے۔ہجرت ملک کی کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک بھی ہوسکتی ہے۔
اسلام میں ہجرت کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی سرزمین جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کےاحکامات کے مطابق زندگی گزارنے میں مشکل درپیش ہو ،حریت مذہب اور آزادیٔ ضمیر پر پابندیاں عائد ہوں، وہاں سے ایسی دوسری جگہ جہاں دینی ومذہبی آزادی ہو اور الٰہی احکامات کے مطابق زندگی بسر کی جاسکتی ہو،وہاں منتقل ہوجاناہجرت ہے اوراللہ تعالیٰ نے ایسےناگفتہ بہ حالات میں اپنے بندوں کوہجرت کی اجازت عطا فرمائی ہے کیونکہ ملک خدا تنگ نیست و پائے گدا لنگ نیست۔
ہجرت از روئے قرآن کریم
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا(النساء:98)
ىقىناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال مىں وفات دىتے ہىں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہىں وہ (اُن سے)کہتے ہىں تم کس حال مىں رہے وہ (جواباً)کہتے ہىں ہم تو وطن مىں بہت کمزور بنا دیے گئے تھے وہ (فرشتے)کہىں گے کہ کىا اللہ کى زمىن وسىع نہىں تھى کہ تم اس مىں ہجرت کر جاتے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی اجازت کے ساتھ اس کی برکات بھی بیان فرمائی ہیں۔فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ(النحل: 42)
اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کى خاطر ہجرت کى اس کے بعد کہ ان پرظلم کىا گىا ہم ضرور اُنہىں دنىا مىں بہترىن مقام عطا کرىں گے اور آخرت کا اجر تو سب (اجروں) سے بڑا ہے کاش وہ علم رکھتے ۔
اسی طرح فرمایا:
وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللّٰهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللّٰهِ وَكَانَ اللَٰهُ غَفُورًا رَحِيمًا (النساء:101)
اور جو اللہ کى راہ مىں ہجرت کرے تو وہ زمىن مىں (دشمن کو) نامراد کرنے کے بہت سے مواقع اور فراخى پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کى طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلتا ہے پھر (اس حالت مىں) اسے موت آجاتى ہے تو اُس کا اجر اللہ پر فرض ہوگىا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ(التوبة :20)
جو لوگ اىمان لائے اور انہوں نے ہجرت کى اور اللہ کى راہ مىں اپنے اموال اور اپنى جانوں کے ساتھ جہاد کىا وہ اللہ کے نزدىک درجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہىں اور ىہى وہ لوگ ہىں جو کامىاب ہونے والے ہىں۔
ہجرت از روئے احادیث
حضرت ابودرداء ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے نفس اور دین کے متعلق فتنہ کے ڈر سے ایک جگہ سے دوسری جگہ راہ فرار اختیار کی، وہ اللہ کے نزدیک صدیق شمار کیاجائے گا اوراگر وہ اس حالت میں وفات پاجائے تو شہید لکھا جائے گا۔پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ أُولٰٓئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ (الحديد :20)
(تفسیر الدر المنثور للسیوطی جزء8 صفحہ60)
اسی طرح ایک اورروایت ہے کہ
‘‘رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے دین کی حفاظت کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا ہے خواہ ایک بالشت برابر ہی تو اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے اور وہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت محمد مصطفیﷺ کا ساتھی ہوگا۔’’
(تفسير القرطبی جزء13صفحہ358)
پھر فرمایا کہ
‘‘جو اپنےدین کو بچانے کی خاطربالشت بھر بھی بھاگا،وہ حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کے ساتھ حشر میں اٹھایا جائے گا۔’’
(السنن الواردة في الفتن للداني جزء2صفحہ427)
حضرت عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے یہ شرط پیش کی کہ یا رسول اللہﷺ!کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دیےجائیں گے؟ آپ ﷺنے فرمایا اے عمرو! کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دیےجاتے ہیں اورہجرت سے اس کے سارے گذشتہ گناہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دیےجاتے ہیں؟’’
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بَابُ كَوْنِ الْإِسْلَامِ يَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ وَكَذَا الْهِجْرَةِ وَالْحَجِّ)
ہجرت انبیاء
خدائی سلسلے جب بھی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں تو ان پر ایمان لانے اور پرچار کرنےو الوں کوبہت سی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہیں ظلم و ستم بھی سہنا پڑتا ہے، مالی قربانیاں بھی کرنا پڑتی ہیں،جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا ہے اور اپنے گھربار،عزیز، رشتہ داروں اور وطن کو خیرباد کہہ کر ہجرت بھی کرنا پڑتی ہے۔
جہاں تک ہجرت کا تعلق ہے تویہ سنت انبیاء علیہم السلام ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر رسول اللہﷺ تک بہت سے انبیاء کواشاعت توحید کی خاطر ہجرت کرنا پڑی وہ گھر سے بے گھر اوروطن سے بے وطن ہوئے۔انہوں نے دعوت حق کی خاطراپنے آبائی وطنوں کو خیر باد کہا کیونکہ وہ اور ان کے ماننے والے سماجی و معاشرتی جبر اور ظلم و استبداد کے ذریعہ تبلیغ حق سے روک دیےگئے۔نتیجةًانہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دوسرے علاقوں کو اپنامستقر بنایا تاوہ آزادی سےتوحید الٰہی کی اشاعت کرسکیں۔
اس حوالہ سے جب ہم تاریخ انبیاء کا جائزہ لیتے ہیں تو اکثربانیانِ مذاہب کی ہجرت کا ذکر ملتا ہے۔
ہجرت حضرت آدمؑ
تاریخ انسانی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء میں سےسب سے پہلی ہجرت حضرت آدمؑ کی تھی۔آپؑ جس علاقہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ حق اور ہدایت انسانی کے لیے مبعوث کیے گئے وہاں آپ کے خلاف دھوکہ اور فریب سے کام لیا گیااور مجبوراً آپ کو اپنے ابتدائی مسکن ارضی جنت سے نکلنا پڑا جس کے بارہ میں حکم ہوا تھا کہ يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ (البقرة :36)کہ اے آدم!تُو اور تىرى زوجہ جنت مىں سکونت اختىار کرو۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
‘‘آدم ہمارا پہلا نبی تھا جس کو شیطان نے جنت سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کیا مگر وہ ہجرت آدم کو نقصان پہنچانے کا موجب نہیں ہوئی۔وہ ہجرت مومنوں کو ناکام کرنے کا موجب نہیں۔بے شک آدم نے ہجرت کی مگر آخر آدم جیتا اور شیطان ناکام ہوا۔’’
(تفسیر کبیر جلد نمبر9 صفحہ167)
ہجرت حضرت نوحؑ
حضرت آدمؑ کے بعدحضرت نوح عليہ السلام ہجرت کرنے والے انبیاء میں شامل ہیں۔آپؑ عراق میں پیدا ہوئےاور اللہ تعالیٰ کے حکم سے توحید الٰہی کا پرچار کرنے لگے۔صنم پرستوں نے آپ کوتضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا اور مختلف رنگ ميں تکالیف اوراذیتیں پہنچائیں۔اس ظلم و ستم سے مجبور ہوکر آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ
رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ ۔ فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ(الشعراء :118-119)
اس نے کہا اے مىرے ربّ! مىرى قوم نے مجھے جھٹلا دىا ہے۔ پس مىرے درمىان اور ان کے درمىان واضح فىصلہ کر دے اور مجھے نجات بخش اور اُن کو بھى جو مومنوں مىں سے مىرے ساتھ ہىں ۔
خدائے سمیع و علیم نےاپنے برگزیدہ نبی کی پکارسنی اور وحی فرمائی کہ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا (هود :38)‘‘اور ہمارى آنکھوں کے سامنے اور ہمارى وحى کے مطابق کشتى بنا’’۔کیونکہ ایک طوفان بصورت عذاب آنےوالا ہے اور اس کشتی میں خود اور اپنے ماننے والوں کو سوار کرکے اپنے وطن کو خیرباد کہہ دو اور کسی دوسرے مقام پر ہجرت کرجاؤ تاکہ حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے اور مومنین کو نجات ملے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کو ہجرت کا جو حکم فرمایا اس بارہ میں بائبل میں یوں لکھا ہے کہ
‘‘اور دیکھ میں خود زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں تاکہ ہربشر کو جس میں زندگی کا دم ہے دنیا سے ہلاک کرڈالوں اور سب جو زمین پر ہیں مرجائیں گے۔پر تیرے ساتھ میں اپنا عہد قائم کروں گا اور تو کشتی میں جانا۔تو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔اور جانوروں کی ہر قسم میں سے …اور نوح نے یوں ہی کیا جیسا خدا نے اسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کیا۔’’
(پیدائش باب 6 آیات 18تا22)
دوران تعمیر ِسفینہ قوم نے تمسخراورہنسی ٹھٹھہ کیا۔لیکن حضرت نوحؑ ہجرت کی تیاریوں میں مصروف رہے اور بالآخر وقت موعود آپہنچااور قوم نوح میں سےمومنین ہجرت کرکے نجات یافتہ ہوئے اور باقی غرق ہوگئے۔حق و باطل میں فرق واضح ہوگیا اورجودی پہاڑ پر کشتی جاٹھہری۔مومنین ابدی نجات پاگئےاورحضرت نوح ؑاس کے بعد ایک مدت تک فریضہ رسالت ادا فرماتے رہے۔
حضرت مصلح موعودؓ سورة التین کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ‘‘تِین’’ کا واقعہ بھی تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اور زیتون کا واقعہ بھی تمہیں یاددلاتے ہیں دونوں جگہ ہجرت ہوئی مگر دونوں جگہ شیطان کو ناکامی ہوئی آدمؑ نے ہجرت کی مگر آخر آدمؑ ہی دشمن پر کامیاب ہوا۔نوحؑ نے ہجرت کی مگر آخر نوحؑ ہی دشمن پر کامیاب ہوا۔نوحؑ کے بعد وہ ملک جس میں آپ رہتے تھے پھر بسا نہیں بلکہ تباہ ہوگیا۔’’
(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 167)
ہجرت حضرت ہودؑ
حضرت ہودؑ قوم عاد کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے۔آپ نے اس ذمہ داری کو احسن طریق سے نبھایا اور فرمایا:يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلٰهٍ غَيْرُهُ (هود:51) اے مىرى قوم! اللہ کى عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئى معبود نہىں۔لیکن مخالفین نے آپؑ پر مفتری ہونےکےالزام لگائے اور مخالفانہ کارروائیاں کیں۔لیکن آپ کی ہمت و حوصلہ پست نہ ہوا اور آپ اپنے کام میں لگے رہے بالآخر جب مخالف اپنے ظلم و ستم میں حدسے بڑھ گئے تو آپ نے دعا کی رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (المؤمنون: 40) کہہ اے مىرے ربّ! مىرى نصرت کر کىونکہ انہوں نے مجھے جھٹلادىا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی دعا کو سنا اور اس کی تائید و نصرت فرمائی اور کافروں پر عذاب نازل کرکے انہیں نیست و نابود کردیا۔حضرت ہودؑ نے الٰہی حکم کے تحت ارض عاد کو چھوڑ کر اپنے متبعین کے ساتھ حضر موت کی طرف ہجرت فرمائی اور وہیں آپ کی قبر ہے۔ (تفسیر طبری جزء12صفحہ507)
ہجرت حضرت صالح علیہ السلام
حضرت صالح علیہ السلام کو بھی اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہجرت کے مراحل سے گزرنا پڑا۔آپؑ قوم ثمود کی طرف مبعوث ہوئے جوحجر کے علاقہ میں رہائش پذیر تھی۔آپ نے کمال استقامت سے پیغام حق پہنچایا۔ ان پر مصائب کے پہاڑتوڑے گئےلیکن آپ اپنافرض ادا کرتے رہے۔جب مخالفت حد سے بڑھ گئی توخداتعالیٰ کے عذاب نے مفسدین کو آدبوچا اور آپؑ نےحکم خداوندی کے تحت حجر سے ارض شام کی طرف ہجرت فرمائی پھر فلسطین میں قیام کیا اور کچھ عرصہ بعد وہاں سے مکہ ہجرت کرآئے اور یہیں 58؍سال کی عمرتک تبلیغ حق کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
( الکامل فی التاریخ لابن اثیر جزء 1 صفحہ85)
ہجرت حضرت ابراہیمؑ
ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ ان جلیل القدر انبیاء میں شامل ہیں جنہوں نے اشاعت حق کی خاطر ہجرت فرمائی اورایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ ہجرت کی۔آپؑ موجودہ جنوبی عراق کے شہر اُور میں پیدا ہوئے۔آپؑ بچپن سے ہی توحید پر قائم تھے۔جب آپؑ نے بتوں کی پرستش کی مخالفت کی اور لوگوں کو خدائے واحدلاشریک کی و حدانیت کی تبلیغ کی تو انہیں آپ کا یہ پیغام حق پسند نہ آیا اوربتوں کے پجاریوں نے آپ سے بحث کی۔آپؑ نے اپنی دلیل کے ثبوت میں بتوں کو توڑ دیا جس کی وجہ سےانہوں نے آپ کی پر زور مخالفت کی اور آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے آپؑ آتش نمرود سے بسلامت نکل آئے۔اس معجزہ کو ديکھ کرحضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ پرايمان لے آئے۔اس واقعہ کے بعداللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔چنانچہ بائبل میں لکھا ہے:
‘‘اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ تو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو میں تجھے دکھاؤں گا اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔سو تو باعث برکت ہو!’’
(پیدائش باب 12 آیات1-2)
چنانچہ حضرت ابراہیمؑ نےالٰہی حکم پر لبیک کہتے ہوئے فرمایا:إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلٰى رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (العنكبوت:27) ىقىناً مىں اپنے ربّ کى طرف ہجرت کرکے جانے والا ہوں ىقىناً وہى کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔
بائبل میں لکھا ہے کہ
‘‘سو ابرام خداوند کے کہنے کے مطابق چل پڑا اور لوط اس کے ساتھ گیا۔اور ابرام پچھتر برس کا تھا جب وہ حاران سے روانہ ہوا۔’’(پیدائش باب 12 آیت5)
حاران سے آپؑ اردن تشریف لے گئے۔وہاں سے مصر کی طرف ہجرت فرمائی۔پھر فلسطین چلے گئے۔فلسطین کے مقام سبع سے قط کے مقام پر جاآباد ہوئے۔پھر مکہ کے سفر پر روانہ ہوئے جہاں حضرت ہاجرہؑ اور حضرت ا سماعیلؑ کوبے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے سہارے چھوڑا۔اس طرح حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہجرت میں گزرا۔
اس ہجرت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو دین و دنیاوی ترقیات سے نوازا۔حضرت ابراہیمؑ نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنا وطن چھوڑا تو آپؑ کو اللہ تعالیٰ نےدو ملک کنعان اور حجاز عطا فرمادیےاور عزیز رشتہ داروں کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کے علاوہ حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ عطا فرمائے اور اس کی ذریت میں نبوت اورکتاب کا انعام رکھ دیا۔(العنْكبوت:28)
حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی بے آب وگیاہ وادی میں ہجرت بھی عظیم الشان برکات کا موجب بنی۔آپؑ نےجب اپنی بیوی اور بیٹے کو وہاں چھوڑا تو اللہ کے حضور دعا فرمائی کہ
رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (اِبراهيم:38)
اے ہمارے ربّ! ىقىناً مىں نے اپنى اولاد مىں سے بعض کو اىک بے آب وگىاہ وادى مىں تىرے معزز گھر کے پاس آباد کر دىا ہے اے ہمارے ربّ! تاکہ وہ نماز قائم کرىں پس لوگوں کے دلوں کو ان کى طرف مائل کر دے اور انہىں پھلوں مىں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کرىں ۔
اس بیابان میں جب پانی کا مشکیزہ خالی ہوگیا اورحضرت اسماعیلؑ پیاس سے چلانے لگے تو حضرت ہاجرہؑ نے اللہ کے حضور دعا کی جسے شرف قبولیت ملا۔چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ
‘‘اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا اے ہاجرہ! تجھ کو کیا ہوا؟مت ڈر کیونکہ خدا نے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی ہے۔اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔’’
(پیدائش باب 21 آیت 17-18)
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی نسل میں برکت ڈالی اور بنی اسماعیل ایک بڑی قوم بنی۔دعائے ابراہیمیؑ بھی قبول ہوئی اور بیت اللہ کی تعمیر اس جگہ ہوئی جو مرجع خواص و عام ہے۔اور حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے ہی وہ عظیم الشان نبی مبعوث ہوا جو رحمة للعالمین اور افضل النبیین ہے یعنی ہمارے پیارے آقا محمد مصطفیٰﷺ۔
ہجرتِ حضرت لوطؑ
تاریخ میں حضرت لوطؑ کی دو ہجرتوں کا ذکر ہے۔پہلی ہجرت حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ کی اورمقام سبع تک ان کے ساتھ رہ کر شہر سدوم کی طرف چلے گئے۔
چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ
‘‘ابرام تو ملک کنعان میں رہا اور لوط نے ترائی کے شہروں میں سکونت اختیار کی اور سدوم کی طرف اپنا ڈیرا لگایا۔اور سدوم کے لوگ خداوند کی نظر میں نہایت بدکار اور گنہگار تھے۔’’
(پیدائش باب 13 آیات12-13)
حضرت لوط ؑ نےوہاں کے باشندوں کو معبود حقیقی کی عبادت کرنےاور اخلاقی برائیوں سے بچنےاور احکام الٰہی پر چلنے کی تلقین کی۔لیکن قوم لوط نے مخالفت کی راہ اختیارکرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کیا۔چنانچہ آپ نے دعا فرمائی رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ(الشعراء :170) کہ اے مىرے ربّ! مجھے اور مىرے اہل کو اُس سے نجات بخش جو وہ کرتے ہىں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوطؑ کی دعاقبول فرمائی اور آپؑ کو ہجرت کا حکم فرمایا چنانچہ لکھا ہے:
‘‘اس نے کہا اپنی جان بچانے کو بھاگ۔نہ پیچھے مڑ کر دیکھنا ،نہ کہیں میدان میں ٹھہرنا۔اس پہاڑ کو چلا جا تانہ ہو کہ تو ہلاک ہوجائے۔’’
(پیدائش باب 19 آیت17)
چنانچہ حضرت لوطؑ نے حکم الٰہی کے تحت اپنے متبعین کے ساتھ ہجرت کی اور نجات یافتہ ہوئے سوائےآپ کی بیوی کے جس نے آپ کا ساتھ نہ دیا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ۔ إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (الشعراء :171-172)پس ہم نے اُسے اور اس کے اہل سب کو نجات عطا کی۔ سوائے اىک بڑھىا کے جو پىچھے رہنے والوں مىں تھى۔
ہجرت حضرت یوسف ؑ
بائبل کے مطابق حضرت یعقوبؑ نے بھی ہجرت کی تکالیف برداشت کیں۔وہ بیر سبع سے حاران کی طرف گئےاور پھر مشرقی لوگوں کے ملک میں پہنچے اورہجرت کرتے کرتے کنعان جابسے۔
(پیدائش باب 35)
حضرت یوسفؑ کی ہجرت کا سفر وہاں سے شروع ہوتا ہے جب ان کے بھائیوں نے حسد کی بنا پر انہیں کنویں میں پھینک دیا اور ایک تجارتی قافلہ آپؑ کو وہاں سےنکال کر اپنے ساتھ مصر لے گیااوریوں عزیز مصر کےہاں آپ کو رہائش ملی اورہجرت کے بعد وہیں سے آپؑ کی زندگی کا انقلابی دور شروع ہوا اور آپؑ ملک کےخزانہ پر نگران مقرر ہوئے۔
(سورة یوسف11تا57)
پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ قحط سالی کے ایام میں مصر میں منتقل ہوگیا اور یوں 75؍بنی اسرائیلی افراد پر مشتمل یہ خاندان حضرت یوسفؑ کی بدولت ہجرت کرکے مصر میں منتقل ہوا اوراس ہجرت کی برکت سےچارسوسال تک اس خاندان نےافرادی و اقتصادی لحاظ سے نمایاں ترقی کی۔
حضرت موسیٰؑ کی ہجرت
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان برگزیدہ انبیاء میں شامل ہیں جنہوں نے خدا کی راہ میں ہجرت کی سعادت پائی۔آپؑ مصر میں پیدا ہوئے ۔ پہلی ہجرت پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی ہوگئی جب آپؑ کی والدہ محترمہ نے خدائی حکم کے ماتحت آپؑ کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں بہادیا اور یوں فرعون کے محل میں ہی آپؑ کی پرورش ہوئی۔(سورة القصص آیت :8)اور دوسری ہجرت مدین کی طرف ہوئی جن کا سبب بعض واقعات تھےجن کا مفصل ذکر سورة القصص آیات 16تا24 میں موجود ہے۔آپؑ نےمدین میں دس سال قیام کیا۔
منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد جب فرعون کو توحید الٰہی کا پیغام پہنچایا تو فرعون نے دلائل سے عاجز آکر جادوگروں سے مقابلہ کا کہا۔آپؑ کے مقابل پر جادوگر بھی ناکام ہوکر ایمان لے آئے تو فرعون نے آپؑ کے قتل کی سازش کی اوربنی اسرائیل پر ظلم و ستم کی انتہا کردی۔چنانچہ ایک لمبا عرصہ تختۂ مشق بننے کے بعداللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا کہ تمام بنی اسرائیل کو لے کر ارض موعود کی طرف چلے جاؤ۔چنانچہ آپؑ نے اپنی قوم کے ساتھ تیسری ہجرت کی جس کے تعاقب میں فرعون اور اس کا لشکر سمندر میں غرق ہوگیا۔
(الأَعراف :137)
اس ہجرت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ارض موعود یعنی فلسطین عطا فرمانا تھا لیکن قوم موسیٰ کی اپنی حالت کی وجہ سے یہ وعدہ مؤخر ہوگیا اور نافرمانی کی وجہ سے چالیس سال صحرانوردی کی سزا ملی جو دراصل ان کی تربیت کے لیے ضروری تھی۔اس کے بعد بنی اسرائیل فلسطین پر قبضہ کرکے وہاں آباد ہوئے اور ایک سلطنت کی بنیاد رکھی جس کے وارث حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ جیسے اولوالعزم انبیاء بادشاہ ہوئے۔
حضرت عیسیٰؑ کی ہجرت
حضرت عیسیٰ نے بھی قوم کے مظالم سے رہائی پاکر ہندوستان کی طرف ہجرت کی جس کے بارہ میں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘ہاں خدا تعالیٰ کی اُس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی اولوالعزم نبی ایسا نہیں گزرا جس نے قوم کی ایذا کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پاکر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبّت میں آئے ہوئے تھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخر کار خاکِ کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سری نگر خان یار کے محلہ میں باعزاز تمام دفن کیے گئے۔ آپ کی قبر بہت مشہور ہے۔ یُزَارُویُتَبَرَّکُ بِہٖ ۔
ایسا ہی خدا تعالیٰ نے ہمارے سید و مولیٰ نبی آخر الزمان کو جو سیّد المتّقین تھے انواع و اقسام کی تائیدات سے مظفر اور منصور کیا گو اوائل میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی طرح داغ ہجرت آپ کے بھی نصیب ہوا مگر وہی ہجرت فتح اور نصرت کے مبادی اپنے اندر رکھتی تھی۔ ’’
(راز حقیقت،روحانی خزائن جلد 14صفحہ155)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سورة المومنون آیت :51 ‘‘وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِين’’کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ‘‘جس طرح فلسطین کے یہود کو حضرت مسیحؑ نے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اسی طرح ان کا یہ بھی فرض تھا کہ وہ مشرقی ممالک کے یہود کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے اور وہ ان کی آواز پر لبیک کہتے…حکومت کی طرف سے آپ پر بغاوت کا مقدمہ دائر کیا گیا اور اس کے لیے پھانسی کی سزا تجویز ہوئی مگرجس طرح اللہ تعالیٰ نے یوناہ نبی کو موت کے منہ سے بچالیا اسی طرح حضرت مسیحؑ کو بھی اس نے صلیبی موت سے بچالیااور چونکہ اس کے بعد وہ اپنے ملک میں نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔اس لیے انہوں نے اس ملک کو چھوڑ دیا اور باوجود اس کے کہ فلسطین سے افغانستان اور کشمیر تک کا راستہ بڑا ہولناک تھا پھر بھی وہ ہجرت کرکے ان ممالک میں آتے اور جیسا کہ قرآن کریم بتاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کشمیر کو دارالہجرت بنایا جو ذات قرار و معین کا مصداق تھا۔’’
(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 178,179)
رسول اللہﷺ کی ہجرت
رسول اللہﷺ نے بعثت کے بعدشب و روز الٰہی پیغام لوگوں تک پہنچایا۔جن سعید روحوں نےاس پیغام کو قبول کیا،ان پر کفارمکہ کی طرف سے ظلم و ستم کی انتہاکردی گئی۔چنانچہ 13سالہ مکی دور میں تین سال شعب ابی طالب میں خاندان بنوہاشم اوررسول اللہﷺ سمیت صحابہ محصور رہےاوردو دفعہ مسلمانوں کو ہجرت حبشہ بھی کرنا پڑی۔نیز کفارمکہ نے رسول اللہﷺ کے قتل کی سازش بھی کی۔ ان نامساعد حالات میں رسول اللہﷺ نے الٰہی منشاء کے مطابق صحابہ کوایک رؤیا کی بناء پریثرب کی طرف ہجرت کرنے کا حکم فرمایااور خود بھی اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر اشاعت اسلام کی خاطریثرب یعنی مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اور نیا مرکز توحید قائم فرمایا۔
ہجرتِ مدینہ ایک انقلاب عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عظیم الشان ترقیات سے نوازا۔اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل گیا۔دین کی تکمیل ہوئی اورایک نظام قائم ہوا۔مذہبی آزادی ملی۔تحویل قبلہ،مسجد نبویؐ اورفتح مکہ جیسے عظیم الشان امور طے پائے۔ہجرت مدینہ کی اسلامی تاریخ میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ اسلامی کیلنڈر بھی اس ہجرت سے ہی منسوب ہے۔
ہندومت میں ہجرت
ہندو روایات کے مطابق حضرت کرشنؑ نے اپنی قوم کے ساتھ اپنے علاقہ متھرا سے موجودہ گجرات انڈیا کے علاقہ دوارکا کی طرف ہجرت کی۔
(Culture and Emotional Economy of Migration By Badri Narayan page 6)
اسی طرح حضرت رامچندرؑ کے بارہ میں بھی ہندوروایات میں ذکر ہے کہ انہوں نے 25سال کی عمر میں بعض وجوہات کی بناء پراپنے ملک سےہجرت(بن باس) کی اور 14سال کا عرصہ جلاوطنی میں گزارا اور 39سال کی عمر میں اپنے ملک واپس آئے۔
(Comparative Ethics in Hindu and Buddhist Traditions By Roderick Hindery page 99)
بدھ ازم میں ہجرت
حضرت بدھ علیہ السلام نیپال کی ریاست کپل وستو کے شہر لمبینی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد اس ریاست کے راجہ تھے۔29 سال کی عمر میں گوتم بدھؑ نےدھرم کی خاطر اپنا محل اور عیش و آرام چھوڑدیا اور حق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔اورساری زندگی ہجرت میں گزاری اورسفر کرتے کرتے انڈیا کے شہر بودھ گیا میں جاٹھہرے اورجگہ جگہ تبلیغ و ہدایت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
(Buddhist Scriptures by Conze Page 36 to 40)
غرضیکہ دنیائے مذاہب اور تاریخ انبیاء میں ہجرت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔کیونکہ ہجرت ایک عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور اسی سے ہی ترقیات کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہےجس سے دشمن کو نامراد کرنے کے بہت سے مواقع اور فراخی عطا ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہجرت کے متعلق فرماتے ہیں:‘‘انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہےلیکن بعض رؤیانبی کے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں۔مثلاًآنحضرت ﷺ کوقیصرو کسریٰ کی کنجیاں ملی تھی تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے۔’’
(اخباربدر7ستمبر 1905ء)
ایک اور جگہ فرمایا‘‘ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہےحضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہوں کہ نہ صرف نبی بلکہ بجز اپنے وطن کے کوئی راستباز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھاتا اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے:وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً (النساء 101)یعنی جو شخص اطاعت الٰہی میں اپنے وطن کوچھوڑے تو خدائے تعالیٰ کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائے گا جن میں بلا حرج دینی خدمت بجا لاسکے۔ ’’
(شحنہ حق۔روحانی خزائن جلد2 ص 326)
٭…٭…٭
Great
بہت اعلی مضمون ہے
بظاہر عنوان سادہ لگ رہا تھا لیکن مضمون پڑھنے کے بعد ادراک ہوا کہ کافی تحقیق ہوئی ہے
خاص طور پر بائبل کے حوالہ جات اور ہندو ازم کا ذکر مضمون کو طقویت بخش رہا ہے
ماشاءاللہ بہت عمدہ کاوش ہے۔