مجلس انصار اللہ کے پہلے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا پُر معارف خطاب
’’انصار اللہ کے ابتدائی سالانہ اجتماعات
پہلا اجتماع
حضرت امیر المومنین نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اکتوبر1944ء میں علاوہ اور باتوں کے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انصار میں اجتماعی روح پیدا کرنے کے لیے خدام ا لا حمدیہ مرکزیہ کی طرح انصار اللہ مرکزیہ کو بھی ایک سالانہ اجتماع منعقد کرنا چاہیے۔ اس ہدایت کی تکمیل میں مرکزی مجلس عاملہ نے اپنے اجلاس منعقدہ12؍نومبر1944ءمیں یہ فیصلہ کیا کہ پہلا اجتماع مورخہ 25فتح /دسمبر1944ء 1323ھش بوقت 3بجے مسجد اقصیٰ میں منعقد ہو (بعد نماز ظہر و عصر) اور حضرت امیرالمومنین سے بھی اس میں شرکت کی درخواست کی جائے،چنانچہ ا س فیصلہ کے بموجب مجوزہ تاریخ پر مسجد اقصی ٰمیں بعد نماز ظہر و عصر4بجے اجلاس منعقد ہوا ، اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین نے جو افتتاحی خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے:
خطاب حضرت امیر المومنین بموقعہ سالانہ اجتماع انصار اللہ
‘‘میں صرف مجلس انصار اللہ کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے افتتاح کے لیے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہہ کردعا سے اس جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلا جائوں گا، انصار اللہ کی مجلس کے قیام کو کئی سال گذر چکے ہیں ، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے ۔زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اوّل تنظیم کامل ہو جائے، دوسرے متواتر حرکت عمل پیدا ہو جائے اور تیسرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں، میںان تینوں باتوں میںمجلس انصار اللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں، انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری جماعتوں میں نہیں ہوئی۔ حرکت عمل ان میں ابھی پیدا ہوتی نظر نہیں آتی۔ نتیجہ تو عرصہ کے بعد نظر آنے والی چیز ہے مگر کسی اعلیٰ درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے اور کم از کم اس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہو جاتا ہے مگر یہاں وہ امید اور آثار بھی نظر نہیں آتے غالباًمجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے میں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور قادیان کی مجلس انصاراللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں گی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیںہو سکتی اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کااثراس پر پڑتا ہے۔نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہرایک چیزاپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چیزیں ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرتی ہیں، بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتا چلتا ہے کہ جانوروں اورپرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیںجہاں وہ رہتے ہیں، مچھلیاں پانی میں رہتی ہیںاس لیے ان کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعائوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیںسفید اور چمکیلاہو گیا۔مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لیے ان کا رنگ کناروں کی سبزسبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا۔ریت والے علاقہ میں رہنے والے جانور مٹیالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ سبز سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے۔جنگلوں اور سوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوںکی طرح ہو گیا، غرض پاس پاس کی چیزوںکی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں، پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیںتو انسان کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کو کیوںنہیں بدل سکتے، خدا تعالیٰ نے اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ کونوامع الصادقین یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیا کروتاکہ تمہارے اندربھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کےماتحت پیدا ہو جائے جو اس میں پایا جاتا ہے۔
پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کو زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کر ے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں اس کی اپنی اصلاح ہے۔ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستغنی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے۔ بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے۔رسول کریمﷺآخر دم تک اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم کی دعا کرتے رہے۔ پس اگر خدا کا وہ نبی جو پہلوں اور پچھلوںکا سردار ہے جس کی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہو گااور جس نے خدا تعالیٰ کا ایساقرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نا مل سکتی ہے اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعدپھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اورروزانہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھمکہتا ہے اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون سا ایسا انسان ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اھدناالصراط المستقیمکہنے سے اور جما عت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کومستغنی قرار دے۔اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لیے ایسا مقام تجویزکرتا ہے جو مقام خداتعالیٰ نے کسی انسان کے لیے تجویز نہیں کیا۔پس جو شخص اپنے لیے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا۔کیونکہ اس قسم کا استغناعزت نہیں بلکہ ذلت ہے ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازہ کی طرف بھاگا جا رہا ہے۔
پس تنظیم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اوراپنے گردو پیش کی اصلاح کی کو شش کی جا ئے اس سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے۔اس سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔
دعائیں بھی وہی قبول ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی جائیں، خدا تعالی ٰنے ہمارے دعا مانگنے کے لیے اھدناالصراط المستقیم میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتا دیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو توتمہارے لیے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گرد و پیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لیے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے چنانچہ اس غرض کے لیے میں نے مجلس انصار اللہ، لجنہ اماء اللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال قائم کی ہیں۔پس میں امید کرتا ہوںکہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ اس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تن دہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصار اللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ ان کی اصلاحی کوششیں دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیںاور دنیا کے کونے کونے کوسیراب کر دیں۔ اب میں دعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں، خدا کرے مجلس انصار اللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوںجن سے آگے خدا تعالیٰ ہزاروںگنا اور بیج پیدا کرےا ور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوںکے لیے بیج کا کام دیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روحانی بادشاہت اسی طرح دنیا پر قائم ہو جائے جس طرح کہ اس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے۔آمین‘‘
(الفضل6،ظہور1324ھش،اگست1945ءص2,1)
(مرسلہ: میڈیا ٹیم ،نیشنل اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ 2019ء)
٭…٭…٭