جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کام نہیں ہو سکتے جو روحانی قوت اور طاقت کرسکتی ہے
’’جس قدر ابرارؔ ،اخیارؔ اور راستباز انسان دنیا میںہوگزرے ہیں ،جورات کو اٹھ کر قیام اور سجدہ میں ہی صبح کردیتے تھے،کیا تم خیال کرسکتے ہوکہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے اور بڑے بڑے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے؟ نہیں۔ یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کام ہر گز نہیں ہو سکتے جو روحانی قوّت اور طاقت کرسکتی ہے۔بہت سے انسان آپ نے دیکھے ہوں گے جو تین یا چار بار دن میں کھاتے ہیں اور خوب لذیذ اور مقوّی اغذیہ پلائو وغیرہ کھاتے ہیں۔مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتاہے۔ صبح تک خراٹے مارتے رہتے ہیں اور نیند اُن پر غالب رہتی ہے۔ یہانتک کہ نیند اور سستی سے بالکل مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اُن کو عشاء کی نماز بھی دوبھر اور مشکلِ عظیم معلوم دیتی ہے۔چہ جائیکہ وہ تہجد گزار ہوں۔
صحابہ کے طریق زندگی کا نقشہ قرآن کریم میں
دیکھو!آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کِبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعّم پسند اور خوردونوش کے دلدادہ تھے جو کفار پر غالب تھے؟ نہیں۔یہ بات تو نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی اُن کی نسبت آیاہے کہ وہ قائم اللیل اور صائم الدہر ہوں گے ۔ان کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتی تھیں۔ اور اُن کی زندگی کیسے بسر ہوتی تھی؟ قرآن کریم کی ذیل کی آیۂ شریفہ اُن کے طریقِ زندگی کا پُورا نقشہ کھینچ کر دکھاتی ہے۔ وَمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ(الانفال:61)۔ اوریٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا(آل عمران:201)۔اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خداکے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں۔اے مومنو!صبر اور مصابرت اور مرابطت کرو۔
رباط کے معنی
رِبَاط اُن گھوڑوں کوکہتے ہیںجو دشمن کی سرحد پر باندھے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ صحابہؓ کو اعداء کے مقابلہ کے لیے مستعد رہنے کاحکم دیتاہے۔ اور ا س رِبَاط کے لفظ سے انہیں پوری اور سچی تیاری کی طرف متوجہ کرتاہے۔ ان کے سپرد دو کام تھے ۔ ایک ظاہری دشمنوں کا مقابلہ اور دوسرا روحانی مقابلہ۔ اور رِبَاط لغت میں نفس اور انسانی دل کو بھی کہتے ہیں۔اور یہ ایک لطیف بات ہے کہ گھوڑے وہی کام کرتے ہیں جو سدھائے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہوں۔آج کل گھوڑوں کی تعلیم وتربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتاہے اوراسی طرح ان کو سدھایا اور سکھایا جاتاہےجس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام سے تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر اُن کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں تو وہ بالکل نکمّے ہوں اور بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مضر ثابت ہوں۔
یہ اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ انسانوں کے نفوس یعنی رِبَا ط بھی تعلیم یافتہ ہونے چاہئیںاور ان کے قویٰ اور طاقتیںایسی ہونی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کی حدود کے نیچے نیچے چلیں ۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتووہ اس حرب اور جدال کاکام نہ دے سکیں گے جو انسان اور اس کے خوفناک دشمن یعنی شیطان کے درمیان اندرونی طورپر ہر لحظہ اور ہر آن جاری ہے۔ جیساکہ لڑائی اور میدان جنگ میں علاوہ قوائے بدنی کے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اس اندرونی حرب اورجہاد کے لیے نفوس انسانی کی تربیت اور مناسب تعلیم مطلوب ہے۔اور اگر ایسا نہ ہو تواس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شیطان اُس پرغالب آجائے گا اور و ہ بہت بُری طرح ذلیل اور رُسوا ہوگا۔ مثلاً اگر ایک شخص توپ و تفنگ، اسلحہ حرب بندوق وغیرہ تو رکھتاہو لیکن اس کے استعمال اور چلانے سے ناواقفِ محض ہو تووہ دشمن کے مقابلہ میں کبھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ اور تیروتفنگ اور سامانِ حرب بھی ایک شخص رکھتا ہواور اُن کا استعمال کرنا بھی جانتاہو۔لیکن اس کے بازو میں طاقت نہ ہوتوبھی وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔اس سے معلوم ہوا کہ صرف طریق اور طرز استعمال کا سیکھ لینا بھی کارآمداور مفید نہیں ہو سکتاجب تک کہ ورزش اور مشق کرکے بازو میں توانائی اورقوت پیدا نہ کی جائے ۔ اب اگر ایک شخص جو تلوار چلانا توجانتاہے لیکن ورزش اور مشق نہیں رکھتا تو میدان حرب میں جا کرجونہی تین چار دفعہ تلوار کو حرکت دے گا اور دو ایک ہاتھ مارے گا اس کے بازو نکمّے ہوجائیں گے اور وہ تھک کربالکل بے کار ہوجائے گا اور خود ہی آخر دشمن کاشکار ہو جائے گا۔
اعمال کی ضرورت
پس سمجھ لو اور خوب سمجھ لو کہ نراعلم وفن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی جب تک کہ عمل اور مجاہدہ اور ریاضت نہ ہو۔دیکھو سرکار بھی فوجوںکو اسی خیال سے بیکار نہیں رہنے دیتی ۔عین امن وآرام کے دنوں میں بھی مصنوعی جنگ برپا کرکے فوجوں کوبیکار نہیں بیٹھنے دیتی اور معمولی طورپر چاند ماری اور پریڈ وغیرہ تو ہر روز ہوتی ہی رہتی ہے۔…… اسی طرح نفوس انسانی کامل ورزش اور پوری ریاضت اور حقیقی تعلیم کے بغیر اعداءُاللہ کے مقابل میدان کارزارمیں کامیاب نہیں ہوسکتے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 54تا56)
٭…٭…٭