متفرق مضامین

سر زمین ربوہ اور اس کے ماحول کا تاریخی اور روحانی پس منظر

(مولانا دوست محمد شاہد۔ مؤرخ احمدیت)

ابن خلدون اور اصول تعمیرات

فن عمرانیات اور فلسفہ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون (1333ء۔1406ء)نے اپنی شہرہ آفاق تاریخ کے مقدمہ میں نئے شہروں کی تعمیر کے لیے متعدد اصول پیش کیے ہیں اور خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ 17،16ہجری(بمطابق638-637ء) میں ایک ساتھ آباد ہونےوالے شہر کوفہ اور بصرہ ان اصولوں کا نہایت عمدہ نمونہ تھے۔ دونوں کا نقشہ یکساں تھا۔ دونوں کا آغاز خلیفۂ رسول کی ہدایات اور حکم کے مطابق ابتداءً سرکنڈے کے کچےمکانات سے ہوا۔ جیسا کہ ابن خلدون، طبری، الفاروق وغیرہ کتب سے ثابت ہے۔ جب پختہ عمارتوں کی تعمیر کا مرحلہ آیاتوسب سے پہلے مرکزی مسجد بنائی گئی جس کے ساتھ قصر امارت بھی تھا۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے عہد فاروقی کے ان دونوں شہروں کاذکر‘‘منن الرحمٰن’’ میں فرمایا ہے۔چنانچہ آپؑ یہ انکشاف کرنےکےبعدکہ‘‘بابل اسی سرزمین پر آبادتھاجہاں اب کربلا ہے’’۔ یہ تحریر فرماتے ہیں کہ

“باتفاق انگریز محققوں اور اسلامی محققوں کے یہ بات ثابت ہے کہ بابل جس کی آبادی کا طول دوسو میل تک تھا اور وہ اپنی آبادی میں شہر لنڈن جیسے پانچ شہروں کے برابرتھا…عراق عرب کے اندرتھااور جب وہ ویران ہوا تو اس کی اینٹوں سے بصرہ اور کوفہ اور ملہ اور بغداد اور مدائن آباد ہوئے اور یہ تمام شہر اس کی حدود کے قریب قریب ہیں’’۔

(منن الرحمٰن طبع اول تصنیف1895ء اشاعت جون1915ء قادیان)

حیرت انگیز بات

حیرت انگیزبات یہ کہ حضرت فضل عمررضی اللہ عنہ کے مبارک ہاتھوں سےقائم ہونےوالے شہرربوہ کی تعمیر بھی اصولی طورپر قریباً انہی خطوط پرہوئی جن کی نشان دہی حضرت عمرؓ کی ہدایات میں کی گئی تھی۔

سرزمین ربوہ کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس کا جواب قطعی و یقینی رنگ میں نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ اس امر کا سراغ آریوں کے عہد کی قدیم تاریخ ہی سے مل سکتاہے۔ مگر ہندو لٹریچر کی بابت ڈاکٹر گستاولی بان جیسے فرانسیسی محقق وسیع مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہندوؤں میں ذوقِ تاریخ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ‘‘ان ہزارہا جلدوں میں جو ہندوؤں نے اپنی تین ہزار سال کے تمدن میں تصنیف کی ہیں ایک واقعہ بھی صحت کے ساتھ درج نہیں۔ا س زمانہ کے کسی واقعہ کو معین کرنےکےلیے ہمیں بالکل بیرونی چیزوں(آثار قدیمہ)سےکام لینا پڑتا ہے’’۔

ان کی قطعی رائے ہے کہ مہا بھارت اور رامائن تک جو اس زمانہ کی یادگار ہیں مبالغہ سے مملو اور دُور اَز کار باتوں سے بھری ہوئی ہیں۔

(تمدن ہند۔مترجم صفحہ 201-45 طبع دوم ناشر مقبول اکیڈمی لاہور1962ء)

تاریخ قدیم

جہاں تک سرزمین ربوہ کا تعلق ہے تاریخ قدیم کے ہزاروں دبیزی پردوں کے باوجود بعض امور کو قریب قریب حقائق کا درجہ حاصل ہے۔ مثلاً ضلع جھنگ کے مشہور وقائع نگار جناب بلال زبیری صدر بَاہو اکیڈمی جھنگ نے لالہ بال کشن نبرہ کی‘‘تاریخ ملتان’’ کے حوالہ سے یہ تحقیق پیش کی ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح میں چنیوٹ پر ہی نہیں پورے مغربی پنجاب پرچندر گپت موریہ نے اپنا اقتدارقائم کرلیاتھا اور اس میں چنیوٹ کے ایک برہمن مصنف اور دانش وَر چانکیہ کا بھاری عمل دخل تھا۔ چانکیہ نے سیاست مدن پرارتھ شاستر نامی کتاب لکھی۔ چانکیہ پہلا ہندو مصنف ہےجس کی کتابوں کے ترجمے عربی میں عباسی خلیفہ مامون الرشید نے کرائےتھے۔

(تاریخ جھنگ صفحہ 57-56 ناشر جھنگ ادبی اکیڈمی جھنگ صدر، مؤلفہ جناب بلال زبیری صاحب۔ اشاعت ستمبر 1976ء)

ہندو دور میں چنیوٹ کی اس مرکزی اہمیت کےپیش نظر یہ خیال ہرگز خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا کہ قدیم ہندو حکمرانوں نے چنیوٹ کے کنارے پر واقع دریائے چناب کے دوسرے کنارےکوبھی اپنی تمدنی اور مذہبی سرگرمیوں کی آماج گاہ بنالیاہوگا۔اس قیاس اور خیال آرائی کی بھاری تائید ہندو ودوانوں کی ان روایات سے ہوتی ہے جو بقول بلال زبیری صاحب متحدہ ہندوستان میں مشہور تھیں اور ان کا مآخد سنسکرت کے قلمی مخطوطےتھے۔ اس کی تفصیل جناب بلال زبیری صاحب کے ایک غیر مطبوعہ مکتوب سے ملتی ہے جو انہوں نے آج سے قریباً تیس برس پیشتر محترم حمید خلیق صاحب کے نام سپرد قلم کیا۔ افسوس وہ اس کے بعد جلد اس عالم فانی سے گزرگئے اور تاریخ کا یہ گوشہ تشنہ ٔتحقیق رہ گیا۔ ذیل میں جناب بلال زبیری صاحب کے مکتوب کا مکمل متن ہدیہ قارئین کیاجاتاہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مکرم محترم خلیق صاحب۔سلام احترام ۔مکتوب گرامی ملا۔ کتاب(تذکرہ اولیاء جھنگ کی طرف اشارہ ہے جو بلال زبیری صاحب کی تالیف ہے ۔ناقل)کے بارے میں جن جذبات کا جناب نے اظہار کیاہے اس کا میں مستحق نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت سے لکھی ہوئی ہے۔ اس کتاب کی ضرورت تھی اور یہ خدمت میرے ہاتھوں انجام ہوئی۔ الحمد للہ

اجہن نام کا تذکرہ پہلی بار میں نے1942ء میں روزنامہ تیج دہلی کے ایک مضمون میں پڑھا۔ یہ مضمون 26؍اگست 1942ء کے شمارہ میں لالہ جمناداس اخترکےنام سے چھپاتھا اور انہوں نے اس مضمون میں مہابھارت(جنگ جس میں مہاراجہ کرشن کا ایک اہم کردارتھا)کے حالات پر مشتمل سنسکرت کی عبارت اور ترجمہ دونوں پرشامل تھے مطالعہ میں آئے۔ وہ پرچہ میرے پاس محفوظ رہا لیکن 1950ء کے سیلاب میں ضائع ہوگیا تاہم اس کا قلمی اقتباس میری ذاتی ڈائری پررہا۔ اس کے بعد حضرت احسان دانش کے ہاںسنسکرت کی ایک قلمی کتاب جس میں ہندوؤں کے ان مقدس مقامات کا ذکر تھا جو شمال مغربی پنجاب میں واقع تھے، دیکھنےکا اتفاق ہوا۔ شاید یہ کتاب احسان صاحب(مشہور شاعر احسان دانش مراد ہیں۔ ناقل) کے ہاںموجود ہو۔پھر 1956ء میں غالباً ربوہ میں ڈویژنل صحافیوں کا اجلاس ہوا جس میں مَیں شامل تھا اور آپ کے دوسرے خلیفہ میاں بشیر الدین محمود بھی تشریف فرماتھے۔ لائل پور کے ایک صحافی ایم ایم شیدا نے ایک مقالہ پڑھاتھا۔ اس میں بھی انہوں نے مختلف کتابوں کے حوالے سے بتایاتھاکہ ربوہ کے مقام پر سکندر اعظم کے حملے سے پہلےسنسکرت یونیورسٹی تھی۔انہوںنےشہریا یونیورسٹی کا نام ایجاہن بتایاتھا۔ اس کتاب کی ترتیب کے وقت جب مجھے ضرورت پڑی تو چوہدری سرشہاب الدین مرحوم،سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی لاہور کی مرتبہ تاریخ پنجاب کا ایک نسخہ جو خاصہ ضعیف تھا مطالعہ میں آیا۔ انہوں نے شہر چنیوٹ کے بارے میں اس قدر لکھاکہ پہلا شہر دریا کے پار تھا وہ کسی بڑی جنگ میں تباہ ہوگیااور برباد شدہ شہر و قلعہ کے آثار دریا کے پار موجود ہیں۔ بعد میں رانی چندن نے یہ شہر دریا کی دوسری طرف بسایا اور چندن وٹ سے چنیوٹ مشہور ہوا۔

اس کے علاوہ ‘‘ریسز آف پنجاب’’پنجابی قبائل کے نام سے ایک کتاب چھ جلدوں میں ایک انگریز کرنل جو سیاح بھی تھا،نے لکھی ہے۔ یہ کتاب اب بھی گورنمنٹ کالج میانوالی کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس میں بھی اس قسم کی عبارت درج ہے۔ یہ کتاب تذکرہ اولیاء جھنگ کے چھپنے کے بعد مجھے ملی اس وجہ سے اس کا حوالہ درج نہیں ہوسکا۔البتہ چند نئی چیزیں میرے علم میں آئی ہیں اور کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اس کے مطابق بعض جگہ ترمیم کردی گئی ہے۔آپ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ملیں اور یا مجلس ترقی ادب کے رسالہ صحیفہ کا فائل تلاش کرلیں تو آپ کو وسیع معلومات مل جائیں گی۔ کتاب کے بارے میں مشورہ کا محتاج۔ آپ کا مخلص بلال زبیری جھنگ صدر۔مولانا ابوالعطاء صاحب کی خدمت میں سلام عرض کردیں۔’’(اصل مکتوب راقم الحروف کی ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔)

قدیم مسلم تاریخ

قدیم مسلم عہد حکومت سے متعلق بھی دوروایات ہمارے سامنےآتی ہیں جن میں سرزمین ربوہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

٭پہلی روایت

جناب ڈاکٹر عبدالحمید خان ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ ڈی رائل پاکستان نیوی اپنی محققانہ تالیف‘‘محمد بن قاسم پاکستان میں’’کے صفحہ 21تا 23میں رقم طراز ہیں:

‘‘چندرودیا چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے ایک بہت ہی قدیم شہر ہے اور جس وقت عرب فوج نےاس شہر پر حملہ کیا ایک ہندو راجہ یہاںحکمران تھا…عرب فوج کے تقریباً 100سپاہی چنیوٹ کے فتح کرنے میں کام آئے۔ ان شہیدوں کا قبرستان اب تک چنیوٹ کے باہر موجود ہے۔ چندرودیا چنیوٹ ریاست عسفان کا دارالخلافہ تھا…اس شہر چنیوٹ کے قریب سندھ سے کشمیر جانےوالے مسافردریائے چناب کو عبور کرتےتھے کیونکہ چنیوٹ سے کشمیر جانے کے لیے راستہ بالکل سیدھاتھا جو پنج مہات یاجہلم میں سے گزرتاتھا۔ اس لیےعرب جرنیل محمد بن قاسم چنیوٹ سے جہلم اور پھر کشمیر گیا… کیونکہ محمد بن قاسم نے چچ کے بیٹے راجہ داہر کی سلطنت کوفتح کیاتھا۔ا س لیے وہ سندھ کی اس حد تک پہنچناچاہتاتھا جوکشمیر کو سندھ سے جداکرتی تھی…محمد بن قاسم نے نصف کشمیر فتح کیا… کشمیر سے واپسی پر جیسا کہ چچ نامہ میں بتایاگیا ہے محمد بن قاسم اودھے پور پہنچا…’’(صفحہ 21تا23 مطبوعہ مسلم پرنٹنگ پریس کراچی)

یادرہے افواج اسلامی کے سپہ سالار محمد بن قاسم نے دیبل کے مقام پر راجہ داہر کو جون 711ء میں شکست دی۔راجہ داہر ماراگیا جس کے بعد محمد بن قاسم اسلامی پرچم لہراتےہوئے شہر پر شہرفتح کرتا ہوا ملتان پہنچا جہاں راجہ داہر کے چچا زاد بھائی کی فوج سے اس کا مقابلہ ہوا لیکن بالآخر وہ بھی قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا اور ملتان اور اس کا اردگرد علاقہ بھی مسلم حکومت کے زیرِ نگیں آگیا۔

٭دوسری روایت

‘‘سرزمین جھنگ’’ کے مؤلف جناب پروفیسر سمیع اللہ قریشی گورنمنٹ کالج جھنگ نے سرزمین ربوہ سے متعلق روایت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے۔

‘‘دوسری کہانی کا تعلق جھنگ کے شہر چنیوٹ سے ہے جہاںشہرسے لپٹا ہوادریائےچناب گزررہاہے۔ جس کے دوسرے کنارے پر کلر اٹھی زمین میں سیاہ پتھروں کی چٹانیں سایہ کرتی ہیں اور ان کے دامن میں محمو د غزنوی کے سپاہیوں سے مقامی ہندو راجہ کی خونریز جنگ ہوئی اور گمنام شہیدوں کا ایک سلسلہ بھی ان چٹانوں کے دامن میں آج بھی بیان کیاجاتا ہے۔ جہاں بے آبادی کے زمانے میں مسافروں کو صبح کی اذان کی آواز سنائی دیا کرتی تھی۔ اس لوک کہانی میں اسلام کا بیج کاشت ہوتا ہے۔’’

(صفحہ 13 ناشر فکشن ہاؤس 18 مزنگ روڈ لاہور 1998ء)

مسلم حکومت کا ہزارسالہ دور

سرزمین ربوہ اور اس کے ماحول یعنی موجود ہ ضلع جھنگ نے بڑے بڑے سیاسی اور تہذیبی اور تمدنی انقلابات دیکھے ہیں۔1848ء میں یہ ضلع برطانوی عمل داری میں آیا اور اس کا پہلا انگریز ڈپٹی کمشنر (مئی 1849ء تا فروری 1850ء) جی۔ ڈبلیو ہملٹن تھے۔1861ء میں ضلع جھنگ کو انتظامیہ نے موجودہ تین تحصیلوں میں تقسیم کیا جو اب تک قائم ہے۔(District and state Gazetters جلد نمبر1 صفحہ 240-241 ناشر ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان)

پنجاب یونیورسٹی لاہور طبع دوم، مئی 1983ء

ربوہ جس خطہ پر آباد ہوا وہ بندوبست کے سرکاری کاغذات میں چک ڈھگیاں سے موسوم ہے اور 1034ایکڑ پر مشتمل ہے۔

بلال زبیری کی تالیف‘‘تاریخ جھنگ’’سے پتہ چلتاہے کہ سلطان محمود غزنوی نے یہ علاقہ ایاز کی عمل داری میں دے دیاتھا۔ قطب الدین ایبک نے اسے اپنی ریاست ملتان میں شامل کرلیا۔ ازاں بعد شیر شاہ سوری اور اکبر جیسے بادشاہوں کے زیر نگیں آگیا۔ یہی وہ سنہری دور ہے جس میں سرزمین ربوہ سے متصل چناب کے دوسرے کنارے پرحضرت شاہ بوعلی قلندرؒ(1206ء تا 1324ء)ساڑھے سات سال محو عبادت رہے۔ان کی چلہ گاہ اورحجرہ آج بھی مرجع خاص و عام ہے۔

(ساندل بار صفحہ254 مؤلفہ جناب احمد غزالی، ناشر فیروز سنز لاہور)

اس سے بڑھ کر تعجب خیز اور پُراسرار بات یہ ہے کہ ربوہ کے ماحول میں بہت سے ایسے اولیاء اور مبلغین و داعیان اور سلسلہ رشدوہدایت کے بلندپایہ بزرگ آسودۂ خاک ہیں جنہوں نے جھنگ میں اشاعت اسلام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں اور لاکھوں قلوب میں عشقِ رسولِؐ عربی کی شمع روشن کر ڈالی جس کے اثرات صدیوں بعد آج بھی محسوس ہوتے ہیں۔یہ سب اہل اللہ آسمان دعوت و ارشاد کے درخشندہ و تابندہ ستارےتھے۔

ذیل میں ماحول ربوہ کی بعض مشہور اور قدیم بزرگ شخصیتوں کی ایک ناتمام سی فہرست درج کی جاتی ہے۔

٭…چنیوٹ:حضرت شاہ اسمٰعیل بخاریؒ، حضرت شاہ برمان بخاریؒ، حضرت شیخ حسین شاہ قریشیؒ، حضرت میاں حماند متھرومہ۔

٭…لالیاں:حضرت مولوی محمد صدیق صاحب لالیؒ۔

٭…شیخ بہلول تحصیل چنیوٹ:حضرت شاہ بہلولؒ(سلسلہ قادریہ میں حضرت شاہ حسینؒ لاہور کے مرشد)۔

٭…محمدی شریف:حضرت میاں محمدیؒ۔

٭…موضع برخوردارنزدبھوانہ:حضرت حافظ برخوردارؒ۔

٭…رجوعہ:حضرت شاہ دولتؒ(سادات رجوعہ کے مورث اعلیٰ)

٭…جھنگ شہر:سید محبوب حضرت شاہ جیونہ کروڑوی نقویؒ، حضرت نور شاہ(مداریہ سلسلہ کے بزرگ)،حضرت سید امان اللہ شاہؒ(حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ولادت سے ایک سال قبل واصل بحق ہوئے)

٭…جھنگ صدر۔چوک بازار:حضرت حافظ علی محمد نقشبندیؒ۔

٭…نہنگ آباد:حضرت شاہ صادقؒ۔

٭…پیرکوٹ سدھانہ:حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ثانیؒ۔

٭…ماڑی شاہ سخیرا :حضرت شاہ صغیرؒ۔

٭…شورکوٹ:حضرت غازی پیرؒ( محمد بن قاسم کی فوج کے ایک سپاہی)،سلطان العارفین ، ندوة السالکین حضرت سلطان باہوؒ۔

٭…بدھ رجبانہ تحصیل شورکوٹ:حضرت شاہ خلیل شیرازیؒ۔

(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تذکرة الاولیاءجھنگ ازبلال زبیری،سرزمین جھنگ از پروفیسر قریشی سمیع اللہ۔‘‘ساندل بار’’ از احمد غزالی)

ان صاحب کمال بزرگوں میں حضرت سلطان باہوؒ(1629ء تا 1691ء)اور شیخ محمد بہلول(1515ء تا1630ء) کو نہایت ممتاز اور منفرد مقام حاصل ہے۔

حضرت سلطان باہو کے صوفیانہ کلام نے نہ صرف جھنگ بلکہ مغربی پنجاب پر گہرے اثرات اور نقوش چھوڑے ہیں۔آپ قریباً 140کتب کے مؤلف تھے ۔ شہرت ‘‘ابیات باہو’’سے پائی۔آپ کے کمالات روحانی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ایک اقتباس آپ کی پر معارف تحریرات میں سے ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں:

‘‘حضرت سرورکائنات ﷺاس فقیر کو باطن میں اپنے حرم محترم کے اندر کمال شفقت اور مرحمت سے لے گئے اور حضرت امہات المؤمنین حضرت فاطمہ الزہریٰ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن نےاس فقیر کو دودھ پلایا اور آنحضرت صلعم اور امہات المومنین نے مجھے اپنے نوری حضوری فرزند کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔’’

(حق نمائے اردوترجمہ نورالہدیٰ تصنیف لطیف حضرت سلطان باہو قدس اللہ العزیز صفحہ 225 حاشیہ۔ ناشر عرفان منزل کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان طبع پنجم 1976ء)

حضرت شیخ محمد بہلول سلطنت خداداد میسور کے آخری تاجدارسلطان شہید ابوالفتح فتح علی ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ (1752ء تا 4؍مئی1799ء)کے جدِ امجدتھے۔ جیساکہ جناب بلال زبیری نے اپنی کتاب‘‘تاریخ جھنگ’’صفحہ 309تا315میں ناقابل تردید شواہد و دلائل سے ثابت کیا ہے۔ سلطان ٹیپو کا یہ آخری فقرہ قیامت تک سنہری حروف میں لکھاجائےگا کہ ‘‘گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی ہے۔’’سلطان ٹیپو کے سوانح نگار اور جنوبی ہند کے نامور مؤرخ جناب محمود خان بنگلوری کی تحقیق کے مطابق سلطان المجاہدین ٹیپو نے اپنی فوج کانام جماعت احمدی اور سونےکے شاہی سکے کانام احمدی رکھا۔ انہوں نے ایک نیا اسلامی کیلنڈر بھی جاری کیا جس کے پہلے مہینےکانام احمدی تجویز فرمایا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی دارالسلطنت سرنگاپٹم کی مسجد کو مسجد احمدی سے موسوم فرمایا۔

(تاریخ سلطنت خدادا د میسور صفحہ 475،476،426 ،499 اور 597مؤلفہ محمود خان بنگلوری۔ پبلشرز یونائیٹڈ لاہور طبع چہارم 1947ء)

حضرت سلطان باہوؒ کو بھی احمدی کامبارک نام بہت محبوب تھا۔ آپ کی عارفانہ تحریرات سے اس ضمن میں ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

‘‘جب نور احدی نے…اپنے حسن کے جلوہ مصفا…کو ذریعہ بنایا (تو) اس شمع جمال نور احمدی ﷺ پرکونین پروانہ وارجل مٹے(نورذات نے)نقاب میم احمدی پہن کر صورت احمدی ﷺ اختیار کی۔’’

(ترجمہ رسالہ ‘‘روحی شریف’’ صفحہ 7 تصنیف لطیف حضرت سلطان باہو قدس اللہ سرہ۔ ناشر نوری کتب خانہ لاہور)

لفظ ‘‘احمدی’’کی یہ ترویج و اشاعت آسمانی تحریک کی بدولت ہورہی تھی کیونکہ حضرت سلطان باہو کی بھی ولادت سے قریباً اٹھارہ سال پیشتر حضرت مجدد الف ثانی(وفات 10 ؍دسمبر 1624ء)کو الہاماً بتایاجاچکاتھا کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ رحلت کےایک ہزار اور چند سال بعد حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام میں متحد ہوجائے گی۔‘‘اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہوجائےگا’’۔

(مبدء و معاد ترجمہ صفحہ 205 تصنیف امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی قدس سرہ۔ تالیف 1009ھ مطابق 1611ء ناشر ادارہ مجددیہ5/2 ایچ ناظم آباد نمبر 3کراچی)

آفتاب احمد کی ضیاء پاشیاں مطلع ضلع جھنگ پر

حضرت امام عالی مقام حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی(1835ءتا1908ء)نے 23؍مارچ 1889ء کو پہلی بیعت لی۔اس موقع پر چالیس بزرگوں نے شرف بیعت حاصل کیا۔دوسرے روز جھنگ کے ایک مغل خانوادے کے چشم و چراغ مرزا خدا بخش صاحب(مترجم چیف کورٹ لاہور) داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔

اگلے سال تحصیل چنیوٹ کی ایک بستی برجی لون کے میاں محمددین صاحب ولدپٹھانا 19؍مئی 1890ءکو اور 4؍ستمبر 1890ء کو چنیوٹ کے ایک اصل باشندہ میاں نور احمد صاحب اس پاک جماعت سے وابستہ ہوئے۔ آپ ان دنوں اپنے کاروبار کے سلسلہ میں کلکتہ میں محلہ کوہلوٹولہ کوٹھی نمبر3میں مقیم تھے۔

دسمبر 1895ء میں حضرت امام الزمان کی خدمت اقدس میں جو مخلص مرید فیض صحبت اٹھا رہےتھے ان میں خدا بخش صاحب ماڑوی ضلع جھنگ بھی تھے۔

(نور القرآن نمبر 2 مطبوعہ دسمبر 1895ء صفحہ48)

اسی زمانہ میں چنیوٹ کے ایک خدارسیدہ بزرگ شیخ عطامحمد صاحب(تاجر و اشٹام فروش)کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے313 صحابہ کی تاریخی فہرست میں 241 نمبرپر آپ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے۔

(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 44 اشاعت جنوری 1897ء)

اس فہرست میں نمبر 42 پر میرزا خدا بخش صاحب جھنگ کانام بھی درج ہے۔ اپریل1897ء میںمولوی عمر الدین صاحب کوٹ محمد یار تحصیل چنیوٹ اور مئی 1897ء میں مولیٰ بخش صاحب ولد شیخ جھنڈا مقیم چنیوٹ مبائعین میں شامل ہوئے۔حضرت صاحب نے اشتہار 24؍فروری 1898ء میں اپنے ایک مرید مولوی عبدالرحمٰن صاحب ملازم دفتر جھنگ کا ذکر فرمایا ہے۔

ان سَابِقُوْنَ الاَوَّلُوْن کے بعد حضرت امام الزمان کی حیات طیبہ میں ضلع جھنگ کے جن بزرگو ں کو نعمت احمدیت میسر آئی ان میں سے مندرجہ ذیل اصحاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

1۔حکیم محمد زاہد صاحب شورکوٹ(الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ 6؍پر آپ کانام نومبائعین میں مذکور ہے)۔

2۔ الحاج تاج محمود صاحب (سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی جیسے مشہور عالم مخیربزرگ کے محترم چچا) غالباً 1902ء میں امام وقت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔

(تابعین رفقاء احمد جلد دہم صفحہ 27-28 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے۔ اشاعت اگست 1982ء مطبوعہ راما آرٹ پریس امرتسر)

3۔مولوی تاج محمود صاحب ساکن لالیاں جو 9؍اگست 1904ءکو حضرت اقدس کی خدا نما مجلس میں شامل ہوئے اور حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا ۔حضور نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ‘‘دعا کرتے رہو اور کراتے رہو اور ایک کارڈ روزانہ لکھ دیاکرو کہ دعایاد آجایاکرے۔طبیعت پرجبرکرکےجوکام کیاجاتا ہے ثواب اسی کا ہوتاہے۔’’(البدر 24 ؍اگست 1904ء)

4۔ شیخ گلزار محمد صاحب ولد شیخ عطا محمد صاحب چنیوٹ

(بیعت مطبوعہ اخباربدر 6؍ فروری 1908 صفحہ 15)

سلسلہ احمدیہ کے قدیم اخبارات کے سرسری مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہؑ کی زندگی میں اس ضلع کے مندرج ذیل شہروں، قصبوں یا بستیوں تک احمدیت کا نور پہنچ چکاتھا اور ان مقامات میں مخلص اور ایثار پیشہ جماعتوں کا قیام عمل میں آچکاتھا۔ جھنگ صدر، جھنگ مکیانہ،اجہلانہ، بستی وریام، کملانہ،کوبڑہ،بھاگووال،پھینیاںوالا،بستی نبی بخش، چک 35، چک 108، چک 162،برانچ 265 جھنگ، چنیوٹ ،لالیاں موضع برجی لون،کوٹ محمد یار۔

قدر ت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت حاجی الحرمین مولانا نور الدین بھیروی خلیفة المسیح الاولؓ کے عہد مبارک میں چوہدری محمد حسین صاحب(والد ماجد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، نوبیل انعام یافتہ)اور ان کے برادر اکبر حضرت چوہدری غلام حسین صاحب جیسے اہل اللہ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ جن کے جد امجد حضرت سعد بڈھن علیہ الرحمة حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ(1183ء- 21 ؍دسمبر1262ء)کی طرف سے علاقہ بار جھنگ کو اسلامی پیغام پہنچانے پر متعین تھے اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ حضرت سعد بڈھنؒ اپنے مرشد کے مقبرہ واقع پرانا قلعہ ملتان میں آسودۂ خاک ہیں۔

(سوانح حیات چوہدری محمد حسین صفحہ 11 تا 12 مرتبہ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی۔ محمد احمد اکیڈمی رام گلی نمبر 2 لاہور۔ اشاعت اول 1974ء)

یہ دونوں بھائی سلسلہ احمدیہ بالخصوص جماعت احمدیہ جھنگ کے لیے ایک مضبوط ستون ثابت ہوئے۔ حضرت چوہدری غلام حسین صاحب کا انتقال 24؍جنوری 1950ء کو اور حضرت چوہدری محمد حسین صاحب کا7؍اپریل 1969ءکو ہوا۔ دونوں بھائی بہشتی مقبرہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ اللھم اغفر لھم و ادخلھم فی جنتک النعیم

خطۂ جھنگ میں قیام مرکز کا راز سربستہ

ا س خطہ میں مرکز احمدیت کے قیام میں خدا تعالی کی کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اس کا مختصر جواب حضرت بانی سلسلہ کے مبارک الفاظ میں صرف یہ ہے کہ؎

تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں رازدار

بایں ہمہ یہاں حضرت اقدس کے ایک دینی سفر کا تذکرہ اضافہ ایمان و عرفان کاموجب ہو گا جو یہ ہے کہ آپ ایک مقدمہ میں شہادت کے لیے قادیان سے 7؍نومبر 1902کو بٹالہ تشریف لے گئے اور عدالت سے متصل ایک باغ میں اپنے عشاق کے درمیان رونق افروز ہوئے اور فرمایاہمارا یہاں آنا تو کوئی اَور ہی حکمت رکھتا ہے۔ہرجگہ جو انسان قدم رکھتا ہے اس میں خد اکی حکمت ہو تی ہے ۔زمین پر کچھ نہیں ہو تا جب تک آسمان پر تحریک مقدر نہ ہو۔

ازاں بعد یہ روح پرور واقعہ بیان فرمایا کہ دو بزرگ ابوالقاسم اور ابو سعید نام تھے۔اتفاق سے دونوں ایک جگہ اکٹھے ہو گئے۔ان کے ایک مرید نے کہا کہ میرے دل میں ایک سوال ہے۔اتفاق سے دونوں ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ پیش کیا کہ آنحضرت ﷺ جو مدینہ آئے تھے اس کی کیاوجہ تھی؟ابوالقاسم نے کہا کہ بات اصل میں یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کے بعض کمالات مخفی تھے ان کا بروز اور ظہور وہاں آنے سے ہوا۔ابو سعید نے کہا بعض لوگ مدینہ میں ناقص تھے اور معرفت کے پیاسے تھے ان کو کامل کرنے اور دلوں کی پیاس بجھانے کے لیے آپ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے ۔

(الحکم ۔10؍نومبر 1902،صفحہ 14تا 16۔البدر 14؍نومبر 1902،صفحہ 23۔البدر 21؍نومبر 1902،صفحہ 26-27)

ربوہ کی نسبت حیرت انگیز آسمانی خبر

اب آخر میں ربوہ کی نسبت تین حیرت انگیز آسمانی خبروں کا ذکر کیاجاتا ہے جو 1900ءسے 1944ءکے دوران جناب الہٰی کی طرف سے سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اور بعض محبوب بندوں کو دی گئیں اور قیام ربوہ کی شکل میں لفظا ً لفظاً پو ری ہوئیں۔

پہلی خبر خود حضرت فضل عمرؓ کو متعدد رؤیا کے ذریعے دی گئی تھی جو بہت سے اخبار غیبیہ پر مشتمل تھی جن میں یہاں تک منکشف کر دیاگیا کہ

٭…قادیان اور ا س کے گرد و نواح میں دشمن یکا یک حملہ آور ہو جائے گا۔

٭…دشمن کی طرف سے خفیہ رنگ میں جنگ ہو گی۔

٭…قادیان سے جالندھر تک خوف ناک تباہی آئے گی اور لوگ نیلہ گنبد یعنی آسمان تلے پناہ لیں گے۔

٭…دشمن قادیان کی بستی پر بھی غالب آجائے گا البتہ مسجد مبارک کا حلقہ محفوظ رہے گا۔

٭…حضرت امام جماعت احمدیہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک میدان میں نیا مرکز تعمیر کریں گے اور یہ واقعہ پسر موعود سے متعلق انکشاف(1944ء)کے بعدپانچ سال کے عرصہ میں ہو گا۔

٭…اس انقلاب انگیز واقعہ کے بعد خد اکا نور تمام دنیا میں جا ئے گا یہاں تک کہ دنیا کا ایک انچ حصہ بھی باقی نہیں رہے گا جہاں خد اکا یہ نور نہیں پہنچے گا۔

(آج ایم ٹی اے کے ذریعے سے پوری دنیا پر نور کا نزول ہو رہا ہے)

حضرت امام ہمام کی جملہ رؤیا میں یہ سب تفصیلات موجودہیں۔(الفضل 21؍دسمبر 1941ء،صفحہ 3۔26؍جولائی1938ء،صفحہ 3،4۔6؍جون 1944ء،صفحہ 1،2 پر شائع شدہ ہیں۔متن کے لیے ملاحظہ ہو ‘’المبشرات’’ صفحہ 83تا96۔مرتبہ دوست محمد شاہد۔ ناشر ادارۃ المصنفین۔ربوہ) یہ اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ ؎

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

دوسری خبر داتہ ضلع ہزارہ کے ایک بزرگ سید میر گل شاہ صاحب کو دی گئی۔چنانچہ رمضان المبارک 1317ھ بمطابق 5؍جنوری 1900ءکوحضرت امام الزمان بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت اقد س میں ایک مکتوب لکھا کہ

‘‘آج یکم رمضان شریف کی شب کو مجھے اللہ تعالی نے دکھلایا ایک نقشہ کاغذ کا ہے جس کی خوبصورتی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور اس نقشہ پر جلی قلم سے قادیان کا نام لکھا ہوا ہے اور اس نقشہ سے اوپر کی طرف ایک اَور نقشہ ہے جو کسی اَور مقدس شہر کا ہےجس کا نام فدوی کو بھول گیا ہے۔’’
یہ مکتوب خداتعالیٰ نے اپنی قدرت خاص سے ضلع جھنگ کے اولین احمدی مرزا خد ابخش صاحب کے ہاتھوں افتتاح ربوہ سے سینتالیس بر س پیشتر ان کی کتاب ‘‘عسل مصفیّٰ ’’ صفحہ 760اپریل 1901ءمیں شائع کرادیاجو مصلحت خداوندی کا زبردست کرشمہ ہے ۔وجہ یہ ہے کہ موصوف اپنی زندگی کے آخری دَور میں غیر مبائع حضرات سے منسلک ہو گئے تھے۔جن کے ایک اہل قلم اور بزرگ رہنما جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے اخبار ‘‘پیغام صلح’’ لاہور مورخہ 15؍دسمبر 1934ءصفحہ 19پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا:

‘’بنابنایاکام،بنی بنائی جماعت،بنی بنائی قومی جائیدادیں، سکول بورڈنگ،روپیہ خزانہ سبھی کچھ بنا بنایا مل گیا۔قادیان کا مرکز اور مسیح موعود کا بیٹا ہونا ،کام بناگیا۔قادیان کی گدی نہ ہوتی، مسیح موعود کا بیٹا نہ ہوتے اورکہیں باہرجا کر میاں محمود اپنے عقیدہ …کو پھیلا کر دکھاتے اور نئے سرے سے جماعت بنتی اور ترقی کرتی تو کچھ بات تھی۔’’

خد اکی قدرت!!!اس تحریر پر ابھی چودہ سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ تحریک احمدیت کےاولوالعزم قافلہ سالار اور قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر نے ربوہ جیسے عظیم الشان عالمی مرکز کی اپنے دست مبارک سے بنیاد رکھ دی۔ربوہ کی برق رفتار ترقی کو دیکھ کر نسیم حجازی نے اپنے اخبار کوہستان کی یکم جنوری 1955ءکی اشاعت میں الطاف سرحدی کے قلم سے یہ نظریہ پیش کیا:

‘‘مغربی پاکستان کے دارالسلطنت کے لیے نہ لاہور موزوں ہے،نہ پشاور ،نہ راولپنڈی۔اس کے لیے موزوں جگہ قادیانیوں کا مرکز ربوہ ہے۔؎

صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں

اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار

تیسری آسمانی خبرحضرت چوہدری غلام حسین صاحب (ڈاکٹر عبد السلام صاحب مرحوم کے تایا جان) متوطن جھنگ کو عطا ہوئی جن کے ضلع میں اور جن کی زندگی میں ربوہ کی تعمیر مقدر تھی۔آپ 1932ءمیں عہدہ ڈسٹرکٹ انسپکٹری سے ریٹائر ہو کر تشریف لائے اور پھر ملک معظم شاہ ابن مسعود والیٔ حجاز و مجدکو اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد 1947ءتک قادیان میں قیام فرما رہے ۔پھر ہجرت کرکے اپنے وطن جھنگ میں آئے اور یہیں وفات پائی۔

حضرت چوہدری صاحب نے الفضل9؍مارچ 1945ء صفحہ 4پر ایک ایمان افروز نوٹ شائع کیا کہ (1932ءسے قبل)کرنال میں سرکاری ملازمت کے دوران آپ نے متضرعانہ دعائیں کیں کہ‘‘الہٰی!تین کو چار کرنے میں کیا راز ہے؟”ا س پر آپ کو عالم رؤیا میں یہ حقیقت افروز نظارہ دکھایا گیا کہ

‘‘دو پہاڑیاںہیںجن کےدرمیان میدان ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصلح موعود کا جلسہ ہے اور خوب چہل پہل ہے، خدام کام کر رہے ہیں اور دو پہاڑیوں کے درمیان ایک سڑک بنا ڈالی ہے …سامنے کی پہاڑی پر میں …اونچی سریلی آواز میں یہ شعر جو حضرت مسیح موعود ہی کا ہے وقفوں کے ساتھ بولتا ہوں:

نگاہ رحمت جاناں عنایت ہا بمن کرد است

وگر نہ من کسے یا بد بایں رشد و سعادت را

(یعنی خداتعالی کی نظر کرم نے مجھ پر عنایت فرمائی ہے وگرنہ میں یہ رشد و عنایت کیسے پا سکتا تھا۔)
سبحان اللہ۔حق تعالیٰ نے برس ہا برس قبل جبکہ ربوہ کا کوئی تصور بھی کسی فرد بشر کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا ،ا س کے محل وقوع، اس کی تعمیر میں جوانان احمدیت کے ناقابل فراموش کردار،اور محض اس کی عنایت سے وادی غیر ذی زرع اور پر ہول اور کلر زدہ ویرانے کے شہر میں ڈھل جانے کا کیا پر کیف نقشہ دکھلا دیا۔ناممکن ہے کہ کوئی مادی قلم ا س سے زیادہ جامع اور بلیغ انداز میں مستقبل کی ا یسی تصویر کھینچ سکے۔

ا س پُر اسرار رؤیا سے بالبداہت ثابت ہے کہ اللہ جلشانہ و عز اسمہ نے 20؍فروری 1886ءکو ‘‘وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا’’ کے الفاظ میں جو عظیم الشان بشارت دی تھی ربوہ ا س کی دلکش عملی تعبیر بھی ہے اور سیدنا محمودؓ کی حقانیت کا زندہ و تابندہ نشان بھی۔؎

اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ

ملت کےاس فدائی پر رحمت خد اکرے

بانیٔ ربوہ کی پر شوکت پیشگوئی

بانی ٔربوہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمو د احمد (1889ء1965ء)کی ایک پر شوکت اور پر جلال پیشگوئی پر یہ مقالۂ خصوصی ختم کیاجاتا ہے۔فرمایا:

‘‘ربوہ کے چپے چپے پر اللہ اکبر کے نعرے لگ چکے ہیں۔اور رسول کریم ﷺ پر درود بھیجا جا تا ہے یہ بستی انشاءاللہ قیامت تک خد اکی محبوب بستی رہے گی ۔یہ بستی انشاءاللہ کبھی نہیں اجڑے گی بلکہ قادیان کی اتباع میں اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے کو بلند سے بلند ترکرتی رہے گی۔’’

(الفضل 11؍جنوری 1957ء۔صفحہ 2کالم نمبر3)

ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو

ربوہ کو پہنچتی رہیں کعبہ کی دعائیں

(الفضل انٹرنیشنل 26؍ مارچ 1999ء)

(آج اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے جماعت احمدیہ کو خلافتِ خامسہ کے عظیم الشان سائے میں نہایت موزوں ، خوبصورت اور مناسب جگہ پر ایک عظیم الشان مرکزِ اسلام، مرکزِ احمدیت تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ جس نے بھی اس مبارک مرکز کو دیکھا برملا کہہ اٹھا کہ اگر زمین پر آج کوئی جنت ہے تو یہیں ہے۔ جس طرح قادیان اور پھر ربوہ خلفائے وقت کی دعاؤں کے حق دار ٹھہرتے رہے اسی طرح ‘اسلام آباد’ بھی حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے عظام کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ خلافتِ احمدیہ کی سرپرستی میں اس مرکز سے دنیا کو امّتِ واحدہ بنانے، غلبۂ اسلام اور انسانوں کو ان کے خالق سے ملانے کے لیے عظیم الشان خدمات ظہور میں آئیں گی۔ ان شاء اللہ ۔ناقل)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button