اسبابِ ہجرتِ قادیان ،لاہور میں عارضی قیام اور نئے مرکز کی تلاش
نوع انسان کی ہدایت کے لیے سلسلہ انبیاء
نوع انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ ہدایت اوراحکامات کا سلسلہ جاری فرمایا جس کا مقصد انسان کی تعلیم وتربیت کرنااور انہیں اپنے خالق کی پہچان کرواناتھی۔
انبیاء کی تعلیم معاشرے میں راہ پاجانے والے ایسے رسوم و رواج کو درست کرنے والی ہوتی ہے جن کی وجہ سے وہ اپنے خالق سے دور ہو رہے ہوتے ہیں یا مخلوق کے حقوق کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برت رہے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سےاس معاشرہ کے افرادیابعض دفعہ پورےکا پورا معاشرہ اللہ کے اس مامور کے خلاف ہو جا تا ہے،اس کی تعلیما ت کوجھٹلاتا ہے،اس سےتمسخر کرتا ہے،اس کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرتا ہے ۔بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے مامور کو اس معاشرہ سے ہجرت کرنے کا حکم فرماتا ہےوہ مامور جانے سے قبل اس معاشرہ اور قوم پراتمام حجت کر کے وہاں سے ہجرت کر جاتا ہے۔قرآن کریم اور تاریخ سے ان انبیاء کے سفر ہجرت کے بارے میںعلم ملتاہے جبکہ بعض کی تفصیلات بھی ملتی ہیں ۔
آنحضرت ﷺنے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں آپؐ کا ایک نائب مسیح موعود اور مہدی معود مبعوث ہوگا۔چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 1882ء میں مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ فرمایا۔جس کے نتیجہ میںقادیان کی مقامی آبادی کے ہندو ،سکھ اور مسلمان آپؑ کے مخالف ہو گئے۔آپ کو طرح طرح کے دکھ دینے اور اذیت دینے کے منصوبےبنانے لگے۔اسلام کے شدید معاند اور آنحضرتﷺکے انتہائی مخالف اور تمسخر کرنے والے لیکھرام کو قادیان میں بُلا کر مخالفت کی آگ کو مزید بھڑکانے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔کبھی آپ کے پاس آنے والے مہمانوں تک کو دکھ دیے جا تے تھے۔
ان حالات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم قادیان کو چھوڑ کر کہیں اورچلے جاتے ہیں خاص طور پر جب لیکھرام 1887ءمیں قادیان آیا تو مخالفین کے حوصلے اور بڑھ گئےاور مخالفت انتہا کو پہنچ گئی۔ ان دنوں حضرت اقدسؑ نے قادیان سے کسی دور کے شہر کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔چنانچہ آپؑ اپنے اس ارادے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہوں کہ نہ صرف نبی بلکہ بجز اپنے وطن کے کوئی راستباز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھاتااور اللہ جل شانہ فرماتا ہے
و من یھاجر فی سبیل اللّٰہ یجد فی الارض مراغما کثیرا و سعۃ (النساء:101)
یعنی جو شخص اطاعت الٰہی میں اپنے وطن کو چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائےگا جن میں بلا حرج دینی خدمت بجا لا سکے۔سو اے ہم وطنو!ہم تمہیں عنقریب الوداع کہنے والے ہیں ’’
(شحنہ حق۔روحانی خزائن جلد2 ص 326)
23؍مارچ 1889ء کو پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا۔اس کے بعد18؍ستمبر 1894ءکو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پھر الہام ہوا:
‘‘داغِ ہجرت’’
(تذکرہ صفحہ 218 )
7؍جنوری 1900ء کو جب حضرت مسیح موعودؑکے مکانات اور مہمان خانہ سے مسجد اقصیٰ کو جانے والے راستہ کے درمیان مسجد مبارک کے مرزا امام دین اور مرزا نظام دین نے دیوار کھینچ دی۔جس سے جماعتی کاموں میں روک پڑنے لگی اور مہمانوں کو مختلف قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔جب اس سلسلہ میں ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں وفد بجھوایا گیاتو اس کا رویہ نامناسب تھا ۔اس نے کہا کہ تم لوگ ہم پر رعب ڈالنے آئے ہو ہم تم کو خوب جانتےہیں تمہیں سیدھا کردیا جائے گا۔ ابھی چلے جاؤورنہ گرفتار کر لیے جاؤ گے۔چنانچہ وفد واپس لوٹ گیا۔الغرض وفد کے بیانات سننے کے بعد لمحہ بھر کے لیے حضور پر نور کسی گہری سوچ میں خاموش رہے حضور نے ایک دل سوز اور رقت آمیز لہجہ میں فرمایا:مولوی صاحب ‘‘داغِ ہجرت ’’کا الہام بھی تو ہےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لیے ہجرت مقدر ہے۔
حضرت اقدس کے ان کلمات طیبات کو سن کر حضرت حکیم مولانا نور الدین نے عرض کی کہ حضور بھیرہ میں ہمارے مکانات موجود ہیں ۔وہاں ہر طرح آرام اور سہولت رہے گی۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نےسیالکوٹ جانے کی دعوت دی۔ محترم شیخ رحمت اللہ صاحب نے لاہور لے جانے کی بات کی۔ محترم چوہدری حاکم علی صاحب نے اپنے گاؤں چک نمبر 9پنیار ضلع سرگودھا جانے کے لیےعرض کی۔
حضرت اقدس نے سب کی بات سن کر فرمایاکہ
‘‘اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔جہاں اللہ لے جائے گا وہیں جائیں گے۔’’(حیات طیبہ ص204)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہےلیکن بعض رؤیانبی کے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں۔مثلاًٍ آنحضرت ﷺ کوقیصرو کسریٰ کی کنجیاںملی تھی تو وہ ممالک حضرت عمر کے زمانہ میں فتح ہوئے۔’’
(اخباربدر7ستمبر 1905ء)
برطانوی حکومت توجنگ عظیم اوّل کے بعد سے ہندوستان میں سیاسی اصلاحات کا آغازکر چکی تھی۔مگر ہندو اور مسلم کا مسئلہ ہمیشہ آڑے آجاتا تھا۔آخر برطانوی حکومت نےہندو اور مسلم لیڈروں کو کہا آپ کسی بات پرمتفق تو ہوں تا کہ اس پر بات کی جا سکے ۔ کانگرس نے ہندوستان کے آئندہ کے نظام کو دستوری شکل دیتے ہوئے نہرو رپورٹ شائع کر دی۔جس میں مسلمانان ہندکے سیاسی مذہبی سماجی اور معاشی حقوق کو یک سر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔مسلم کانفرنس نے چودہ نکات پیش کر دیے۔برطانوی حکومت نے مسلم اور ہندو لیڈروں کو تین گول میزکانفرنسوں میں اکٹھا کیاتاکہ ان کے درمیان حقوق کا فیصلہ کیا جا سکے۔ یہ باتیں 1935ء ایکٹ کے نام سے اصلاحات منظر عام پر آئیں جس کے تحت 1937ءمیں صوبائی انتخابات ہوئے۔ ہندوستان کے 11میں سے 7صوبوں میں کانگرس کی حکومت قائم ہوئی۔کانگرس کی صوبائی حکومتیں کیا قائم ہوئیں گویا ہندوتوا کو نافذکر نے کا لائسنس مل گیا۔ مسلم دشمن اشعار پر مشتمل بندے ماترم کو قومی ترانہ بنا لیا گیا۔اور اسکولوں کالجوںمیں صبح اسمبلیوں میں گایا جانے لگا۔گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائدکر دی گئی ۔مساجد کے سامنے ڈھول باجے بجائے جانے لگے۔جب یہ انتہا ہوئی تو محمد علی جناح صاحب نے مسلم دشمنی کے خلاف تحریک چلائی۔پیر پور کمیٹی کی رپورٹ کے نتیجہ میں وائسرائے ہند نے کانگریس کی صوبائی حکومتیں توڑ دیں اور مسلم لیگ نے ہندوستان بھر میں یومِ نجات منایا۔
مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطۂ زمین حاصل کر نے کے لیے 23؍مارچ 1940ءکو قراردادمنظور کی جس کو مسلمانان ہند کی ایک بڑی تعداد کی تائید حاصل تھی۔اس اہم تاریخی موقع پر جماعت احمدیہ کا وفد بھی شامل ہوا جو حضرت مولاناعبد الرحیم نیّرصاحبؓ اور مولانا محمد یار عارف صاحب پر مشتمل تھا۔ 1945ءکے انتخابات مسلم لیگ نے پاکستان کے نام پر لڑے اور جیتے جبکہ کانگرس متحدہ ہندوستان کا نعرہ لیے اس کے مدِ مقابل تھی۔
3؍جون1947ءکو جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہندوستان کا اعلان کیا تو اسی وقت سے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں اور ہندو ؤں کی تعدا د میں فرق کم تھا ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ان حالات میں مسلمانوں کو حفاظتی انتظامات کر نے کی ہدایت دی۔ اور اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ سے مسلح ہو نے کی بھی تاکید کی۔ پنجاب کےبعض اضلاع میں پاکستان ہندوستان میں تقسیم کا مسئلہ درپیش تھا۔جس کے لیے برطانوی حکومت نے ریڈکلف ایوارڈکا اعلان کیا۔ چنانچہ 31،30،29 جولائی کو لاہور میں مسلمان علاقوں کی تقسیم کے لیے ریڈکلف کی سرکردگی میں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ جناح صاحب کی ہدایت پر مسلم لیگ کی طرف سے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓنے تین دن بحث کی اور ان تین دنوں میں اس موقع پر حضرت مصلح موعودموجود رہے۔مسلم لیگ نے اپنے وقت میں جماعت احمدیہ کو وقت دیا کہ وہ مسلم لیگ کے حق میں اپنا محضر نامہ پیش کریں۔ شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے جماعت کی طرف سے محضر نامہ پیش کیا اورمسلم لیگ کے حق میں دلائل دیے۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ نے اپنی خود نوشت تحدیث نعمت میں تحریرکیا ہےکہ ریڈ کلف ایوارڈکافیصلہ تو بالا بالا ہو چکا تھا۔یہ بحث تو محض لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیےتھی۔پہلے گورداسپور اورفیروز پور کے اضلاع پاکستان میں شامل تھےبعد میں یہ علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے گئےتھے۔اس میں لارڈمونٹ بیٹن وائسرائے ہندنے براہ راست نہرو کے ساتھ مل کر ساز باز کر کے یہ علاقے ہندوستان میں شامل کیے تھے۔اس کا پس منظر یہ تھا کہ کشمیر کو جو راستہ جا تا تھا وہ پٹھان کوٹ سے ہو کر جاتا تھا۔ اس نے بٹالہ اور پٹھان کوٹ کی تحصیلیں ہندوستان میں شامل کر دیں۔ فیروز پور ضلع میں فیروز پورہیڈورکس سے نکالے جانے والی نہروں سے بیکا نیئر کی ریاست میں آب پاشی ہوتی تھی اس لیے یہ علاقہ ہندوستان کو دیا گیا۔بیکا نیئر کا راجہ مونٹ بیٹن کا ذاتی دوست تھا۔
ایوارڈ میں تبدیلی سے جو قتل و غارت ہوئی اس سے انسانیت شرما کر رہ جاتی ہے۔ ان سارے فسادات میں لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا۔
قادیان کے گرد و نواح پر ہندو مسلمانوں کے مسلح جتھے حملہ آور ہو نے لگے اور قتل و غارت کا ایک بازار گرم ہو گیا ۔ جب حالات اس نہج پر پہنچ گئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت سے مشورہ کرنے کے بعد قادیان سےہجرت کر جانے کا فیصلہ فرمایا۔
حضرت مصلح موعودؓ کے فیصلہ کے مطابق 25؍ اگست کو حضرت ام المومنین اور خواتین مبارکہ لاہور تشریف لے آئیں۔ 29؍ اگست کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود نے اہل قادیان کو خصوصی ہدایات فرمائیں ۔حفاظت مرکز کے لیے خاص دعاؤں کی تحریک فرمائی اور بیرونی جماعتوں کے لیے 30؍ اگست کو حضرت مصلح موعود ؓنے الوداعی پیغام دیا۔
سفر ہجرت
31؍اگست 1947ء کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ یہی وہ دن ہے جس میں قافلہ احمدیت کے سالار، مصلح موعود، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرزند ارجمند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان دارالامان سے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کی طرف ہجرت فرمائی۔حضرت مصلح موعودؓ نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی دارالسلام سے سوا ایک بجے دوپہر روانہ ہو کر ساڑھے چار بجے شام بخیریت مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈو کیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی 13ٹمپل روڈ پہنچے اور ایک نئے دَور کا آغاز ہوا جیسا کہ حضور نے فرمایا:
“آج ہر احمدی سمجھ لے کہ اب احمدیت پر ایک نیا دَور آجائے گا”
(الفضل 18؍ اکتوبر 1947ء)
سفر ہجرت کے حالات حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے
حضرت مصلح موعود ؓ ہجرت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“جماعتی طور پر ایک بہت بڑا ابتلا1947ء میں آیا اور الٰہی تقدیر کے ماتحت ہی ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا۔ شروع میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جاؤں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چٹھیاں بھی لکھ دی تھیں لیکن بعد میں حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ ہمارے لیے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے …پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں جب حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہیے توا س وقت تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے ۔
میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا کہ الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظرآیا “بعد گیارہ”میں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے …عیسوی کی 28تاریخ آ گئی 28تاریخ کو اعلان ہوگیا کہ 31؍ اگست کے بعد ہر ایک حکومت اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہو گی ۔ایک انگریز کرنل جو بٹالہ میں لگا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے جو کچھ یہ 31؍اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔یہ باتیں کرتے وقت اس پر رقت طاری ہو گئی لیکن اس نے جذبات کو دبا لیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا …میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے الہام “بعد گیارہ”سے کیا مراد ہے …وہ ملٹری کو ساتھ لے کر 8۔9بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے ۔یہاں تک کہ دس بجے اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہوں آخر 11 بج کر پانچ منٹ پر میں نے فون اٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کرو ں۔ میاں ناصر احمد نے کہا کہ میں فون کرنے ہی والا تھاکہ کیپٹن عطا ء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں چنانچہ ہم کیپٹن عطا ء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے ۔یہاں پہنچ کر مَیں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگا نانہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے ۔ہمیں اس بات کی شدید ضروت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں.۔
(الفضل 31؍جولائی 1948ء صفحہ 5تا6)
حضرت مصلح موعودؓ کا لاہور میں قیام
حضرت مصلح موعودؓ کی قادیان سے روانگی سے قبل لاہور میں آپ کے قیام کا انتظام کر لیا گیا تھا۔ مال روڈ کے قریب اور میوہسپتال سے ملحقہ چار عمارات 1۔ رتن باغ 2۔جودھا مل بلڈنگ3۔جسونت بلڈنگ4۔سیمنٹ بلڈنگ جماعتی استعمال کے لیے حاصل کی جا چکی تھیں۔
حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت مسیح موعود کی رہائش کے لیے رتن باغ ،دفاتر کے کام کے لیے اور کارکنان کے ٹھہرانے کے لیے جودھا مل بلڈنگ اور دیگر افراد کی سکونت کے لیے جسونت بلڈنگ اور سیمینٹ بلڈنگ تجویز ہوئیں۔چوہدری محمد علی صاحب اس علاقہ کو لاہور کی تُنی(ناف)کہا کرتے تھے۔
حضورؓ نے آکر متروکہ رہائش گاہوں کا بنفس نفیس معائنہ فرمایا اور یکم ستمبر کو جودھا مل بلڈنگ کے صحن میں ایک فوری میٹنگ منعقد فرمائی جس میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی بنیاد رکھی ۔
صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے قیام پر حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے ریڈیو پاکستان اور پاکستانی پریس میں اعلان نشر اور شائع ہوا۔
ان چارو ں بلڈنگز میں ٹھہرنے والے خاندانوں مع افراد کی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے مردم شماری کروائی تھی جس کا ذکر درج ذیل ہے:
“اس وقت صدر انجمن احمدیہ کی وساطت سے چار مکانات جماعت کے نام الاٹ شدہ ہیں یعنی 1۔رتن باغ 2۔جودھا مل بلڈنگ 3۔جسونت بلڈنگ ۔4۔سیمنٹ بلڈنگ۔ حضرت خلیفۃ المسیح امام جماعت احمدیہ اور آپ کے خاندان کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی انہیں عمارتوں میں ہیں بہر حال مردم شماری کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
رتن باغ میں نماز باجماعت اور خطبات جمعہ
کوٹھی رتن باغ کا ایک بیرونی اور وسیع کمرہ قبلہ رخ تھا جسے پہلے روز سے پنج وقتہ نمازوں اور وعظ و تلقین کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ اس میں حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں حاضر ہونے والے ملاقات کی سعادت حاصل کرتے اوراپنے مقدس اور جان سے پیارے آقا کے زندگی بخش کلمات سے مستفیض ہوتے تھے۔ مزید برآں اس جگہ تمام اہم مرکزی اجلاسوں کی کارروائی ہوتی تھی ۔حضور ؓنے دور ِپاکستان کے ابتدائی سات خطبات جمعہ دہلی دروازہ کی مسجد میں ارشاد فرمائے مگر جب احمدی مہاجرین کا بے پناہ سیلاب آیا تو حضورؓرتن باغ میں خطبات جمعہ ادا فرمانے لگے۔
(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ 19)
حضورکے ارشاد کی تعمیل میں نظارت تعلیم وتربیت نے رتن باغ کے احاطہ میں 24؍اکتوبر 1947ء سے نماز جمعہ کا انتظام کیا جو یکم اکتوبر 1948ء تک باقاعدگی سے جاری رہا۔ کچھ عرصہ کے بعد حضور نے قیام لاہور کے دوران مسجد احمدیہ دہلی دروازہ میں ہی نماز جمعہ کی ادائیگی شروع کردی تھی۔
رتن باغ کی مرکزی حیثیت
حضرت مصلح موعود کے رتن باغ میں رہائش پذیر ہونے پر رتن باغ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ 15؍ستمبر1947ء کو الفضل کا اجراء ہوا۔ اخبار الفضل کا دفتر بھی رتن باغ میں رہا۔ 2؍اکتوبر1947ء سے حضرت مصلح موعود کے ارشاد پرکارکنان صدرانجمن احمدیہ کی روزانہ بوقت صبح ورزش جسمانی کا انتظام کیاگیا جس کے نگران مکرم صاحبزادہ مرزا منصوراحمد صاحب مقرر ہوئے۔ یہ ورزشی پروگرام بھی رتن باغ کے احاطہ میں ہوتاتھا۔ قادیا ن جانے والے مخلصین کا کیمپ بھی یہیں کھلا۔ اسی طرح جہاد آزادئ کشمیر کے لیےفرقان فورس کے مجاہد رضاکار سرائے عالمگیر کی طرف روانہ ہونے سے قبل رتن باغ میں ہی قیام فرمارہے اورعرصہ تک ان کی حفاظت مرکز مستقل خدام کی تربیت یہاں ہی ہوتی رہی۔ رتن باغ کے ایک حصہ میں لنگر خانہ جاری کردیاگیا ۔ مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب فاضل ناظر ضیافت مقرر ہوئے ۔ ان کی امداد کے لیےشیخ محبوب الٰہی صاحب ناظم سپلائی بنائے گئے۔
لوائے احمدیت کا پاکستان منتقل کیاجانا
3؍ستمبر1947ء کو “لوائے احمدیت” پاکستان لایاگیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ؓنائب ناظر اعلیٰ قادیان نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓکی خصوصی ہدایت پر “لوائے احمدیت”کا بکس پاکستان بھجوایا۔ یہ یادگار بکس مرزا عبدالغنی صاحب محاسب صدرانجمن احمدیہ لائے تھے۔
حضرت مصلح موعو ؓ کا پاکستان میں پہلا خطبہ جمعہ
حضرت مصلح موعود ؓنے 5؍ستمبر1947ء کو پاکستان میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔حضورؓ نےفرمایا:
‘‘…ایک دفعہ دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کی بنیادیں بظاہر ہل گئی ہیں ۔اور اب اللہ تعالیٰ امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ از سرِ نَو ان بنیادوں کو مضبوط کیاجائے ۔اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے ہیں جو ایمان اور اخلاص کے مَیدان میں پورے اُترتے ہیں اور کتنے ہیں جو قربانی اور ایثار سے کام لے کر اپنے ایمانوں پر مُہر ثبت کرتے ہیں ۔اِنہی مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے مَیں قادیان سے آیا ہوں…۔
(الفضل 17؍ستمبر1947ء صفحہ2-1)
نئے دور کی پہلی مجلس مشاورت
حضرت مصلح موعودؓ کے قیام لاہور کی پہلی مجلس شوریٰ 7؍ستمبر 1947ء کو رتن باغ میں ہوئی ۔ حضورؓ نے پانچ گھنٹے خطاب فرمایا۔ جس میں ہندوستان کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔ اس مشاورت میں چھے اہم فیصلے کیےگئے:
- مشرقی پنجاب کے تمام احمدی خصوصاً قادیان اپنی اپنی جگہ رہیں البتہ عورتوں کو مغربی پنجاب بھجوادیں۔
- چندے فی الحال صدرانجمن احمدیہ قادیان کی شاخ لاہور کو ارسال کیے جائیں۔
- حضور نے “مرکز پاکستان” کی سکیم پیش فرمائی۔ اس میں 5لاکھ روپیہ فراہم کریں۔
- قادیان کی حفاظت اور اسے آباد رکھنے کی پوری کوشش کی جائے۔
- مہاجرین کی آبادی کے لیے مختلف احمدی جماعتوں کے ذمہ ایک مخصوص تعداد لگادی گئی۔
- ہر بالغ احمدی سال میں پندرہ دن ضرورتبلیغ کرے۔
(تاریخ احمدیت جلد 11ص 46-51)
قادیان کی مرکزی درس گاہوں کا پاکستان میں احیاء
٭جامعہ احمدیہ
ہجرت کے بعد دسمبر1947ء میں جامعہ احمدیہ چنیوٹ میں کھولاگیا۔ جگہ کی تنگی اور بعض دوسری مجبوریوں کے باعث مارچ 1948ء میں جامعہ احمدیہ احمد نگر منتقل کردیاگیا۔ جامعہ احمدیہ کے احمد نگر میں قیام کے دوران حضرت مصلح موعود ؓدوبارہ تشریف لائے اور اساتذہ اور طلباء سے خطاب فرمایا۔
٭تعلیم الاسلام کالج
موسم گرما کی تعطیلات کے دوران کالج بند تھا۔ 13 ؍اگست 1947 ء کو کالج کی عمارت کو سر بمہر کردیاگیا۔ یکم نومبر1947ء کو موسمی تعطیلات کے بعد لاہور میں سیمنٹ بلڈنگ کے ایک کمرے میں کالج کا اجرا کیاگیا۔ کل 60طلباء دس پندرہ روز کے اندر جمع ہوگئے ۔اسی نہر کے کنارے ایک ڈیری فارم کالج کے لیےالاٹ ہوا۔ طلباء اور اساتذہ نے غلاظت نکال کر صفائی ستھرائی کی۔ دروازے کھڑکیاں لگانے کا کام شروع ہواتو حکومت نے یہ عمار ت کسی اَور ادارے کو الاٹ کردی۔ اس زمانے کی بے سروسامانی کا اس امر سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ان ایام میں طلباء دن کے وقت چٹائیوں پر بیٹھ کر سبق یاد کرتے اور رات کوانہی چٹائیوں پر سوجاتے تھے۔
ایف سی کالج کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ کمرے اور لیبارٹیاں ان کی ہوں گی اور لیکچرار ہمارے،سائنس کے طلباء کے پریکٹیکل وہاں ہوتے تھے۔مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں کچھ عرصہ سابقہ ڈی اے وی کالج دیو سماج روڈ کی عمارت الاٹ ہوئی جس کا قبضہ یکم مئی 1948ء کو ملا۔ ڈیڑھ دو لاکھ روپے کے خرچ سے تعلیم کے جاری کرنے کے قابل بنایا۔ چنانچہ کالج کی تعلیمی وانتظامی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ لاہور کے قابل رشک کالجوں میں شامل ہوتاتھا۔اب یہ عمارت اسلامیہ کالج سول لائنز کے پاس ہے۔
1953ء کے فسادات کے نتیجہ میں حضرت مصلح موعود نے کالج کو ربوہ منتقل کرنے کا فیصلہ فرمایا۔26؍جون 1953ءکو حضور نے تعلیم الاسلام کالج کی عمارت کی سنگ بنیاد رکھی۔ 7؍نومبر1954ء کو تعلیم الاسلام کالج نئی عمارت میں منتقل ہوگیا۔
٭تعلیم الاسلام ہائی سکول
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سکول کی بنیاد 1898ء میں اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔1947ء کے بعد یہ سکول چند ماہ لاہور میں جاری رہا۔ پھر چنیوٹ میں جاری ہوا۔ سید محموداللہ شاہ صاحب اس کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ چنیوٹ میں ملک اس کو لیے بھگوان داس کی بلڈنگ الاٹ کی گئی۔ لوگ اس عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں اکھاڑ کرلے گئے تھے چنانچہ کافی خرچ سے اس کو قابل استعمال بنایا گیا۔
6؍نومبر1947ء پہلے دن سکول میں صرف 25طلباء تھے۔ مزید پانچ مکانات سکول کے لیے مل گئے اور ایک بلڈنگ ہاسٹل کے لیے بنوائی۔ اپریل 1948ء میں یہ تعداد 235 ہوگئی۔ یہ سکول اپریل 1953ء میں ربوہ منتقل ہوگیا۔
٭نصرت گرلز سکول
رتن باغ میں ہی نصرت گرلز سکول نے کام شروع کردیا۔ یہ سکول رتن باغ کے پچھلے احاطہ میں کھولاگیا۔ حکومت مناسب جگہ سکول کے لیے عمارت الاٹ نہیں کررہی تھی، جہاں محکمہ عمارت دینے کو کہتا تھا وہ جگہ مناسب نہیں تھی۔ 50کے قریب طالبات تعلیم حاصل کرتی رہیں۔
مجلس خدام الاحمدیہ کا دفتر
سلسلہ احمدیہ کی ذیلی تنظیموں میں سے سب سے پہلے خدام الاحمدیہ نے اپنا دفتر 4 میکلورڈ میں قائم کیا۔ پاکستان میں خدام الاحمدیہ کے تنظیمی کاموں کا آغاز ہوگیا۔
صیغہ امانت دفتر محاسب
یہ دفتر پہلے جو دھا مل بلڈنگ میں کام کررہاتھا۔ جن احباب جماعت نے حضرت مصلح موعود ؓکی ہدایت پر امانت فنڈ میں رقوم جمع کروائی تھیں انہیں اپنی جمع شدہ رقوم حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور انہوں نے اس رقم سے یہاں رہائش اور کاروبار میں مستحکم پوزیشن حاصل کرلی۔ چنانچہ 4ا؍اکتوبر 1948ء کویہ دفتر چنیوٹ منتقل ہوگیا تاکہ نئے مرکز کی تعمیر کے سلسلہ میں جماعتی ادارہ جات کو رقوم آسانی سے مل سکیں۔
اولوالعزم کا ایک عظیم الشان کارنامہ اشاعت اسلام کے مرکز ربوہ کا قیام
حضرت مصلح موعودؓ جب 31؍اگست 1947ءکو قادیان سے ہجرت کرکے لاہور تشریف لائے توآپ کے ذہن میں ایک نئے مرکز کی تلاش تھی جہاں قادیان کی طرح احمدی آبادی ہو، دفاتر ہوں۔ ارشاد وتبلیغ کا کام بآسانی جاری رکھاجاسکے۔ چنانچہ قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے کہ آپ ؓنے 7؍ستمبر1947ء کو ایک مجلس مشاورت بلائی جس میں جہاں اَور فیصلے ہوئے وہاں تاریخ میں نئے مرکز کے قیام کے فیصلے کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:
‘‘سوم۔ اس اجلاس میں حضور نے مرکز پاکستان کی سکیم بھی پیش فرمائی اور قرارپایا کہ اس ضمن میں احمدی جماعتیں پانچ لاکھ روپیہ فراہم کریں۔’’
(تاریخ احمدیت جلد 11ص48)
چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپؓ نے بہت سے احباب سے مشورہ کیا۔کئی مقامات زیر بحث آئے۔ چنیوٹ میں تو ادارے قائم ہورہے تھے اس کے علاوہ سانگلہ ہل کی بہت بڑی آبادی ہندوستان چلی گئی تھی۔ ایک دو اور مقامات تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے چوہدری عزیز احمد باجوہ صاحب جو ان دنوں سرگودھا میں سیشن جج تھے ان کو لاہور بلوایا اور اپنی خواب بھی ان سے بیان کی اور مشورہ طلب فرمایا۔
چوہدری صاحب نے 25؍ستمبر 1947ء کو حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر ابتدائی رپورٹ پیش کی کہ ننکانہ کے نزدیک 40؍ مربع اراضی یعنی ایک ہزار ایکڑ زمین حاصل کی جاوے۔ سیالکوٹ کے پاس پسرور، کلاس والہ ، چوہڑ منڈہ اس کےعلاوہ چناب کے کنارے جہاں وہ پہاڑیوں سے نکلتاہے۔ راوی کے کنارے جہاں وہ تحصیل شکر گڑھ میں داخل ہوتا ہے، کہوٹہ ضلع راولپنڈی حفاظت کے لحاظ سے یہ موزوں ترین جگہ ہے۔
مندرجہ بالارپورٹ سننے کے بعد حضورؓ نے چوہدری عزیز احمدبا جوہ صاحب کو ارشادفرمایاکہ آپ فوراً شیخوپورہ جاکر اراضیات وغیرہ دیکھ آئیں ۔ جڑانوالہ کا بھی جائزہ لیاگیا اور ربوہ کی موجودہ جگہ بھی دیکھی گئی۔ اس ٹیم میں چوہدری عزیز احمد باجوہ سیشن جج، نواب محمددین صاحب اورکیپٹن عطاء اللہ صاحب شامل تھے۔ کیپٹن صاحب تحریر کرتے ہیں:
“جب چنیوٹ پہنچے اور دریائے چناب نظر آیا تو میں نے بھائی صاحب کو کہا کہ ہمارا مرکز اس دریا کے کنارے ہونا چاہئے۔ ہم لوگوں نے دریا کے شمالی کنارے کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر آگے چل دیے اور جس جگہ سے سڑک پہاڑ کو عبور کرتی ہے اور کھلا میدان آجاتا ہے(جس جگہ پر اب ربوہ ہے) وہاں پہنچے تو بھائی صاحب اور ہم دونوں نے فوراً یہی کہا کہ یہ جگہ ہے جہاں ہمارا مرکز بننا چاہئے۔ یہ قطعہ زمین دیکھنے کے بعد چوہدری عزیز احمدصاحب نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں اپنی رائے پیش کردی۔’’(تاریخ احمدیت جلد 11ص 285)
مجوزہ زمین کا معائنہ
حضرت مصلح موعود نے 18؍اکتوبر1947ء کو درجہ ذیل افراد کے ساتھ جگہ کا معائنہ فرمایا:
1۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ
2۔ حضرت نواب محمددین صاحب
3۔ مولاناعبدالرحیم درد صاحبؓ
4۔ چوہدری اسداللہ خان صاحب
5۔ راجہ علی محمدصاحب افسرمال
6۔ شیخ محمد دین صاحب (دفتر جائیداد)
حضرت مصلح موعودؓ نئے مرکز کی تلاش اور سفر کے بارے فرماتے ہیں:
‘‘ہم سات آٹھ مہینے سے کوشش کررہے تھے ایک جگہ لی جائے جہاں قادیان کی اجڑی ہوئی آبادی کوبسایاجائے۔ یہ تجویز ستمبر1947ء میں ہی کرلی گئی تھی اور اس خواب کی بناء پر جو میں نے 1941ء میں دیکھی تھی کہ میں ایک جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں جماعت کو پھر جمع کیا جائے اور منظم کیاجائے۔
ہم نے یہاں پہنچتے ہی ضلع شیخوپورہ میں کوشش کی ۔پہلے ہماری یہ تجویز تھی کہ ننکانہ صاحب کے پاس کوئی جگہ لے لی جائے ایک دوست نے یہ بھی کہا کہ آپ نے جو خواب دیکھی تھی وہ جگہ تو پہاڑیوں کے بیچ ہی تھی اور یہ جگہ پہاڑیوں کے بیچ میں نہیں ہے۔
میں نے ایک جگہ دیکھی ہے جو آپ کے خواب کے زیادہ مطابق ہے۔ چنانچہ پارٹی تیار کی گئی اور میں بھی اس کے ساتھ موٹر میں سوار ہوکر گیا۔ وہ جگہ دیکھی ۔ وہ جگہ واقعہ میں ایسی ہی تھی صرف فرق یہ تھا کہ میں نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی اس میں سبزہ تھا اور یہاں سبزہ کی ایک پتی بھی نہ تھی۔ یہ جگہ اونچی ہے اور نہر کا پانی اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ میں نے ایک گاؤں کے زمیندار سے پوچھا کہ آیا کسی وقت سیلاب کا پانی اس جگہ تک پہنچ جاتاہے؟ اس نے کہا نہیں اور ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کے نیچے ہم کھڑے تھے کہا کہ اگر پانی اس درخت کی چوٹی تک پہنچ جائے تب اس جگہ تک پانی پہنچ سکتاہے۔ اب حال میں جو سیلاب آیا ہے اس کا پانی بھی اس جگہ سے نیچے ہی رہاہے اور اس جگہ تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن ہم نے سمجھا کہ اگر کوشش کی جائے تو شاید یہاں بھی سبزہ ہوسکتاہے۔’’
(الفضل 28؍ستمبر1948ء صفحہ 5)
حصول اراضی کی درخواست
حضورؓ کی ہدایت پرناظرصاحب اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر جھنگ کی خدمت میں 17؍اکتوبر1947ء کو درخواست دی گئی۔ ڈپٹی کمشنر اس روز 18؍اکتوبر کو بنگلہ لالیاں میں قیام فرماتھے۔ درخواست پیش کردی گئی۔ تیسرے دن ڈپٹی کمشنر صاحب سپرٹنڈنٹ پولیس اور شیخ محمد دین کے ساتھ اراضی دیکھنے اور معائنہ کے لیے تشریف لائے۔ درخواست مکمل کرکے سفارش کے ساتھ کمشنر صاحب کو بھجوادی ۔ ریونیو منسٹر نے بعض اعتراضات کے ساتھ یہ کاغذات واپس کردیے۔ازاں بعد جوابات کی تکمیل پر یہ کیس دوبارہ ریونیو منسٹر کے دفترمیں پہنچا اور ایک طویل کشمکش کے بعد 11؍جون 1948ء کو حکومت پنجاب نے منظوری دےدی۔
حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں:
‘‘یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کردوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔ یعنی ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ فوراً ایک مرکز بنایاجائے۔ اس کےلیے 7؍ستمبر1947ء کو ایک میٹنگ بلائی گئی۔ جس طرح میرے قادیان سے نکلنے کا کام کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ سے انجام پایا تھا۔ اسی طرح ایک نئے مرکز کا کام ایک دوسرے آدمی کے سپرد کیاگیا جو پیچھے آیا اور کئی لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ میری مراد نواب محمد دین صاحب مرحوم سے ہے۔’’
(الفضل 31؍جولائی 1949ء)
تعمیر اراضی ربوہ کا آغاز
11؍جون کو جب ربوہ کی زمین کی خریداری مکمل ہوئی تو ان دنوں حضور ؓکوئٹہ میں تشریف فرماتھے۔ آپ ؓنے فوری طور پر ہدایت فرمائی کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو نئے مرکز کی بنیادی ضروریات کومدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لے ۔ یہ کمیٹی 10افراد پر مشتمل تھی جس کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓتھے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ایک مرکز کے عادی تھے۔ اس لیے مرکز کی اطلاع ملتے ہی احباب جماعت نے خرید اراضی کے لیے والہانہ جوش کا اظہار فرمایا۔
نئے مرکز کا نام اور افتتاح
نئے مرکز کے افتتاح کا دن 20؍ستمبر1948ء مقررفرمایا۔اس کےساتھ ہی نئے مرکز کانام بھی زیر غور آیا۔ ماویٰ ، ذکریٰ ، دارالہجرت، مدینۃ المسیح اور ربوہ نام پیش ہوئے۔ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ؓکا پیش کردہ نام ‘‘ربوہ ’’حضرت مصلح موعود ؓنے منظور فرمایا۔ ربوہ میں سب سے پہلا وفد دیہاتی مبلغین کی کلاس کے 12طلباء پر مشتمل تھا جو اگست 1948ء کو دریائے چناب کے کنارے تعمیر ایک شکستہ حال بنگلہ میں قیام پذیر ہوا ۔ ان کے اسماء درج ذیل ہیں،
1۔عبداالرزاق خان2۔عبدالکریم خان یوپی کے تھے اور یہ دونوں بھائی تھے۔3۔ناصر احمد۔4۔غلام رسول چانگریاں ضلع سیالکوٹ کے تھے۔5۔عبدالرحمٰن۔6۔محمد عبد اللہ (کشمیر کے تھے)۔7۔ریاض احمد ۔8۔لطیف احمد (لاہور کے تھے)۔9۔محمد علی صاحب۔10 ایک شخص سندھ کے تھے۔11۔مبارک احمد خان صاحب12۔خالد احمد صاحب صوبہ سرحد کے تھے اور ایک استاد ممتاز بنگالی صاحب تھے کو چار پانچ ہزار دے کر بھیجا گیا تھا۔(ربوہ کے ابتدائی حالات از عبدالرزاق خان صفحہ 26)
اس وفد کے اراکین میں سے اِس وقت محمد عبداللہ صاحب جو کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں حیات ہیں اور فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔
اس وفد کے بعد عبد السلام اختر صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب تشریف لائے انہوں نے اپنے حالات ‘‘ربوہ میں پہلی رات’’کے عنوان سے الفضل میں تحریر کیے تھے۔
نئے مرکز ربوہ کا افتتاح
20؍ستمبر 1948ء کو حضرت مصلح موعود ؓصبح نو بج کر بیس منٹ پر لاہور سے روانہ ہوئے اور یہ سفربراستہ فیصل آباد ہوا۔حضور کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور دوسرے بزرگان سلسلہ بھی تھے۔یہ قافلہ ایک بج کر بیس منٹ پرمرکز ربوہ میں پہنچا۔سب سے پہلے نماز ظہر ادا کی گئی یہ پہلی باجماعت نماز تھی جو نئے مرکز میں حضرت مصلح موعودؓ اور احباب جماعت نے ادا کی۔ اس نماز میں250 کے قریب احباب تھے۔حضورؓکی آمد سے قبل چنیوٹ ،احمد نگر ،لالیاں،لائلپور(فیصل آباد)، سرگودھا،لاہور،گجرات،جہل،گوجرانوالہ،قصورکے احباب بھی اس تاریخی موقع پر موجود تھے جن کی تعداد 616تھی ۔جس مقام پر حضور ؓنے نماز ادا کی تھی وہاں ایک یادگاری مسجد 1953ء میں تعمیر کی گئی جو بعد میں فضل عمر ہسپتال کا حصہ قرار پائی۔
نماز ظہر کے بعد ابراہیمی دعاؤں کو تین تین بار دہرایا احباب جماعت بھی ان دعاؤں کو دہراتے رہے ۔
نئے مرکز کی تعمیرات کا سلسلہ جاری تھا ۔پہلا جلسہ سالانہ اپریل 1949ء میں منعقد کیا جاچکا تھا۔ جماعت کے دفاتر کی تعمیر بھی جاری تھی ۔خلافت کے دیوانے ربوہ کو اپنی رہائش بنا رہے تھے کہ 19؍ستمبر 1949ء حضرت مصلح موعود بانی مرکز ربوہ مستقل رہائش کے لیے بروز دو شنبہ لاہور سے دس بج کر پچاس منٹ پر روانہ ہوئے ڈیڑھ بجے ربوہ میں ورود فرمایا ۔سب احباب جماعت کی زبان پر رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ والی دعا تھی۔
پیشگوئی مصلح موعود میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا ۔اس کے بارے میں درج تھا کہ اس کے معنی سمجھ نہیں آئے ۔ربوہ نئے مرکز احمدیت کے قیام سے اس پیشگوئی کو تین سے چار کرنے والے کے معنی پوری طرح روشن ہو گئے کہ اشاعت اسلام کے مراکز مکہ،مدینہ ،قادیان اور ربوہ قرار پائے ۔فالحمد للہ علیٰ ذلک
اِک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
٭…٭…٭