سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

آپؑ کے حلیۂ مبارک کا بیان

میاں رحیم بخش صاحبؓ کی ایک روایت ہے کہ

“ایک دن کا واقعہ ہے کہ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب اندر چلے گئے (مسجد سے اپنے گھر چلے گئے) ہم نے پیچھے سنتیں پڑھیں اتنے میں باری کے رستے سے (یعنی کھڑکی کے راستے سے) حضور نے حضرت خلیفۂ اوّل کو بلایا۔حضور کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور حکیم صاحب سے اس کے متعلق کوئی حوالہ پوچھنا تھا یا کوئی بات پوچھنی تھی۔مَیں نے اس باری (کھڑکی) سے جب حضور کو دیکھا حضور کے سر پر پگڑی نہیں تھی، پٹے رکھے ہوئے تھے۔اس نظارہ کی مَیں کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔وہ مکان مجھے نور سے بھرا ہوا نظر آتا تھا۔چہرہ کی وجہ سے مکان منور ہو رہا تھا۔آہ اس نورانی چہرہ کاجب بھی تصور آتا ہے جی میں عجیب قسم کے خیالات موجزن ہوتے ہیں ۔اس وقت کا نقشہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔حضورؑ نے حضرت خلیفہ اول ؓ سے کوئی بات دریافت کی۔وہ باہر آ گئے اور حضورؑ نے پھر اندر سے کنڈا لگا لیا۔” (رجسٹر روایات صحابہ ؓغیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 185،184روایات میاں رحیم بخش صاحبؓ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شمائل کے متعلق ڈاکٹر بشارت احمدصاحب اپنی تصنیف مجدد اعظم میں تحریر کرتے ہیں کہ

‘‘1906ء میں مَیں لمبی رخصت لے کر قادیان گیا ہوا تھا۔ایک روز حضرت اقدس کی طبیعت ناساز تھی۔سر میں سخت درد تھا۔مگر اسی تکلیف میں آپ ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے آئے۔مجھے سامنے سے آتے نظر آئے تو گو سردرد کی وجہ سے چہرہ پر تکلیف کے آثار تھے لیکن پیشانی پر ایک نور کا شعلہ چمکتا نظر آتا تھا۔جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتیں اور دل کو سرور آتا تھا۔آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ غیر معمولی چمک کس چیز کی تھی۔یہ تو خاص اوقات کا ذکر مَیں نے کیا جن کا اثر غیر معمولی طورپر دل پر رہ گیا ورنہ آپؑ کے چہرہ پر تقدس کے آثار ایسے نمایاں تھے اور انوار روحانی کی بارش کا و ہ سماں نظر آتا تھا کہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص اسے دیکھے اور متاثر نہ ہو۔…. ہندو تک اس کے مُقرتھے۔(یعنی اس بات کا اقرار کرتے تھے، اس بات کومانتے تھے) (کہتے ہیں کہ) بٹالہ اور قادیان کے درمیان نہر کے کنارے ایک ہندو دکاندار چھابڑی لگا کر بیٹھا رہا کرتا تھا۔وہ کہا کرتا تھا کہ مہاراج مَیں تو ہر ایک آنے جانے والے کو دیکھتا ہوں۔ بڑے بڑے پٹھان اور سُورما یہ کہتے ہوئے ادھر سے گزرے ہیں کہ آج مرزا کا فیصلہ کرکے آویں گے لیکن جب واپس گئے تو مرزا کے ہی گن گاتے ہوئے گئے۔مہاراج مرزا تو کوئی دیوی کا روپ ہے۔(یہ ایک ہندو کی تصدیق ہے)” (مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1242 ، بار اول 1940ء مطبوعہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)

پھر ڈاکٹر بشارت صاحب ہی ایک روایت کرتے ہیں کہ

“وہ آثار تقدس اور انوار آسمانی جو آپ کے چہرہ پر ہر وقت نظر آتے تھے اِن کو نہ قلم بیان کر سکتی ہے نہ فوٹو دکھا سکتا ہے۔جس وقت آپ ایک چھوٹے سے دروازہ کے ذریعہ گھر میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ایک نور کا جھمکڑا سامنے آ کھڑا ہوا۔سب سے پہلے خاکسار مؤلف نے حضرت اقدسؑ کو سیالکوٹ میں 1891ء میں دیکھا تھا۔آپؑ حکیم حسام الدین مرحوم کے مکان سے نکلے۔گلی میں سے گزر کر سامنے کے مکان میں چلے گئے۔لیکن مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک نور کا پتلا آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔جو مقدس سے مقدس شکل میرا ذہن تجویز کر سکتا تھاوہ اس سے بھی بڑھ کر تھا اور بے اختیار میرے دل نے کہا کہ یہ شکل جھوٹے کی نہیں بلکہ کسی بڑے مقدس انسان کی ہے۔
ایک دفعہ سردیوں کا موسم تھا۔مَیں قادیان گیا ہوا تھا۔شام کا وقت اور بارش ہو رہی تھی اور نہایت سرد ہوا چل رہی تھی۔مسجد مبارک میں جہاں نماز مغرب پڑھی جاتی تھی۔کچھ اندھیرا سا ہو رہا تھا۔حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے تو موم بتی روشن کی ہوئی آپ کے ہاتھ میں تھی جس کا عکس آپ کے چہرہ مبارک پر پڑرہا تھا۔اللہ ، اللہ جو نور اس وقت آپ کے چہرہ پر مجھے نظر آیا وہ نظارہ آج تک نہیں بھولتا۔چہرہ آفتاب کی طرح چمک رہا تھا جس کے سامنے وہ شمع بے نور نظر آتی تھی۔”

(مجدد اعظم جلد دوم صفحہ 1242-1241, بار اول 1940ء)

حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:

بیعت کی منظوری آنے کے ایک مہینے بعد مَیں نے ڈاکٹر صاحب (یعنی حضرت ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب) سے عرض کیا کہ مَیں قادیان جا کر دستی بیعت بھی کرنا چاہتا ہوں مگر مَیں کبھی گڑھ شنکر سے باہر نہیں گیا۔نہ ریل کبھی دیکھی ہے۔مجھے قادیان کا راستہ بتا دیں ۔آپ نے کہا یہاں سے بنگہ پہنچو۔وہاں میاں رحمت اللہ صاحبؓ مرحوم باغانوالہ کی دکان پر جا کر ان سے کہنا کہ پھگواڑہ ریلوے سٹیشن کاراستہ بتا دیں اور پھر وہاں سے بٹالہ چلے جانا، بٹالے رات کو دس بجے پہنچ جاؤ گے اور ٹھہرنے کی کوئی جگہ معین نہیں ہے۔سٹیشن پر ٹھہر جانا تو بٹالہ سے پھر قادیان کچی سڑک جاتی ہے۔صبح فجر کے بعد قادیان چلے جانا۔تو کہتے ہیں انہوں نے راستہ بتا دیا۔مَیں روانہ ہوا اور جب بٹالہ سٹیشن سے نکلا تو سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد پرنظر پڑی۔مَیں نے کہا کہ مسجد میں ہی رات گزار لیتے ہیں ،صبح قادیان تو چلے جانا ہے۔کہتے ہیں کہ مسجد میں مَیں ابھی گیا ہی تھا۔تھوڑا وقت ہوا تھا تو ایک شخص آیا اور آ کر کہا کہ تم کون ہو۔مَیں نے کہا مسافر ہوں قادیان جانا ہے۔اس نے گالی دیتے ہوئے سختی سے کہا کہ خبیث مرزائی آ کر مسجد کو خراب کر جاتے ہیں ۔صبح مسجد دھونی پڑے گی تم یہاں سے نکل جاؤ۔مَیں نے کہا مَیں تو یہاں آیا ہوں ۔مَیں تو رات گزار وں گا۔مَیں نے نہیں جانا۔کس طرح تم مجھے خدا کے گھر سے نکال سکتے ہو؟ تو پھر وہ گالیاں دیتا ہوا چلا گیا۔کہتے ہیں صبح کی نماز مَیں نے پہلے وقت میں پڑھ لی اور قادیان کی طرف روانہ ہوا۔مسجدمبارک میں جب مَیں پہنچا تو پہنچنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک کھڑکی میں سے مسجد مبارک میں تشریف لائے۔مَیں نے جب حضور کو دیکھا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ تو سراپا نور ہی نور ہے۔یہ تو سچوں اور راستبازوں کا چہرہ ہے۔یہ وہی شخص ہے جس کی بابت اخبار الحکم میں کلمات طیبات حضرت امام الزمان پڑھا کرتا تھا اور جس مقدس وجود کی مجھے تلاش تھی۔

(ماخوذ از اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 202،201)

پھر حضرت فضل احمد صاحب پٹواری حلقہ گورداس ننگل، تحصیل گورداسپور روایت کرتے ہیں کہ‘‘جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد فراغت مقدمہ مولوی کرم الدین صاحب دارالامان تشریف لائے تو آپ شام کے وقت تشریف لائے اور نمازمغرب میں کچھ دیر ہو گئی۔حضور جس وقت مسجد میں تشریف لائے تو مسجد میں اجالا ہو گیا۔وہ روشنی فدوی کی آنکھوں میں اب تک موجزن ہے۔”

(رجسٹر روایات صحابہ ؓغیر مطبوعہ جلد اوّل صفحہ 49 روایت فضل احمد صاحب پٹواری)

شیخ محمد نصیب صاحب حال کلرک دفتر نشرواشاعت قادیان کی روایت ہے کہ

“…غضِ بصر کی وجہ سے آپ کی ایک آنکھ کے اوپر چھپر پر نہایت ہی سرخ رنگ کا ایک تل نظر آتا تھا جو بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔”

(رجسٹر روایات صحابہ ؓ غیر مطبوعہ جلد 15صفحہ 29روایت شیخ محمد نصیب صاحبؓ)

حضرت نظام الدین صاحب پوسٹ ماسٹر نبی پور روایت کرتے ہیں کہ

“مَیں ایک د فعہ سخت بیمار قریب المرگ ہو گیا۔مَیں بے ہوشی کی حالت میں تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑتشریف لائے تو کمرہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ہو گیا۔ایک الماری جو بوتلوں سے دوائیوں سے قدرتاً بھری ہوئی تھی۔اپنے دست مبارک سے کھول کر ایک بوتل کے لیبل پر انگشت مبارک رکھ کر حضور نے ارشاد فرمایا: منشی جی اس سے 20بوندیں پیو۔اسی وقت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخش دی۔”

(رجسٹر روایات صحابہ ؓ غیر مطبوعہ جلد 1 صفحہ 75 روایت نظام الدین صاحبؓ)

پھر ایک روایت میاں فیروز الدین صاحب ولد میاں گلاب دین صاحب ؓساکن سیالکوٹ کی ہے، کہتے ہیں :
“جب حضور نے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو میرے دادا صاحب نے کچھ عرصہ کے بعد حضور کی بیعت کر لی اور سارے خاندان کو کہا کہ مَیں ان کا اس زمانے سے واقف ہوں جبکہ حضور یہاں ملازم تھے اس لیے آپ لوگ میرے سامنے بیعت کریں ۔یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔چنانچہ 1892ء میں ہمارے سارے خاندان نے بیعت کر لی۔”

(رجسٹر روایات صحابہ ؓغیر مطبوعہ جلد10 صفحہ 128،127 روایات میاں فیروز الدین صاحب ؓ)

پھر ایک روایت مولوی فضل الٰہی صاحب قادیان کی ہے، کہتے ہیں کہ

“ایک دفعہ کا واقعہ مجھے یاد آ گیا کہ بعد نماز مغرب حضور شہ نشین پر مشرق کی طرف ر خ فرمائے تشریف فرما تھے اور چاند کی تاریخ پندرہ یا سولہ غالباً تھی۔اندھیرے میں جب مشرق سے چاند طلوع ہوا تو یہ عاجز مغرب کی طرف (حضور کے چہرہ مبارک کی طرف) منہ کرکے بیٹھا ہوا تھا۔مجھے نظر آیا کہ حضور کے چہرہ مبارک سے شعاعیں نکلتی ہیں اور چاند کی شعاعوں سے ٹکراتی نظر آتی ہیں ۔”

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12 صفحہ 326 روایات مولوی فضل الٰہی صاحبؓ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ

“1904ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپؑ نے تقریر فرمائی۔ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اس تقریر میں موجود تھے۔وہ کہتے ہیں کہ دوران تقریرمیں مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودکے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا۔اس وقت میرے ساتھ ایک اَور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے۔مَیں نے انہیں کہا۔دیکھو وہ کیا چیز ہے۔انہوں نے دیکھا تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے۔اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی۔”

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 121)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

“آپ یاد رکھیں اور ہمارا مذہب یہی ہے کہ کسی شخص پر خدا کا نور نہیں چمک سکتا، جب تک آسمان سے وہ نور نازل نہ ہو۔یہ سچی بات ہے کہ فضل آسمان سے آتا ہے۔جب تک خود خد ا اپنی روشنی اپنے طلبگار پر ظاہر نہ کرے۔ اس کی رفتار ایک کیڑے کی مانند ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، کیونکہ وہ قسم قسم کی ظلمتوں اور تاریکیوں اور راستہ کی مشکلات میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کی روشنی اس پر چمکتی ہے تو اس کا دل و دماغ روشن ہو جاتا ہے اور وہ نور سے معمور ہو کر برق کی رفتار سے خدا کی طرف چلتا ہے۔”

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 235 )

پس اللہ تعالیٰ کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کرنے سے آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے وہ نور عطا فرمائے جو اس کا حقیقی نور ہے۔جو اس کے پیاروں سے محبت کرنے سے ملتا ہے۔جس کو حاصل کرنے کے طریقے اس زمانے کے امام نے نور محمدیؐ سے حصہ پا کر ہمیں سکھائے۔ہم دنیا کی لغویات میں پڑنے کی بجائے اپنے خدا سے اس نور کے ہمیشہ طلبگار رہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوں جو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے ہیں کہ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (سورۃ التحریم:9)کہ اے ہمارے ربّ!ہمارے لیے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے۔یقیناً تو ہر چیز پرجسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اس دعا کے اثرات دکھائے اور مرنے کے بعد بھی ہمارے لیے یہ نور دائمی بن کر ہمارے ساتھ رہے۔آمین

(مذکورہ بالاروایات صحابہ ؓ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز،خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29جنوری 2010ء شائع شدہ الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ8مورخہ 19تا25فروری 2010 صفحہ 5تا9 اور خطباتِ مسرور جلد ہشتم صفحہ 52 تا 65، خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 29 جنوری 2010ء سے لی گئی ہیں )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button