از افاضاتِ خلفائے احمدیت

ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ، انبیاء اور حکام وقت کا مطیع ہو کر رہنا چاہیے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

دَورِ جدید میں اکثر حکومتیں جمہوری طرز پر ہیں اِس لیے اگر کوئی فردِ واحد یا گروہ حکومت کو بدلنا چاہے تو انہیں یہ کام مناسب جمہوری طریق کے مطابق ہی کرنا چاہیے اور اپنی آواز پہنچانے کے لیے حق رائے دہی کا سہارا لینا چاہیے۔ ووٹ ذاتی ترجیحات یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نہیں ڈالنے چاہئیں بلکہ اس بارہ میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق وطن سے وفاداری اور محبت کی روح اور قومی بھلائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔ چنانچہ حقِ رائے دہی استعمال کرتے وقت ذاتی ترجیحات اُمیدوار اور پارٹی کو نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو مدِّ نظر رکھنا چاہیے جن سے یہ جانچا جا سکے کہ کون سا امیدوار یا کون سی پارٹی ملک و قوم کی ترقی میں مددگار ہو گی۔ حکومت ایک بہت بڑی امانت ہے اس لیے یہ صرف اس پارٹی کو دی جانی چاہیے جسے ایک ووٹر دیانت داری سے سب سے مناسب اور سب سے زیادہ حق دار سمجھتا ہے یہ ہے حقیقی اسلام اور یہ ہے سچی وفاداری!

قرآن کریم کی سورۃ نمبر 4 آیت نمبر59 میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ امانتیں صرف ان لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہوں اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت انصاف اور ایمان داری سے فیصلہ کرو۔ پس وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ عنان حکومت صرف انہی لوگوں کو تھمائی جائے جو اِس کے صحیح حقدار ہیں تاکہ ملک و قوم ترقی کرے اور ترقی کی دوڑ میں دنیا کی دوسری اَقوام کے شانہ بشانہ ہو۔
دنیا میں کئی جگہ عوام حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہڑتال اور احتجاج میں حصہ لیتے ہیں۔ نیز تیسری دنیا کے بعض ممالک میں احتجاج کرنے والے سرکاری یا شہریوں کی املاک اور جائیدادیں لوٹتے اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افعال کا وطن سے وفاداری اور محبت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔یاد رکھنا چاہیے کہ غیر مجرمانہ اور پُر امن احتجاج یا ہڑتال بھی معاشرہ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ پر امن احتجاج بھی اکثر قومی معیشت کو لاکھوں کا نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا رویہ کسی طور پر بھی قوم سے وفاداری کی مثال نہیں سمجھا جا سکتا۔ اِس سلسلہ میں ایک سنہرا اصول جو بانیٔ جماعت احمدیہ مسلمہ نے دیا ہے یہ ہے کہ ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ، انبیاء اور حکام وقت کا مطیع ہو کر رہنا چاہیے۔یہ بعینہٖ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے دی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی بھی ملک ہڑتال اور احتجاج کی اجازت دیتا ہے تو وہ صرف اسی حد تک کرنے چاہئیں کہ ان سے ملک یا معیشت کو نقصان نہ پہنچے۔ …

…آج دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ انسانوں کے ایک دوسرے سے روابط بہت گہرے ہو گئے ہیں۔ ہر قوم، مذہب اور معاشرہ کے لوگ دنیا کے ہر ملک میں سکونت پذیر ہیں اس لیے ہر قوم کے لیڈر تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھیں اور ان کا حترام کریں۔ راہنماؤں اور ان کی حکومتوں کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں جن سے سچائی اور انصاف کی روح اور ماحول پروان چڑھے نہ کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کریں۔ ناانصافیاں اور زیادتیاں ختم ہونی چاہئیں اور اس کے بدلہ میں حقیقی انصاف کے لیے کوشش کرنی چاہیے جس کے حصول کا بہترین طریق یہ ہے کہ دنیا اپنے خالق کو پہچانے۔ پس ہر طرح کی وفاداری خدا سے وفاداری کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت جلد تمام ممالک کے عوام میں وفاداری کے بہترین معیار قائم ہو جائیں گے اور ساری دنیا میں امن و امان کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔

(خطاب فرمودہ 30؍مئی 2012ءبمقام ملٹری ہیڈکواٹرز کوبلنز، جرمنی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button