ابراہیمی دعاؤں کی قبولیت کا زندہ نشان۔ربوہ
’’اے مبارک گرد!تو بھی خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے آ اور ہمارے کپڑوں اور جسموں کو گرد آلود کر دے ۔آ اور ہمارے ناک اور آنکھوں کو بھر دے ،ہمیں نزلہ، زکام اور کھانسی کی کچھ پرواہ نہیں ۔محبت کی نگاہ میں یہ مٹی بھی ایک شان رکھتی ہے۔آخر یہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے کہ اس نے ہزارہا سال کے بعد اس زمین کو جس کے آباد کرنے سے لوگ عاجز آ گئے تھے اپنی پاک جماعت کے ذریعہ آباد کیا۔‘‘
(انوار العلوم جلد 21صفحہ 351)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ربوہ کی مٹی سے یہ عشقیہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب ربوہ ایک بے آب وگیاہ بستی تھی ، اس کی سرزمین لق و دق صحرا کا نظارہ پیش کرتی تھی اور ہلکی سی بھی ہوا چلنے سے یہاں گرد کے جھکڑ چلتے تھے ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو ربوہ کی مٹی سے عشق تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے کاروان مسیح ؑکے لیےمرکز احمدیت کے طور پر اس بستی کا خودانتخاب کر کے اس کا القاء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل پر کیا تھا اور متعدد الٰہی بشارتوں سے آپ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی فرمائی تھی۔
ہجرت قادیان کے انقلاب کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لاہور پہنچ کر فرمایا تھا :‘‘یہاں پہنچ کرمَیں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں ،بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے’’۔
(الفضل31؍جولائی 1949ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے باغ احمد کے اشجار کی ربوہ کی سر زمین میں اس طرح پر آبیاری کی کہ وہ پہلے سے بھی بڑھ کر پھل دینے لگ گئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ کی اولوالعزم مدبرانہ قیادت کی بدولت جماعت نے مصائب کا نہایت جواں مردی اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں جماعت کی ترقی کی نئی راہیں متعین ہوئیں اورجماعتی ترقی کی جڑیں جہاں زمین کے پاتال تک پہنچیں وہاں اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔چنانچہ مرکز احمدیت ربوہ سے از سرنو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے مشن کا آغاز ہوا اور یہ امر روز ِروشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ قادیان میں جماعت کی ترقی اتفاقیہ نہ تھی بلکہ قدم قدم پر ایک زندہ خدا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت کے ساتھ تھا ۔نیز چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ ربوہ کی اولین خاک آلود جبینوں کی ابراہیمی متضرعانہ دعاؤں اور الٰہی بشارتوں کی بدولت خدا تعالیٰ نے بے آب وگیاہ صحرا کی تقدیر بدل دی اور اسے باغ جناں بنا دیا نیز ریت کے ادنیٰ ذرّوں کو ہمتاب ثریا کر دیا۔
زیر نظر مضمون میں اس بات کا ذکر ہو گا کہ ایک ہاتھ پر جمع ہونے اور زندہ خدا کا ساتھ ہونے کی بدولت کس طرح ایک بےآب و گیاہ اور لق و دق صحرا کی تقدیر بھی بدل جایا کرتی ہے۔
ربوہ اپنے رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے ایک قصبہ کی سی حیثیت رکھتا ہے یہ ایک ایسی جماعت کا مسکن ہے جس کا مقصد اکناف عالم میں اسلام کی سر بلندی اور اس کی اشاعت کا عَلم بلند کرنا ہے اور یہ امر ایک ڈھیروں ڈھیر خطیر رقم کا متقاضی ہے۔اس عظیم الشان مقصد اورنہایت محدود وسائل کے باوجود خدا تعالیٰ نے ربوہ کی تعمیر وترقی کے لیے جماعت کی مساعی میں برکت ڈالی ہے کہ وہ سرزمین جو بالکل ایک بنجر اور چٹیل تھی جہاں آج خوبصورت فن تعمیرات سے آراستہ ہے وہاں رنگارنگ پھلوں اور پھولوں سے گل و گلزار بنی ہوئی ہے اور بنیادی شہری سہولیات کو پورا کر رہی ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
صحت
ربوہ میں اگر صحت کے شعبہ کی بات کی جائے تو یہ چھوٹی سی بستی جدید طبی سہولیات سے آراستہ ہے ۔ان سہولیات سے جہاں ربوہ کے اہالیان کا علاج معالجہ ہوتا ہے وہاں بڑی تعداد میں بیرون سےآنے والے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
ربوہ میں موجود فضل عمر ہسپتال کا افتتاح مورخہ 21؍ مارچ 1958ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔فضل عمر ہسپتال 150 بستروں پر مشتمل ہے جس میں 24گھنٹے ڈاکٹرز،نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف لگن اور شوق سے خدمت انسانیت کا فریضہ ادا کرتے ہیں ۔اس ہسپتال میں تمام بنیادی سہولیات پائی جاتی ہیں۔
امراض قلب کے لیے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ قائم ہے۔اس کی عمارت 6منزلہ ہے۔یہاں انجیوگرافی اور آپریشنز کے لیے دو الگ الگ تھیٹرز موجود ہیں ۔یہ انسٹیٹیوٹ نہ صرف اپنے علاقہ بلکہ پورے پاکستان کے بہترین ہسپتالوں میں شمار ہوتاہے ۔
ربوہ کے ان ہسپتالوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں پوری دنیا سے اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ نہایت قابل احمد ی ڈاکٹرز اپنے اوقات میں سے جز وقتی وقف کر کے انسانیت کی خدمت کے لیے آتے ہیں ۔
ہومیوپیتھی کے حوالہ سے ربوہ کو خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ یہاں مرکزی طور پر پانچ کے قریب ہومیو ڈسپنسریاں اور انسٹیٹیوٹ کام کر رہے ہیں۔ان میںخدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر انتظام ‘‘طاہر ہومیو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ” پورے پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد ہسپتال ہے۔
ربوہ کی ان طبی سہولیات کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں دکھی اور نادار مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں غیر از جماعت ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ان مرکزی جماعتی سہولیات کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں ربوہ میں پرائیویٹ طور پر ایلوپیتھی،ہومیو پیتھی اور حکمت کے کلینکس ہیں جن سے اندرون و بیرون از ربوہ سے آنے والے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
ربوہ میں خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام عطیہ خون اور عطیہ چشم کا ایک ادارہ ‘‘نور العین دائرۃ الخدمت الانسانیہ ’’ قائم ہے۔ اس کی عمارت دیدہ زیب اور جدید سہولیات سے آراستہ ہے ۔ اس ادارہ کے تحت بلڈ بنک قائم ہے جو معمول کی ضروریات کے مطابق مریضوں کو خون مہیا کرتا ہے۔ یہاں ایک انتہائی مقدس کام تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کے مستحق مریض بچوں کی مفت نگہداشت کا بھی کیا جاتا ہے مزید برآں آئی کلینک میں کارنیا کی بیماری کا شکار نابینا افراد کو بینائی فراہم کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔
صحت مند افراد سے صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔صحت مند اور توانا افراد جہاں معاشرہ کے لیے مفید وجود ثابت ہوتے ہیں وہاں اپنے روز مرہ کے کام بھی نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفاء کے ارشادات میں اپنی صحت کا خیال رکھنے کی طرف خصوصیت کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ ربوہ میں صحت مندانہ جسمانی سر گرمیوں کے فروغ اور ان کے انتظام و انصرام کے لیے‘‘مجلس صحت’’قائم ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے 1972ء میں اس مجلس کا قیام فرمایاتھا۔یہ مجلس جہاں ربوہ کے باشندوں کے لیے کھیلوں اور ورزش جسمانی کا انتظام کرتی ہے وہاں اس مقصد کے لیےگراؤنڈز اور ضروری سامان کی دستیابی کو یقینی بناتی ہے ۔خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام بھی اس شعبہ میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے جاتے ہیں۔ ربوہ میں مختلف کھیلوں کرکٹ ،فٹ بال ،والی بال ،باسکٹ بال،بیڈمنٹن،ٹیبل ٹینس،لان ٹینس،ہاکی وغیرہ کے نہایت اعلیٰ اور معیاری گراؤنڈز موجود ہیں۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام بین الاقوامی طرز کا ایک سوئمنگ پول بھی ہے۔ نمازعصر کی ادائیگی کے بعد ربوہ کی گراؤنڈز کا نظارہ دیدنی ہوتا ہے چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور نوجوان مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں۔ ربوہ میں کھیلوں کے فروغ کی بدولت بڑی تعداد میں ایسے بچے اور نوجوان ہیں جو شعبہ کھیل میں ملکی سطح پر ہونے والے مقابلہ جات میں نمایاں اعزاز حاصل کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے بین الاقوامی طور پراپنے ملک کی نمائندگی کی ہے ۔
تعلیم
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔زمانہ قدیم سے دور حاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مردو عورت پر علم کا حصول لازمی ٹھہرایا ہے ۔
ربوہ کی بستی دینی و دنیاوی علوم کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ دینی علوم سکھانے کا بنیادی ذریعہ یہاں موجود ستر سے زائد مساجد ہیں ۔ان مساجد میں جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند کیا جاتا ہے وہاں یہ دینی علوم سکھانے کا بڑا ذریعہ ہیں ۔دینی علوم سیکھنے کا انتظام نماز فجر کے بعد درس تفسیر القرآن اور پھر مغرب کے بعد ہونے والی بچوں کی اطفال کلاسز میں ہوتا ہے اور پھرموقع اور محل کی مناسبت سے قرآن ،حدیث ، فقہ،ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ارشادات خلفائے احمدیت کے دروس کے ذریعہ پیر وجوان یہاں سے دینی علوم سیکھتے ہیں۔ان مساجد کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں ایک ہی خطبہ اور ایک ہی درس ہوتا ہے جس سے معاشرہ میں وحدت اور یگانگت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
ربوہ میں دینی علوم کی ترویج کے لیے باقاعدہ انتظام کے تحت مدرسۃ الحفظ، جامعہ احمدیہ، مدرسۃ الظفر اور عائشہ دینیات جیسی درسگاہیں قائم ہیں۔
مدرسۃ الحفظ ایک ایسا علم کاگہوارہ ہے جس کے فارغ التحصیل حفاظ کرام اپنے سینوں میں اللہ تعالیٰ کے پاک کلام قرآن مجید کو محفوظ کر کے خدمتِ قرآن کے عظیم الشان فریضہ کو سرانجام دیتے اور دیگر احباب جماعت کو بھی قرآن کریم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔جامعہ احمدیہ اور مدرسۃ الظفر دینی علوم کے حصول کی ایسی عظیم الشان درسگاہیں ہیں جہاں سے سلسلہ کے واعظین اور مبلغین پیدا ہوتے ہیں۔یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے واقفین زندگی جماعت کی تربیتی اور تبلیغی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ عائشہ دینیات اکیڈمی میں خواتین کو دینی علوم سے روشناس کروانے کے لیے باقاعدہ تدریس کا انتظام ہوتا ہے۔
امام آخر الزماں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی شدید خواہش تھی کہ آپ علیہ السلام کی جماعت میں ایسےتعلیم یافتہ پیدا ہوں جو دنیاوی علوم میں کمال حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کی اعلیٰ اقدار سے آراستہ ہوں ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھی جماعت کی نئی نسل کی تعلیم کی اس قدر فکر تھی کہ تقسیم ہند کے انقلاب کے بعد لاہور پہنچتے ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ نے جماعت کے مرکزی تعلیمی اداراوں کو پاکستان میں کھولنے کا ارشاد فرمایا حضور انور کے ارشاد مبارک کی روشنی میں فی الفور نہات کس مپرسی کے عالم میں ان درسگاہوں کا آغاز کر دیا گیا ، اور جب حضور رضی اللہ عنہ کو ملک میں پھیلی ابتری اور حالات کی خرابی کی بدولت مشورہ دیا گیاکہ ابھی کالج کا بوجھ جماعت پر نہ ڈالا جائے ، توخدا تعالیٰ کے اولوالعزم خلیفہ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے نہایت جلال کے ساتھ فرمایا:
“کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا…آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کرو۔”
(تاریخ احمدیت جلد 10صفحہ 86)
حضور رضی اللہ عنہ کے ارشاد مبارک کے تحت کالج کے قیام کے لیے کوششیں تیز کر دی گئیں اور حکومت کی طرف سے جماعت کو کالج کے لیے ایک بوسید ہ عمارت الاٹ کر دی گئی جو ڈیری فارم اور اصطبل کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔چنانچہ علم دوستی کے جذبہ سے سرشار جماعت نے اسے ہی غنیمت جانا اور تعلیم الاسلام کالج کی کلاسز کا آغاز ہو گیا ۔دن کے وقت طلباء جن صفوں پر بیٹھ کر اساتذہ کے لیکچر سنتے رات کو انہی صفوں پر سو رہتے۔ کچھ عرصہ کے بعد جماعت کو ڈی اے وی کالج کی عمارت الاٹ کی گئی۔
ربوہ دارالہجرت کے قیام کے بعد حضرت سیدنا مصلح موعود رضی اللہ نے جماعتی تعلیمی ادار ہ جات کو ربوہ شفٹ کرنے کا ارشاد فرمایا اورربوہ کی مقدس سرزمین سے جماعت کی علم و عمل میں ترقیات کا ایک نیا سنہری دور شروع ہوا اورجماعت کی مرکزی درسگاہوں نے علمی طور پر اپنے نقطۂ عروج کو دیکھا اور ہر گو شۂ دنیا میں اثمار ربوہ پہنچے۔
1972ءمیں جماعت کے تعلیمی ادارہ جات کو قومی تحویل میں لیے جانے کے بعد یہ امر ضروری ہو گیا کہ جماعت کے علمی و عملی معیار کو گرنے نہ دیا جائے اور اس کے علم و عمل کے ترقی کے سفر کو برقرار رکھا جائے ۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیےحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے 1979ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک عظیم الشان تعلیمی منصوبہ کا آغاز کرتے ہوئےاعلان فرمایا:
“اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنسدان اور محقق چاہئیں …کوئی ذہین بچہ ضائع نہیں ہو نا چاہیے اور نوع انسانی کو اس بچے کو، اس کے ذہن کو سنبھالنا چاہیے ۔یہ بنیادی حقیقت اور اصول ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا اور جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ۔’’
(سلسلہ احمدیہ جلد 3صفحہ 598)
فرمایا:‘‘ہم نے اس منصوبہ کے ذریعہ اسلام کو غالب کرنا ہے۔کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو میٹرک سے پہلے تعلیم چھوڑ دے۔ہم آدھا پیٹ بھر کر تو زندگی گزار سکتے ہیں ،مگر بچوں کو تعلیم ضرور دلوائیں گے۔”
حضور ؒکے اس تعلیمی منصوبہ کے تحت جہاں کثیر تعداد میں طلباء کے لیے ایک خطیر رقم کے تعلیمی وظائف جاری کیے گئے وہاں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور اس کے سر پرست حضرت صاحبزادہ مرز طاہر احمد صاحب مقرر ہوئے۔
(سلسلہ احمدیہ جلد 3صفحہ 605)
اس ایسوسی ایشن کے ذریعہ طلباء کو تعلیمی میدان میں ہر ممکنہ معاونت فراہم کی جاتی اور طلباء کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے ربوہ میں فری کوچنگ کلاسز کا آغاز کیا گیا ۔
ان تمام اقدامات کے باوجود ربوہ میں شدت کے ساتھ ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ از سر نو جماعتی تعلیمی ادارہ جات کا قیام ہو جہاں جماعتی روایات کے مطابق تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے عہد خلافت کے دوران 1987ءمیں ربوہ میں نصرت جہاں اکیڈمی سکول کاقیام ہوا ۔اس سکول نےاپنی حسنِ کارکردگی کی بدولت صوبائی اور قومی سطح پر مختلف اعزازات حاصل کرکے ایک خاص مقام حاصل کیا ۔
نصرت جہاں اکیڈمی کے قیام سے ربوہ کے علم و عمل کے میدان میں ترقیات کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظارت تعلیم کے تحت چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کی تعداد13ہے۔ربوہ میں بڑھتی ہوئی طلباء کی تعداد کے پیش نظر جماعتی سکولوں میں دو شفٹوں میں کلاسز کا انعقاد کیا جاتاہے ۔
جماعتی سکولوں کے علاوہ بیس سے زائد پرائیویٹ اور گورنمنٹ سکول اور کالجزقائم ہیں ۔
سورج کے طلوع ہوتے ہی ربوہ کے علم دوست ماحول میں قائم ادارہ جات میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتا ہے اور ربوہ کی گلیاں اور شاہراہیں حصول علم کے لیے ان درسگاہوں میں آنے والوں سے بھر جاتی ہیں۔اِن درسگاہوں کی طرف آنے والوں میں جہاں احمدیت کے ایسے نونہال ہوتے ہیں جو ابھی ننھے ہاتھوں میں قلم پکڑنا سیکھ رہے ہوتے ہیں ،وہاں ایسے باشعور نوجوان بھی ہوتے ہیں جو علم کی ارفع بلندیوں میں پرواز کر رہے ہوتے ہیں۔ربوہ کی اِن علم و عمل کی درسگاہوں میں دنیاوی علوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ طلباء میں اعلیٰ اسلامی اقدار بھی پیدا کرنے کی سعی کی جاتی ہے ۔
ربوہ میں لڑکیوں کے رہائش کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیےربوہ میں گرلزہوسٹل قائم ہے۔یہ ہوسٹل دلکش تزئین کے ساتھ ساتھ جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔
معاشرہ میں موجود ایسے بچے جنہیں خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے ،ان کے لیے نظارت تعلیم کے تحت اسپیشل ایجوکیشن کا بھی انتظام موجودہے ۔ اس ایجوکیشن سنٹر میں جہاں اسپیشل بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہے وہاں ان کے جسمانی قویٰ کی نشوو نما کا بندو بست کر کے معاشرہ کا مفید وجود بنانے کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے۔ربوہ کے اس اسپیشل ایجوکیشن سکول میں زیر تعلیم دو بچوں نے متحدہ عرب امارات میں ہونے والی World Olympics Specialمیں پاکستان کی طرف سےنمائندگی کی اور بین الاقوامی سطح پر اعزاز حاصل کر کے ملک وقوم کا نام روشن کیا ہے ۔یہ پاکستان کا اسپیشل ایجوکیشن کا واحد ادارہ ہے جس کا کسی بین الاقوامی ادارہ کے ساتھ الحاق ہے۔
ربوہ میں جہاں رسمی تعلیم کے ادارہ جات قائم ہیں وہاں فنی تعلیم کے ادارہ جات کے ذریعہ ہنر سکھا کر بے روزگار افراد کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔اس سلسلہ میں خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر انتظام “دارالصناعۃ”کا ادارہ قائم ہے۔اس ادارہ میں 7 مختلف قسم کے ٹیکنیکل کورسز کروائے جاتے ہیں ۔اسی طرح لجنہ اماء اللہ پاکستان کے زیر انتظام ایک سلائی سنٹر قائم ہے ۔ان ادارہ جات کا مقصد لوگوں کو ہر ممکنہ طریق پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے۔
ربوہ میں جماعت کی مرکزی “خلافت لائبریری”قائم ہے۔اس کا افتتاح مورخہ13؍اکتوبر1971ءکو ہوا۔ اس لائبریری میں جہاں دنیا کے ہر مذہب پر تحقیقی مقالے موجود ہیں وہاں دنیا کے مختلف علوم کے متعلق کتب میسر ہیں ۔ اس مرکزی لائبریری کے علاوہ بھی تعلیمی ادارہ جات میں لائبریریاں قائم ہیں ۔
مختلف علوم کے ماہرین
ربوہ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس چھوٹی سی بستی میں بکثرت ایسے مرد وخواتین موجود ہیں جو مختلف علوم میں ماہر ہیں اور نیز ایسے ماہرین علم بھی ہیں جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہیں ۔ایسے لوگ محض جماعت کی خدمت کی غرض سے ربوہ میں رہائش پذیر ہیں ۔ربوہ کی یہ خصوصیت کسی دوسرے شہر میں ملنا ممکن نہیں ۔ربوہ میں دنیا کی مشہور زبانوں مثلاً عربی،انگریزی، چینی، جاپانی، فرنچ، ہسپانوی اورروسی وغیرہ کے ماہرین بھی موجود ہیں ۔چنانچہ ان میں اکثریت ان مبلغین کی ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر چکے ہیں ۔
سرسبز و شاداب ربوہ
ربوہ کی ظاہری خوبصورتی کی اگر بات ہو تو بانی ربوہ نے ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ بے آب وگیاہ شور اور کلر زدہ زمین میں جو بیج بوئے تھے وہ جلد جلد ہی
دمید دانہ و بالید و آشیاں گہِ شد
ثابت ہوئے ۔ربوہ کی ظاہری آرائش اور اس کی شادابی میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ‘‘تزئین ربوہ کمیٹی ’’قائم ہے ۔اس کمیٹی کا محنتی عملہ ربوہ کو سرسبز وشاداب رکھنے کے لیے دن رات کوشاں رہتا ہے۔یہاں سینکڑوں قسم کےخوش رنگ اور خوشنما لاکھوں پودے ماحولِ ربوہ کو گلنار کرتے ہیں اور ان کی بدولت شہر کی آب وہوا کو تازگی میسر آتی ہے۔ آج ربوہ کا پرنور سویرا،پر امن شام،سبزہ زاروں کا تبسم ،گلوں کی گلفشانی،ہر طرف لہلہاتے درختوں کی قطاریں ، لڑکھڑاتی اور اٹکھیلیاں کرتی بادِصبا،بہار کی روانی اورپھلوں کی فراوانی ابراہیمی دعاؤں کی قبولیت کا ثبوت ہیں۔
بنیادی شہری سہولیات
ربوہ میں بنیادی شہری سہولیات مثلاً بجلی ،گیس پانی ،فائر بریگیڈ،ڈاک خانہ ،مختلف کورئیر سروسز اور بینک وغیرہ موجود ہیں۔اسی طرح جدید مواصلاتی ذرائع مثلاً ٹیلی فون ،موبائل اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولیات بھی موجود ہیں ۔آج کل ربوہ میں سیوریج کاکام جاری ہے اس منصوبہ کی تکمیل سے ربوہ کے انفراسٹرکچر میں مزید بہتری آنےکا امکان ہے۔
ذرائع آمد ورفت میں سے ریل کی سہولت میسر ہے، ربوہ میں عارضی ریلوے اسٹیشن 31؍ مارچ 1949ء کو قائم ہوا جبکہ مارچ 1950ء کو باقاعدہ اسٹیشن بنا دیا گیا۔ربوہ میں چند سالوں سے لوکل ٹرانسپورٹ مثلاً بسوں اور وینوں وغیرہ کے نظام میں بہت بہتری آئی ہے یہاں سے وقت مقررہ پر گاڑیاں نکلتی ہیں جو ملک کے طول وعرض میں اہلیان شہر کو لے کر جاتی ہیں ۔ اسی طرح یہاں گاڑی کرائے پر لینے کی بھی سہولت موجود ہے جس سے بڑی تعداد میں اہلیان شہر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اندرون شہر سفر کے لیے سائیکل ،موٹر سائیکل ،رکشہ اور کار وغیرہ کے ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں ۔
ربوہ کے بازار پر رونق اور محفوظ ہیں اور یہاں ضروریات زندگی کے تمام شعبے موجود ہیں اور ہر قسم کی اشیائے ضرورت بآسانی میسر ہیں ۔ربوہ کے بازاروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ نمازوں کے اوقات کے دوران جو دکاندار مسجد نہیں پہنچ سکتے انہوں نے اپنی مارکیٹوں میں نماز با جماعت ادا کرنے کا انتظام کر رکھا ہے چنانچہ بازاروں میں جگہ جگہ نماز کے وقت نماز ادا ہوتی نظر آتی ہے ۔
خوبصورت فن تعمیرات
ربوہ کی اولین آبادکاری کا سلسلہ خیموں اور چھولداریوں کی تنصیب سے شروع ہوا اور پھر کچی اینٹوں سے جماعت کے مرکزی دفاتر اور کچھ رہائشی مکانات تعمیر کیے گئے یہ سلسلہ اپنے ارتقا کی طرف چلتا رہا اور آج ربوہ کی سرزمین خوبصورت اورمعیاری فن تعمیرات سے آراستہ ہے ۔جماعت کے مرکزی دفاتر کی عمارتیں اورشہر کے دیگر رہائشی علاقہ جات کی تعمیرات ایک خوبصوت منظر پیش کرتی ہیں ۔یہاں بڑی تیزی کے ساتھ آبادی کا پھیلاؤ ہو رہا ہے اور ایک وقت تک جو جگہیں اس بستی کے ویرانے تصور کی جاتی تھیں وہاں اب دیدہ زیب عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔
مندرجہ بالا خصوصیات ربوہ کے شہری اور ظاہری حسن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اس شہر کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو پیشگوئیاں بیان فرمائی تھیں ان کا ظہور ہوتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توربوہ کی بے آب وگیاہ بستی میں گرد اڑاتی کاروں کو بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان قرار دیا تھا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس شہر میں اگنے والی گھاس کی ایک ایک پتی اور ربوہ میں لگنے والی ایک ایک اینٹ کہ جس سے شہر کا ظاہری حسن بڑھتا ہے ابراہیمی دعاؤں کی قبولیت کا زندہ نشان ہے۔
ربوہ کی بستی منتظر ہے!
ربوہ کی سر زمین کی ایک شان یہ بھی ہے کہ یہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک خلافت احمدیہ کا مسکن رہی ہے اور خلفائےاحمدیت کے مبارک قدم اس کی مبارک مٹی پر پڑتے رہے ہیں۔ نیزیہاں پہنچ کر مقدس خانوادۂ حضرت اقدس مسیح موعودؑ میں جو سب سے پہلی پیدائش ہوئی اس کا فیض آج ہم خلافت خامسہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وجود کے ذریعہ سے حاصل کر رہے ہیں ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بچپن ربوہ کی مقدس سر زمین میں گذرا اور ربوہ کے پاکیزہ اور روحانی ماحول میں آپ کی پاکیزہ جوانی کے ایام گذرے اور پھر بعد میں خلافت کے جلیل القدر منصب پر متمکن ہونے تک زیادہ عرصہ ربوہ ہی میں گذرا۔
ربوہ کی بستی کا شمار ان بستیوں میں ہوتا ہے جنہیں روحانی طور پر ‘‘عروس البلاد’’ کا درجہ حاصل ہے نیز خلفائے احمدیت نے اس بستی کے لیے ایک خوبصورت محاورہ استعمال فرماتے ہوئےاسے ‘‘غریب دلہن’’سے تشبیہ دی ہے۔
بلاشبہ ظاہری بناؤ سنگھار دلہن کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے لیکن دلہن کی ایک شان تو اس کے دلہا سے ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ نے اناجیل میں جابجا اپنے لیےتمثیلی طور پر ‘‘دلہا’’ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔اس کی ایک مثال متی کی انجیل کے باب پچیس میں “دس کنواریوں کی تمثیل” میں بھی ملتی ہے۔
آج ربوہ کی بستی تمثیلی طور پر اپنے ‘‘دلہا ’’ کی منتظر ہے جس کی تشریف آوری سے اس کی ایک نئی شان ظاہر ہو گی۔ لاریبربوہ کی بستی اس نور خدا وندی کی پرتَو ہے جسے ‘‘خدا تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا’’،حضرت خلیفۃ المسیح کی تشریف آوری سے اور اس مبارک سرزمین پر حضرت خلیفۃ المسیح کے مبارک قدم پڑنے پر یہ سر زمین جہاں نور علیٰ نورکی مصداق ہو جائے گی وہاں ایک نئی شان کے ساتھ واشرقت الارض بنور ربھا کی عملی تفسیر بن جائے گی۔
اس میں کیا شک ہے کہ ایم ٹی اے نے دوریاں تو کم کر دی ہیں مگر واقفانِ حال یہ بھی تو بتاتے ہیں کہ جو بالمشافہ دید کی لذت ہے وہ ٹی وی کی اسکرین پر میسر کہاں!وہ نظارہ کتنا شاندار ہو گا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح ربوہ کی سر زمین پر بنفس نفیس رونق افروز ہوں گے اور علم و عرفان کے وہ دربار ایک بار پھر سجیں گے جن کا ذکر تاریخ احمدیت کے اوراق اور بزرگوں کی یادداشتوں میں محفوظ ہے۔چشم تصور میں ان دنوں کے خیال سے ربوہ کی بستی کا دل جہاں فرحت اور انبساط کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے وہاں قطراتِ محبت سے اس بستی کی آنکھیں ڈبڈبا آتی ہیں اور یہ بستی اپنے سارے دل اور ساری جان کے ساتھ بزبان حال یہ پکار اٹھتی ہے کہ ؎
عرفان کی بارش ہوتی تھی جب روز ہمارے ربوہ میں
اے کاش کہ جلدی لوٹ آئیں وہ دن وہ نظارے ربوہ میں
پاکستان کے حالات کی بہتری کی نوید سناتے ہوئے ہمارے پیارے امام نے اپنی ایک رؤیا کے حوالہ سے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
‘‘ اگر سو فیصد پاکستانی احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جُھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہو سکتا ہے ۔’’
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍ اکتوبر 2011ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور انور کے اس ارشاد مبارک پر عمل کرنے اور اس روحانی بستی میں وہ اسلامی روایات زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جو احمدیہ کلچر کا خاصہ ہیں ۔
حضرت مصلح موعودؓ نے قیام ربوہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہیے کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے۔ہم نے اس مقام کو اس لیے بنایا ہے کہ تا اشاعت دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں ۔پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو ۔تم خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرلو۔ اگرتم اس کی رضاکو حاصل کر لو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہو جائیں اور راحت کے سامان پیدا ہوجائیں۔
(ماخوز از خطبہ جمعہ 21؍ مئی 1954ء خطبات محمود جلد 35ص98 تا 104)
………٭………٭………٭………