شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے وسمہ اور مہندی لگانے کا بیان
“آپؑ کے سر کے بال نہایت باریک ،سیدھے ،چکنے، چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے۔گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے۔گردن تک لمبے تھے۔آپ نہ سر منڈواتے تھے۔نہ خشخاشی یا اس کے قریب کترواتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پرپٹے رکھے جاتے ہیں ۔سر میں تیل بھی ڈالتے تھے۔چنبیلی یا حنا وغیرہ کا۔یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے……
ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگایا کرتے تھے۔پھر دماغی دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے۔وسمہ ترک کردیا تھا البتہ کچھ انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا۔مگر پھر ترک کردیا۔آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے۔اس سے ریش مبارک میں سیاہی آگئی تھی۔مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفاء کی جو اکثر جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگواتے تھے۔”
(حیات طیبہ از حضرت شیخ عبدالقادر مرحوم (سابق سوداگر مل) صفحہ 367-368)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
“مہندی عموماً نائی سے لگواتے تھے ایک حد تک یہ درست ہے مگر آپ حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے بھی لگوایا کرتے تھے۔بلکہ ابتداء ً حامد علی ہی کثرت سے لگایا کرتے تھےاور کچھ ایسا اتفاق بھی ہو جاتا تھا کہ جب حافظ حامد علی صاحب نے مہندی لگائی تو کوئی نہ کوئی الہام ہوا ہے۔حافظ حامد علی صاحب کو میں نے خودبھی مہندی لگاتے دیکھا ہے۔1905ء میں دہلی کے سفر سے جب واپس تشریف لائے تو بمقام امرتسر خان محمد شاہ مرحوم کے مکان کی بالائی منزل پر حافظ حامد علی صاحب نے مہندی لگائی۔یہ واقعہ تو میرے دیکھنے کا ہے مگر اکثر حافظ صاحب سے لگوا لیتے تھے۔اور اس کو بعض اوقات فرمایا بھی کہ جب تو مہندی لگاتا ہے تو الہام بھی ہوتا ہے۔اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ الہام اس کے مہندی لگانے سے ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات ایسا اتفاق ہوا کہ اس نے جس دن مہندی لگائی تو کوئی نہ کوئی الہام بھی ہوا۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی ؓ صاحب صفحہ11حاشیہ)
“ان دنوں جب مسجد مبارک کے ساتھ ابھی دوسرا حصہ شامل نہ تھا سابق زینہ کے ساتھ والی کوٹھڑی جس میں لکڑی کی سیڑھی بھی تھی جہاں سے مولوی عبدالکریم صاحب رضی اﷲ عنہ اتر کر مسجد میں آتے تھے۔چند مہمان حضور کی ملاقات کے لیے آ گئے۔حضور نے بالوں کو مہندی لگائی ہوئی تھی۔ریش مبارک اور سر مبارک کو مہندی لگی ہوئی تھی اور اس پر کپڑا لپٹا ہوا تھا اسی حالت میں تشریف لے آئے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد1صفحہ29 روایت حاجی غلام احمد صاحبؓ سکنہ کریام)
“حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالعموم جمعہ کے دن مہندی لگایا کرتے تھے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد2صفحہ 4روایت منشی ظفر احمد صاحبؓ آف کپورتھلہ)
“حضور کی پیشانی مبارک بدر کی مانند روشن تھی۔آپؑ میانہ قامت تھے لیکن سب میں نمایاں نظر آتے تھے۔باوجود ستر پچہتر سال کے آپؑ کی پیشانی پر کوئی بل نہیں تھا۔آپؑ ہمیشہ بالوں میں مہندی لگایا کرتے تھے۔حضور کا چہرہ اس قدر منور اور دلکش تھا کہ نظر کو آپ کے چہرے سے ہٹانا دو بھر معلوم ہوتا تھا۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ 163روایت چوہدری امیر محمد خانصاحبؓ)
“عاجز کو یہ نظائر اس وقت تک بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ویسا ہی یاد ہے۔حضور کے سر کے بال جن پر کہ مہندی لگی ہوئی تھی۔اس وقت تک ویسے میرے ذہن میں ہیں وہ ایسے خوبصورت تھے کہ جب یاد آتے ہیں تو دل کو ایک سرور آجاتا ہے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ 199روایت مرزا محمد شریف صاحبؓ)
“خاکسار نے پہلے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت 1904ء میں کی۔میں نے پہلے حضرت اقدس کی کوئی مخالفت نہیں کی۔پہلے بیعت سے حضرت اقدس کی دو دفعہ حجامت بنائی اور مہندی لگائی لیکن افسوس کہ بال نہ رکھ سکا۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ 51روایت لبھو صاحبؓ)
“حضور کے سر کے بال لمبے ہوتے تھے جن کو پنجابی میں پٹے کہتے ہیں مگر ایسے نہیں کہ شانوں پر ہی عام پیروں کی طرح پڑتے ہوں بلکہ حضور کے بال کان کی لو تک ہوتے تھے۔حضور کی داڑھی چھ انچ کے قریب لمبی ہوتی تھی جس میں آپ مہندی کا بھی استعمال فرماتے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد13صفحہ 397روایت قریشی شیخ محمد صاحبؓ)
“آپ ہمیشہ ڈاڑھی اور سر میں ہفتہ میں دو بار باقاعدہ مہندی لگایا کرتے تھے۔وسمہ کبھی نہیں لگایا۔یعنی جب اپریل 1908ء میں لاہور تشریف لے گئے وہیں آپ کا وصال ہوا۔جب آپ کی نعش مبارک قادیان لائی گئی تو آپ کے وسمہ لگا ہوا تھا۔ڈاڑھی اور سر کے بال سیاہ تھے مگر حنا بہت سجتا تھا۔اور روشن ہوتا تھا۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد15صفحہ54روایت شیخ محمد نصیب صاحب ؓ)
“حضور کے سرِ مبارک کے لمبے لمبے بال اب تک ہمارے پاس محفوظ ہیں ۔جو حنا شدہ ہیں ۔اور یہ عجیب بات ہے۔قادیان میں میرے ہاں چوری ہوئی۔برسات کا موسم تھا۔چوروں نے یہ بال بھی چوری کے مال میں باہر زمین میں کیچڑ وغیرہ میں دفن کر دیے۔چور پکڑے گئے اور سب مال برآمد ہوا۔خدا نے نہ چاہا کہ مسیح موعود ؑ کے سر کے بال اس طرح کیچڑ میں دبے رہیں یا چوروں کے تصرف میں جا کر بے ادبی ہو۔یہ بال میری بیوی نے اپنے ٹرنک میں محفوظ کر کے رکھ دیے۔سال1934ء کا واقعہ ہے۔جب میں محکمہ جرائم پیشہ میں چک نمبر2/27 متصل اوکاڑہ سپرنٹنڈنٹ تھا۔میں وہاں موجود نہ تھا۔13/14مئی34ء کی درمیانی رات میرے ہاں چوری ہوئی۔گرمی کا موسم تھا۔چور خود ہی آئے اور خود ہی گئے۔……ٹرنک جس میں حضرت مسیح موعودؑ کے سرکے بال رکھے ہوئے تھے پاس ہی پڑا تھا۔بڑا وزنی تھا۔اور اس میں مال بھی تھا۔مگر اسے ویسے ہی چھوڑ گئے۔اور ہاتھ تک نہیں لگایا۔حالانکہ بعض ساتھ لے گئے۔اور بعض کو جو نقب سے باہر نہ جا سکتے تھے اندر ہی توڑ کر مال لے گئے اور اس ٹرنک کے اوپر سے زیور اور نقدی کی صندوقچی تک لے گئے۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد15صفحہ56، 57روایت شیخ محمد نصیب صاحب ؓ)
آپؑ کے لباس کا بیان
“میں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔”
دنیا کی ہر قوم اور معاشرے میں لباس کا تصوّر موجود ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر زمانے میں ہر قوم میں اس نے اپنی ہیئت کو بدلا ہے ،موسم کی تبدیلیاں بھی اس کے تبدیل ہونے میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔اور ہر دور میں انسان کی یہی خواہش رہی کہ وہ اس دور کا خوبصورت ترین لباس زیب تن کرے۔ لیکن اسی لباس کی خدا کے نیک بندوں کو چنداں فکر نہیں ہوتی ان کا مقصد اس کو پہننے سے محض اس کے بنیادی مقصد یعنی اپنا تن ڈھانپنا رہا ہے ۔کسی قدر تحدیث نعمت کےاظہار کے ساتھ وہ وجود اس کو زیب کرتے ہیں لیکن اس میں سادگی کا عنصر شامل حال رہتا ہے۔اوراس زمانے کے امام حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے بھی اسی لباس کا باقی انبیاء کی طرح ہی استعمال فرمایا ہےیعنی مقصد اس لباس کو پہننے سے محض یہی تھا جوقرآن بیان فرماتا ہے:
يَا بَنِيٓ اٰدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِي سَوْاٰتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ ذٰلِكَ مِنْ اٰيَاتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (سورۃ الاعراف:27)
اے بنی آدم! یقیناً ہم نے تم پر لباس اُتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقوٰی کا لباس! تو وہ سب سے بہتر ہے یہ اللہ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ۔
گویا کہ انبیاءکی سرشت میں ہی اس قرآن کے فطرتی اصول کو نقش کردیا گیااور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ذات میں بھی یہ ظاہر و باہر تھا کہ آپ کے لباس میں بھی سادگی کا عنصر نمایاں تھا۔آپ کے لباس کے بارے میں ایک یہ فقرہ ہی سب سے زیادہ موزوں معلوم ہو تا ہےاور وہ یہ ہےکہ
“آپ کا لباس ہر قسم کے تکلّفات سے پاک تھا۔”
آپ ؑ ہر قسم کی نمود ونمائش سے ہمیشہ خود کو پاک رکھتے تھے ،آپ ؑ کے لباس میں جو اجزاء شامل تھے ان میں :صافہ، کُرتہ، رومال،چوغہ،پاجامہ،تَہ بند ،غرارہ ،سفید ململ کی پگڑی جو دس گز کی ہوتی تھی، کُلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی اور گھر میں پگڑی اُتار کر ٹوپی پہن لیتے تھے۔سردیوں میں 2 جوڑے اوپر تلے پہن لیتے ،دیسی جو تا ، حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی آپؑ کے لیے جوڑے بنوایا کرتے تھے۔ہر طرح کا کپڑا زیب تن فرمالیتے ، گرگابی، انگریزی طرز کی قمیض پہنی لیکن اس کے کفوں کو ناپسند فرمایا ۔ انگریزی طرز لباس کو سادگی کے خلاف سمجھتے تھے، آپؑ کوٹ بھی زیب تن فرمایا کرتے تھے،یہاں ایک نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک طرف تو آپؑ کے لباس میں کمال سادگی اور دوسری طرف خدا نے بادشاہوں کے لیے آپؑ کےاسی لباس سے برکت لینا مقدر کردیا تھا۔جیسا کہ اس ربّ العالمین نے آپؑ کو خود مخاطب کرکے فرمایا:‘‘میں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔”
(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ398،بحوالہ تذکرہ صفحہ264ایڈیشن چہارم)
اسی الہام کی بابت ایک اور جگہ حضور رقمطراز ہوتے ہیں کہ
“اَور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو ! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیش گوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ ہریک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا۔والسّلام علٰی من اتبع الھدٰی۔”
(آسمانی فیصلہ ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ 342)
آئندہ صفحات میں ہم آپؑ کے لباس کے بارےمیں تفصیلی جزئیات کےساتھ بیان کریں گے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭