ربوہ میں پہلی رات
شام کے سات بجےکے قریب ہمارا ٹرک جس میں چھولداریاں ،خیمہ جات اور سائبان وغیرہ لدے ہوئے تھے۔ اس سرزمین میں پہنچ گیا جسے اللہ تعالیٰ نےپاکستان میں اسلام کی حیات ثانیہ کا مرکز تجویز فرمایا ہے ۔اس ٹرک میں ڈرائیوراور دومزدوروں کےعلاوہ میں اورمکرم مولوی محمدصدیق صاحب مولوی فاضل تھے۔ چناب کےپل کے نگران سپاہی اورکچھ راہ گیر جو شام کےبعد اس سڑک سےخال خال ہی گزرتے ہیں۔ حیران ہوکر ہمیں دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں؟ مگر خدا تعالیٰ کےفضل سے ہم نہایت ہی اطمینان اور سکون کےساتھ ٹرک میں سے اپنا سامان اتارنے میں مصروف تھے۔ جب تمام سامان اتارا جاچکا توڈرائیور اور مزدوروں کو رخصت کیا گیا ۔اس وقت میلوں تک یہ علاقہ بالکل ویران اورسنسان حالت میں ہمارے سامنےتھا ۔دائیں طرف بڑی سٹرک تھی جس پررات کوٹریفک کلیۃً بند ہوجاتا ہے اور بائیں طرف ریلوے لائن تھی جو پہاڑوں کے بیج میں سےچکرکاٹتی ہوئی ایک طرف چنیوٹ اوردوسری طرف سرگودھا کو چلی جاتی ہے مگر رات کو یہاں سے کوئی گاڑی نہیں گزرتی ۔دن میں ہی صرف ایک گاڑی آتی ہے اورایک جاتی ہے۔ رات کے نوبج چکے تھے۔
میں نے سامان خاص اس جگہ اتارا تھا جومیرے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےتجویز فرمائی تھی ۔اگلے دن حضور مع خدام کےخود تشریف لانےوالے تھے اس لیے ہم نے سائبان اور خیمے حضور کی آمد سے پہلے نصب کرنے تھے ۔مگر اس جنگل میں پہلی رات کا تصور کچھ خوف اورکچھ لذت کی سی کیفیت پیدا کر رہا تھا ۔خوف تو اس بات کا تھا کہ یہاں کےاکثر دیہاتی لوگوں کےمتعلق سنا تھا کہ وہ جانوروں سےکم نہیں اور پھر اس علاقے میں سانپ ۔ بچھو۔گیدڑ۔اوربعض اوقات بھیڑیا بھی پایا جاتاہے۔غرض کہ عجیب قسم کے خیالات آرہےتھے مگر اس سے بہت زیادہ شیریں وہ کیفیت تھی جو اس خیال سے پید اہورہی تھی کہ یہی وادئ غیر ذی ذرع ایک دن ہجوم خلائق کا مرکز بننے والی ہے ۔چنانچہ ہم دونوں خدا تعالیٰ کاشکر ادا کر رہے تھے کہ اس نےمحض اپنے خاص فضل سےہمیں سب سے پہلے آبادکاروں میں شامل ہونےکی توفیق عطا فرمائی ۔
رات بڑھتی جارہی تھی اورہمارے دلوں کا تموج بھی بڑھ رہا تھا۔ہم چینوٹ سے آتی دفعہ مکرم محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کویہ پیغام دے کر آئےتھے کہ وہ تین چارلڑکے اورایک لالٹین دےکر جلدی بھیج دیں ۔مگر دس بجے تک اس سنسان اوربےآب وگیاہ وادی میں ہم دونوں کےسوا اورکوئی انسان نظر نہ آتا تھا ۔خاموشی اورایک سنسان خاموشی سے کچھ تنگ آکر اورکچھ گھبرا کر میرے ساتھی نےفرمائش کی کہ اختر بھائی کچھ سناؤ۔چنانچہ میں نےپہلے تو حضرت مسیح موعود ؑکےکچھ اشعار اورپھر کچھ اپنے اشعار جومیں نےٹرک میں بیٹھ کر راستے میں لکھے تھے بآواز بلند سنائے۔آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر گونج سی پیدا کررہی تھی اورمیں یہ تصورکر رہا تھا کہ جب ہمارا سالانہ جلسہ یہاں ہوگا تو اسی طرح ہمارے بزرگوں کی تقریر یں اور مؤذنوں کی تکبیریں ان پہاڑوں میں گونج پیدا کریں گی اور اسی طرح ان تقریروں اور تکبیروں سے ایک دنیا میں گونج پیدا ہوگی۔ یہ خیال آتے ہی دل پر ایک بےخودی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اورہم دیر تک خاموش رہے۔
میں نے اپنی عمر کے اعتبار سے قادیان کا ابتدائی زمانہ نہیں دیکھا یعنی وہ زمانہ جبکہ قادیان میں ابھی محلے نہیں بنے تھے لیکن میں حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تاریخ کو ایک نئے دَور میں سے گزار کرگزشتہ دور کا اعادہ کر رہا ہے ۔چنانچہ میں نے کہا کہ دیکھو مولوی صاحب!قادیان کے ابتدائی دور کا ایک پہلو ہمارے سامنے ہے۔ چاند ہنس رہا تھا اور ستارے مسکرا کرہمیں دیکھ رہے تھے دفعۃً دور سے ایک ہلکی روشنی دکھائی دی ۔ہمارے سکول کے تین بچے ایک لالٹین ہاتھ میں لیے ہماری طرف قدم بڑھاتے چلے آرہے تھے ۔یہ تین بچے دو بنگال کے رہنے والے اور ایک سیلون کا رہنے والا ،اپنے وطن سے ہزاروں میل دور رات کے دس بجے ایک سنسان وادی میں اپنے آقا کے خدام سے ملنے چلے آرہے تھے ۔
جب روشنی آئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس زمین پر سب سے پہلا خیمہ بغیر مزدوروں کی مدد کے اپنے ہاتھ سے لگایا جائے۔ چنانچہ میں نے اور مولانا محمدصدیق صاحب نے ایک چھولداری کو درست کیا اور بغیر کسی کی مدد کے اس میدان کے وسط میں یہ چھولداری اپنے ہاتھ سے لگائی ۔
اس کےبعد ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں اور کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔یہ خیمہ “ربوہ ’’کی سر زمین پر پہلا خیمہ تھا جس کے نصب کیے جانے کی سعادت قادیان کے دو رہنے والوں کو حاصل ہوئی۔
تقریباً نصف شب گزرنے پر احمد نگر سے مکرم مولوی ابوالعطا ءصاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کی طرف سے کچھ چپاتیاں اور کچھ دال آئی جس کے متعلق معلوم ہوتا تھا کہ یہ بہرحال نہایت عجلت میں تیار کی گئی ہے ۔اس وقت اس دال روٹی نے جو لطف دیا وہ زندگی کے قیمتی اور پر تکلف لمحات میں بھی کم محسوس ہوا ہے۔ چونکہ صبح حضور کی تشریف آوری تھی اس لیے سائبانوں اور خیمہ جات کو درست کیا گیا اور انہی کے ڈھیر پر ہم سب دراز ہو گئے۔تمام رات بلا کھٹکے اور نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ ہم سوئے ۔مجھے تو کچھ ہوش نہیں رہا البتہ مکرم مولوی صاحب نے فرمایا کہ دورسے کچھ گیدڑوں کی آوازیں آتی تھیں ۔بس۔لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے بہر حال ہمیں ہر قسم کی اذیت سے محفوظ رکھا اور محفوظ رکھتا آ رہا ہے ۔فالحمدللہ
(روزنامہ الفضل 2؍اکتوبر 1948ء صفحہ 5)
٭…٭…٭