’یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے وہ بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی۔‘
جلسہ سالانہ ہالینڈ میں مستورات کے اجلاس سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
تعلیمی میدان میں اعزاز حاصل کرنے والی طالبات میں میڈلز کی تقسیم
چودہ سو کے قریب خواتین جبکہ دو ہزارسے زائد مردوں کی اجلاس میں شمولیت
آج جلسہ سالانہ ہالینڈ کا دوسرا روز ہے۔ صبح ساڑھے دس بجے کے قریب جلسہ گاہ مستورات میں مستورات کے اجلاس کا آغاز ہوا۔ تلاوتِ قرآنِ کریم اور نظم کے بعد ایک تقریر اردو جبکہ ایک تقریر ڈچ زبان میں پیش کی گئی۔ بعد ازاں ساڑھے بارہ بجے کے کچھ بعد حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ گاہ مستورات میں رونق افروز ہوئے۔
حضورِ انور کی موجودگی میں مستورات کے اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا جسے مکرمہ ریحانہ وہاب صاحبہ نے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ تلاوت کی گئی سورۃ الفرقان کی آیات 62 تا 68 کا اردو ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ماریہ حسن زبیر صاحبہ نے پیش کیا۔ اس کے بعد کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ؎
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمّد دل بر مرا یہی ہے
سے منتخب اشعارثوبیہ لغاری صاحبہ نے پڑھنے کی سعادت پائی۔ اس کے بعد سیکرٹری صاحبہ تعلیم، محترمہ فادیہ داؤد صاحبہ نے تعلیمی اعزازات حاصل کرنے والی 19؍طالبات کے نام پکارے جنہیں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دستِ مبارک سے اسناد جبکہ حضرت صاحبزادی سیّدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے میڈلز سے نوازا۔ ان طالبات میں سے 9؍ نے ہالینڈ، 7؍ نے پاکستان، ایک نے برطانیہ، ایک نے نائیجیریا اور ایک نے کینیڈا سے یہ تعلیمی اعزازات حاصل کیے تھے۔ ایک طالبہ نے دو میڈلز حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ ان خوش نصیب طالبات کی فہرست حسب ذیل ہے:
اس کے بعد بارہ بج کر 54؍ منٹ پر حضورِ انور خطاب کے لیے منبر پر رونق افروز ہوئے۔ تشہد ، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جو نئی ایجادات انسان کو کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اُن میں یہ ایجاد بھی ایک بڑی اچھی ایجاد ہے کہ بڑی سکرین اور ٹی وی پر عورتوں میں بھی حسبِ ضرورت مردوں کی طرف سے آواز اور تصویر مختلف تقریروں اور پروگراموں کی پہنچ جاتی ہےاور جب بھی مردوںمیں خلیفہ وقت کا خطاب ہوتا ہے تو عورتوں میں بھی سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چیز کافی ہونی چاہیے۔ لیکن پھر بھی پروگرام رکھنے والے خلیفہ وقت کا خطاب عورتوں میں بھی رکھتے ہیں کیونکہ عورتوں کی طرف سے اس کی خواہش ہوتی ہے اور اسی لیے میں بھی عورتوں سے براہِ راست خطاب کرتا ہوں ۔
حضورِ انور نے فرمایا: مردوں میں جو بنیادی باتوں کے بارے میں خطاب کیا جاتا ہے وہ بھی کافی ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری ان نصیحتوں کی طرف عمل کرنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ قرآنِ کریم میں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جہاں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو الگ الگ مخاطب کیا گیا ہے لیکن بات ایک ہی ہے۔ اور پھر قرآن کریم میں بعض احکامات ایسے بھی ہیں جہاں صرف عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا: اگر بنیادی باتوں پر عمل ہو جائے تو عمومی طور پر ایک مضبوط بنیاد بن جاتی ہے اور اس بنیاد کی وجہ سے جو باتیں مردوں کو مخاطب کر کے کی جاتی ہیں عورتیں بھی خود بخود ان پر عمل کرنے لگ جائیں گی۔ اگر ان بنیادی باتوں پر عمل نہیں جو خطبات میں بیان کی جاتی ہیں، مردوں کی تقاریر میں بیان کی جاتی ہیں تو یہ علیحدہ تقریریں جو لجنہ میں کی جاتی ہیں اس کا بھی فائدہ نہیں۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ کسی کو براہِ راست مخاطب کیا جائے تو اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اسی لیےخلفائے وقت کا یہ طریق رہا ہے ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے کہ ایک خطاب عورتوں میں کیا جائے۔ اس سے پہلے اجتماع تو نہیں ہوتے تھے لیکن حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ نہ کے زمانے میں عورتوں میں درس ہوتا تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عورتوں کے خطابات میں کی جانے والی باتیں مردوں کے لیے بھی یکساں ضروری ہوتی ہیں۔ پھر اس کا فائدہ یہ بھی کہ اگر مردوں پر ان باتوں کا اثر نہیں ہو رہا تو عورتوں پر تو ہو۔ اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عورتوں پر ان کا اثر ہوتا ہے۔ چنانچہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ براہِ راست عورتوں میں جو خطاب کیا جائے تو نہ صرف ان پر اثر ہوتا ہے بلکہ ان میں غیر معمولی مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھربراہِ راست خطاب کا فائدہ یہ بھی ہے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی گودوں میں اگلی نسل کی تربیت ہورہی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض ایسی مائیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں جن کو یہاں بیان کی جانے والی نصائح کی کچھ پروا نہیں۔ اور وہ یہی سمجھتی ہیں کہ پرانی باتیں بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔ایسا کہنے کی کمزوری صرف عورتوں میں ہی نہیں بلکہ بعض مرد بھی اس کمزوری میں مبتلا ہیں۔پس مردوں کو بھی اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میں یہ تمہید اس لیے باندھ رہا ہوں کہ میں آپ لوگوں سے جو چند مختصر باتیں کروں گا ان پر عمل بھی کریں۔ صرف سن لینا اور ان کا اثر نہ لینا درست نہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک طرح کی باتیں ہی بار بار دہرائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم، حدیث نبویؐ، سنتِ رسولؐ، اسوۂ رسولؐ، حضرت مسیح موعودؑ کے احکامات اور ارشادات اور نصائح کبھی بھی پرانی نہیں ہوتیں بلکہ ہر لمحہ ایک نئے زاویے کے ساتھ دین کا ادراک پیدا کرنے والی بن جاتی ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میں عموماً جتنا مردوں کو مخاطب ہو کر باتیں کرتا رہتا ہوں اگر ان کی اکثریت ان باتوں پر عمل کرنے لگ جائے تو عورتوں کی اکثریت تو مردوں کا نمونہ دیکھ کر ہی اپنی اصلاح کر لے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو اپنی جماعت سے توقعات ہیں ان کے حوالے سے کچھ کہوں گا۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت یہاں رہنے والے احمدیوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل جو مذہبی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے آئےہیں۔ اگر معاشی حالات کی وجہ سے بھی ہجرت کی ہے تو سوائے چند پڑھے لکھوں کے اکثریت نے یہاں کی حکومت کو پاکستان میں احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے پناہ دینے کی درخواست دی ہے جس نے باوجود بعض اسلام مخالف لوگوں کے شور مچانے کے آپ کو اسائلم دیا ہے اور ہر قسم کی آزادی مہیا کی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس وجہ سے دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں:
اوّل یہ کہ ان ملکوں کی حکومتوں کا شکر گزار بنیں جنہوں نے آپ کے مذہبی حقوق قائم کرکے آپ کو مذہبی آزادی دی۔ آپ آزادی سے نمازیں پڑھ سکتے ہیں اورتبلیغ کر سکتے ہیں۔ اس لیے شکر کزاری کے طور پر اس ملک کی بہتری کے لیے ، اس کو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کو اسلام کی خوبصورت تعلیم ، اور اس کا حقیقی پیغام پہنچایا جائے۔ عورتوں کو بھی اس کے لیے پروگرام کرنے چاہئیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دیگر علماء کے غلط کاموں کی وجہ سے اسلام کا دامن جو داغ دار ہو رہا ہے وہ صاف ہو گا اور ان کی حرکات کی وجہ سے پھر اسلام کی جو مخالفت کی جاتی ہے اور پھر نبی اکرمﷺ کے نام کو بھی استہزا کا شکار بنایا جاتا ہے اس کو دور کرنے میں آپ اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں گے۔
دوسرا اس بات کا خیال رکھیں کہ چونکہ مذہبی وجوہات کی بنا پر ہمیں یہاں رہنے کی اجازت ملی ہے اس لیے ہمیں اپنی دینی، اخلاقی اور روحانی حالت کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو ہم سے توقعات وابستہ کی ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعودؑکو مسیح اور مہدی اس لیے مانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں حکم دیا ہے اور آنحضرتﷺ نے اس کی پیشگوئی فرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں جب مسیح و مہدی دعویٰ کرے گا تو اسے مان لینا، اس کی جماعت میں شامل ہو جانا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اسے میرا سلام۔ یہ سب اس لیے فرمایا کیونکہ وہ اسلام کی تجدیدکے لیے آئے گا، نئے سرے سے دنیا کو دکھانے کے لیے آئے گا۔ اسلام کی خوبصورتی کو نکھار کر پیش کرنے کے لیے آئے گا تا کہ تمہیں اسلام کی صحیح تعلیم کا پتہ چلے۔ وہ اسلام کی پاک تعلیم جسے پیروں فقیروں اور علماء نے اپنے مطابق ڈھال لیا ہے اس کی اصل تصویر کو دنیا کے سامنے رکھے گا پس آپؑ کے ارشادات پر عمل کرنا کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہی حقیقی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو آپؑ کی باتوں کو غور سے سننا چاہیے اور ان پر عمل کرنا چاہیے ورنہ آپؑ کی اطاعت اور بیعت کا دعویٰ خالی اور کھوکھلا دعویٰ ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ اگر میری نصائح پر عمل نہیں کرتے تو اپنے ایمان کی فکر کرو۔ پس ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ ایک طرف ہم اپنے ملک سے یہاں اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں دین سے روکا جا رہا تھاروکا جا رہا تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا ایمان ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟اگر ہم پاکستان سے یہاں آ کر دین کو پسِ پشت ڈال دیں اور دنیا کے پیچھے لگ جائیں تو یہ اچھی بات نہیں۔ ہمیں آپؑ کی بیعت میں آنے کے بعد اپنی نمازوں کو سنوارکر ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ سے ظاہری محبت کے علاوہ آپؐ کی سنّت پر بھی عمل کرنا چاہیے۔ قرآن کریم، نبی اکرمﷺ کی تعلیم یہی ہے اور حضرت مسیح موعودؑ یہی فرماتے ہیں کہ نمازوں کو سنوارو، استغفار کی طرف توجہ کرو اور موت کو یاد رکھو۔ ہمیشہ اللہ سے بخشش مانگو۔ اور یاد رکھو کہ موت یقینی ہے، ایک دن آکر رہنی ہے۔ جب انسان موت کو یاد رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیداہوتی ہے۔ اور جب اس حقیقت کا یقین ہو جائےگا، اس کا احساس پیدا ہو جائے گا تو پھر دنیاوی چیزوں کے لیے جو کوششیں رہتی ہیں ویسی نہیں رہیں گی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہاں آکے جب پیسہ آتا ہے تو پاکستان کے ڈیزائنرز کے کپڑے بنانے کا بھی شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ سستے کپڑے بھی مل جاتےہیں۔ اچھے کپڑے ضرور پہنیں لیکن اپنی پہنچ کے اندر رہتے ہوئے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ مومن کا کام یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں لیکن اس طرح کہ ان کی وجہ سے گھروں میں فساد برپا نہ ہو جائیں، آپس میں خوامخواہ کے مقابلے نہ ہونے لگیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہاں! اگر مقابلے کرنے ہیں تو اللہ سے یہ دعا کریں کہ فلاں نے دین کی خاطر اتنی قربانی دی ہے، اللہ مجھے بھی توفیق دے۔ فلاں شخص کی اولاد بہت نیک ہے جن کی نمازوں کی طرف بھی توجہ ہے اور وہ دین کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں خدا میری اولاد کو بھی ایسا بنائے۔ پس ایک احمدی مومن او رمومنہ میں دین میں بڑھنے کے لیے مسابقت کی روح ہونی چاہیے نہ کہ دنیاوی چیزوں کے لیے۔ جب ہم ان چیزوں کے ساتھ اللہ کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ہماری دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچے دل سے اس کی طرف آنے والوں کو معاف کر دیتا ہے۔ نماز سنوار کر ادا کرو اور اسی کی طرف توجہ کرو۔ نمازیں پڑھو اور ان میں دعائیں مانگو۔ نمازیں پڑھنے کا مقصد اللہ کو پانا اور اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا ہے۔
نمازوں اور عبادت اور ذکرِ الٰہی کا حکم جس طرح مردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے۔ عابدات بننے کی اللہ نے عورت کو تلقین فرمائی۔ اور عورت جب حقیقی عابدہ بنتی ہے تو اس کا اثر صرف اسی تک نہیں رہتا بلکہ اس کی اولاد اور خاوند بھی نیکی کی طرف ہو جاتےہیں اور اسی لیے حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم بھی بنائی تا کہ عورتیں نیکیوں میں بھی بڑھیں اور جماعتی کاموںمیں بھی آگے آئیں۔
خاص طور پر لڑکیاں اپنی ماؤں کو بڑی عمر تک دیکھتی ہیں۔ اور مائیں اگر عبادت کرنے والی ہوں تو ایک نیک اثر پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ نیک اثر پیدا ہو جائے تو جہاں آپ اپنی اولاد کو سنوارنے والی ہو جائیں گی وہاں آئندہ نسلوں کو بھی دنیا کی برائیوں سے بچانے والی اور خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی بن جائیں گی۔
پس احمدی عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں قرآنِ کریم کو بکثرت پڑھنا چاہیے اور اس میں بیان فرمودہ کے احکامات کو سمجھتے ہوئے ان پر عمل کرنے کی نیت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ اگر قرآن کریم میں بیان کردوہ پردے کے حکم کی روح کو عورتیں پڑھ لیں تو کبھی پردے میں کمزوری نہ ہو۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اگر اس چیز کو سمجھیں تو حیا قائم رہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پاکستان سے آئی ہوئی عورتوں کو کم از کم اپنا پردہ اس معیار تک رکھنا چاہیے جو پاکستان میں تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو بیعت کی ہے، اس میں عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ ہر عورت اور مرد پر یہ ذمہ داری ہے کہ آپ نے جو عہد کیے ہیں وہ نبھائیں کیونکہ ہمیں اگلی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو اپنے عہدوں کا جواب دینا پڑے گا۔
حضورِ انور نے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے حوالے سے بیعت کرنے کے بعد ایک احمدی پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ بیعت کی ہے تو بالکل نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ خدا تعالیٰ کو دوست بنا لو۔ جب خدا تعالیٰ دوست بن جائے تو پھر دنیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔ حقیقی دوست ہر معاملےمیں تمہاری پروا کرے گا، ہر معاملےمیں حفاظت کرےگا۔ یہ بہت اہم بات ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے۔ لیکن ہم میں سے کتنے لوگ خدا تعالیٰ کو دوست بناتے ہیں؟اس کے لیے اپنی عبادتوں کے معیار کو بلندکرتے ہیں، اپنی ظاہری حالت خدا تعالیٰ کے طریق کے مطابق بناتے ہیں، اپنی عملی حالت کو بہترکرتے ہیں، اپنے اخلاقی معیار بہتر کرتے ہوئے اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہیں؟ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دوست بنانا ہے تو اس کی باتوں پر بھی عمل کیا جائے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک احمدی کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس کی عبادت معیاری ہے؟ کیاذکر الہٰی کی طرف اس کی توجہ ہے؟ کیااس کی عملی حالت اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ہے؟ کیا وہ ہر کسی کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ ورنہ ہم صرف نام کے احمدی ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس بڑا سوچنے کا مقام ہے کہ ایک طرف ہم اپنے آپ کو احمدی کہہ کر دوسرے مسلمانوں کی مخالفت مو ل لیں اور دوسری طرف اپنے عملوںمیں کمزوری کی وجہ سے خداتعالیٰ کی نظر میں احمدی بھی نہ ٹھہریں۔
حضورِ انور نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارشاد کے حوالے سے فرمایا کہ ’یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے وہ بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی۔‘
پس لجنہ اور مردوں نے اپنے عہدوںمیں اپنی اولادوں کو بھی دین سے جوڑنے کا عہدکیا ہوا ہے۔ لیکن اگر ہم خود دین کی طرف مائل ہو کر زندہ نہیں ہوں گے تو اپنی اولادوں کو ، اپنی نسلوں کو کس طرح زندہ رکھیں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر ہم نے دنیا کی تربیت کا کام اپنے ذمہ لیا ہےتو اپنی حالتوں میں بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے ان کی حالت سوکھی اور مردہ شاخ جیسی ہو جائے گی۔ اور سوکھی اور مردہ شاخ کو باغبان کاٹ دیا کرتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ عمل کے لیے حقیقی مجاہدہ اور تقویٰ کی ضرورت ہے۔ اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر اچھے خُلق پر انسان عمل کرے۔ بعض پر عمل کرنا اور بعض پر نہ کرنا تقویٰ نہیں کہلاتا۔ پس جب تمام قسم کی نیکیوں اور اخلاق کو انسان اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنا قرب عطا کرتا ہے۔قرآن کریم تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علّتِ غائی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اِن ممالک میں جہاں جذبات انگیخت کرنے کے بہت سے سامان موجود ہیں تقویٰ پیدا کرنے کے لیے خاص جدو جہد کی ضرورت۔ پس ہر احمدی مرد اور عورت کا کام ہے کہ ہم تقویٰ کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضورِ انور کا یہ خطاب دوپہرایک بج کر 35؍ منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضورِ انو رنے دعا کروائی۔
دعا کے بعد خواتین اور بچیوں نے مختلف گروپس میں ترانے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جن میں ڈچ، عربی، اردو (لجنہ)، اردو (ناصرات)، سورینامی لجنہ، بنگلہ لجنہ، افریقی لجنہ اور اردو نظم کے گروپ شامل ہیں۔ دو بجے سے کچھ پہلے حضورِ انور جلسہ گاہ مستورات سے تشریف لے گئے۔
اس خطاب کے دوران مردوں کی جانب حاضری دو ہزار سے زائد جبکہ خواتین کی جانب چودہ سو کے قریب نوٹ کی گئی۔
(رپورٹ:عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019)