کیا حضرت مسیح ناصریؑ کی کتابِ مقدس نیا عہد نامہ ہے؟
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
یا تورات اور کتبِ انبیاء سے ماخوذ عبارات کا مجموعہ؟
مسیحی چرچ اور نجی ادارے بائبل کو لاکھوں کی تعداد میں چھاپتے اور اس کی اشاعت کرتے ہیں اور اس میں توریت اور کتب انبیاء بھی چھاپتے ہیں۔ اور چار اناجیل (مع متعدد خطوط کے)بھی چھاپتے ہیں۔ مگر عملاً ان کا سارا زور چار اناجیل اور اس کے ساتھ وابستہ تحریرات پر ہوتا ہے۔ توریت اور کتب انبیاءکو انہوں نے پرانا عہدنامہ کا نام دیا ہوا ہے اور اس کو نہ واجب العمل کہتے ہیں نہ توریت کے سینکڑوں احکامات پر عمل کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یسوع مسیح کے لیے کتاب مقدس توریت اور کتب انبیاء ہی تھے۔ جہاں تک نئے عہد نامہ کا تعلق ہے اس کے متعلق یہ اچھی طرح مد نظر رکھیں کہ
(1) نیا عہد نامہ حضرت مسیح ناصری نے نہیں لکھا۔
(2) نہ انہوں نے کبھی پڑھا۔
(3) نہ انہوں نے کبھی دیکھا۔
(4) نہ ان کی اجازت سے لکھا گیا۔
(5) نہ ان کے کہنے پر لکھا گیا۔
(6) نہ انہوں نے کبھی اس کو پیشگوئی کے طور پر کتاب مقدس کہا۔
(7) نئے عہد نامہ کی کتابیں اس وقت لکھی گئیں جب بقول چرچ کے یسوع ناصری صلیب کے بعد آسمان پر جا چکے تھے۔
(8) ان کے بعد یہ جن لوگوں نے لکھا انہوں نے بھی کبھی اس کو مقدس کتاب کے طور پر نہیں لکھا۔
(9) چار اناجیل میں نئے آنے والوں کے لیے یسوع ناصری کے حالات زندگی لکھے گئے۔
(10) ان چاروں اناجیل میں متعدد اختلاف، تناقض اور تضاد ہیں۔
(11) یہ اناجیل اس شکل میں محفوظ بھی نہیں جس شکل میں پہلے لکھنے والوں نے لکھی تھیں۔
(12) ان اناجیل میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں تبدیلیاں دانستہ اور نا دانستہ کی گئی ہیں۔
(13) بہت سی تبدیلیاں اپنے مذہبی عقیدہ کو ثابت کرنے اور اپنے سے مختلف عیسائیوں کے عقائد کو رد کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں۔
(14) ان چار اناجیل کے علاوہ بیسیوں اَور کتابیں بھی لکھی گئیں۔
(15) ان میں سے کسی کو بھی کتاب مقدس کا درجہ حاصل نہیں تھا۔
(16)آہستہ آہستہ ابتدائی عیسائیوں نے جب توریت اور کتب انبیاء میں بیان عقائد سے تبدیلی کی (مثلاً توحید کے بجائے تثلیث کا عقیدہ اختیار کیا، شریعت پر عمل ترک کر کے مسیح کی صلیبی موت کو ذریعہ نجات قرار دیا)تو انہوں نے توریت اور کتب انبیاء سے الگ اپنے لیے کتاب کی ضرورت سمجھی۔
(17) انہوں نے بہت ساری کتابوں میں سے چند کتابیں کتاب مقدس قرار دینے کے لیے انتخاب کیں۔
(18) اس انتخاب کے وقت سخت اختلاف، بحث و مباحثہ ہوا آخر چوتھی صدی میں ان کتابوں کا انتخاب ہوا جو اَب نئے عہدنامہ میں شامل ہیں۔
گویا نیا عہد نامہ نہ خدا کا کلام ہے بلکہ انسانی کلام ہے نہ بطور کتاب مقدس لکھی گئی۔ انسانوں نے یہ کتابیں لکھیں۔ انسانی کتابوں کی طرح ان میں تضادات اور غلطیاں ہیں۔ انسانی کتابوں کی طرح ان میں تحریف کی گئی۔ اور انسانوں نے ہی ان کو کتاب مقدس اور کلام اللہ قرار دیا۔ ورنہ حضرت مسیح ناصریؑ کی کتاب مقدس توریت اور صحف انبیاء میں سے ہے جس کا بار بار ذکر ان کے اقوال میں ملتا ہے۔
(1) متی کی انجیل باب 1آیت23،22میں لکھا ہےکہ
‘‘یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنےگی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے۔’’
یہ حوالہ یسعیاہ کا ہے۔
(2) متی باب 2آیت6-5میں لکھا ہے کہ
‘‘کیونکہ نبی کی معرفت یوں لکھا گیا ہے کہ اے بیت لحم یہوداہ کے علاقے تو یہوداہ کے حاکموں میں ہرگز سب سے چھوٹا نہیں۔ کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا۔’’
یہ حوالہ میکا ہ کا ہے۔
(3) متی باب 2آیت15میں لکھا ہے کہ
‘‘جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا۔’’
یہ حوالہ ہو سیع سے ماخوذ ہے۔
(4) متی باب 2آیت18-17میں لکھا ہے کہ
‘‘اس وقت وہ بات پوری ہوئی جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہی گئی تھی کہ رامہ میں آواز سنائی دی۔ رونا اور بڑا ماتم۔راخل اپنے بچوں کو رو رہی ہے۔اور تسلی قبول نہیں کرتی اس لیے کہ وہ نہیں ہیں۔’’
یہ حوالہ یرمیاہ سے ماخوذ ہے۔
(5) متی باب 2آیت 23میں لکھا ہے کہ
‘‘(یوسف)ناصرہ نام ایک شہر میں جا بسا تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔’’
نبیوں سے مراد پرانا عہد نامہ کے انبیاء ہیں۔
(6) متی باب3آیت3میں لکھا ہےکہ
‘‘بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو۔ اس کے راستے سیدھے بناؤ۔’’
یہ حوالہ یسعیاہ سے لیا گیا ہے۔
(7) متی باب4آیت4میں لکھا ہے کہ
‘‘(یسوع)نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔’’
یہ حوالہ استثنا کا ہے۔
(8) متی باب 4آیت 7میں لکھا ہے کہ
‘‘تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔’’
یہ حوالہ یسعیاہ کا ہے۔
(9) متی باب 4آیت10میں لکھاہےکہ
‘‘تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔’’
یہ حوالہ سموئیل سے ماخوذ ہے۔
(10) متی باب4آیت 15 میں لکھا ہے کہ
‘‘زبولون کا علاقہ اور نفتالی کا علاقہ دریا کی راہ یردن کے پار غیر قوموں کی گلیل۔’’الخ
یہ حوالہ یسعیاہ سے ماخوذ ہے۔
(11) متی باب 5 میں ذکر ہے:
تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا،
زنا نہ کرنا، جھوٹی قسم نہ کھانا، اپنے پڑوسی سے محبت رکھ۔
جیسا کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کے فقرہ سے ظاہر ہے کہ فقرات پرانے عہد نامہ کے ہیں۔
(12) متی باب6 میں ایک دعا سکھائی گئی ہےاس کا آخری فقرہ یہ ہے:
‘‘[کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔]’’
اس فقرہ کو انگریزی بائبل میں حذف کردیا گیا ہے اور اردو ترجمہ میں اس کے گرد بریکٹ ڈال دی گئی ہےکیونکہ خیال کیا جاتاہے کہ دراصل یہ فقرہ پرانےعہد نامہ کا ہے۔
(13) نئےعہد نامہ کی اخلاقی تعلیم پر بہت ناز کیا جاتا ہے خصوصاًاس فقرہ‘‘پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کرو۔’’(متی باب 7 آیت 12)
حالانکہ یہ ساری تعلیم اور یہ فقرہ پرانے عہد نامہ سے ماخوذ ہے کیونکہ اس فقرہ کے معاًبعد لکھاہے۔ ‘‘کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔’’
(14) متی باب 8آیت 4میں وضاحت سے اس کوڑھی کو جس کو یسوع ناصری نے معجزانہ طور پر شفا دی یہ لکھاہے:
‘‘جاکر اپنے تئیں کاہن کو دکھا اور جو نذر موسٰی نے مقرر کی ہے اسے گزران تاکہ ان کے لیے گواہی ہو۔’’
گویا پرانےعہد نامہ کے احکامات پر عمل لازمی ہے۔
(15) متی باب8آیت16میں لکھاہےکہ
‘‘اس نے بدروحوں کو زبان ہی سے کہہ کر نکال دیا اور سب بیماروں کو اچھا کردیا۔’’
اس عبارت کے آگے لکھاہے ‘‘تاکہ جو یسعیاہ نبی کی معرفت کہاگیا تھا وہ پورا ہو۔’’
گویا یہ بھی پرانے عہد نامہ سے ماخوذہے۔
(16) متی باب9آیت13میں لکھاہےکہ
‘‘میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں’’
یہ ہوسیع سے ماخوذہے۔
(17) متی باب 11آیت10میں لکھاہے کہ
‘‘یہ وہی ہے جس کی بابت لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرے گا۔’’
یہ ملاکی سے اخذ کیا گیا ہے۔
(18) متی باب 12میں یسوع نے اپنے حواریوں کے ایک کام پر جب یہودیوں نے اعتراض کیا تو اس کاجو جواب یسوع نے دیا وہ پر انے عہد نامہ سے ماخوذ ہے یسوع نے کہا کیا
‘‘تم نے توریت میں نہیں پڑھا کہ کاہن سبت کے دن ہیکل میں سبت کی بے حرمتی کرتے ہیں اور بے قصور رہتے ہیں؟’’
جیساکہ لکھاہے ‘‘کیا تم نے توریت میں نہیں پڑھا’’یہ مضمون توریت سے ماخوذ ہے ۔
(19) متی باب 12 میں آیات 18 تا 20لکھی گئیں ہیں اور اس سے پہلے لکھا ہے:
‘‘تاکہ جو یسعیاہ نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو’’
(20) متی باب 12آیت 39میں لکھا ہے:
(یسوع نے کہا)‘‘لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔’’
یوناہ نبی کا نشان کیا تھا؟ اس کی تفصیل نئے عہد نامہ میں نہیں ہے صرف پرانے عہد نامہ میں ہے۔
(21) متی باب 13آیت 14تا 17 میں ایک لمبی عبارت ہے۔یہ عبارت ساری کی ساری یسعیاہ سے لی گئی ہے۔
(22) متی باب 13آیت 35،34میں لکھا ہے:
‘‘یہ سب باتیں یسوع نے تمثیلوں میں کہیں اور بغیر تمثیل کے وہ ان سے کچھ نہ کہتا تھا۔ تاکہ جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ میں تمثیلوں میں اپنا منہ کھولوں گا۔’’
یہ زبور 78کی تعمیل ہے۔
(23) متی باب15 آیت 4میں لکھا ہے:
‘‘جو باپ یا ماں کو برا کہے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔’’
یہ خروج باب 21سے ماخوذ ہے۔
(24) متی باب 15آیت 9،8میں لکھا ہے:
‘‘یہ امت زبان سے تو میری عزت کرتی ہے مگر اس کا دل مجھ سے دور ہے۔اور یہ بے فائدہ میری پرستش کرتے ہیں کیونکہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔’’
یہ یسعیاہ سے ماخوذ ہے۔
(25) متی باب 19آیت16تا19 میں ہے کہ
‘‘ایک شخص نے (یسوع سے پوچھا کہ)میں کونسی نیکی کروں…(انہوں نے جواب دیا) اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔اس نے کہا کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خون نہ کر۔ زنا نہ کر۔ چوری نہ کر۔ جھوٹی گواہی نہ دے۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔’’
یہ تمام احکامات وہی ہیں جو پرانے عہدنامہ میں دیے گئے ہیں ۔کفارہ،تثلیث وغیرہ کا ان میں کوئی ذکر نہیں۔
(26) متی باب 21 آیت5میں ایک پیشگوئی درج ہے:
‘‘صیہون کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر سوار ہے بلکہ لادو کے بچے پر۔’’
یہ یسعیاہ سے ماخوذ ہے۔
(27) متی باب 21آیت13میں لکھا ہےکہ
‘‘لکھا ہے کہ میرا گھر دعا کا گھر کہلائے گا مگر تم اسے ڈاکووں کی کھوہ بناتے ہو۔’’
یہ یسعیاہ سے ماخوذہے۔
(28) متی باب 21 آیت 42میں لکھاہے کہ
‘‘ یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا۔
وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔
یہ خداوند کی طرف سے ہوا۔
اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟’’
یہ حوالہ زبور سے ماخوذہے ۔متی کے اس باب میں حضرت مسیح ناصریؑ اس کتاب کو کتاب مقدس قرار دیتے ہیں جس کو پرانا عہد نامہ کہا جاتاہے۔
(29) متی باب 22آیت 29میں یسوع نے صدوقی فرقہ کے ایک سوال پر جواب میں کہا۔
‘‘تم گمراہ ہو اس لیے کہ نہ کتاب مقدس کو جانتے ہو نہ خدا کی قدرت کو۔’’
یہاں یسوع نے واضح طور پر اس کتاب کو جس کو چرچ پرانا عہد نامہ قرار دیتا ہےکتاب مقد س قرار دیاہے۔
(30) متی باب22میں لکھا ہےایک عالم شرع نے یسوع ناصری سے پوچھا :
‘‘اے استاد توریت میں کون سے حکم بڑا ہے؟ اس نے اس سے کہا خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلاحکم یہی ہے۔ اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔’’
یہ حوالہ خروج سے ماخوذہے۔
(31) متی باب 22آیت 35تا 40میں لکھا ہے کہ
‘‘ایک عالم شرع نے آزمانے کے لیے اس سے پوچھا۔اے استاد توریت میں کونسا حکم بڑا ہے؟اس نے اس سے کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے۔’’
صاف ظاہر ہے کہ توریت اور کتب انبیاءکومقدس کتاب ہونے کا مقام حاصل ہے۔
(32) متی باب 22آیت 41تا44میں یسوع ناصری نئے عہدنامہ کی دواناجیل کے اس بیان کی کہ یسوع مسیح حضرت داؤدؑ کی اولاد ہے بیخ کنی کرتے ہوئے پرانے عہد نامہ سے استنباط کرتے ہیں۔
‘‘جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے پوچھا۔ کہ تم مسیح کے حق میں کیا کہتے ہو؟ کہ وہ کس کا بیٹا ہے؟ انہوں نے اس سے کہا داؤد کا۔ اس نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے کہ
خداوند نے میرے خداوند سے کہا
میری دہنی طرف بیٹھ
جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں؟’’
یہ حوالہ زبور سے ماخوذہے اس حوالہ کے ذریعہ حضرت مسیح ناصری ؑنے اس عقیدہ کی تردید کی ہے جو نئے عہد نامہ میں آنے والے مسیح کے بارہ میں ملتاہے کہ وہ داؤد کی نسل سے ہوگا ۔
(33) متی باب 23آیت 1تا3میں حضرت مسیح ناصری نے حضرت موسیٰ کی تعلیم کو (جو ظاہر ہے پرانے عہد نامہ میں ہے)واجب العمل قرار دیاہے۔لکھاہے
‘‘اس وقت یسوع نے بھیڑ سے اور اپنے شاگردوں سے یہ باتیں کہیں کہ فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو۔’’
(34) متی باب 23آیت 23میں یسوع ناصری حضرت موسیٰ کی شریعت (جو پرانے عہد نامہ میں ہے)کے متعلق یہودی علماء کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ
‘‘تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔’’
آج چرچ بھی شریعت کو پولوس کی تعلیم کے مطابق غیر واجب العمل قرار دیتا ہے گویا یہود کی طرح ایمان، رحم اور انصاف کو نظر انداز کرتاہے۔
(35) متی باب 24آیت 16-15میں لکھاہےکہ
‘‘پس جب تم اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا۔ مقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو۔تو جو یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔الخ’’
آئندہ مشکلات کے وقت یسوع ناصری کی ہدایات بھی پرانے عہد نامہ کی روشنی میں ہیں ۔
(36) متی باب 26آیت 56میں یسوع ناصری کی گرفتاری سے پہلے اور گرفتاری کے واقعات کا ذکر کرکےلکھاہے:
‘‘مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ نبیوں کے نوشتے پورے ہوں’’
گویا نبیوں کے صحیفوں میں ان سب امور کا ذکرہے ہر اہم معاملہ میں پرانے عہد نامہ کا حوالہ دیا گیا ہے اگرچہ چرچ پرانے عہد نامہ کو لفظاً نہ سہی عملاًمنسوخ قرار دے چکا ہے اور اس کے احکام کو واجب العمل نہیں سمجھتا۔
(37) متی باب 27آیت 9میں لکھاہے
‘‘اس وقت وہ پورا ہوا جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہاگیا تھاکہ جس کی قیمت ٹھہرائی گئی تھی انہو ں نے اس کی قیمت کے وہ 30روپے لے لیے ۔’’
یہ حوالہ یرمیاہ کا نہیں بلکہ زکریاباب11کا ہے نئے عہد نامہ کو خدا کا کلا م کہا جاتاہے مگر علماء بائبل تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں زکریا کی بجائے یرمیاہ لکھا گیا ہے بہرحال حوالہ پرانے عہد نامہ کا ہے۔
(38) صلیب پر یسوع ناصری نے یہ فقرہ بولا
‘‘ایلی ۔ ایلی ۔ لما شبقتنی’’
یہ فقرہ بھی زبور کا ہے۔
گویا پیدائش سے لے کر یسوع ناصری کی مزعومہ موت تک تمام اہم واقعات میں پرانے عہد نامہ کے حوالے دیے گئے ہیں ۔
متی کی انجیل کے مذکورہ حوالوں میں آپ نے دیکھاہے کہ سارا زور پرانے عہدنامہ کے بطور کتاب مقدس احکامات۔نصائح او رپیشگوئیوں کے لحاظ سے ہے ۔
(39) مرقس کی انجیل کی ابتدا ہی پرانے عہد نامہ کے حوالہ سے ہوتی ہےلکھاہے:
‘‘جیسا یسعیاہ نبی کی کتاب میں لکھاہے کہ
دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرے گا۔
بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ
‘‘خداوند کی راہ تیار کرو۔
اسی کے راستے سیدھے بناؤ۔’’(مرقس باب 1آیت3,2)
(40) مرقس باب 1آیت 40تا45میں لکھاہے :
‘‘اورایک کوڑھی نے اس کے پاس آکر اس کی منت کی اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کراس سےکہا اگر تو چاہے تو مجھے پاک صاف کرسکتا ہے۔
اس نے اس پر ترس کھاکر ہاتھ بڑھایا اور اسے چھوکر اس سے کہا میں چاہتا ہوں۔توپاک صاف ہوجا۔اور فی الفور اس کا کوڑھ جاتا رہا اور وہ پاک صاف ہوگیا۔ اوراس نے اسے تاکید کرکےفی الفور رخصت کیا۔ اور اس سے کہا خبردار کسی سےکچھ نہ کہنا مگر جاکراپنے تئیں کاہن کو دکھا اور اپنے پاک صاف ہو جانے کی بابت ان چیزوں کو جو موسیٰ نے مقرر کیں نذرگزران تاکہ ان کے لیے گواہی ہو۔ لیکن وہ باہر جاکر بہت چرچا کرنے لگا۔’’
جس طرح اس شخص نے یسوع ناصری کی بات نہ مانی اسی طرح چرچ بھی آج یسوع ناصری کے احکامات کی نافرمانی کرتاہے کیونکہ یسوع ناصری نے موسیٰ کے احکامات کی تعمیل کا حکم دیامگر چرچ اس سے احترازکرتاہے ۔
(41) مرقس باب 2آیت25میں یسوع ناصری نے اپنے حواریوں پر ہونے والے اعتراض کو پرانے عہد نامہ کا حوالہ پیش کر کے رد ّکیا۔ لکھاہے:
‘‘اس نے ان سے کہاکیا تم نے کبھی نہیں پڑھا کہ داؤد نے کیا کیا جب اس کو اوراس کے ساتھیوں کو ضرورت ہوئی ۔الخ
یہ استنباط سموئیل باب 21پر مبنی ہے۔
(42) مرقس باب 2 آیت 27میں ہے:‘‘ سبت آدمی کے لیے بنا ہے۔’’
یہ استثنا ء باب5پر مبنی ہے۔
(43) مرقس باب 5 آیت 12 مبنی ہے۔استثنا باب 29 آیت 4 پر اور یسعیاہ باب 6 آیت 9، 10 پر
(44) مرقس باب 7آیت6 میں حواریوں پر ایک اعتراض کا جواب یسوع نے پرانے عہد نامہ کے حوالہ سے دیا ہے۔ لکھا ہے : ‘‘یسعیاہ نے تم ریا کاروں کے حق میں کیا نبوت کی۔ جیسا کہ لکھا ہے: یہ لوگ ہونٹوں سے تو میری تعظیم کرتی ہے لیکن ان کے دل تجھ سے دور ہیں۔ ’’
یہ حوالہ یسعیاہ سے ماخوذ ہے۔
(45) مرقس باب 9 آیت 12میں لکھا ہے:
‘‘ابن آدم کے حق میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے دکھ اٹھائے گا اور حقیر کیا جائے گا۔’’
یہ مضمون زبور، یسعیاہ اور دانیال سے ماخوذ ہے۔
(46) مرقس باب 10آیت7 میں ہے:
‘‘مرد اپنے باپ سے اور ماں سے جدا ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا ۔’’
یہ مضمون پیدائش باب 2 پر مبنی ہے۔
(47) مرقس باب 11 آیت 17میں لکھا ہے :
‘‘کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لیے دعا کا گھر کہلائے گا؟’’
یہ حوالہ یسعیاہ باب 56 سے ماخوذ ہے۔
(48) مرقس باب 12 آیت 10میں ہے:
‘‘کیا تم نے یہ نوشتہ بھی نہیں پڑھا ۔’’
یہ نوشتہ زبور سے ماخوذ ہے۔
(49) مرقس باب 12آیت 26میں لکھا ہےکہ
‘‘کیا تم نے … جھاڑی کے ذکر میں نہیں پڑھا کہ خد انے اس سے کہا کہ میں ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں وہ تو مُردوں کا خدا نہیں بلکہ زندوں کا خداہے۔’’
یہ حوالہ خروج سے ماخوذ ہے۔
(50) مرقس باب 12آیت28تا30میں حضرت مسیح ناصری ؑنے ایک سب سے زیادہ بنیادی تعلیم بیان کی ہے ۔لکھا ہے ایک فقیہ نے ان سے پوچھا:
‘‘سب حکموں میں اوّل کون ساہے؟
یسوع نے جواب دیا سب سے اول یہ ہے:
اے اسرائیل سن خدا وند ہمارا خدا ایک ہی خدا وند ہے اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ دوسرا یہ ہے کہ تو اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔’’
یہ بنیادی تعلیم جو مذہب کا اصل الاصول ہے اور جس کو چرچ خیر باد کہہ چکاہے کیونکہ توحید خالص کے بجائے توحید فی التثلیث کا عقیدہ پیش کرتاہے جس کی رو سے تین الگ الگ تین ہوتے ہوئے بھی تین نہیں بلکہ ایک ہیں ۔
(51) نئےعہد نامہ میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ یسوع ناصری کو حضرت داؤدؑ کی نسل ثابت کیا جائے اور اس کے لیے متی اور لوقا میں 2متضاد نسب نامے بھی دیے گئے ہیں ۔
مگر مرقس باب 12آیت37،36میں یسوع ناصری کہتے ہیں ۔
‘‘فقیہ کیونکر کہتے ہیں مسیح داؤد کا بیٹا ہے
داؤد نے خود روح القد س کی ہدایت سے کہاہے کہ خداوند نے میرے خدا سے کہا
میری دہنی طرف بیٹھ
جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے کی چوکی نہ کردوں داؤد تو آپ اسے خداوند کہتاہے پھر وہ اس کا بیٹا کہاں سے ٹھہرا۔’’
یہ حوالہ زبور سے ماخوذ ہے۔خودنئے عہد نامہ کی روح سے مسیح ناصری متی اور لوقا کی انجیل کی تردید کرتے ہیں ۔
اس کے باوجود چرچ نئے عہد نامہ کو اپنی کتا ب مقد س قرار دیتاہے۔
(52) مرقس باب 14آیت27میں ہے
‘‘لکھا ہےمیں چرواہے کو ماروں گااور بھیڑیں پراگندہ ہو جائینگی ۔’’
یہ زکریا باب 13 آیت 7پر مبنی ہے۔
(53) مرقس باب 14آیت 49میں ہے کہ گرفتاری کے وقت یسوع مسیح نے کہا :
‘‘لیکن یہ اس لیے ہوا ہے کہ نوشتے پورے ہوں ۔’’
ظاہر ہے نوشتوں سے مراد یہاں نیا عہد نامہ نہیں ہے۔
(54)مرقس باب 15آیت28میں لکھاہے۔
‘‘تب اس مضمون کا وہ نوشتہ کہ وہ بدکاروں میں گنا گیا پوراہوا ۔’’
یہ یسعیا ہ سے لیا گیاہے۔
٭…٭…٭
نہایت عمدہ مضمون ہے۔اور ایک استدلال کی تائید میں بائبل سے متعدد حوالہ جات اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔