متفرق مضامین

ہالینڈ میں اسلام احمدیت کا پیغام

(طلحہ احمد۔ مربی سلسلہ سلوینیا)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

تعارف

غربی یورپ میں شمالی سمندر کے کنارے چھوٹا مگر بہت ہی خوبصورت ملک ہالینڈ (Holland)یا نیدرلینڈ (Nederland) واقع ہے۔ اس کے مشرق میں جرمنی اور جنوب میں بیلجیم کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ہالینڈ پر مختلف وقتوں میں روم، فرانس اور سپین کا قبضہ رہا۔بالآخر 1648ء میں اس ملک نے آزادی حاصل کرلی۔

ہالینڈ نے انڈونیشیا کو 350 سال تک اپنی کالونی بنائے رکھا اور آخر 1949ء میں انڈونیشیا نے آزادی حاصل کی۔ سورینام (جنوبی امریکہ) 1975ء میں ہالینڈ کے تسلّط سے آزاد ہوا۔ اس وقت Curasau اور Antillen (جنوبی امریکہ) ہالینڈ کے زیرِنگیں ہیں۔

ہالینڈ کا دارالخلافہ ایمسٹرڈیم(Amsterdam) ہے لیکن دارالحکومت یعنی پارلیمنٹ اور اکثر غیر ملکی سفارت خانوں کے دفاتر ہیگ(Den Haag)میں واقع ہیں۔ ہیگ میں عالمی عدالتِ انصاف بھی ہےاور اسی شہر میں ہالینڈ میں جماعت کی تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد ،مسجد مبارک بھی واقع ہے۔

ہالینڈ میں اسلام

ہالینڈ میں تاریخ اسلام کا آغاز سترہویں صدی کے شروعات میں ہوتا ہے جب جمہوریہ ڈچ نے مراکش کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کا آغاز کیا،لیکن اس کے بعد کے واقعات ابھی تک تاریخی اوراق میں مدفون ہیں تاہم ایک زمانہ میں انڈونیشیا ہالینڈکی کالونی بھی رہا ہے۔ یعنی ہالینڈ نے تین سو پچاس سال تک جزائر شرق الہند کے دس کروڑ باشندوں پر حکمرانی کی ہے۔ ان باشندوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور ان کا ایک حصہ ہالینڈ میں ہی مستقل بُود و باش اختیارکر چکا ہے۔ اگرچہ ہالینڈ سے انڈونیشین مسلمانوں کے ایک عرصہ سے تعلقات چلے آ رہے تھے اور ایک بڑی تعداد اس میں مقیم ہو گئی تھی لیکن اتنے لمبے زمانہ میں ہالینڈ میں اشاعتِ اسلام کی کوئی قابلِ ذکر کوشش نہیں کی گئی حتّٰی کہ کسی مسلمان کو یہ خیال تک نہیں آیا کہ اپنی مرکزیّت کو برقرار رکھنے اور خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لیے اس سر زمین میں کوئی مسجدہی تعمیر کر دیں۔ ہالینڈ کا تعلق جنوبی امریکہ کی بعض نو آبادیات سے بھی ہے جہاں مسلمان خاص تعداد میں آباد ہیں۔
اٹھارویں صدی سے ہی یہاں اسلام کے بارہ میں تحقیق کا آغاز ہو گیا تھا اور انیسویں صدی تک کئی محققین نے اسلام پر تحقیق کر کے کتابیں لکھیں۔ انیسویں صدی کے آخر تک تحقیقِ اسلام کا دائرہ لائیڈن یونیورسٹی (Leiden University) تک پھیل گیا۔ ہالینڈ کی لائیدن یونیورسٹی مشرقی علوم کے مغربی مرکز کی حیثیت سے نہ صرف پورے یورپ بلکہ دنیا بھر میں بہت مشہور ہے اور علمی دنیا میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔

ہالینڈ میں جماعت احمدیہ کا قیام

جنگِ عظیم دوم کے بعد 1945ء میں جماعت احمدیہ نے بہت سے مغربی ممالک میں اسلامی مراکز کا آغاز کیا۔ چنانچہ ہالینڈ میں 1947ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی۔

ہالینڈ میں مستقل احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد حافظ قدرت اللہ صاحب کے ہاتھوںسے پڑی جو دوسرے مجاہدینِ تحریکِ جدید کے ساتھ کچھ عرصہ انگلستان میں تبلیغِ اسلام کا فریضہ ادا کر نے کے بعد 2؍جولائی 1947ءکو ہیگ پہنچے۔ ریلوے اسٹیشن پر ان کا استقبال لندن مشن کے ذریعہ 1944ء میں احمدی ہونے والے ایک ڈچ احمدی دوست مکرم ظفر اللہ کاخ صاحب نے کیا۔ آپ نے ہیگ کی کولمبس سٹریٹ Columbusstraat 237 میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر اشاعتِ اسلام کی جدّوجہد کا آغاز کیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 153)

حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ؓسابق مبلغ انچارج انگلستان نے ہالینڈ مشن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے تحریر کیا:

‘‘احباب یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب نے ہالینڈ پہنچ کر تبلیغ کا کام شروع کر دیا ہے۔ مکرم مسٹر ظفر اللہ کاخ نے ان کا استقبال کیا اور ان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کیا۔ مسٹر ظفر اللہ کاخ جو لنڈن میں میرے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے، ایک مخلص نوجوان ہیں اور تبلیغ کا شوق رکھتے ہیں۔ ابھی تک لنڈن میں تعلیم پا تے ہیں۔ آج کل تین ماہ کی رخصتیں گزار نے کے لیے اپنے وطن ہالینڈ آئے ہوئے ہیں۔ آپ ایک معزز خاندان کے فرد ہیں۔ امید ہے کہ وہ عزیز م حافظ قدرت اللہ صاحب کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ احباب سے دعا کے لیے درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ باشندگانِ ہالینڈ کو بھی اسلام کے نور سے منور کرے اور سلسلہ حقہ میں داخل ہو نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین’’

(الفضل 15؍جولائی 1948ء)

مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب ہالینڈ مشن کے قیام کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں:

‘‘ہالینڈ مشن کا باقاعدہ آغاز تو 1947ء میں اس وقت ہوا جب حضرت مصلح موعود ؓ نے از راہ ذرّہ نوازی اس عاجز کو پاکستان کے وجود کے آنے سے قبل ارشاد فرمایا کہ میں وہاں جا کر ایک نئے مشن کی بنیاد ڈالوں۔ ہر چند کہ یہ ایک نہایت مقدس اور اہم ذمہ داری تھی۔ حالات اور زبان سے بھی ناتجربہ کاری تھی۔ مگر حضور اقدس ایسے اولوالعزم اور عظیم الشان خلیفہ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ ضرور تھا۔ گو ڈر تھا کہ کہیں اپنی نا اہلیاں اور خطاکاریاں اس راہ میں حائل نہ ہو جائیں۔ مگر اس کے باوجود امید کا ایک پہلو غالب تھا کیونکہ یہ میرا کام تو تھا ہی نہیں۔ بلکہ اسلام اور احمدیت کے زندہ خدا کا پروگرام تھا۔ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس غرض کے لیے بھیجا تھا۔

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق یہ عاجز ہالینڈ کے لیے مورخہ یکم جولائی 1947ء کو بذریعہ بحری جہاز روانہ ہوا اور دوسرے روز دوپہر سے قبل یہ عاجز ہیگ پہنچ گیا۔ اور باقاعدہ طور پر ہالینڈ میں ایک نئے مشن کی ابتدا ہو گئی۔ خاکسار نے پریس کے ساتھ تعلقات قائم کر کے یہ خبر نیوز ایجنسی کو دی جو دوسرے ہی روز صبح اخبارات میں شائع ہو گئی۔ نہایت ہی مختصر تھی مگر اس میں خاکسار کی رہائش کا ایڈریس درج تھا جس سے بہت فائدہ ہوا۔ خاکسار نے اپنی رہائش کے لیےکولمبس سٹریٹ میں ایک کمرہ لیا تھا۔ اس مکان میں ایک انڈونیشین شخص جو ماڈورا کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ڈچ بیوی تھی ۔ اس جگہ کا ماحول کوئی ایسا پسندیدہ تو نہ تھا مگر ابتداءً کچھ عرصہ میں نے اسی جگہ گزارا اور پھر چند مہینوں کے بعد اس جگہ کو تبدیل کر لیا اور ہیگ کے ایک اچھے کھلے علاقہ Ruychrocklaan میں تبلیغی مساعی کو شروع کیا اور پھر سالہا سال ہمارا مشن وہاں قائم رہا یہاں تک کہ 1955ء میں جب اس علاقہ میں ہماری اپنی مسجد (مع مشن ہاؤس) وجود میں آ گئی تو 1956ء کے شروع میں مشن وہاں منتقل کر لیا گیا۔’’

ہالینڈ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے بعض صحابہ کی آمد

ہالینڈ کی سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے تین افراد کے علاوہ آپ ؑکے تربیت یافتہ بعض صحابہ بھی تشریف لائے۔ان صحابہ نے ہالینڈ میں تبلیغ اسلام بھی کی اور بفضلہٖ تعالیٰ اس ملک کی بعض سعید روحوںکو حلقہ بگوش اسلام و احمدیت کیا۔ان میں سے بعض صحابہؓ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سر فہرت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ ؓ 1955ء میں دورہ یورپ کے دوران ہالینڈ تشریف لائے۔ (اس دورہ کے حوالے سے بعض معلومات الفضل انٹرنیشنل کے اس شمارہ میں شامل اشاعت ہیں)

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ؓ۔ نومبر 1947ء کو اپنے بعض رفقاء سمیت انگلستان تشریف لے گئے اور جولائی 1948ء میں واپس پاکستان پہنچے۔ آپ نے اپنے سفر انگلستان کے دوران کچھ دیر ہالینڈ میں قیام فرمایا۔ آپ ؓجنوری 1948ء میں ہالینڈ تشریف لائے۔ آپ کی آمد پر پریس والوں نے آپ سے گفتگو فرمائی اور پھر آپ نے ان کی خواہش پر اپنی فوٹو کی بھی اجازت فرمائی۔(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ 268)
(داستان حافظ بزبان حافظ صفحہ 38)

٭…حضرت سیّدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ ؓ 1962ء میں ہالینڈ تشریف لائیں۔ آپ کے ہمراہ آپ کی دو صاحبزادیاں اور داماد مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب بھی موجود تھے۔ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ سلسلہ نے ایمسٹرڈیم ائرپورٹ پر آپ کا خیر مقدم کیا۔ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے تین روز تک مشن میں قیام فرمایا جس کے بعد آپ سوئٹزرلینڈ روانہ ہو گئیں۔ آپؓ کے بابرکت وجود کی آمد سے جماعت احمدیہ ہالینڈ کو مستفیض ہو نے کا موقع ملا ۔ آپ ؓنے اسلام و احمدیت کی اشاعت کے سلسلہ میں مبلغین کی کامیابی اور ساری جماعت کے لیے دعائیں کیں۔ (ڈچ رسالہ الاسلام مارچ 1989ء)

٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحبؓ تھے۔ آپؓ1914ءمیں انگلستان میں طالب علم تھے۔ اسی سال کی ایسٹر کی تعطیلات میں حضرت چوہدری صاحب ؓ نے یورپ کے بعض ممالک کی سیر کی جس میں ہالینڈ بھی شامل تھا۔ آپ ؓتین دن ہالینڈ میں ٹھہرے۔ آپ ؓکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ معلوم تاریخ کے مطابق آپ سب سے پہلے احمدی ہیں جنہوں نے ہالینڈ کی سر زمین پر قدم رکھا۔

ہالینڈ میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کی زمین کی خریداری اور اس کی تعمیر کے سلسلہ میں آپ ؓ کوگراں قدر خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ آپؓ ہی نےاس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد پر آپؓ نے ہی اس کا افتتاح فرمایا۔

اسی طرح حضرت چوہدری صاحبؓ جب عالمی عدالت انصاف کے جج تھے تب بھی آپ ہالینڈ میں ہی مقیم رہے۔

٭…جماعت کے ایک قابل قدر بزرگ صحابی حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحبؓ ایم -اے مبلغ ِانگلستان ہیں۔ مسجد فضل لندن کے افتتاح کے بعد 1926ء میں آپ ؓ نےبیلجیم اور ہالینڈ کا دورہ کیا اور متعدد سوسائٹیوں میں لیکچر دیے۔ آپ نے ایک کتاب لندن آ کر بعنوان Islamانگریزی زبان میں تحریر فرمائی جس کا ڈچ زبان میں ترجمہ کر کے بنام Islam – Geloofsartikelen en Godsdienstplichten ہالینڈ میں مئی 1926ء میں شائع ہوئی۔

اگست 1927ء میں آپؓ نے ایک دوسراکتابچہWoorden uit den Qoer’an (قرآن میں سے الفاظ) De Vrije Religieuze Tempel Amsterdam میں شائع کروایا۔

(ڈچ رسالہ الاسلام مارچ 1989ء)

آپ ؓنے اسلام کو متعارف کروانے کے لیے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور وہاں سے ایک پندرہ روزہ رسالہ بھی ڈچ زبان میں وہاں کے کسی دوست کی مدد سے شروع کیا اور اس ضمن میں چندمختصر پمفلٹ بھی شائع کیے اور ہالینڈ میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔

قرآن کریم کا ڈچ ترجمہ

1953ء ہالینڈ میں اسلام کی تبلیغ کے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس سال ڈچ زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کی اشاعت ہوئی ۔

حضرت مصلح موعود ؓنے جنوری 1948ء میں ارشاد فرمایا تھا کہ قرآن مجید کے ڈچ ترجمہ کی طباعت سے متعلق فوراً معلومات حاصل کی جائیں ۔چنانچہ حافظ قدرت اللہ صاحب لائیڈن کی ایک ممتاز و مشہور فرم Brillکے ڈائریکٹر صاحب اور بعض ممتاز مستشرقین سے ملے ۔اسی طرح مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب (مبلغ سلسلہ )نے ہیگ کی مختلف فرموں سے رابطہ کیا۔

قرآن کریم کا ڈچ ترجمہ ایک خدائی نشان

قرآن کریم کے ڈچ ترجمہ کی اشاعت جماعت احمدیہ کی طرف سے نومبر 1953ء میں ہوئی۔ یہ ترجمہ 1945ء میں دیگر تراجم کے ساتھ لندن میں حضرت مولا ناجلال الدین شمس صاحبؓ کی زیرِ نگرانی کروایا گیا۔
ڈچ ترجمہ مسز ناصرہ Zimmermanصاحبہ نے کیا۔ انہوں نے اس مقدس فریضہ کی بجاآوری کے دوران صداقتِ اسلام کے بعض قہری نشان دیکھے اور بالآخر اللہ کے فضل سےداخلِ اسلام ہو گئیں اور نہایت خلوص کے ساتھ ہالینڈ میں خدمات دینیہ بجالاتی رہیں۔ مسز ناصرہ زمرمن صاحبہ نے اپنے قبولِ اسلام کی ایمان افروز سرگزشت اپنے قلم سے لکھی ہے:

‘‘1945ء کا سال میرے لیے تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کے شروع میں مَیں بمباری سے مسمار شدہ لندن میں پہنچی ہی تھی کہ مجھے ایک ترجمہ کرنے والے محکمہ کی طرف سے ملاقات کے لیے پیغام ملا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ملاقات قرآنِ کریم کے ڈچ ترجمہ کے سلسلہ میں ہے۔ مجھے آخری تین سو صفحات کا ترجمہ کرنے کے لیےکہا گیا اس پر مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ میں یہ دیکھوں کہ پہلے حصہ کیسا ہوا ہے؟

میں پہلے حصہ کے چند صفحات کو لے کر گھر لوٹی اور ان کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا۔ اس ترجمہ کا میری طبیعت پر بہت بڑا اثر ہوا۔ مترجم نے قدیم ڈچ زبان میں جس کو آج کل سمجھنا بھی مشکل ہے ترجمہ کیا ہوا تھا۔ اور پھر اس کا انداز بھی کوئی اچھا نہ تھا اس لیے میں نے ترجمہ کرنے سے انکار کر دیا۔

میرے لیے یہ کام اس وجہ سے بھی مشکل تھا کہ میری پیدائش اور تربیت عیسائی ماحول میں ہوئی تھی جس میں سِرے سے گناہ کا تصوّر ہی بالکل اور ہے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ حضرت یسوع ہمارے گناہوں کی خاطر مصلوب ہو گئے قرآن کریم کی تعلیمات میرے لیے صدمہ کا موجب ہوئیں کیونکہ قرآن کریم میں اعمال پر بہت زور دیا گیا ہے اور گناہوں کی پاداش میں سزا کا بھی ذکر ہے۔ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کا ترجمہ کرنا میرے لیے محال تھا۔ آخر لمبی سوچ اور گہرے غور کے بعد میں نے اس مبارک کام کو سر انجام دینے کا فیصلہ کیا اور میں نے دفتر کے ڈائریکٹر سے تمام قرآن کا ترجمہ اپنے طرز اور موجودہ ڈچ زبان میں کرنے کی اجازت لے لی۔ میں نے اس کام کو سر انجام دینے کے لیے دن رات ایک کر دیا اور ابتدائی 30، 40 صفحات کا ترجمہ کر کے میں ڈائریکٹر کے پاس لے کر گئی۔

اس موقعہ پر اس امر کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتی کہ جب میں ڈائریکٹر کو ملنے گئی تو ہماری قرآن کریم کے متعلق طویل گفتگو ہوئی۔ ڈائریکٹر نے اس مقدس کتاب کے متعلق نہایت ہی توہین آمیز کلمات استعمال کیے۔ بعد میں بھی اس کا رویہ یہی رہا اور اس نے وہاں کئی بار متواتر اور مسلسل قرآن کریم کی توہین جاری رکھی جن کا میری طبیعت پر بہت ناگوار اثر ہوا لیکن جلد ہی جب میں دوبارہ اسے ملنے گئی تو میں نے اسے نہایت ہی المناک کیفیت میں پایا۔ اسے Lumbago کا شدید حملہ ہوا میں نے اسے فوری طور پر گھر پہنچانے کا انتظام کیا جہاں اگلے ہی روز وہ چل بسا۔ چند روز بعد دوسری ڈائریکٹرس بھی جس نے اس گفتگو میں حصہ لیا تھا بیمار ہوئی اور اس مقدس کتاب کی توہین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچ سکی اور ہسپتال میں اس جہان سے رخصت ہوگئی۔ ان واقعات نے میری طبیعت پر گہرا اثر کیا۔ لیکن ابھی خدا تعالیٰ نے اس مقدس کتاب کی صداقت کو میرے قلب پر اور منقوش کرنا تھا۔

خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان واقعات کے بعد اس دفتر کا ٹائپسٹ جس نے اس توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفتگو میں حصہ لیا تھا جنوبی امریکہ گیا۔ تین ہفتہ کے اندر اندر ہی مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی خدائی عذاب کا شکار ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے۔ ایک اور سیکرٹری جس نے اس توہین میں کبھی حصہ نہ لیا تھا صحیح و سلامت رہی۔

ان واقعات نے میری دنیا یکسر بدل ڈالی۔ میری طبیعت پر قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کا سِکّہ بیٹھنا شروع ہوا اور اس کتاب کی عظمت کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ۔انہی واقعات نے میری توجہ اسلام کی طرف مبذول کی۔ میں نے ان واقعات کا اس لیے بھی ذکر کر دیا ہے تاکہ یہ مخالفین کے لیے حُجّت کا باعث ہو سکیں۔
میں اپنے مولا کریم کا شکر یہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس کام کے کر نے کی سعادت عطا فرمائی۔ میں نے ترجمہ کے دوران اس مقدس کتاب سے جو روحانی شیرینی اور پُر کیف روحانی اثرات حاصل کیے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا۔ جو روشنی میں نے قرآن کریم سے حاصل کی وہ خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت اور رحیمیت کا نتیجہ ہے۔ خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ بالخصوص اپنی رحمت کا سلوک فرما یا۔ میں ترجمہ کے دوران قرآن کریم کی صداقت کی دل سے قائل ہو چکی تھی چنانچہ میں نے قرآن شریف سے لگاؤ اور تعلق کو بڑھانے کے لیے لنڈن مسجد میں گاہےگاہے جانا اور احمدیت کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ میرے ساتھ ہر دفعہ برادرانہ اخوّت اور محبت کا سلوک کیا گیا اور میری روحانی تشنگی دور کرنے کے سامان مہیّا کیے جاتے رہے۔ اس محبت اور اخوت بھرے سلوک نے مجھے احمدیت کے بہت ہی قریب کر دیا۔’’

کچھ عرصہ بعد مسز ناصرہ زمرمن صاحبہ اپنے وطن ہالینڈ میں آگئیں، جہاں حسنِ اتفاق سے انہیں پھر وہی روحانی ماحول میسر آگیا جو انہیں انگلستان میں حاصل تھا اور جس کی بدولت انہیں اسلام جیسی عظیم نعمت نصیب ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ تحریر کرتی ہیں:

‘‘ہالینڈ آنے پر تھوڑے عرصہ میں ہی مشن قائم ہو گیا۔ یہاں تینوں مبلغین نے میری تربیت کے لیے اخلاص اور محبت سے کام کیا، مجھے کتب مطالعہ کے لیے انہوں نے دیں۔ دیر تک اپنا قیمتی وقت مجھ پر صَرف کرتے رہے۔ ان کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے مجھے احمدیت جیسی نعمت ملی۔ میں ہمیشہ اپنے ان تینوں بھائیوں کی ممنون ہوں گی جن کے ہاتھوں میری نجات کے سامان ہوئے۔’’

(الفضل 16؍ستمبر 1948ء)

ڈچ ترجمہ قرآن کریم کی نظر ثانی

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا ارشاد تھا کہ قرآن کے تراجم نظرِ ثانی کے بعد شائع کرائے جائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے چار افراد نے اس ترجمہ کو آخر ی شکل دی۔ مسز ناصرہ زمرمن صاحبہ اور مسٹر عبد اللہ فن اونکA.van Onck صاحب نے ابتدائی کام 1945ء میں غیر مسلم ہونے کی حالت میں شروع کیا۔ بعد ازاں خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں احمدی ہوگئے ان کے علاوہ ایک اور خاتون مسز سپارن برخ صاحبہK. Sparenburg نے زبان کی تصحیح کا کام کیا، چوتھے ایک عالم اور قابل مصنف دوست تراسی سالہ مسٹردی یونگ K. H. E. de Jongنے نظرِ ثانی کر نے میں تعاون کیا۔ ترجمہ قرآن کی طباعت مکمل ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس پر ہالینڈ کے مشہور اخباروں نے خبریں اور تبصرے شائع کیے۔ ترجمہ کی پہلی نقل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں پیش کی گئی۔

(رپورٹ مشن ہالینڈ)

نظرِ ثانی کا کام مکمل ہوچکا تو اسے پریس میں دے دیا گیا اور ماہِ نومبر 1953ء میں چھپ کر تیار ہو گیا۔
یہ ترجمہ جو ہالینڈ ہی میں طبع ہوا چونکہ سابقہ ڈچ تراجم قرآن سے ظاہری اور معنوی دونوں اعتبار سے فوقیت رکھتا تھا اس لیے اسے بہت جلد قبولِ عام کی سند حاصل ہوگئی اور آج یہ ملک بھر میں بنظرِ استحسان دیکھا جاتا ہے۔

ڈچ ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن ربوہ سے شائع کیا گیا ہے۔ اس ترجمہ کی اشاعت نے ہالینڈ کے عوام و خواص کی آنکھیں کھول دیں اور ان کو نہ صرف یہ محسوس کرا دیا کہ اسلام آج بھی ایک زندہ اور قابلِ شکست طاقت ہے بلکہ انہیں جماعت احمدیہ کی اس ٹھوس اور شاندار اسلامی خدمت کا کُھلے بندوں اقرار کرنا پڑا۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button