اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کی تلقین
خطبہ جمعہ کے خلاصے کو کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ستمبر2019ءبمقام جلسہ گاہ، نن سپیت، ہالینڈ
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 27؍ستمبر 2019ء کو جلسہ گاہ، نن سپیت، ہالینڈمیں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت مکرم حماد عباسی صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد و تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا : آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہالینڈ کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے اور کئی سال بعد مجھے بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے کہ آپ کے جلسے میں شامل ہوں۔ گذشتہ چند سالوں میں ہالینڈ جماعت کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؛ 3/1 اضافہ تو یقیناً ہوا ہے۔ بہت سے لوگ پاکستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں، کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوئے ہیں۔ لٹریچر وغیرہ کی اشاعت بھی اب یہاں بہتر طریقے پر ہورہی ہے۔نئے سینٹر اور ایک مسجد بھی جماعت کو ملی ہے۔
حضورِ انور نے المیرے مسجد کے متعلق فرمایا کہ میں نے ابھی دیکھی تو نہیں لیکن خوب صورتی کی تعریف سنی ہے۔ ان شاء اللہ اگلے ہفتے اُس خوب صورت مسجد کا رسمی افتتاح بھی ہوگا۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ تعداد میں اضافہ،مشن یا سینٹرز بنانا،مساجد تعمیر کرنا اُسی وقت فائدہ دیتا ہے جب ان کے مقاصد کو پورا کیا جائے۔ پس یہاں رہنے والے ہر احمدی کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا مقاصد ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر پورے کرنے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان سے ہجرت کرکے آنےوالوں کو مخاطب کرکےحضورِ انور نے فرمایاکہ آپ کو یہاں مذہبی آزادی ہے ،معاشی لحاظ سے بھی اپنی حالتوں کو بہتربنانے کے مواقع حاصل ہیں۔ پس ہجرت کرنے والے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے ؛ اور حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے کا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی روحانی،علمی اور اخلاقی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اِن جلسوں کے انعقادکا اعلان بھی اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر فرمایاتھا،تاکہ ان جلسوں کی وجہ سے ہم میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں، ہم دین کو دنیا پر مقدّم کرنے والے بنیں، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرنے والے بنیں۔
حضورِ انور نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس پیش فرمایا جس میں آپؑ نے جلسے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے بیعت کرنے والوں کو نصائح فرمائیں ۔ بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو۔ اللہ تعالیٰ اور رسولِ مقبولﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے۔حضورِ انور نے فرمایا کہ بڑا واضح ارشاد ہے کہ میری بیعت میں آکر صرف زبانی دعوے تک نہ رہو بلکہ مخلصین میں شامل ہوجاؤ۔ اس لیےشرائطِ بیعت میں بھی آپؑ نے یہ شرط رکھی ہے کہ بیعت کرنے والا قال اللہ اور قال الرسول ؐکو ہر معاملے میں اپنا دستور العمل قرار دے گا۔ پس یہ جلسے اس لیے منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ بار بار ہمیں اس بات کی یاد دہانی ہوتی رہے کہ بیعت کا مقصد کیا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ دنیا کی محبت بالکل نکل جائے اور اللہ اور رسول کی محبت اس پر غالب آجائے۔ اس کے لیے بڑی جدوجہدکی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے کاروبار اور دنیاوی مصروفیات ، عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کےلیے قربان کرنے پڑیں گے۔ جو چیز ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی ہے اس سے بچنا ہوگا۔ ہماری انائیں، نام نہاد دنیاوی عزتیں اور شُہرتیں، ہماری خود غرضانہ سوچیں اگر حقوق العباد ادا کرنے سے روک رہی ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہے۔
حضورِ انور نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک ارشاد پیش فرمایا جس میں آپؑ نے سورۃ اٰلِ عمران آیت 32 میں بیان کردہ حکمِ الٰہی کے متعلق فرمایا ہے کہ خدا کے محبوب بننے کے واسطے رسول اللہﷺکی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی راہ نہیں۔حضورؑ فرماتے ہیں کہ اپنے اندر حالتِ انقطاع پیدا کرو یعنی ایسی حالت جو دنیا کے لہو و لعب اور چکاچوند سے علیحدہ کردے۔ دنیا کمانا اور دنیا کے کام اور کاروبار کرنا منع نہیں ہے، خدا تعالیٰ نے ہی ان کا حکم دیا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم بھی بڑے بڑے کاروباراورتجارتیں کرتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کی محبت اُن پر غالب تھی۔
حضورِ انور نے بدری صحابہ کی سیرت سے متعلق خطبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج کل مَیں خطبات میں صحابہ کا ذکر کرتا ہوں ، بہت سارے صحابہ کی مثالیں ملتی ہیں کہ انہیں یہ فکر ہوتی تھی کہ ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جو ہمارے محبوبؐ کو ہم سے ناراض کردے۔پس ہمارے ذہنوں میں بھی یہ بات رہنی چاہیے کہ تمام تر دنیاوی مصروفیات کے باوجود ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں کمی نہیں آنے دینی۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنےاور جلسے کے روحانی ماحول سے فیض اٹھانے کےلیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ یہی ہماری سوچ ہونی چاہیے کہ اپنی برائیوں کو دُور کریں،ذکرِ الٰہی اور استغفار کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری یہ سوچ نہیں تو ہمارا جلسے پر آنا فضول ہے۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان تین دنوں کو ٹریننگ کیمپ کے طور پرسمجھا جائے۔ حضرت مسیح موعودؑ جلسے کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اِس جلسے میں ایسے حقائق اور معارف کےسننے کا شغل رہے گا جو ایمان اور معرفت کو ترقی دینے کےلیے ضروری ہیں۔نیکی کومحض اس لیے کرنا چاہیے کہ خداتعالیٰ خوش ہواور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو ،قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ خداتعالیٰ کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ پس حقیقی نیکی وہی ہےجو بغیر کسی لالچ کےکی جائے۔ اللہ تعالیٰ ضرور نیکی کا بدلہ دیتا ہے ۔
اِن ترقی یافتہ ملکوں میں آکر،جہاں آزادی کے نام پر ہرقسم کی لغویات میں پڑنے کاماحول ہے ؛ہمیں اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بعض دفعہ کشائش نیکیوں کے کرنے میں روک بن جاتی ہے۔ حالات بہتر ہوتے ہیں تو آدمی اپنے ماضی کو بھول جاتا ہے۔ یہ بات عموماً دیکھنے میں آتی ہے کہ دنیا دار اس طرف تو توجہ دیتا ہے کہ کہیں مجھے نقصان نہ ہوجائےلیکن اللہ کے حق ادا نہیں کرتا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ بدقسمتی سے ہم میں سے بھی بعض لوگ نمازوں کو اپنےکاموں کےلیے قربان کردیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں اس حقیقت کے سمجھنے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبتِ ذاتی سے رنگین ہوکرکی جائے،یہ اصل چیز ہے۔ جب ذاتی محبت سے عبادت ہوگی تو دنیاوی غرضیں سب ختم ہوجائیں گی۔ پھر خدا ایسے ایسےذرائع سےرزق دے گا کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ حضورِ انور نے اس ضمن میں سورۃ الطلاق کی آیت 3 پیش فرمائی۔ نیز اس امر کی وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ارشاد سامنے رکھا جس میں آپؑ نے واضح طور پر تقویٰ کو خوش حالی کا اصول قرار دیا ہے۔ فرمایا: میرا تو اعتمادہے کہ اگر ایک آدمی باخدا اور سچا متقی ہوتو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا ہے۔خداتعالیٰ نے انسان کے سلسلہ پیدائش کی علّتِ غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ باتیں ہمیں غور اور فکر میں ڈالنے والی ہونی چاہئیں کہ ہماری سوچیں اور ہماری محنت صرف اس دنیا کو حاصل کرنے میں صَرف نہ ہوجائے بلکہ ہم اپنی زندگی کے اصل مقصد کو حاصل کرنے کےلیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئےکار لانے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مَیں اس لیے بھیجا گیاہوں تا ایمانوں کو قوی کروں اورخداتعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں۔ہرایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کم زور ہوگئی ہیں اور عالمِ آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ فرمایا یہود میں خدا کی محبت ٹھنڈی ہوگئی تھی تو مسیح آیا تھا۔ میرے زمانے میں بھی یہی حالت ہے سومَیں بھی بھیجا گیا ہوں کہ ایمان کا زمانہ پھر آئےاور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج ہمارافرض ہے کہ آپؑ کی بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے جہاں اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی محبت میں بڑھائیں وہیں اِس معاشرے کو بھی خداتعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کریں۔آج دنیا خداتعالیٰ کے وجود کی انکاری ہے اورہرسال کافی بڑی تعداد میں لوگ مذہب کو چھوڑتے چلے جارہے ہیں۔ پس ہمارا اتنا ہی کام نہیں کہ اپنے اندر خدا اور اس کے رسولﷺ کی محبت پیدا کریں بلکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کےدلوں میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول کی محبت پیدا کرنےکےلیے بھی ہمیں بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ دنیا کو بھی خداتعالیٰ کے وجود کی حقیقت سےآگاہ کرنا ہوگا۔
حضورِ انور نے دعا کی کہ جلسے کے یہ دن ہم اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بڑھانے اور اِن پر مستقل رہنے کےلیے صرف کرنےوالے ،اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانےو الے ہوں۔ دنیا کی لذات اورخواہشات کبھی ہم پر حاوی نہ ہوں۔ آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اُس کے فضلوں کو جذب کرنے کےلیے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭