حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 29)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

کہنے کو سب لوگ تحمل والے بن جا تے ہیں لیکن عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کی حقیقت کھلتی ہے اور اس کے دعاوی کے صدق اور کذب کا حال معلوم ہو تا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جو عد ل وانصاف کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے ہیں جو تحمل مزاج مشہورہیں اور جن کے تحمل اور بردباری کے افسانوں سے تاریخوںکے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مذہبی عزت کے لحاظ سے بھی اپنے زمانہ کے لوگوں میں ممتاز تھے۔اور جو بعد میں بھی اپنے ہم مذہبوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیے گئے ہیں ۔ایسے بادشاہ بھی گذرے ہیں جو بادشاہت کے علاوہ مذاہب کے بانی اور پیشوا بھی ہو ئے ہیں اور خاص سلسلوں کے جا ری کر نے والے ہیں جن کے مرنے کے سا تھ ان کی بادشاہت کا تو خاتمہ ہو گیا لیکن ان کی رو حانی بادشاہت مدت ہا ئے درازتک قائم رہی بلکہ اب تک بھی مختلف حکومتوں کے ما تحت رہنے والے لوگ در حقیقت اپنے دل اور اپنی رو ح کے لحاظ سے انہیں کے ماتحت ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بے نظیر خیال کیے جا تے ہیں جو اخلاق میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ خیال کیے جاتے ہیں مگر کوئی ہے جو تمام دنیا کی تاریخوں کی ورق گردانی کرنے کے بعد، تمام اقوام کے بادشاہوں اورپیشواؤں کے حالات کی چھان بین کر نے کے بعد ان اخلاق کا انسان دکھا سکے اور اس تحمل کی نظیر کسی اَور انسان میں بتا سکے جو آنحضرت ﷺ نے دکھا یا ۔میں یہ نہیں کہتا کہ آنحضرت ؐ کے سوا کو ئی شخص تحمل کی صفت سے متصف ہوا ہی نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس درجہ تک تحمل کا اظہار کرنے والا جس درجہ تک آپؐ نے ظا ہر فر ما یا کو ئی انسان نہیں ہوا او رنہ آئندہ ہو گا کیونکہ آپؐ کمال کی اس سرحد تک پہنچ گئے ہیں کہ اس کے بعد کو ئی تر قی نہیں۔

ممکن ہے کہ کو ئی صاحب کہیں کہ آپ بادشاہوں اور حاکموں کی کیوں شرط لگا تے ہیں اس مقابلہ کے میدان کو اَوربھی کیوں وسیع نہیں کر دیتے کہ دنیا کے کل افراد کےتحمل کو سامنے رکھ کر مقابلہ کر لیا جا ئے کہ آیا کو ئی ا نسان اس صفت میں آپؐ کی برابری کر سکتا ہے یا نہیں۔مگر میں کہتا ہوں کہ تحمل اسی انسان کا قابل قدر ہے جسے طا قت اور قدرت ہو جو شخص خود دوسروں کا محتاج ہو دوسروں سے خائف ہو اپنے دشمنوں کےخوف سے چھپتا پھر تا ہو اسے دنیا میں سر چھپا نے کی جگہ نہ ملتی ہو اس کا تحمل بھی کو ئی تحمل ہے اس کی زبان تو اس پر ظلم کرنےوالوںنے بند کر دی ہے اور اس میں یہ طا قت ہی نہیں کہ ان کے حملوں کا جواب دے سکے پس جو حاکم نہیں یا بادشاہ نہیں یا دنیاوی لحاظ سے کو ئی خاص عزت نہیں رکھتا اس کا تحمل کو ئی تحمل نہیں بلکہ بہت دفعہ ایک مغلوب الغضب انسان بھی اپنے ایذا دہندوں کے خوف سے اپنے غضب کو دبا لیتا ہے۔اور گودل ہی دل میں جلتا اور کڑھتا ہے اور جی ہی جی میں گالیاں دیتا اور کوستا ہے لیکن اظہارِ غضب کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ جا نتا ہے کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں اَور بھی مضر ہو گا پس آنحضرتؐ کے مقابلہ میں اس شخص کے تحمل کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جو آپؐ ہی کی طرح بااختیار اور طاقت رکھتا ہو اور پھر آپؐ ہی کی طرح تحمل دکھانے والا ہو ورنہ مثل مشہور ہے کہ زبردست مارے اور رونے نہ دے۔ ایسا زبردست جو کسی زبردست کے پنجہ ستم میں گرفتار ہو اس نے قابل عتاب گفتگو سن کر یا زبردست سلوک دیکھ کر اظہار ناراضگی کر نا ہی کیا ہے؟ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ طریق تو انصاف پر مبنی تھا۔اور عقلاً،اخلاقاً ہمارا حق تھا کہ ہم مذکورہ بالا شرط سے مشروط مقابلہ کا مطالبہ کریں لیکن اگر کو ئی شخص دنیا کے تمام انسانوں میں بھی آپؐ جیسے باکمال انسان کو پیش کر سکے تو ہم اس کے معاملہ پر غور کر نے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ بے حیا ئی کا نام تحمل نہ رکھ لیا جاوے۔

اب ایک سوال اَور با قی رہ جا تا ہے۔اور وہ یہ کہ بعض لوگ پیدا ئشی ایسے ہو تے ہیں کہ ان کو غصہ آتا ہی نہیں بلکہ جو معاملہ بھی ان سے کیا جا ئے وہ تحمل ہی تحمل کر تے ہیں اور غضب کا اظہار کبھی نہیں کر تے۔اور اس کی یہ وجہ نہیں ہو تی کہ وہ اپنے جو ش کو دبا لیتے ہیں یا تحمل سے کام لیتے ہیں بلکہ درحقیقت ان کے دل میں جوش پیدا ہی نہیں ہو تا۔اور انہیں کسی بات کی حقیقت کے سمجھنے کا احساس ہی نہیں ہو تا اور یہ لوگ ہر گز کسی تعریف کے مستحق نہیں ہوتے۔کیونکہ ان کاتحمل صرف ظاہری ہے۔اس میںحقیقت کچھ نہیں ایک شکل ہے جس کی اصلیت کو ئی نہیں۔ایک جسم ہے جس میں روح کو ئی نہیں۔ایک قشر ہے جس میںمغز کو ئی نہیں۔اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی ٹنڈے شخص کو کو ئی دوسرا شخص مارے۔اور چونکہ اس کے ہا تھ نہیں ہیں وہ مار کھا کر صبر کر چھوڑے۔اور جس طرح یہ ٹنڈاقطعاً اس تعریف کا مستحق نہیںہے کہ اسے تو زید یا بکرنے مارا مگر اس نے آگے سے ایک طمانچہ بھی نہ لگا یا کیونکہ اس میں طمانچہ لگا نے کی طا قت ہی نہ تھی۔کیونکہ اس کے ہا تھ نہ تھے۔اس لیے مجبور تھا کہ مار کھا تا اور اپنی حالت پر افسوس کر تا۔اسی طرح وہ شخص بھی ہر گز کسی تعریف کا مستحق نہیں۔جس کے دل میں جو ش اور حس ہی نہیں۔اور وہ بری بھلی بات میںتمیز ہی نہیں کر سکتا۔کیونکہ اس کا تحمل خوبی نہیں بلکہ اس کا باعث فقدان شعور ہے۔پس ایک معترض کا حق ہے کہ وہ یہ سوال کرے کہ کیوں آنحضرتﷺ کو بھی ایسا ہی نہ خیال کر لیا جا ئے۔خصوصاً جبکہ اس قدرطاقت اور قدرت اور ایسے ایسے جوش دلا نے والے مواقع پیدا ہو جانے کے باوجود آپؐ اس طرح ہنس کر با ت ٹال دیتے تھےاور کیوں نہ خیال کر لیا جا ئے کہ آپؐ بھی پیدا ئشاً ایسے ہی نرم مزاج پیدا ہو ئے تھے۔اور فطرتاً آپؐ مجبور تھے کہ ایسے ایذا دہندوں کے اعمال پر ہنس کر ہی خاموش ہو رہتے کیونکہ آپؐ کےاندر انتقام کا مادہ اور بری اور بھلی بات میں تمیز کی صفت موجود ہی نہ تھی۔(نعوذباللہ من ذالک)
یہ سوال بالکل درست اور بجا ہے۔اور ایک محقق کا حق ہے کہ وہ ہم سے اس کی وجہ دریافت کرے کہ کیوں ہم آپؐ کو ایک خاص گروہ میںشامل کر تے ہیں اور دوسرے سے نکالتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا بھی جواب دیں کیونکہ اس سوال کا جواب دیے بغیر آنحضرت ﷺ کی سیرت کا ایک پہلو نا مکمل رہ جا تا ہے۔اور آپؐ جیسے مکمل انسان کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں جو نا مکمل ہو پس اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گوا ہی پیش کرتے ہیں جو آپؐ کی ازواجِ مطہرات سے تھیں۔اور آپؐ کے اخلاق کی کماحقہ واقف تھیں۔صحیح بخاری میں آپؓ سے روایت ہے کہ مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ اَمْرَیْنَ اِلَّا اَخَذا اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا، فَاِنْ کَانَ اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہٖ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ، فَیَنْتَقِمُ للّٰہِ بِھَا۔(بخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبیﷺ)یعنی آنحضرت ﷺ کو جب کبھی دو باتوں میںاختیار دیا جا تا تھا تو آپؐ دونوں میں سے آسان کو اختیار کر لیتے تھے جب تک کہ گناہ نہ ہو۔اور جب کو ئی گناہ کا کام ہو تا تو آپؐ اس سےسب لوگوں سے زیا دہ دور بھاگتے ۔اور آپؐ کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیتے تھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمتوں میں سے کسی کی بے حرمتی کی جا تی تھی تو آپؐ خدا کے لیے اس بے حرمتی کا بدلہ لیتے تھے۔

اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو کاموں کا اختیار دیا جا تا کہ آپؐ جو چاہیں کریں تو آپؐ ان دونوں میں سے آسان کو اختیار کرتے (کیونکہ بندہ کا یہی حق ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ زائد بو جھوں سے بچا ئے تا ایسا نہ ہو کہ اپنے آپ کو کسی مصیبت میں گرفتار کر دے)لیکن اگر کبھی آپؐ دیکھتے کہ ایک آسان بات کو اختیار کرکے کسی وجہ سے کسی گناہ کا قرب ہو جا ئے گا۔تو پھر آپؐ کبھی اس آسان کو اختیار نہ کر تے بلکہ مشکل سے مشکل امر کو اختیار کر لیتے مگر اس آسان کے قریب نہ جا تے (اور یہی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا کام ہے کہ وہ گناہ سے بہت دور بھاگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر نے میں کسی سختی یا کسی مشکل کےبرداشت کر نے سے نہیں گھبراتے) پھر فر ما تی ہیں کہ آپؐ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپؐ اپنے نفس کےلیے کبھی انتقام نہ لیتے یعنی خلافِ منشا امور کو دیکھ کر جب تک وہ خاص آپؐ کی ذات کےمتعلق ہو تے تحمل سے ہی کام لیتے۔خفگی،ناراضگی یاغضب کااظہار نہ فرماتے نہ سزا دینے کی طرف متوجہ ہو جا تے۔ہاں جب آپؐ کی ذات کے متعلق کو ئی امر نہ ہو بلکہ اس کااثر دین پر پڑتا ہو اور کسی دینی مسئلہ کی ہتک ہو تی ہو اور اللہ تعالیٰ کی شان پر کوئی دھبہ لگتا ہو۔تو آپؐ اس وقت تک صبر نہ کرتے ۔ جب تک اس کا انتقام لے کر اللہ تعالیٰ کےجلال کو ظاہر نہ فرمالیتے اور شریر انسان کو جو ہتک ِحرمۃ اللہ کا مرتکب ہواہو سزا نہ دے لیتے۔

اس واقعہ سے صاف ظا ہر ہو جا تا ہے کہ آپؐ کا تحمل اس درجہ تک پہنچاہوا تھا کہ آپؐ کبھی بھی اپنے نفس کے لیے جوش کا اظہار نہ فر ما تے بلکہ تحمل اور بردبا ری سے ہی ہمیشہ کا م لیتے۔لیکن یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ یہ بات قطعاً درست نہیں کہ آپؐ میں جوش وانتقام کی صفت پا ئی ہی نہ جا تی تھی اور آپؐ پیدا ئش سے ہی ایسے نرم مزاج واقع ہو ئےتھے کہ غضب آپؐ میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا بلکہ جب اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمتوں کی ہتک اور بے حرمتی کا سوال پیدا ہو تا تو آپؐ ضرور انتقام لیتے تھے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کا تحمل کسی پیدائشی کمزوری یا نقص کا نتیجہ نہ تھا بلکہ آپؐ اپنے اخلاق کی وجہ سے اپنے نفس کے قصور واروں سے چشم پو شی کر جا تے تھے۔اور اظہار ناراضگی سے اجتناب کرتے تھے۔اور جو کچھ کہنا بھی ہو تا تھا تو نہایت آہستگی اور نرمی سے کہتے تھے اور ایسا جواب دیتے تھے جس میں بجا ئے ناراضگی اور غضب کے اظہار کے اس شخص کے لیےکو ئی مفید سبق ہو جس سے وہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنے چال چلن کی اصلاح کر سکے۔اور یہی تحمّل کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت بلا دلیل نہیں ہے بلکہ واقعات بھی اس کی شہادت دیتےہیںچنانچہ بخا ری کی ایک حدیث سے ظاہر ہے جسے مفصّل ہم پہلے کسی اَور جگہ لکھ آئے ہیں کہ جنگِ احد میں جب عام طور پر یہ خبر مشہور ہو گئی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے ہیں اور کفار مکہ علی الاعلان اپنی اس کامیابی پر فخر کر نےلگے اور ان کے سردار نے بڑے زور سے پکار کرکہا کہ کیا تم میں محمد (ﷺ) ہے جس سے اس کی مرادیہ بتا نا تھا کہ ہم آپؐ کومار چکے ہیں اور آپؐ دنیا سے رحلت فر ما گئے ہیں مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب کو فر مایا کوئی جواب نہ دیں۔اور اس طرح اس کاجھوٹا فخر پورا ہونے دیا۔اور یہ نہیں کہا کہ غضب میں آکر اسے کہتے کہ میں تو زندہ موجود ہوں یہ بات کہ تم نےمجھے قتل کر دیا ہے بالکل جھوٹ اور باطل ہے اور اس میں کو ئی صداقت نہیں۔ہاں جب ابو سفیان نے یہ کہا کہ اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ ۔ھُبل بت کی شا ن بلند ہو۔ھُبل بت کی شان بلند ہو تو اس وقت آپؐ خاموش نہ رہ سکے اور صحا بہ ؓکو فرمایا کہ کیوں جواب نہیں دیتے۔انہوں نے عرض کیا یارسولؐ اللہ !کیا جواب دیں؟فر ما یا اسے کہو کہ اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ !اللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجْلُّ یعنی تمہارے ھُبل میں کیا طاقت ہے وہ تو ایک بناوٹی چیز ہے اللہ ہی ہے جو سب چیزوں سے بلند رتبہ اور عظیم القدر ہے۔اور پھر جب اس نے کہا کہ لَنَاعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ تو آپؐ نے پھر صحابہ ؓسے فر ما یا کہ جواب دو۔انہوں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ !کیا جواب دیں؟ تو آپ نے فر ما یا کہ کہو لَنَا مَوْلٰی وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ خدا تعالیٰ ہمارا دوست و مددگار ہے۔اور تمہارا مدد گار کو ئی نہیں۔یعنی عزیٰ میں کچھ طا قت نہیں طاقت تو اللہ تعالیٰ میں ہےاور وہ ہمارے سا تھ ہے۔پس اس واقعہ سے صاف کھل جا تا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺکے اخلاق کے متعلق جو گواہی دی ہے وہ صرف ان کا خیال ہی نہیں بلکہ واقعات بھی اس کی تصدیق کر تے ہیں اور تاریخی ثبوت اس کی سچا ئی کی شہادت دیتے ہیں۔اور آنحضرت ﷺ کی زندگی پر غور کرنے سے ایک موٹی سے موٹی عقل کا انسان بھی اس نتیجہ پر پہنچ جا تا ہے کہ آپؓ کا تحمل کسی صفتِ حسنہ کے فقدان کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کا با عث آپؐ کے وہ اعلیٰ اخلاق تھے جن کی نظیر دنیا میں کسی زمانہ کے لوگوںمیں بھی نہیں ملتی۔اور یہ کہ گو یا تحمل اپنے کمال کے درجہ کو پہنچا ہو ا تھا۔لیکن اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ حرمات کا سوال جب درمیان میں آجاتا ہے تو اس وقت آنحضرت ﷺ ہر گز درگذر سے کا م نہ لیتے۔بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو تا مناسب تدارک فرمادیتے اور اللہ تعالیٰ کے جلال کے قائم کرنے میں ہر گز دیر نہ فر ما تے۔پس آپؐ کا تحمل ایک طرف تو بے نظیر تھا اور دوسری طرف بالارادہ تھا اور پھر آپؐ کی اس صفت کا اظہار کبھی بے موقعہ نہیں ہو تا تھا جیسا کہ آج کل کے زمانہ کا حال ہے کہ اپنے نفس کے معاملہ میں تو لوگ ذرا ذرا سی بات میں جو ش میں آجاتے ہیں۔لیکن جب خدا اور اس کے دین کا معاملہ آتاہے تو صبر و تحمل کی تعلیم و تلقین کرتے ہو ئے ان کے ہو نٹ خشک ہو ئے جا تے ہیں۔اور وہ نہیں جانتے کہ تحمل صرف ذاتی تکلیف اور دکھ کے وقت ہو تا ہے ورنہ دین کے معاملہ میں بناوٹی صلح اور جھوٹا ملاپ ایک بے غیرتی ہے اور کمی ایمان اور حرص دنیا وی کا ثبوت ہے۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button