ہر سمت ہی وہ بانٹتا جاتا ہے اجالے
اس نظم کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
یورپ کے جو پچھم میں یہ پونم کا سماں ہے
آیا مہِ کامل کوئی مہمان یہاں ہے
ہر سمت ہی وہ بانٹتا جاتا ہے اجالے
گفتار میں، کردار میں وہ نورفشاں ہے
پہنچائے گا پیغام جہاں بھر میں وہ اس کا
وہ وارثِ میراثِ مسیحائے زماں ہے
جس جس چمنستاں میں قدم اس نے دھرا ہے
وہ خوب پھلا پھولا بہاروں سے بھرا ہے
جس دھرتی پہ یہ ابرِ کرم برسا ہے جا کر
جتنے بھی وہاں پیڑ تھے ہر ایک ہرا ہے
اک آن میں وہ پانسہ پلٹ دیتا ہے اس کا
کل کہتے تھے کھوٹا جسے وہ آج کھرا ہے
انمول جواہر بھری تقریر ہے اس کی
جو دل میں اتر جائے وہ تاثیر ہے اس کی
ہر لفظ میں مستور ہیں حکمت کے خزانے
نایاب معارف لیے تحریر ہے اس کی
وہ پیکرِ صد حسن و وفا دل ہے ہمارا
یہ جان ہماری بھی تو جاگیر ہے اس کی
چاہے وہ سفر میں کہ حضر میں ہو جہاں میں
ہر گام خداوند کی ہو حفظ و اماں میں
ہو سایہ فگن سر پہ سدا رحمتِ رحماں
ہر شہر میں، دیہات میں، کوچہ میں، مکاں میں
یہ چشمۂ فیضان رہے جاری و ساری
عرفان کی امواج ہیں اس آبِ رواں میں