احمدی خواتین کے لیے دین و دنیا میں عزّت پانے کا طریق
اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں گی تو دین و دنیا میں عزّت پائیں گی
جلسہ سالانہ فرانس کے اجلاس مستورات سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب
تعلیمی میدانوں میں اعزاز پانے والی طالبات میں اعزازات کی تقسیم
(تغی شاتو فرانس، 05؍ اکتوبر2019ء نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) جیسا کہ جلسہ سالانہ کی روایات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جلسے کے دوسرے روز صبح جلسہ گاہ مستورات میں اجلاس مستورات ہوتا ہے جس میں خواتین کی تقاریر ہوتی ہیں۔ اس کی آواز زنانہ جلسہ گاہ میں ہی سنی جا سکتی ہے۔ آج صبح اجلاس مستورات کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم مع ترجمہ کے بعد نظم مع ترجمہ کے ساتھ ہوا۔ بعد ازاں ’نماز اصلاح نفس کا ذریعہ ہے‘(اردو)، ‘خلافت، امن کا حصار‘ (فرنچ) اور’مغربی ماحول میں تربیت اولاد کے ذرائع‘ (اردو) کے موضوعات پر تقاریر ہوئیں۔
حضورِ انور کی جلسہ گاہ مستورات میں تشریف آوری
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستورات سے خطاب کے لیے جلسہ گاہ مستورات میں مقامی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے کے قریب رونق افروز ہوئے اور اجلاس کی کارروائی کا آغاز فرمایا۔ اس موقع پر حضرت سیّدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبھی حضورِ انور کی معیت میں اسٹیج پر تشریف رکھتی تھیں۔
کارروائی اجلاس مستورات: حضورِ انور کے ارشاد پر انعم کاہلوں صاحبہ نے سورۃ الحدید کی آیات 21 اور 22 کی تلاوت اور ان آیات کا اردو ترجمہ ھاجرہ ھادی صاحبہ نے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ جبکہ امۃ البصیر منصور صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم ؎ اِک نہ اِک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے پڑھنے کی سعادت پائی۔ (الفضل 13؍ جنوری 1928ء کے پرچے میں پہلی مرتبہ شائع ہونے والی یہ نظم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک صاحب شیخ محمد بخش رئیس کڑیانوالہ ضلع گجرات کو لکھ کر عطا فرمائی تھی جبکہ وہ سخت مالی مشکلات میں مبتلا تھے۔خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کے طفیل ان کی تکالیف دور کردیں۔)
تقسیم ایوارڈز: بعد ازاں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر نیشنل سیکرٹری صاحبہ امورِ طالبات نے تعلیمی میدان میں اعزاز حاصل کرنے والی طالبات کے نام پکارے۔ حضور پُر نُور ایّدہ اللہ نے درج ذیل طالبات کو اسناد و انعامات عطا فرمائے۔
مکرمہ مہ جبین اظہر بنت مکرم محمد اظہر صاحب، مکرمہ اقراء خلیل بنت مکرم خلیل احمد صاحب، مکرمہ فائرہ کنول داؤد اہلیہ مکرم بلال احمد صاحب، مکرمہ قمر ضیاء بنت مکرم ضیاء چیمہ صاحب، مکرمہ درّ ثمین طوبیٰ وسیم بنت مکرم وسیم احمد صاحب، مکرمہ طوبی طاہر بنت مکرم چوہدری طاہر صاحب، مکرمہ اینس غزیق (Inès Rezig) بنت مکرم جلالی غزیق (Djilali Rezig)صاحب، مکرمہ آمنہ شیجی (Amina Chettih) بنت مکرم شیجی (Chettih) صاحب، مکرمہ ایمان ہادی وی (Imane Haddioui) بنت مکرم سعید ہادی(Said Haddioui) صاحب، مکرمہ نقص الضاہرہ (Nughz Tul Zahra) اہلیہ مکرم حسنین شاہ صاحب، مکرمہ زنوبیہ عامر اہلیہ مکرم بلال ملک صاحب، مکرمہ اینس جگوری (Inès Doobory) بنت مکرم اسلم جگوری (Aslam Doboory) صاحب، مکرمہ فوزیہ چوہدری بنت مکرم اسماعیل چوہدری صاحب، مکرمہ آصفہ خان بنت مکرم ناصر خان صاحب، مکرمہ سعدیہ ظفر بنت مکرم ظفر اللہ ناصر صاحب، مکرمہ عطیہ کوثر اہلیہ مکرم ضیاء چیمہ صاحب، مکرمہ رضوانہ اعجاز اہلیہ مکرم شوکت شکیل صاحب، مکرمہ مبشرہ صدف اہلیہ مکرم احمد سعید صاحب، مکرمہ شفیقہ اشتیاق بنت مکرم اشتیاق احمد صاحب، مکرمہ اذکیٰ غلام بنت مکرم غلام قادرصاحب، مکرمہ قدسیہ عالم اہلیہ مکرم ابدال ربانی صاحب، مکرمہ اسماء نصیر کاہلوں بنت مکرم ناصر احمد کاہلوں صاحب، مکرمہ بشریٰ سلام اہلیہ مکرم راحیل احمد صاحب، مکرمہ ثنا سہیل اہلیہ مکرم شکیل احمد صاحب، مکرمہ مریم ناصر بنت مکرم ناصر احمد صاحب، مکرمہ ھبتہ النور مریم، مکرمہ محوش حفیط بنت مکرم ملک حفیظ صاحب، مکرمہ مہجبین حفیظ بنت مکرم ملک حفیظ صاحب، مکرمہ دُریا ملک (Duriah Malik) بنت مکرم ملک مبارک صاحب، مکرمہ باسمہ چوہدری بنت مکرم حمید چوہدری صاحب، مکرمہ نداء نصیر کاہلوں بنت مکرم ناصر احمد کاہلوں صاحب، مکرمہ کرینا محمود حسین بنت مکرم محمود محمد حسین صاحب، مکرمہ جویریۃ خان بنت مکرم صغیر احمد خان صاحب، مکرمہ میمونہ خان بنت مکرم صغیر احمد خان صاحب، مکرمہ ڈاکٹر مدیہہ چوہدری بنت مکرم عبد الحمید چوہدری صاحب، مکرمہ ڈاکٹر صنوبر خان بنت مکرم ناصر احمد خان صاحب، مکرمہ رابعہ بنت اویس بنت مکرم اویس بنت سعد صاحب (بیلجیم)، مکرمہ نادیہ انجم بنت مکرم نوید انجم صاحب (بیلجیم) اورمکرمہ نداء ناصر بنت مکرم ناصر نصیر صاحب
اعزازات کی تقسیم کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز ایک بج کر 02 منٹ پر خطاب فرمانے کے لیے سٹیج پر تشریف لائے۔
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں نے کل خطبے میں بھی ذکر کیا تھا کہ آج کل دنیا بڑی تیزی سے اپنے خدا سے دور جا رہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی انکاری ہے۔ اور اس ماحول میں رہتے ہوئے جہاں دنیا کے سامانوں کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے ہمارے میں سے بھی بعض اس ماحول کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ اس میں بڑے بھی شامل ہیں اور بچے بھی اور نو جوان بھی۔ ایسے حالات میں ہماری بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اپنی حالتوں پر توجہ رکھیں، اپنے آپ کو بھی اس ماحول کے اثر سے بچائیں۔اور اپنے بچوں کو بھی اس ماحول کے اثر سے بچائیں۔ اور خود اپنے آپ کو اس کوشش سے خدا تعالیٰ کے قریب تر کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے بچوں کو بھی خدا تعالیٰ کے قریب تر لانے کی کوشش کریں۔ اپنے آپ کو بھی دنیا کی غلاظتوں سے بچائیں۔ اور اپنی اولادوں کو بھی دنیا کی غلاظتوں سے بچائیں۔ بچوں کے سامنے اپنے ایسے نمونے قائم کریں کہ بچے بڑوں کے نمونوں پر چل کر ان راہوں پر چلیں جو دین کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی راہیں ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان اور یقین پیدا کرنے والی راہیں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا پیار سمیٹ کر دنیا و آخرت سنوارنے والی راہیں ہیں۔ جہاں یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور بہت محتاط ہو کر اس مادی دنیا کی چمک دمک میں زندگی بسر کریں وہاں یہ عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری اللہ اوراس کے رسول نے عورتوں پر ڈالی ہے۔ اگر ہماری عورتیں خدا سے پیار کرنے والی ہیں، اگر خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والی ہیں تو ان کو اپنی نسلوں کو سنبھالنے کے لیے اس ماحول میں بڑی محبت کرنے کی ضرورت ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:وقفِ نَو میں بہت سی مائیں اپنے بچے پیش کر دیتی ہیں تو پھر ان کی تربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر ہر بچے کی تربیت کی طرف توجہ نہیں اور واقف نو اور غیرواقف نو ہر بچے پر نظر نہیں تو کسی ایک کی تربیت پر اثر پڑے گا۔ یا واقف نو کی تربیت صحیح نہیں ہو گی یا غیر واقف نو کی تربیت صحیح نہیں ہو گی۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف واقفِ نو کا خیال رکھنا ہے۔ یا صرف لڑکوں کا خیال رکھنا ہے یا صرف لڑکیوں کی روک ٹوک کرنی ہے۔ بعض مائیں لڑکوں کی طرف توجہ زیادہ دیتی ہیں۔ یا بعض مائیں ایسی ہیں جو لڑکوں کو لاڈ میں رکھتی ہیں اور لڑکیوں کی روک ٹوک کرتی ہیں۔ ہر صورت میں تربیت میں اگر کوئی امتیاز رکھا جا رہا ہے تو کوئی نہ کوئی بچہ پھر بگڑ جاتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس ماحول میں تربیت بڑا حسّاس معاملہ ہے اس لیے بہت سوچ سمجھ کر تربیت کا ہر قدم اٹھانا ہو گا۔ مرد اگر اپنی ذمہ داری صحیح طرح نہیں سنبھال رہے اور ان کے عمل بچوں پر، خاص طور پر لڑکوں پر،غلط اثر ڈال رہے ہیں تو ان مردوں کو بھی سمجھائیں۔ اپنے خاوندوں کی طرف بھی توجہ کریں۔ عورت کو گھر کی نگران بننے کا ایک اعلیٰ نمونہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے صحابہ تمہارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ اور مرد بھی اسوہ حسنہ ہیں۔ اور عورتیں بھی۔ یہ نہیں کہ صرف مرد ہی اسوہ حسنہ ہیں بلکہ عورتیں بھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت میں آنے کا اعزاز پایا انہوں نے بھی اپنے نمونے قائم فرمائے۔ وہ بھی پاک نمونہ بنیں۔ صحابیات بھی ایسی تھیں جنہوں نے اپنی عبادتوں کے قابل تقلید نمونے قائم کیے۔ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے راتیں عبادت میں گزاریں اور دن کو روزے رکھے۔ اور پھر اپنے خاوندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ان کی شکایت کرنی پڑی۔ کہ میری بیوی وہ ہے جو عبادت میں مشغول رہتی ہے ساری رات۔ اور اپنی ذمہ داریاں اور حقوق نہیں ادا کرتی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو عورتوں کو سمجھانا پڑا کہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔ نہ ہی یہ کہ مستقل اتنا عبادتوں میں اتنا مشغول ہو جاؤ کہ گھر کی ذمہ داریاں نہ نبھا سکو۔ نہ یہ کہ دنیا کی طرف ہی اتنی رغبت ہو جائے کہ دین کا پتہ ہی کچھ نہ ہو۔ آپ نے فرمایا کہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔پس اگر شکایت ہوئی تو اس بات پر کہ ہماری عورتیں عبادت میں ہر وقت مصروف رہتی ہیں۔ وہ ماحول ایسا تھا جس نے ان لوگوں کی ایک کایہ پلٹ دی تھی۔ عورتوں کو بھی اگر شکوہ مردوں سے ہوا تو یہ کہ وہ سارا دن روزے میں رہتے ہیں اور راتوں کو عبادت کرتے ہیں۔
مندجہ بالا باتوں کے حوالے سے حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کے زمانہ کا ایک واقعہ سنایا اورتلقین فرمائی کہ اپنے خاوندوں کے لیے اپنے آپ کو سنوارنا چاہیے اورباہر پردہ کرنا چاہیے۔ بعد ازاں حضور انور نے اپنی عبادتوں، اخلاق اور اپنے نمونے قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
حضور انور نے فرمایا: ایک احمدی عورت جس نے زمانہ کے امام کو اس لیے مانا ہے کہ اس وقت زمانے میں جو فتنہ و فساد کی حالت ہے میں نے اس سے بچ کر رہنا ہے۔ تو پھر عابدہ بننا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننا ہو گا۔ اس کی بندگی کا حق ادا کرنے والا بننا ہو گا۔ اور جب عابدہ بنے گیں، عبادت گزار بنیں گی تو تب ہی باقی نیکیاں کرنے کی توفیق ملے گی، تب ہی اس بات کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی کہ میں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کامل فرمانبردار بننا ہے تب ہی قانتات میں شمار ہو گا۔
حضور انور ایّدہ اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کے حوالے سے فرمایا کہ عورت گھر کی نگران ہے اور اولاد کی تربیت کی ذمہ داری سب سے زیادہ عورت پر ڈالی گئی ہے۔ اور آپ اس کام کو کرنے کے لیے دعاؤں کا سہارا لیں کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں اولادیں دین پر قائم رہتی ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ماؤں کی تربیت کے ساتھ ساتھ باپوں کو بھی نگرانی کرنی چاہیے۔ اور باپوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اور باپ اپنے بچوں کو اپنے اعتماد میں لائیں اور دوستانہ تعلق قائم کریں تاکہ وہ بھی بچوں کو دین کے ساتھ جوڑ سکیں۔
حضور انور نے ماؤں کو تلقین کی کہ معاشرے کی برائیوں سے بچنے کے لیے مائیں بھی اپنی معلومات میں اضافہ کریں اور اگر بچے ایسے سوالات کریں جو بے ہودہ ہیں تو انہیں جواب دیں اور ان کو سمجھائیں اور ان کے سوالات کے جوابات دیں اور ان میں ان برائیوں سے بے رغبتی پیدا کریں۔ اور اپنی نسلوں کے اندر ایمان کی رغبت پیدا کریں۔
حضور انور نے ماؤں کو بھی تقویٰ اختیار کرنے اور صالحات بننے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اگر وہ ایسی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ اُن کو مال بھی ایسے ذرائع سے مہیا کرے گا جس کا اُن کو گمان ہی نہیں ہو گا۔ حضور انور نے قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک اقتباس سے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ پاک لوگوں کو غیب سے مال عطا فرماتا ہے۔ حضور انور نے باپوں کو بھی ناجائز ذرائع سے مال کمانے سے منع فرمایا اور عورتوں کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے خاوندوں کو روکیں اور خود بھی قناعت اختیار کریں۔
حضور انور ایّدہ اللہ نے لڑکیوں کی تربیت کے لیےبا پردہ لباس پہننے اور پردے کا خاص خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی کہ وہ معاشرہ کے منفی اثرسے بچیں اور اپنے پاک نمونے قائم کریں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ لڑکیوں کو کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہیں اپنے کاموں میں اگر پردہ کرنے کی اجازت نہیں ہے تو ایسے کاموں سے اجتناب کریں۔ آج اگر پردے سے آزاد ہوئیں تو آئندہ نسلیں اَور زیادہ بے پرد ہو جائیں گی۔
حضور انور نے اپنے خطاب کے آخر پردعا کی کہ اللہ تعالیٰ کرے ہر احمدی عورت اور بچی دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اللہ اور رسو لﷺ اور مسیح موعودؑ کے ارشادات پر چلتے ہوئے دین کی حفاظت اور نسلوں کی حفاظت کرنے والی ہوں ۔آمین
حضورِ انور نے اپنے خطاب کے بعد اجتماعی دعا کروائی جس میں جلسہ گاہ میں موجود احباب و خواتین کے علاوہ ایم ٹی اے کے توسّط سے ساری دنیا میں بیٹھے احمدی شامل ہوئے۔
دینی ترانے: اس خطاب کے بعد خواتین اور بچیوں نے مختلف گروپس کی صورت میں ترانے پڑھنے کی سعادت پائی۔ ان گروپس میں عربی، اردو، بنگالی، فرانسیسی، پنجابی اور افریقی شامل ہیں۔
حضورِ انور دو بجے سے کچھ پہلے جلسہ گاہ مستورات سے تشریف لے گئے۔
(رپورٹ: عرفان احمد خان، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء اور منصور احمد مبشر نمائندہ الفضل انٹرنیشنل فرانس)
ماشاءاللہ اچھی کاوش ہے اس کو تھوڑا سا اور بڑھائیں تاکے ذیادہ احباب اس سے مستفید ہو سکیں