اسلام: دنیا میں پائیدار امن کے قیام کا ضامن
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جلسہ سالانہ فرانس کے موقعے پر فرانسیسی (غیر از جماعت) مہمانوں کے ساتھ نشست، بصیرت افروز خطاب
ریویو آف ریلیجنز کے فرنچ ایڈیشن کی ویب سائیٹ کا اجرا
(تغی شاتو، فرانس، 05؍اکتوبر 2019ء نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) آج پروگرام کے مطابق جلسہ سالانہ فرانس کے موقع پرغیر از جماعت مہمانوں کے ساتھ پروگرام کا انعقاد ہوا۔ شام 6 بج کر 40 منٹ پرحضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ پنڈال میں رونق افروز ہوئے اور سب حاضرین کو ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کرسییٔ صدارت پر تشریف فرماہونے کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مکرم آصف عارف صاحب نے میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ مکرم سیباستیان عطاء الحئی صاحب نے سور ۃ الحجرات کی آیت 14کی تلاوت مع فرنچ ترجمہ پیش کرنے کی سعادت پائی۔
مکرم آصف عارف صاحب نے فرنچ زبان میں مہمانوں کے سامنے جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کرنے کے بعددرج ذیل معزز مہمانوں کو اپنے تأثرات کا اظہار کرنے کے لیے دعوت دی۔
٭…مکرم David Didierصاحب (میئر آف Trie-chateau) نے کہاکہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں نے حضور انور کا تغی شاتو میں استقبال کیا ۔ ہمارے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم آہنگی قائم کرنے کے لیےہم ایک دوسرے کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دیں۔ اور خاص طور پر اُس جماعت سے جو پیار اور محبت کا پرچار کرتی ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کا یہ اجتماع بخیر و خوبی منعقد ہو۔ میں ایک بار پھر حضور انور کاشکریہ ادا کرتا ہوں کہ حضور Trie-chateau میں تشریف لائے۔
٭…مکرمہ ڈاکٹر ایگنس ڈے فوئے (Dr. Agnes De Foe)نے جو جنوبی ایشیا میں Sociologist ہیں کہا کہ وہ کئی احمدیوں سے ملی ہیں اور انہوں نے Minority Atlas لکھا ہے اور وہ اس حصہ کی انچارج تھیں جس میں جماعت احمدیہ مسلمہ سے متعلق ہے۔ ہمارے ملک فرانس میں مسلمانوں کے حوالہ سے بہت منفی خیالات پائے جاتے ہیں اس لیے پیار اور امن کا پیغام جس کا حضور انور پرچار کر رہے ہیں ایسا ہے جو ہمیں دلی سکون اور آرام پہنچاتا ہے۔ اس لیے میں امید کرتی ہوں کہ امن کا فروغ ہو گا اور بالآخرامن غالب آئے گا۔
٭…مکرمہ ڈاکٹر Katrin Langewiesche جو (Anthropologistہیں اورJohannes Gutenbergمیں افریقن سٹڈیز کی انچارج ہیں) نے کہا کہ میں پہلی مرتبہ برکینا فاسو میں جماعت احمدیہ سے رابطہ میں آئی جب جماعت برکینا فاسو میں ہسپتال تعمیر کر رہی تھی۔ اِس کے بعد مَیں نے خاص طور پر آپ کی جماعت کے کاموں کو دیکھا اور بطور خاص رفاہی اور معاشرتی کاموں کو دیکھا۔ اور میں نے ہیومینٹی فرسٹ پر تحقیق کی ہے۔ یہ بات بہت غیر معمولی ہے کہ جماعت احمدیہ روحانیت کو فروغ دینے کے لیے معاشرتی کام اور رفاہی کام کر رہی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس اجتماع کا حصہ ہوں۔
اس کے بعد موصوفہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں ایک کتاب پیش کی جس میں انہوں جماعت احمدیہ کے حوالہ سے کچھ لکھا ہے۔
بعد ازاں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شام چھے بج کر55 منٹ پر منبر پر تشریف لائے اور تشہّد، تعوّذ اور تسمیہ پڑھنے کے بعد فرمایا:
معزز مہمانان کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سب سے پہلے میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ایک ایسی تقریب میں تشریف لائے ہیں جو کہ ایک اسلامی جماعت کی طرف سے خالصۃً ایک مذہبی مقصد کے لیے منعقد کی گئی ہے۔ آج کل کے حالا ت میں بعض دہشت گردی کی بعض ایسی کاروائیاں ہوئی ہیں جن میں مسلمان ملوّث ہیں۔ اور ان کی وجہ سے بہت سا نقصان بھی ہوا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا دہشت گردی اور شدّت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ ایک امن پسند مذہب ہے۔ اسلام کا معنی ہی ’امن‘ سے ہے۔ اس لیے حقیقی مسلمان وہ ہے جس سے ہر کوئی امن میں ہو۔ ہر مسلمان جب ایک دوسرے کو ملتا ہے تو ’السلام علیکم‘ کہتا ہے۔ جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسا مذہب جو اس طرح عمومی طور پر ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے کی تلقین کرتا ہو وہ دوسروں کو بلا وجہ نقصان پہنچانے کی تعلیم دے۔
حضورِ انو رنے فرمایا کہ آج دنیا میں پایا جانے والا ہر قسم کا فساد اور شدّت پسندی شکل اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ چنانچہ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے ہم بانیٔ اسلام ﷺ کی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں۔ جب اسلام کا آغاز ہوا تو اس وقت نبی اکرمﷺ پر ایمان لانے والوں پر کس قدر ظلم ڈھائے گئے۔ ان کو ماننے والے لوگوں میں سے اکثریت کم زور لوگوں کی تھی جن میں غلام بھی شامل تھے۔ ان پر ہر قسم کے مظالم کیے گئے لیکن نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے پیروکاروں نے وہ تمام مظالم انتہائی صبر اور استقامت کے ساتھ برداشت کیے۔
حضورِ انور نے فرمایا مثلاً ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے دیکھا کہ ایک میاں بیوی اور ان کے بچے کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے شدید تشدّد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو آپؐ نے انہیں صبر کی تلقین فرمائی۔ نہ تو آپؐ نے انہیں آگے سے جوابی کارروائی کرنے کی ہدایت دی اور نہ ہی مسلمانوں کو اکٹھا کر کے ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف کچھ کرنے کا ارادہ کیا۔ آپؐ نے مسلمانوں کو ہر حال میں صبر کرنے کی تلقین فرمائی باوجودیکہ بعض مسلمانوں کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے شہید بھی کر دیا گیا تھا۔ یہ ظلم و ستم بہت عرصے تک چلتا رہا یہاں تک کہ مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہجرت کے بعد بھی مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کی ٹھانی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دفاع کی اجازت دی۔ اس اجازت کا ذکر قرآنِ کریم کی سورۃ الحج کی آیت 40 میں آتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کو صرف اسلام کی حفاظت کی نہیں بلکہ ’مذہب‘ کے انسٹیٹیوشن کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ وہ لوگ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ ’مذہب‘ کو ہی ختم کرنے کے در پے تھے اور اگر مسلمان ان کا سدّ باب نہ کرتے تو کوئی کلیسا یا یہودی معبدخانہ اور کوئی عبادت گاہ بھی ایسے لوگوں کے شر سے محفوظ نہ رہتی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام مسیحیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو عبادت کی مکمل آزادی دیتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک طرف مسلمان عرب سے اٹھے اور انہوں نے ملکوں کے ملک اپنے زیرِ نگیں کر لیے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اٹھانے کا دعویٰ کرتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام کی جنگوں کا مقصد یہ تھا کہ ہر کسی کو شخصی اور مذہبی آزادی میسّر آئے۔ کیونکہ قرآن کریم واضح طور پر فرماتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ کیا ایک فردِ واحد کے لیے آزادی خیال اور آزادی اظہارِ رائے اور آزادی ضمیر کی اس سے بہتر تعلیم ہو سکتی ہے؟
حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے چاروں خلفائے راشدین کے دور میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ غیر مسلموں کے حقوق غصب کیے گئے ہوں اور نہ ہی مذہب کے معاملے میں ان سے کسی بھی قسم کی زبردستی کی گئی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام تو امن پسند مذہب ہے جو باہمی رواداری اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی اکرمﷺ نے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے ایک متحد حکومت کا قیام فرمایا۔ اس معاہدے کے مطابق ہر فردِ واحد کے لیے بلا تفریق اس کے مذہب یا عقیدے کے اپنی حکومت اور ریاست کا وفادار بن کر رہنا ضروری تھا۔ اس ریاست میں ہر کسی کو مذہب کے اختیار کی اجازت تھی۔ کسی کو اس بنا پر کبھی تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔ اور ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی اکرمﷺ نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو لیکن غیر مسلموں کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام کبھی اپنے پیروکاروں کو دین کے لیے جبر کرنے کی تلقین نہیں کرتا اور نہ ہی لوگوں کو اس کی اجازت دیتا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں مکمل طور پر مذہبی آزادی تھی۔ معاشرے کے تمام ممبران پر لازم تھا کہ وہ ریاست کے مخلص رہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ چند لوگوں کی حرکات کی بنا پر مذہب اسلام کو برا کہنا یا اس کی طرف دہشت گردی یا شدّت پسندی کو منسوب کرنا نا انصافی ہو گی۔ اور وہ بھی ایسے لوگ جن کی حرکات کا اسلام کی بنیادی تعلیمات سے سرے سے تعلق ہی نہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ نبی اکرمﷺ اس وجہ سے اپنی جان ہلکان کر لیتے تھے کہ کفار ان کے پیغام کو جو سراسر کفار کی بھلائی کے لیے ہے قبول نہیں کر رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نبی اکرمﷺ کو فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کا افسوس نہ کر اور ان سے کنارہ کر۔ ایسے لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے تھے کسی قسم کی زبردستی کا حکم نہ دیا گیا۔ نہ کہا گیا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو ہر حال میں صبر اور استقامت دکھانے کا ارشاد فرماتا ہے۔ اس لیے آج کے دور میں اگر کوئی حکومت یا گروہ شدّت پسندی اختیار کرتا ہے تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ ان کی ہولناک حرکتوں کا ذمہ دار کسی بھی طرح اسلام نہیں ہو سکتا۔ اسلام تو ہر قسم کی شدّت پسندی کی مخالفت کرتا ہے اور ہر ایسے کام کی ممانعت کرتا ہے جس سے کسی معاشرے کا امن متأثر ہوتا ہو۔
اسلام سکھاتا ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ ہیں۔ اس حکم میں یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان صرف مسلمان سے ہی رحم کا سلوک کرے بلکہ اس میں بلا تفریق رنگ و نسل ہر امن پسند فرد شامل ہے۔ اس لیے دہشت گرد جو نائیٹ کلبز، کانسرٹ ہالز پر خود کش حملے کرتے ہیں یا گاڑیوں سے لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں سب اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف کرتے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام جو ہمیں روز مرّہ زندگی کے امور سکھاتا ہے یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہمیں معاشرے میں پُر امن ہو کر رہنا چاہیے۔ ایک مسلمان کو ایمان دار، معتبر اور معاشرے کے لیے مفید وجود بننا چاہیے۔
یقیناً ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا میں انفرادی اور قومی ہر دو سطح پر بے چینی اور لالچ کا دور دورہ ہے دنیا میں امن کے قیام کے لیے ہمیں انصاف کو قائم کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جو دنیاوی کاروبار میں بھی لوگوں سے دھوکا کرتے اور ان کو نقصان پہنچاتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور وہ رسوا کیے جائیں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآن کریم بین الاقوامی معاملات اور بین الاقوامی رنجشوں اور اختلافات کو طَے کرنے کی بابت بھی راہنمائی فرماتا ہے۔ سورۃ الحجرات میں فرماتا ہے کہ اگر دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو ان کے درمیان اصلاح کرواؤ۔ اورجو صلح صفائی کروائیں ان کا اس معاملے سے کوئی لین دین نہیں ہونا چاہیے کجا یہ کہ وہ اس معاملے سے اپنا فائدہ نکالنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ اگر ایک گروہ زیادتی پر اتر آئے تو سب مل کر اس کے خلاف کارروائی کریں۔ اور اگر وہ زیادتی سے باز آ جائے تو اس پر پابندیاں نہ لگائی جائیں بلکہ اس کی بہتری کے لیے کوشش کی جائے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ قرآنی حکم صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر باہمی اختلافات کو حل کرنے کے لیے ایک رہنما اصول ہے اور اس پر عمل کرنے سے دنیا میں پائدار امن پیدا ہو سکتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان ممالک بھی قرآنی اصول کو بھلا کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جب امن قائم ہو جائے تو فاتح ، مفتوح پر زیادتی نہ کرے بلکہ اس کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں اس کی مدد دے۔ اور یہ حکم اس لیے ہے کہ تباہ شدہ ملکوں اور شہروں میں امن کا قیام بہت مشکل ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت ور اقوام نا انصافی سے کام لیتی ہیں۔ وہ ایسے طریق پر معاملات طے کرتی ہیں کہ عوام الناس مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے سوائے دہشت گردوں کے کسی اور کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ اس مایوسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آج کے دور میں مغربی ممالک کی پُر امن فضا کی وجہ سے بعض ممالک جنگوں کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ اس لیے میں صرف دعا کر سکتا ہوں کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ان کو دوہرانے کی بجائے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بہتر مستقبل چھوڑنے والے بنیں۔
ہم دیھکتے ہیں کہ جنگِ عظیم اول کے بعد دی لیگ آف نیشنز قائم ہوئی لیکن چونکہ عدل اور انصاف کے قیام میں ناکام رہی اس لیے دنیا کو تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن جنگ دیکھنا پڑی جو چھ سال جاری رہی۔ پھر اس کے بعد اقوامِ متّحدہ کا قیام عمل میں آیا لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ بھی عدل و انصاف کے قیام میں ناکام ہو چکی ہے اور ہر طرف ظلمت کا دور دورہ نظر آتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج اگر دنیا میں جنگ لگی اس کے نتائج سب سے زیادہ ہولناک ہوں گے کیونکہ بہت سے ممالک کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اور اگر یہ جنگ کیمیائی شکل اختیار کر گئی تو ایسی تباہی ہو گی جو کسی کے تصور میں بھی نہیں۔ کیمیائی ہتھیار چلنے کی وجہ سے معذور بچے پیدا ہو ں گے جن کی وجہ سے شہروں کے شہر بے رونق ہو جائیں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج جن حالات سے دنیا گزر رہی ہے وہ ہماری کوششوں کے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ کسی ایک مذہب کو یا اس کے پیروکاروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، ہاں معاشرے میں تفرقہ اور اختلاف پروان چڑھے گے۔
اگرچہ آج بعض مسلمانوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں لیکن وہ کارروائیاں کی ہی اس لیے گئی ہیں کیونکہ انہوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو چھوڑ کر اپنے مفاد کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ آج جو حالات خراب ہیں ان کی وجہ ’مذہب‘ قطعاً نہیں۔
حضورِ انور نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ کرے کہ آج ہم ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے مل جل کر دنیا میں انصاف کے قیام کے لیے کوشش کرنے والے ہوں اور ہم ایسے اقدامات کریں کہ ہماری آئندہ نسلیں ہمیں محبت سے یاد رکھیں بجائے اس کے کہ ہم سے نفرت کریں۔ اللہ کرے کہ دنیا میں انصاف کا دور دورہ ہو اور نا انصافی کی تمام باتیں ختم ہو جائیں۔
ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا یہاں تشریف لانے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حضورِ انور کا خطاب چھے بج کر پچیس منٹ کے قریب ختم ہوا جس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی۔ تقریب میں شامل ہر فرد نے اپنے اپنے طریق کے مطابق اس دعا میں شمولیت اختیار کی۔
ریویو آف ریلیجنز کے فرنچ ایڈیشن کی ویب سائیٹ کا اجرا: حضورِ انور نے دعا کے بعد سٹیج سے اتر کر ریویو آف ریلیجنز کے فرانسیسی ایڈیشن کی ویب سائیٹ کا افتتاح فرمایا۔ تقریب میں شامل تمام مہمانوں کو ریویو آف ریلیجن کے فرنچ ایڈیشن کی ایک ایک کاپی تحفۃً پیش کی گئی۔
حضورِ انور مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کے لیے تشریف لے جانے سے قبل ہیومینٹی فرسٹ کے سٹال پر تشریف لے گئے اور وہاں پر لگے چارٹس اور تصاویر کے متعلق سٹال پر موجود احباب سے گفتگو فرماتے رہے۔ بعد ازاں مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شرکت فرمائی جس میں معزز مہمانانِ کرام اور جماعت کے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔
اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو اپنے پیارے امام، امن کے سفیر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لازوال ارشادات و نصائح کو سننے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(رپورٹ: عرفان احمد خان، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء اور منصور احمد مبشر، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل فرانس)