جماعت احمدیہ مسلمہ جہاں بھی جاتی ہے، امن کے پیغام کے ساتھ جاتی ہے(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)
اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
مسجد مہدی (سٹراس برگ، فرانس) کی تقریبِ افتتاح
(سٹراس برگ، 12؍ اکتوبر 2019ء: نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) کَل جمعۃ المبارک کے روز امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سٹراس برگ کے نواحی علاقے Hurtigheim میں نئی تعمیر ہونے والی مسجد مہدی کا باضابطہ افتتاح فرمایا تھا۔ آج اس سلسلے میں علاقے کے معزّزین اور غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ ایک تقریب کی اہتمام کیا گیا تھا۔
سڑاس برگ میں دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اپنی ایک تنظیم بنا رکھی ہے جو شہر کی اہم تقریب میں یونیفارم میں شرکت کرتے ہیں اور مہمان خصوصی کو سلامی پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ مسجد مہدی کے افتتاح پر دس سابق فوجیوں کی ایک ٹیم نے شرکت کی اور اپنی روایت کے مطابق حضورِ انور کی خدمت میں سلامی پیش کی۔ ہر فوجی نے اپنی بٹالین کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اور سر پر بٹالین کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور اپنے سینے پر انعام میں ملنے والے میڈل سجائے ہوئے تھے ۔ حضور انور جونہی ان کے درمیان سے گزرے ان فوجیوں نے بیک وقت ایک ساتھ اپنی بٹالین کا پرچم اٹھا کر حضور کو سلامی پیش کی ۔ دنیا نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ جبکہ سروں پر تیسری عالمگیر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں دوسری عالمی جنگ لڑنے والے فوجی امن کے لئے جدوجہد کرنے والے روحانی بادشاہ کو سلامی پیش کر رہے ہیں۔
حضورِ انور کے ہال میں رونق افروز ہونے کے کچھ دیر بعد تقریب کا آغاز ہوا۔ اس تقریب میں میزبانی کے فرائض مکرم اطہر کاہلوں (سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت سٹراس برگ) نے سر انجام دیے۔ افتتاحی تقریب کا باقاعدہ آغاز مقامی وقت کے مطابق 3 بج کر 21 منٹ پر تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم حافظ منصور بابر نے سورۃ الجرات کی آیت 11، 12 اور 14 کی تلاوت کی اور مکرم فیصل جمائی (Faycal Jemai )، صدر جماعت احمدیہ سٹراس برگ نے ان آیات کا فرانسیسی ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم اشفاق ربانی صاحب (امیر جماعت احمدیہ فرانس) نےشہر کے میئر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ فرانس کے ساتھ تعاون کیا اور اس مسجد کو تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ آپ نے لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جماعت احمدیہ مسلمہ امن کی تعلیم دیتی ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے ہمیشہ امن کو فروغ دینے کے لیے کوشش کی جائے گی۔
بعد ازاں میزبان نے جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کیا۔ اور معزز مہمانوں کا نام لے کر اُن کا خیر مقدم کیا۔ اس کے بعد آپ نے علی الترتیب درج ذیل معزز مہمانوں کو اپنے تأثرات پیش کرنے کے لیے دعوت دی۔
٭…مکرم Jean-Jacques Ruchصاحب میئر آف Hurtigheim نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین سال قبل مسجد کے لیے کمیٹی قائم ہوئی۔ میں Protestant چرچ سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے آغاز میں مَیں متذبذب تھا۔ ایسے علاقے میں مسجد تعمیر کرنا شاذ ہی ہوتا ہے۔ ہم سب جو یہاں موجود ہیں آپ کے لیے دعا گو ہیں کہ آپ ترقی کریں۔ کئی لوگ جو آپ کی جماعت کو نہیں جانتے وہ پوچھتے ہیں کہ میں نے آپ کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت کیوں دی۔ میں ان کو یہی کہوں گا کہ ہم بھی امن کو فروغ دیتے ہیں اور ہمارا ماٹو ہے Liberty, equality, fraternity اور فرانس Liberty یعنی آزادی سب کو دیتا ہے۔ آپ اپنے ماٹو Love for all, Hatred for None سے باہمی اتحاد اور رواداری کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج کل اس کی بہت کمی ہے۔ میں اس باہمی بھائی چارے کو اپنی عیسائی کمیونٹی میں بھی دیکھتا ہوں۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس لیے پیدا کیا ہے تا کہ ہم اکٹھے رہ سکیں۔ میں سب کو تلقین کرنا چاہتا ہوں کہ باہمی بھائی چارے کو فروغ دیں لیکن ہمیں کچھ وقت لگے گا تاکہ ہم دوسروں کو حقیقت حال سے آگاہ کر سکیں کہ آپ لوگ امن پسند ہیں۔ ہم یہاں موجود ہیں تاکہ اکٹھے مل کر اس کام کو کر سکیں۔ اس مسجد کو ہمارے معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے بھی کچھ وقت لگے گا۔ آپ نے کئی پروگرامز کا انتظام کیا ہے تاکہ ہمیں جماعت احمدیہ کے بارہ میں معلومات سے آگاہ کرتے رہیں۔ یہ اچھا کام ہے۔
٭…مکرم Justin Vogel صاحب (چیئرمین آف ڈسٹرکٹ کونسل) نے کہا کہ میں آپ سب کا خیر مقدم کرنا چاہتا ہوں۔ اس علاقہ میں 27ہزار لوگ رہتے ہیں اور یہاں 305 ایسو سی ایشنز ہیں اور جماعت احمدیہ ان ایسوسی ایشنز میں سے ایک ہے۔ میرے لیے بہت عزت کا باعث ہے کہ میں آج جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلیفہ اور امیر جماعت کے ساتھ اس مسجد کی افتتاحی تقریب کے دوران موجود ہوں۔ یہ ہمارے علاقہ کی پہلی مسجد ہے۔ میں اس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے میں اس حق میں نہیں تھا کہ یہاں مسجد تعمیر کی جائے۔ لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ کا ماٹو محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ہے تو میرا خیال بدل گیا۔ ہمارے معاشرے میں تشدد بڑھتا جا رہا ہےاس لیے ہمیں اپنے معاشرے میں برادری اور رواداری کو فروغ دینا ہو گا ۔میرے لیے سب سے اچھا لفظ ’محبت‘ کا ہے۔ اس لیے ہمیں اگلی نسل کومحبت کا پیغام دینا ہو گا۔ اور آپ اپنی اگلی نسل کو یہ پیغام دے رہے ہیں۔ آپ اس معاشرے کا ایک اچھا حصہ بن رہے ہیں۔ آپ ترقی کرتے چلے جائیں۔
٭…مکرم Etienne Burgerصاحب (نائب صدر کنٹری کونسل) نےسب کا خیر مقدم کیا اور مسجد کے افتتاح کی مبارک باد دی۔ اور کہا کہ اب اس علاقہ کے احمدیوں کو عبادت کرنے کی جگہ مل گئی ہے۔ بعد ازاں موصوف نے تاریخ کے حوالہ سے اس علاقہ کے حوالہ سے بتایا کہ ہم نے مختلف مذاہب اور لوگوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ ہم سب کی عزت کرتے ہیں۔ میں احمدیوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ احمدی دوسروں سے مختلف ہیں۔ ہمارے معاشرے کو آپ کے بارہ میں علم ہونا چاہیے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ radicalization بڑھ رہی ہے لیکن جماعت احمدیہ کے افراد اس کا شکار نہیں ہو رہے اور کثرت سے لوگ جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہمارے میئر بھی دہشتگردی کا شکار ہوئے اس لیے ہم سب کو مل کر اس کے خاتمہ کے لیے کام کرنا ہو گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نوجوانوں کو بھی اس کام میں شامل کریں اور تاریخ کے آئینے میں انہیں بتائیں کہ معاشرے میں بد امنی کو کس طرح امن میں تبدیل کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام مذاہب اور غیر مذاہب لوگوں کا اچھا تعلق قائم ہو اور دوستی قائم رہے۔ میں سب لوگوں کو بلا تفریق مذہب و ملت اس بات کی تلقین کرنا چاہتا ہوں کہ ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ سب اپنے مذہب کی پیروی کریں۔ آخر پر پھر میں مسجد کی تعمیر کے لیے آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
مکرمہ Martine Wonner صاحبہ (ممبر نیشنل اسیمبلی) نے جماعت احمدیہ کی طرف سے دعوت ملنے کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ فرانس میں مسجد تعمیر کرنا ایک بہت عظیم کار نامہ ہے جو بہت امید افزا ہے اور میں چاہتی تھی کہ اس موقع پر خود موجود ہوں۔
موصوفہ نے کہا کہ یہ ملک ایک بہتر سمت کی تلاش میں ہے اور اس معاشرے میں ایک تبدیلی آ رہی ہے اور بعض لوگ ان تبدیلیوں کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں اور مستقبل کے بارے میں پُرامید ہیں۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اپنے آپ میں محصور کر رہے ہیں اور باہر سے آنے والوں کو خوف کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ خوف کم علمی کی وجہ سے ہے اور اس بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہے کہ معاشرہ اب بدل رہا ہے۔
موصوفہ نےکہا کہ ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کا ایک حل مساجد کی تعمیر ہے۔ اور جماعت احمدیہ کے محبت کے پیغام کو اجاگر کرنا ہے۔ کیونکہ اسلام امن، محبت، مدد اور رحم دلی کا مذہب ہے۔
آخر پر موصوفہ نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ یہ مسجد ایسی ہو گی جس میں سب لوگ آسکیں اور اس عالمی محبت کو، مشاہدہ کرسکیں۔ یہ مسجد امن کا گہوارہ ہو اور اس میں سب کے لیے محبت اورکسی کے لیے بھی نفرت نہ ہو۔
خطاب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
یہ تمام کارروائی فرانسیسی زبان میں ہوئی اور حضورِ انور ان تقاریر کا ترجمہ سنتے رہے۔ بعد ازاں حضورِ انور منبر پر رونق افروز ہوئے تشہّد و تعوّذ کے بعد اردو زبان میں اس تقریب سے خطاب فرمایا۔
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پہلے تو میں یہاں آنے والے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو آج جماعت احمدیہ مسلمہ کے اس مذہبی فنکشن میں شامل ہونے کے لیے تشریف لائے جوہماری مسجد کا افتتاح ہے اور جیسا کہ بہت سے معزز مہمان جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا، بعض سے یہی لگتا تھاکہ شروع میں بڑی reservations تھیں کہ مسلمانوں کا یہاں آنا شاید مسائل کاباعث نہ بنے لیکن آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو گیا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ مسجدکےبارے میں ایک بات سب کو یاد رکھنی چاہیے غیر مسلم دنیا میں ایک بڑا غلط تصورقائم ہے کہ مسجدشاید فتنے اور فساد کی جگہ ہے جبکہ ایسا نہیں اوربعض معززمہمانوں نےبھی اس کااظہارکیا۔ مسجد تو ایک عبادت گاہ ہے۔ مسجدایک ایسی جگہ ہےجہاں مسلمان اکٹھے ہو کر ایک خداکی عبادت کریں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہر مذہب میں ان کے لیے ایک عبادت گاہ مقرر کی گئی ہے۔ اسی لیےجب مکہ میں آنحضرتﷺکےدعویٰ کے بعد کفار نے سختیاں شروع کیں اور تیرہ سال تک ایسے ظالمانہ سلوک کیے جنہیں دیکھ کر رونگٹے کھڑےہو جاتےہیں، کئی لوگوں کو گرم پتھروں پر لٹایا گیا ، گئی لوگوں کو کوئلوں پر لٹایاگیا، کئی لوگوں کوگرم ریت پر گھسیٹا گیا، کئی مردوں اور عورتوں کونیزے مارکر شہید کیاگیا اور اس کے بعد جب آنحضرت ﷺ اورمکے کے مسلمان مدینہ میں ہجرت کر کے گئے اوروہاں امن کی تلاش کی اور وہاں کےمقامی لوگوں اوریہودیوں کے ساتھ امن کےساتھ رہنے کامعاہدہ کیا تو وہاں بھی مکہ کے کفار نے حملہ کرکےان کے امن کو بربادکرنےکی کوشش کی۔ اس وقت پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو جنگ کرنےکاحکم دیا یعنی ایسےلوگوں سے جنگ کا جو حملہ کررہےہیں۔ اوراس میں بڑا واضح کیا، قرآن کریم میں اس کا ذکر ہےکہ اگر ان لوگوں کےہاتھوں کونہ روکا گیا تو یہ لوگ صرف اسلام کے دشمن نہیں بلکہ یہ مذہب کےدشمن ہیں۔ اگر ان کو نہ روکا گیا تو پھر نہ کوئی Synagogue، نہ چرچ اور نہ مسجد محفوظ رہے گی۔ چنانچہ اس حکم میں مذہب کی حفاظت کا حکم دیا گیا اور تمام مذاہب کا نام لے کر، اُن کی عبادت گاہوں کا نام لے کر ذکر کیا گیا کہ کفار کو حملے کا جواب دیا جائے تا کہ ہرمذہب کے ماننے والے آزادی کے ساتھ اپنی عبادت گاہ میں جا سکیں اور اپنی عبادت کر سکیں، یہودی اپنے Synagogue میں جا سکیں، عیسائی اپنے چرچ میں جا سکیں، ہندواپنے مندر میں اور مسلمان مسجد میں جا سکیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ پہلا حکم تھا جو مسلمانوں کو کافروں سے جنگ کرنے کا دیا گیا تھا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق بڑا واضح ہے کہ اسلام کسی بھی مذہب کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے جب بھی رسول کریمﷺ پر جنگیں مسلّط کی گئیں تو پھر انہوں نے دفاع میں جنگ لڑی۔ جنگ پر جانے والوں کو آنحضرتﷺ اور آپ کے چار حقیقی خلفاء یہی کہتے تھے کہ کسی چرچ کو، کسی کمزور کو، کسی عورت کو، کسی پادری کو، درختوں کو اور فصلوں وغیرہ کو نقصان نہیں پہنچانا۔ اور یہ تھے اس وقت کی جنگوں کے حکم اور اس پر مسلمانوں نے عمل بھی کیا۔ اگر حالات بعد میں بگڑے اور مسلمان اپنی تعلیم کو بھول گئے تو ا س میں تعلیم کا قصور نہیں مسلمانوں کا قصور ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ امریکہ کے ایک کتاب لکھنے والے نے واضح کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں جتنے لوگ جنگوں میں مارے گئے ان کی تعداد تو چند سو میں ہو گی یا ہزار میں لیکن جو دو جنگیں ہم نے لڑیں ان میں ایک ہی بم سے لاکھوں لوگ مارے گئے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ مسلمانوں نے جو جنگیں بعد میں لڑیں یہ مذہب کو پھیلانے کے لیے نہیں تھیں بلکہ اس وقت دنیاوی لالچ آ گئے تھے، یہ geo-political مقاصد کے لیے لڑی گئیں۔ یہ بنیاد ہے جو اسلامی جنگوں کے بارے میں غلط نظریات لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام قطعاً شدّت پسند مذہب نہیں۔ وہ ہر مذہب کے ماننے والے کو حقوق دیتا ہے۔ اسلام ہمسائے کا حق دیتا ہے۔ یہاں مسجد بنی ہے اور لوگوں کے تحفظات ہوں گے کہ ہمیں خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہمسائے کا اس طرح خیال رکھو جس طرح اپنے قریبی عزیز کا رکھتے ہو۔ قرآنِ کریم نے ہمسائے کی جو تعریف بیان کی ہے اس کے مطابق گھروں میں ایک ساتھ رہنے والے، سفرکرنے والے، کام کرنےوالے،اس علاقے میں رہنے والے سب ہی ہمسائے ہیں۔ اسی طرح بانیٔ اسلام رسول اللہﷺ نے ہمسائے کی یہ تعریف فرمائی کہ ایک مسلمان کے چالیس گھروں تک ہمسائے ہیں۔ اس لیے احمدی مسلمان جہاں بھی رہتے ہیں چالیس گھروں تک رہنے والے لوگ ان کے ہمسائے ہیں اور جہاں تک ہمسائے کا حق ہے تو اس بارے میں رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھےاس شدّت سے ہمسائے کے حق کے بارے میں کہا گیا کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ وراثت میں بھی ہمسائے کو حق دیا جائے گا۔ یہ ہے اسلام کی بنیادی تعلیم اور ہمسائے کے حقوق۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم مسجدیں بناتے ہیں، فرانس میں تو ہماری یہ دوسری مسجد ہے، جماعت کا تعارف بھی اتنا زیادہ نہیں اورجماعت بھی چھوٹی ہے۔ جرمنی میں اور برطانیہ میں، یورپ کے بعض ممالک اور امریکہ، کینیڈا میں بھی ہماری مساجد ہیں اور ان کو جماعت کا تعارف بھی ہے اور جماعت بھی بڑی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ جماعت جہاں بھی مسجد بناتی ہے وہاں سے امن اور محبت کا پیغام دیتی ہے۔ مسجد کسی فتنہ و فساد کے لیے نہیں استعمال ہوتی بلکہ یہاں آنے والے پیار اور محبت اور صلح اور صفائی سے خود بھی رہتے ہیں اور جو لوگ یہاں آتے ہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ افریقہ میں ہماری بڑی جماعت ہے۔ وہاں جماعت انسانیت کی خدمت کے بہت سے کام کر رہی ہے۔ وہاں ہمارے سینکڑوں سکول اور ہسپتال قائم ہیں۔ دیگر سہولیاتِ زندگی مہیا کرنے کے لیے بھی جماعت کام کرتی ہے مثلاً پانی۔ یہاں کے رہنے والے لوگوں کو تصوّر بھی نہیں اگرچہ یہ چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن یہاں بجلی بھی ہے، پانی بھی ہے اور تمام سہولیات شہروں والی موجود ہیں لیکن افریقہ کے گاؤں میں نہ تو سڑک ہوتی ہے، نہ بجلی اور نہ پینے کا صاف پانی۔ پانی کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ دو دو میل دور گندے تالاب ہیں جہاں جانور بھی پانی پیتے ہیں اور ان کے اندر بیٹھتے ہیں اور بچے سروں پر بالٹیاں رکھ کر دو دو کلومیٹر، تین تین کلومیٹر کا سفرصرف ایک پانی کی بالٹی کے لیے کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے تعلیم سے بھی دوررہتے ہیں۔ وہاں جماعت جہاں تعلیم کے لیے پرائمری اور سیکنڈری سکول اور صحت کے لیے کلینک اور ہسپتال قائم کرتی ہے تو صاف پانی کے لیے ہینڈ پمپ (Handpump) اور سولر انرجی سے چلنے والے ٹیوب ویل کے ذریعے صاف پانی بھی مہیا کرتی ہے تا کہ بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ اور جب ہم ان لوگوں کی تصویریں دیکھتے ہیں تو اس وقت ان کی خوشی کا اظہار ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ یورپ میں رہنے والے کسی شخص کی بہت بڑی لاٹری نکل آئی ہو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس جماعت احمدیہ مسلمہ جہاں بھی جاتی ہے، امن کے پیغام کے ساتھ جاتی ہے۔ اگر ہم نعرہ لگاتے ہیں Love for all Hatred for None تو اس کا اظہاربھی کرتے ہیں۔ اور اس کے اظہار کا طریقہ یہ ہے کہ ہم عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ اس لیے پہلی بات یہاں کے رہنے والے لوگوں کو، اردگرد کے گاؤں والوں کو یہ بتا دوں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ قانون کی ہر لحاظ سے پابندی کرنے والی ہے۔ اور یہاں کی کونسل جو بھی ہدایات دے گی جماعت ان پر عمل کرے گی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس مسجد میں وہی لوگ آئیں گے جو قانون کے پابند ہوں گے اور قانون کی پابندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر میں عبادت کریں گے۔ اور جہاں اپنے خدا کی عبادت کر کے اس کا حق ادا کریں گے وہاں ان کے دل میں احساس ہو گا کہ وہی خدا جو ان کو اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے وہی خدا کہتا ہے کہ انسانیت کی خدمت کرو۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے کہ وہ نمازی جو انسانیت کی خدمت نہیں کرتے، یتیموں اورمسکینوں کا خیال نہیں رکھتے ان کی نمازیں ان کے لیے ہلاکت کا باعث ہیں۔ پس جب ایک شخص جس کے یہ نظریات ہوں اور جو اس مسجد کو آباد کرے گا اور جس کو خدا کا حقیقی خوف ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ لوگوں کے حقوق ادا نہ کرے پس جماعت احمدیہ کو اسی پیغام پر عمل کرتے ہوئے جہاں اللہ کے حقوق ادا کرے گی وہاں اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ احمدی اسی سوچ کے ساتھ اس مسجد کو آباد رکھیں گے اور پہلے سے بڑھ کر بہتر حقوق ادا کریں گے۔ یہ مسجد ہمسایوں میں کسی قسم کی تکلیف کا باعث نہیں بنے گی۔ یہاں آنے والے لوگوں کو سہولت اور آرام پہنچانے والے ہوں گے۔ اور یہی integration ہے جو باہر کے آنے والوں کی ہونی چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ فرانس کی حکومت اور دوسری حکومتوں کی بڑی مہربانی ہے کہ انہوں نے آپ کو یہاں آ کر آباد ہونے کی اجازت دی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کے شکر گزار ہوں۔ یہاں پر بسنے والے احمدیوں میں سے اکثریت باہر سے آنے والوں کی ہے جو مشکلات کی وجہ سے اپنے ملکوں کو چھوڑ کریہاں آئے ہیں۔ ان کو اپنے ملکوں میں عبادت کرنے سے روکا گیا، اپنی مرضی سے اپنے دین پر قائم رہنے سے روکا گیا، اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مجبوراً انہیں یہاں آنا پڑا۔ اب حکومت نے آپ کو یہاں آنے کی اجازت دے دی اور آپ آباد بھی ہو گئے اب احمدیوں کا فرض ہے کہ اس ملک کی خدمت کا حق ادا کریں کیونکہ یہی شکر گزاری ہے، یہی اللہ چاہتا ہے کہ آپ اس کے شکر گزار بندے بنیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔
حضورِ انور نےفرمایا کہ یہاں قانون کی پابندی کی جائے گی، لوگوں کی خدمت کے کام کیے جائیں گے اور ملک کی بہتری کے لیے کام ہوں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ہمارے احمدی اسی سوچ کے ساتھ یہاں رہیں گےاور کام کریں گے۔
اپنے خطاب کے آخر میں حضورِ انور نے مہمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کے ذہنوں میں کوئی تحفظ ہے تو یقین رکھیں ہم لوگ فتنے کا باعث نہیں ہیں۔ ہم آپ لوگوں کی خدمت کرنے والے، اس ملک کے قانون کی پابندی کرنے والے اور وہ حقیقی تعلیم دکھانے والے ہیں جو ہمیں نبی اکرمﷺ نے بتائی اور سکھائی اور جس کے بارے میں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے۔ شکریہ۔ جزاک اللہ
بعد ازاں حضورِ انور کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہو گئے۔ چار بج کر ستائیس منٹ پر حضورِ انور نے اجتماعی دعا کروائی۔ تقریب میں شامل تمام احباب نے اپنے اپنے طریق کے مطابق دعا میں شمولیت اختیار کی۔
تقریب میں مہمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوئی ۔ ہال میں 86 مہمانوں کی گنجائش تھی اس لئے مہمانوں کی ایک خاصی تعداد کو بٹھانے کے لئے علیحدہ مارکی کا انتظام کیا گیا تھا جہاں بڑی سکرین لگا کر MTA کے ذریعہ تقریب کی کارروائی دکھائی گئی البتہ تقریب کے اختتام اور ریفرشمنٹ کے وقت مارکی میں بیٹھ کر تقریب سے مستفیض ہونے والوں کو ہال میں آ کر حضورِ انور سے ملاقات کا موقع فراہم کیا گیا۔
(رپورٹ: عرفان احمد خان، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء اور منصور احمد مبشر، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل فرانس)