خلاصہ خطبہ جمعہ

اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والوں اور آباد کرنے والوں کی یہ خاصیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لانے والے ہیں

خلاصہ خطبہ جمعہ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍اکتوبر2019ءبمقام مسجد مہدی، Hurtigheim، فرانس

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ11؍اکتوبر 2019ء کومسجد مہدی Hurtigheim، فرانس میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیصل جمائی (Faisel Jemai)صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ التوبہ آیت 18 کی تلاوت فرمائی حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ فرانس کو ایک مسجد بنانے کی توفیق عطافرمائی ہے۔اس شہر سٹراس برگ میں اخلاص ووفا سے پُر نو مبائعین اور غیر پاکستانی احمدی تقریباً 75فیصد ہیں۔اس مسجد کے ذریعے یہاں کے احمدی پہلے سے بڑھ کر جماعتی نظام سے منسلک ہوسکتے ہیں۔

حضورِانور نے سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کا ترجمہ پیش فرمایا۔ اس آیتِ کریمہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہےاور نمازوں کو قائم کرتا،زکوٰۃ دیتا، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔

حضورِ انور نے فرمایا مساجد تعمیر کرنے والوں کی یہ خصوصیات ہیں کہ وہ اللہ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ایمان کے حصول کےلیے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنااور عبادت کرنا انتہائی ضروری ہے۔مساجد تعمیر کرنے والوں کی ایک خصوصیت آخرت پر یقین ہے، حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقعے پر فرمایا کہ ایمان بالآخرت کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ آخرت کے متعلق وساوس کاپیداہونا ایمان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

پھر فرمایا کہ مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں کہ جو نمازیں قائم کرنے والے ہیں۔ نماز قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ باجماعت نماز ادا کرنے والے ہیں۔ پھر زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی، مسجدیں آباد کرنے والوں کا یہ خاصہ ہونا چاہیے کہ خداتعالیٰ کے دین کی اشاعت کےلیے قربانیاں کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والے ہی اُس کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔ پس نئے احمدیوں کو اور پرانے احمدیوں کو بھی ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے، اور دعا کرتے رہنا چاہیے۔ پرانے احمدی، بالخصوص پاکستان سے آئے ہوئے احمدیوں کو خاص طورپراس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ نئے آنے والوں کے لیے اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ ہم اس مسجد کواس علاقے میں مسیح موعود اور اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنانے والے ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت میں ویسا ہی گھر تعمیر کردیتا ہے۔

ان باتوں کے حصول کےلیے ہر احمدی کو اپنی نمازوں کےجائزے لینے کی ضرورت ہے۔صرف اتنا کافی نہیں کہ مسجد بن گئی، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر بھی چلنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعودؑکی جماعت میں ہونے کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہر سال مسلمان ہزاروں مسجدیں بناتے ہیں لیکن ان مساجد سے اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا کرنے کی بجائے فرقہ واریت اور بدعات کے درس دیے جاتے ہیں۔اس زمانے میں ہمیں آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق نے ایک حقیقی مسلمان بننے،عبادتوں،مساجد اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنےکے بارے میں جس طرح بتایا ہے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو قویٰ ہمیں عطافرمائے ہیں اِن کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے۔ اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی ہے جس میں تقویٰ کےوصایا ہیں۔ سو ہماری جماعت یہ غم کُل دنیاوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے کہ نہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ متقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔ ان کی گفتگو ایسے ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔ ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہیے جس میں ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے۔ آنحضرتﷺ اور حضرت ابراہیمؑ میں سے کسی نے وراثت سے تو عزت نہیں پائی۔ آپﷺ ہر طرح کے مصائب کے باوجود صدق و وفا سے اللہ تعالیٰ کی راہ پر قائم رہےجس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اب ہمیں یہی حکم ہے کہ اگر دعا کی قبولیت چاہتے ہو تو آنحضرتﷺ پر درود بھیجو۔ بغیر درود کے کی گئیں دعائیں آسمان تک نہیں پہنچتیں۔

پھردرود بھیجنے والا یقیناً آنحضرتﷺ کے اسوےکو بھی سامنے رکھے گا۔ آپؐ نے فرمایا میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ پھر مخلوق کا حق ادا کرنے کے لیے بھی آپؐ نے اپنے نمونے قائم فرمائے۔

نماز کیا چیز ہےاور حقیقی نماز کیسی ہونی چاہیے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ بہت ہیں جو زبان سے تو خداتعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر دہریت ہے۔ اس لیےتم لوگ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت طلب کرو۔اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔ تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو۔حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم خود جائزے لے سکتے ہیں کہ ایسی کون سی مجلسیں ہیں، ٹی وی پروگرام ہیں، جن سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے۔

حضورؑ فرماتے ہیں دعا بھی کرو اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جب تک خداتعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔ نماز وہ شئے ہے جسے دل بھی محسوس کرکے روح پگھل کر خوف ناک حالت میں آستانۂ الوہیت پر گر پڑے۔ نماز ہی عبادت کا مغز ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ صلوٰۃ اور دعا کا فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کےلیے ہو تو اس کا نام صلوٰۃ نہیں۔ اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ،تعلق بڑھے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو پھر نمازوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ ایمان کی جڑ نماز ہے اور جس کی جڑ ہی نہیں ہے وہ ایک کھوکھلے درخت کی طرح ہے۔ جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہوجاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارتِ ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ تمام انسانوں کوایک نفسِ واحدہ بنادے۔مذہب سے بھی یہی منشا ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح سب پِروئے جائیں۔ نمازیں باجماعت بھی اسی وحدت کےلیے ہیں۔ اس وحدتِ جمہوری کو پیدا کرنے کی ابتدا اس طرح سے ہے کہ تمام محلے والے پنج وقتہ نماز کو محلے کی مسجد میں ادا کریں۔ اس طرح اخلاق، تعارف اور اُنس ترقی کرتا ہے۔ پھر دوسرا حکم جمعے کے دن جامع مسجد میں سارے شہر والوں کے جمع ہونے کا ہے۔ پھر عیدین پر آس پاس کے دیہات اور شہر والوں کو مل کر نماز ادا کرنے کا حکم ہے ۔ پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کےلیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کردیا۔ غرضیکہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ الفت اور اُنس ترقی پکڑے ۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مسجد عطا کردی ہے تواس وحدت کا نظارہ بھی یہاں پیش کرنا چاہیے۔ ہر احمدی کے لیے یہ بہت سوچنے کا مقام ہے اور ایک کوشش سے مسجد کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اے وے تمام لوگو جو اپنے تئیں میری جماعت میں شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کیے جاؤگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم ماروگے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خداتعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہےوہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہوکر ترک کرو۔ یقیناً یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔

حضورِانور نےدعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کےان درد بھرے الفاظ کو سمجھتے ہوئے ایمان میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں حضورِ انور نے مسجد کے بارے میں بعض کوائف پیش فرمائے۔ مسجد کا کُل رقبہ 2640مربع میٹر ہے۔ آرکیٹیکٹ نے مسجد کی تعمیرکےلیے ایک ملین یورو کا اندازہ دیا تھا لیکن اس کی تعمیر پانچ لاکھ تیس ہزار یورو میں مکمل ہوئی ہے۔ خدام الاحمدیہ فرانس نے ساڑھے تین لاکھ یورو ادا کیے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ باقی رقم بھی وہ ادا کریں گے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ تو ان شاء اللہ یہ رقم ادا کردے گی لیکن باقی جماعت کیوں محروم رہ رہی ہے۔ لجنہ اور انصار کو اگلے تین سالوں میں ایک اورمسجد بنانی چاہیے۔اس مسجد میں قانونی طورپر250افراد کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ پچاس گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ بھی ہے۔ اسی طرح جماعتی دفتراور لجنہ کا دفتر بھی ہے۔ایک لائبریری ، مربی ہاؤس اور چار کمروں کا گیسٹ ہاؤس بھی ہے۔ یہ مسجد سٹراس برگ شہر سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ کوئی ایسا فاصلہ نہیں کہ جو دُور ہو۔ نمازی نہ آسکیں،بڑے آرام سے آسکتے ہیں۔ آخر میں حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے خدام کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ مسجد کی آبادی کی روح کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے اور افرادِ جماعت کے عبادتوں کے معیار بلند ہوتے چلے جائیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button